نجم الثاقب دانشور شاعر ادیب سفارتکار اور اینکر

ہمہ جہت علمی اور ادبی شخصیت کی ہنگامہ خیز زندگی پر ایک رفیق کی دلچسپ تاثراتی تحریر


ہمہ جہت علمی اور ادبی شخصیت کی ہنگامہ خیز زندگی پر ایک رفیق کی دلچسپ تاثراتی تحریر

کوئٹہ شہر ایک حسین گلدستہ ہے۔ ماضی میں یہ اور بھی خوبصورت ہوا کرتا تھا۔

1980 ء تک اس کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ نہیں ہوئی تھی، مستطیل پیالہ نما وادی کے درمیان جنوب سے شمال کی جانب دریائے لورا پشین بہتا تھا جس کے کناروں پر شفاف پانی کے درجنوں چشمے ہوا کرتے تھے ، قدرے جنوب مشرق میں ولی تنگی کے چشموں سے مل کر بہتی ندی پہاڑوں سے ٹکراتی شور مچاتی اوڑک میں آبشارکا گونجدار جھرنا بجاتی چند کلو میٹر آگے سیب کے باغات کو سیراب کرتی، ہنہ کے مقام پر ڈیم کی جھیل کو بھر دیتی ، اور اسی پانی کی بڑی مقدار کو کو ئٹہ چھاؤنی اور شہر کے لوگ استعمال کرتے تھے، شہر میں زرغون روڈ پر چنارکے تناور درخت اپنی اُوپری شاخوں سے ایک دوسرے کو پیار کرتے سایہ دار سرنگ بنائے رکھتے تھے ، لسا نی اعتبار سے اس شہر میںبراہوی ، بلوچی ، پشتو ، ہزارگی، سرائیکی ، اردو کے ادیب، شاعر، دانشور کبھی عطا شادکے ادارہ ثقافت میں اور کبھی جناح روڈ پر میٹروپول ہوٹل یا کیفے صادق میں جمع ہو اکرتے۔ پھر شام کو مقامی اخبار کے ادبی میگزین کے دفتر میں ہم نوجوان ادیب شاعر اکٹھا ہو جایا کرتے تھے ، میں، بیرم غوری، محمد عبداللہ ، تینوں پرانے دوست تھے ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا، مائیں کھانا کھلائے بغیر نہیں چھوڑتی تھیں۔

ہم تینوں نے میٹرک کے بعد ہی ملازمت کر لی تھی ۔ صبح سرکاری ملازمت اور شام کو اخبارات میں کام کیا کرتے تھے ۔ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری تھا مگر اس کے باوجود یہ بے فکری کا دور تھا ۔ ایک روز شام بیرم غوری ہی کے دفتر میں ایک بہت ہی وجیہہ خوبصورت نوجوان آیا جو ہم سے عمر میں چار پانچ سال کم اور قد میںاتنے ہی انچ بڑا تھا ۔ چھ فٹ سے نکلتا قد، گلابی رنگت ، گھنے ابرو اور پلکوں کے ساتھ بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، کشادہ پیشانی پر لٹیں بکھیر تے گھنے بال، چہرے پر فیشنی داڑھی۔ گرمیوں میں جین اور اس پر ٹی شرٹ پہن رکھی تھی اور اس لباس نے اُسے کچھ زیادہ سمارٹ کر دیا تھا ۔

نوجوان نے بڑے پُراعتماد اور گونجدار لہجے میںآتے ہی تعارف کر وایا ''مجھے نجم الثاقب '' کہتے ہیں، میں شعر کہتا ہوں افسانہ لکھتا ہوں اور یہاں کوئٹہ میں لاء کالج میں د اخلہ لیا ہے، یہ تعارف ہمارے لیے ادھورا تھا کیوں کہ ہم کوئٹہ والے اپنے لہجے، مخصوص عادات، مزاج اور ایک خاص رکھ رکھاؤ کے ساتھ یہاں کی ایک مشترکہ ثقافتی پہچان رکھتے ہیں جو اُس وقت نجم الثاقب کے پاس نہیں تھی۔ آپ کہاں سے آئے ہیں ؟ بیرم نے پو چھا '' سیالکوٹ سے ،، میرے دماغ میں، پنجابی فلمی گیت کا مصرع گونجا ''منڈیا سیالکوٹیا،، مگر اس کے گال پر تل نہ تھا لیکن تھوڑی سی گفتگو کے بعد احساس ہوا اس کے پاس دل ہے اور بہت اچھا دل ہے، شائد کو ئٹہ والوں کی طرح کا کشادہ اور حساس دل اور یہی وجہ تھی کہ پھر نجم الثاقب ہمارا بہت گہرا دوست بن گیا اور عمر کے تھوڑے فرق کی وجہ سے وہ کچھ زیادہ ہی بے تکلف ہو گیا۔

اُس کا بھائی میجر تھا مگر اچانک اُس کا تبادلہ ہو گیا تو اب نجم الثاقب نے ایک کھٹیا نما کمر ہ کرائے پر لے لیا اور وہاں رہنے لگا تاکہ اپنی ایل ایل بی کی تعلیم مکمل کر لے۔ وہ سیالکوٹ کے مرے کالج سے امتیازی حیثیت میں بی اے کرکے یہاں آیا تھا اور یہاں ایل ایل بی کر نے کے بعد اُس نے سی ایس ایس کر نا تھا ۔ نجم الثاقب کے والد ایم اے انگریزی ادب اور والدہ بھی انگریری ادب کے ساتھ گریجویٹ تھیں جب کے ان کے نانا پروفیسر جمشید علی را ٹھور پی ایچ ڈی تھے اور علامہ اقبال کے ہمراہی شمس العلماء میر حسن کے شاگر تھے ۔

علامہ اقبال کا گھر سیالکورٹ میں ان کے گھر سے پیدل تین منٹ کے فاصلے پر ہے۔ بقو ل ثاقب وہ پچپن ہی سے کتابوں کے حصار میں رہا۔ کردار وراثت میں پا یا کہ اِن کے والدمحمد بشیر بٹ قیام پاکستا ن کے بعدلاہور میں سیٹلمنٹ کمشنر تھے۔ واضح رہے کہ قیام پاکستان کے وقت اُس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان سے 45 لاکھ ہندوں اور سکھوں نے بھارت ہجرت کی اور ہندو ستان سے 65 لاکھ مسلمان پاکستان آئے۔

تقسیم کے اعتبار سے بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر نہر و اور پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا کہ کلیم کی بنیاد پر بھارت سے آنے والے مسلمانوں کو یہاں ہندوں اور سکھوںکی جائید ادیں اور یہاں سے بھارت جانے والوں کو وہاں بھارت میں پاکستان ہجرت کرنے والوں کی جائیدادیں دی جائیں گی یوں صوبہ پنجاب میں ثاقب کے والد سب سے بڑے امانت دار تھے اور انتقال کے وقت اُن کے پاس اُن کاصرف ایک آبائی مکان تھا۔

ثاقب کو ئٹہ میں تین سال رہا لیکن کوئٹہ نے اسے اور اُس نے کو ئٹہ کو اب تک ایک دوسرے میں سمویا ہوا ہے۔ کوئٹہ میں ہم نے یعنی میں ثاقب بیرم غوری، عبداللہ ،سرور جاوید، وحید زہیر، افضل مراد،محسن شکیل نے عطا شاد، خادم مرزا، عین سلام،اور ماہر افغانی کے ساتھ مل کر ادبی تنظیم حلقہ حرف وحکایات بنائی اور اُس زمانے میں کوئٹہ کی ادبی سرگر میاں عروج پر رہیںاور یہاں جتنے بھی آل پاکستان مشاعرے منقعد ہو ئے اُن میں نجم الثاقب نے پروین شاکر ، قتیل شفائی ، منیرنیازی، محسن احسان،محسن بھوپالی،احمد ندیم قاسمی،حفیظ جالندھری،احسان دانش،جیسے شاعروں کے ساتھ شرکت کی اور داد پائی اُس دور کے نجم الثاقب کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

سیلاب کے جاتے ہی چلے آئے ہو تم بھی

جب اپنی تباہی پہ میں رویا تو کہاں تھے

سفر اکیلے ہی کاٹ لو گے، یہ میں نے پو چھا تو رو پڑا وہ

جواب کتنا عجیب سا تھا، سوال کتنا عجیب سا تھا

ہاں جسم تو ہوتا ہے مگر جاں نہیں ہوتی

وہ گھر بھی کو ئی گھر ہے جہاں ماں نہیں ہوتی

ہم ملازم تھے کتابیں خرید کر پڑھنے کی عادت تھی مگر ثاقب نئی اور مہنگی کتا بیں کہیں نہ کہیں سے اڑا لیتا تھا اور ہمیں تحفے میں پیش بھی کرتا تھا۔،اور کہتا تھا کہ جب میں بھی ملازم ہوا توتنخو اہ کی رقم سے کتابیں خریدوں گا اور بعد میں ایسا ہی ہوا نجم الثاقب کو ئٹہ میں متواتر تقریباً تین سال رہا لیکن وہ اس کے بعد سے کسی نہ کسی اعتبار سے کو ئٹہ ہی میں حاضر رہا اس میں اُس کی کو ئٹہ اور کو ئٹہ والوں سے محبت اور پھر کو ئٹہ اور کوئٹہ والوں کی جوابی محبت شامل ہے جو اُسے جو نہ صرف ادبی جرائد اور میگزینوں میں اس کی تخلیقات کی بنیاد پر حاضر رکھتے ہیں بلکہ وہ جب پاکستان آتا ہے اُسے کوئٹہ بلوا کر اُس کے ساتھ ادبی نشستوں کا اہتمام کر تے رہتے ہیں اور اِس میں ہمارے دانشور ادیب اور معروف کالم نگار دوست راحت ملک کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔

1985 ء میں نجم الثاقب نے سی ایس ایس کا امتحان پنجاب سے بہت نمایاں حیثیت میں پاس کر لیا اور اس کی بنیاد پر اُسے اُسکی پسندکا شعبہ یعنی فارن گروپ مل گیا۔ ثاقب اکیڈمی سے فارغ ہوئے تو میں بھی گریڈ 17 میں پہلے فیڈرل گورنمنٹ میں اور پھر 18 گریڈ میں صوبائی محکمہ تعلیم میں اسسٹنٹ پروفیسر ہو گیا۔ تھوڑے عرصے بعد بیرم غوری بھی بلوچستان یونیورسٹی میں لیکچرار ہو گئے۔ یعنی اب عملی زندگی کا آغا ز ہو گیا تھا پاکستان میں قیام کے دوران شروع میں ثاقب نے اُس وقت کے واحد پی ٹی وی چینل سے صبح کی نشریات بطور میزبان شروع کیں اُس وقت اُن کے ساتھ مستنصر حسین تارڑ تھے۔ مہینے میں آدھے آدھے پروگرام یہ دونوں کیا کرتے تھے پھر ثاقب کی پوسٹینگ اسپین ہو گئی۔ 1994 ء میں واپسی ہو ئی تو پی ٹی وی سے حالات ِ حاضرہ کے پر وگرام صبح کی نشریات نیوز مارنیگ اور رات کی نشریات میں نیوز نائٹ شروع کیں۔

ریڈیو پروگرام تو ثاقب نے کو ئٹہ ہی سے شروع کر دئے تھے لیکن اسلام آباد اور پنڈی ریڈیو سے اُنہوں نے یاد گار پروگرام ''بولتی تحریریں'' اور ''بک شلف'' کئے 1992 ء میں نجم الثاقب کا پہلا مجموعہ کلام ''رتیلے خوابوں کی رُت'' شائع ہواپھر شاعری کا دوسرا مجموعہ ''درد کے جزیر ے تک'' شائع ہو ا 2004 ء میں تیسرا مجموعہ ''ہزار خواب ہیں''کے نام سے منظر ِ عام پر آیا۔ 2005 ء میں ہسپانوی زبان میں اُن کی شاعری کی کتاب Tal Vez la Vida میڈرڈ سے شائع ہوئی اگر چہ شاعری کے ساتھ ہی ثاقب نے افسانے اور افسانچے لکھنے شروع کر دیئے تھے مگر افسانوں کے مجموعے کی بجائے،پہلے ناول ''یہاں سے آگے''آیا جس پر دنیائے اردو کے عظیم افسانہ نگار اور محقق،تنقید نگار جناب انتظار حسین مر حوم نے لکھا۔ ''یہاں سے آگے'' ناول کے تمام لوا زمات کو پورا کر نے کے ساتھ ساتھ یہاں سے آگے کی طرف ایک واضح اشارہ بھی کرتا ہے ۔ ''کیا ہے'' اور''کیا ہونا چاہیے'' کی الجھی گھتیوں کوسلجھانے کی منزلیں سہو لت سے طے کرتا ہے۔

یہ ناول اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے ۔،، کیپ ٹاؤن سے اِن کے اس ناول کا انگریزی ترجمہ Baoo کے نام سے شائع ہوا ہے یوں نجم الثاقب کو اردو ، ہسپانوی اور انگریزی تین زبانوں کے ادیب اور شاعر ہو نے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور انہوں نے ہسپانوی اور انگریزی پڑھنے والوں کو اردو اور پاکستانی لٹریچر سے متعار رف کرویا ہے۔ اب اُن کا چوتھا شعری مجموعہ منظر ِعام پر آنے والا ہے اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف پر بولان اکیڈمی نے انہیں ایکسیلنس ان لٹریچر ایوارڈ دیا۔ نجم الثاقب کی ایک اور خوبی سے صرف ان کے قریبی لوگ ہی واقف ہیں اور وہ ان کی خوبصورت آواز ہے۔ ہم دوست اکثر اِن سے غزلیں اور گیت سنتے رہتے ہیں اس پر نکھار اُن کی بنگلہ دیش کی پو سٹینگ کے بعد آیا جب انہوں نے وہاں ڈھائی تین سال موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ نجم

الثاقب ایک محب وطن سچا پاکستانی ہے اِس اعتبار سے وہ جوانی ہی میں اپنا ہدف طے کرچکا تھا۔ اس کے بھائی فوجی آفیسر رہے یہ سب سے چھوٹا اور لاڈلاتھا اِس نے جب سی ایس ایس کیا تو اُس وقت فارن گروپ میں جانے کا رحجان کم تھا، اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بطور سفارتکار دنیا بھر میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرئے گا۔ اہل علم و دانش یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج کے زمانے میںفوج کے بعد اگر کوئی شعبہ سب سے زیادہ ملکی قومی خد مت کر سکتا ہے تو وہ فارن سروسز کا شعبہ ہے اِس لیے دنیا کے اہم اور ترقی یافتہ ملکوں میں فارن آفس میں تمام افراد اور اِن ممالک کے بیرونِ ملک سفیر باقاعدہ یا ریگولر فارن سروس کے لوگ ہوتے ہیں اور اگر پارٹی کی بنیاد پر وہ چند سفیر اہم ملکوں میں تعینات کرتے ہیں تو ایسے افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے، جو اُن ملکوں میں 'جہا ں وہ سفیر ہوتے ہیں' اُن کے حوالے سے زیادہ علم، مشاہدہ اور تجربہ رکھتے ہیں۔

یوں جن ملکوں نے بیرون ملک ہمیشہ سے ریگولر سروس کے لوگ ہی بطور سفیر تعینات کر رکھے ہیں اُن کی خارجہ پالیسی مستحکم متوازن اور ملک کے بہتر مفاد میں ہو تی ہے۔ بد قسمتی سے پاکستا ن کو گذشتہ دس برسوں میں ایسی پالیسی نہ ہو نے کی وجہ سے اور بیرونِ ملک سیاسی بنیادوں پر تعینات افراد کی ناتجربہ کاری یا ذاتی مفادات کی وجہ سے نقصا ن اٹھا نا پڑا،اس کے مقابلے میں بھارت اس اعتبار سے بہت فائد ے میں رہا، پاکستان جیسے ملک کو بیرون ملک ذہین ،تجر بہ کار،ماہر سفارتکاروں کی شدید ضرورت رہتی ہے ،اِس وقت 22 کروڑ آبادی کے اس ملک کے تقربیاً نوے لاکھ پاکستانی ملک سے باہر،ساؤتھ افریقہ، اسپین، جرمنی، فرانس،ناروے، سوئیڈن، بلجیئم،برطانیہ، امریکا، کینیڈا، آسڑیلیا، سعوی عرب، عرب امارات،اور دوسرے ملکوں کام کر کے سالانہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ یہ سفارتخانے ہی ہوتے ہیں جو اِن بیرون ملک پاکستانیوں کی نمائندگی بھی کر تے ہیں اور ملکی مصنوعات کو متعارف کرتے ہوئے تجارت کے فرو غ کے لیے انتھک محنت بھی کرتے ہیں، یوں ملک کے لیے زرمبادلہ میں اضافہ ہوتا ہے۔

افرادی قوت کی ہنر مندی سے ملکی کارخانے زیادہ پیداور دیتے ہیں تو روزگار میں اضافہ ہو تا اور غربت میںکمی ہو تی ہے۔ پھر سب سے اہم یہ ہو تا ہے کہ جو مسائل اور خطرات ملک کو خصوصاً دشمن ملکوں کے حوالے سے درپیش ہو تے ہیںاُن سے تحفظ کے لیے بہتر حکمت عملی اور منصوبہ بندی اختیار کرتے ہوئے اقدامات کریں اور دشمن ملکوں کو بیرون ملک خارجہ محاذ پر شکست دیں ۔پھریہ بھی ایک اچھے سفیر کی نشا نی ہو تی ہے کہ وہ بیرونِ ملک ہم وطنوں کو متحد کرتے ہیں۔ سفارت خانے کی جانب سے بھی اِن کے مسائل حل کرتے ہیں اور کمیونٹی میں اشتراک عمل اور اپنی مدد آپ کے جذبے اور رُجحان کو فروغ دے کر اِن کو مستحکم اور مضبوط کرتے ہیں۔

پاکستا ن دنیا میں بہت خاص اور اہم جغرافیائی پو ز یشن پر واقع خطے کا ایک اہم ترین ملک ہے جو آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا ملک اور ساتھ ہی دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بھی ہے،جو برصغیر کی تقسیم اور آزادی کے بعد تین مرتبہ بھارتی جارحیت کا شکار ہو چکا ہے اور بھارت کے ساتھ اقوام متحدہ کی ٹیبل پرکشمیر کا تنازعہ سب سے پرانا ہے یوں پاکستا ن کی فارن سروس سے کوئی بھی شخصیت وابستہ ہو اُسے یہ بنیادی نکتہ جذبہ حب الوطنی کے ساتھ یاد رہتا ہے۔ نجم الثاقب کے لئے یہ اہمیت یوں بھی زیادہ جذباتی وابستگی کا باعث بن جاتی ہے کہ نجم الثاقب نسلاً کشمیری ہے۔

یوں جب نجم الثاقب سی ایس ایس کی تیاری کر رہا تھا تو اُسی وقت نہ صرف وہ یہ طے کر چکا تھا کہ وہ فارن گروپ میں جائے گا بلکہ وہ کس انداز سے ملک و قو م کی خدمت کرے گا۔ نجم الثاقب آج اپنے مقصد میں کامیاب رہا ہے اور اسے اِس پر فخر بھی ہے ، 22 ستمبر 2020 ء میں نجم الثاقب انشا اللہ تعالیٰ اپنی 35سالہ ملازمت کی مدت پوری کر کے ریٹائر ہو جا ئے گا،اور پاکستان کی 73 سالہ امورخارجہ کی تاریخ کے ریکارڈ میں مادرِوطن کی خد مت کے اَن مٹ نقوش چھوڑ جائے گا۔ نجم الثاقب ریکارڈ کے مطابق وہ واحد سفارت کار ہے جو پانچ براعظموں میں یا 13ملکوں میں پاکستا ن کا سفیر رہا۔ سی ایس ایس کے دیگر گروپوں میں پی بی ایس 17 سے 22 گریڈ تک پروموشن ہو تی ہے اور ہر گروپ یا محکمے میں عہدوں کے نام بھی ہو تے ہیں جیسے پو لیس میں ایس پی سے لے کر آئی جی تک اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ میں اسسٹنٹ کمشنر سے کمشنر اور چیف سیکرٹری تک یو ں پاکستان کے دفترِ خارجہ میں سیکشن آفیسر یا اسسٹنٹ ڈائر یکٹر سے سیکرٹری خارجہ تک ایک انتظامی ڈھانچہ ہو تا ہے اور مختلف ممالک کے حوالے سے الگ الگ شعبے یا ڈیسک ہو تے ہیں۔

جب کہ بیرونِ ملک سفارت خانوں میں جونیر کچھ سینئر اور پھر اہم سفارتخانوں میں بہت زیادہ سینئر سفارکار تعینا ت ہو تے ہیں۔ یہی سفارتکار جب واپس وطن آتے ہیں تووزارت ِ خارجہ کے دفتر میں درج بالا شعبوں اور اِن عہدوں پر تعینات ہو تے ہیں اور پوری سروس میں یہ آنا جا نا لگا رہتا ہے۔ نجم الثاقب دفتر خارجہ میں کئی بار ڈپٹی ڈائر یکٹر ،ڈائریکٹر ، ڈائر یکٹر سارک اور ڈائریکٹر جنرل تعینات رہے اور بطور سینئر سفارتکار وہ اکیڈمی میں انٹر نیشنل ریلیشن، انٹر نیشنل لاء اور پاکستان کے اعتبار سے سفارتکاری جیسے موضوعات پر لیکچرز بھی دیتے رہے اور سینئر سفارتکار کی حیثیت سے پالیسی سازی اور منصوبہ بندی میں معاونت و مشاورت کے فرائض بھی انجام دئیے۔

سی ایس ایس افسران کے مقابلے کے امتحان اور انٹرویو میں جن اہم خصوصیات کی تلاش کی جاتی ہے اُن میں درست و بروقت فیصلہ کی قوت،علم اور مہارت کے ساتھ مشاہدے اور تجربے سے بھر پور استفادے کی صلاحیت، حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی اسطاعت جیسی خوبیاں شامل ہیں۔ بد قسمتی سے مقابلے کے امتحان میں کامیابی اور بطور افسر تعیناتی کے تھوڑے ہی عرصے بعد اِن افسران کی اکثریت اِن خوبیوں سے نہ صرف دستبرار ہوجاتی ہے بلکہ بہت سی متضاد برائیوں کو بطور خصلت اپنا لیتی ہے۔ لیکن جو افسرا ن اپنی خوبیوں کو سچائی ،حق پرستی اور جذبہ ء حب الوطنی کے ساتھ اپنائے رکھتے ہیں وہ تاریخ میں اپنا نام چھوڑ جاتے ہیں۔ خوش قسمتی سے نجم الثاقب اِن ہی افسران میں شامل ہے۔

1985 ء کے بعد نجم الثاقب نے کچھ عرصہ جو نیئر سفارت کار کی حیثیت سے بنگلہ دیش اور آذربائیجان میں اپنے فرئض انجام دئیے ۔ یہ دونوں ملک سفارتکاری کے اعتبار سے اُس زمانے میں اہم تھے۔ بنگلہ دیش 23 برس تک مشرقی پاکستان تھا اور اس کے بعد اندرونی و بیرونی سازشوں کی وجہ سے بنگلہ دیش میں تبد یلی کردیا گیا۔ وہاں اُس وقت شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعد صورتحال مختلف تھی۔ پاکستان افغانستان میں سویت یونین کی فوجی مداخلت کی وجہ سے جنگ میں فرنٹ لائن ملک بن چکا تھا۔ بھارت سے بھی پاکستان کے تعلقات کشیدہ تھے اور سابق سویت یو نین اور بھارت ہی وہ دو بڑے کردار تھے جن کی وجہ سے بنگلہ دیش 16 دسمبر 1971 ء کو وجود میں آیا تھا۔ یوں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ 13 برس بعد بنگلہ دیش میں پاکستانی سفارت خانے کا کردار کتنا اہم تھا اور اُس وقت کی صورتحال سے واضح ہو تا ہے کہ پاکستا ن کے دفترخارجہ اور بنگلہ دیش میں پاکستانی سفارتکاروں نے کتنا اہم کردار ادا کیا۔

 



1990 ء میں جب روسی صدر گارباچوف نے گلسنس اور پرسٹریکا جیسی پالیسیوں کو متعارف کراتے ہو ئے سابق سویت یونین سے اشتراکی نظام کا خاتمہ کر کے آزاد معاشی اقتصادی نظام کو اپنایا اور ساتھ ہی مشرقی یورپ اور سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کو آزاد اور خود مختار بنا دیا تو سنٹرل ایشیا میں تاجکستان، آذر بائیجان ، ازبکستان ، کرغزستان ، قازقستان، ترکمانستان جیسی مسلم اکثریتی ریاستیں آزاد ہو گئیں جو تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل تک تاریخ میں اہم کرادر کی حامل رہی تھیں اور خصوصاً پاکستان کی تاریخ میں اِن کا اہم مذہبی ، ثقافتی ، تمدنی ، سیاسی کردار رہا تھا۔ ثاقب کی بطو ر جو نیئر سفارتکارآذربائیجان میں اُس وقت پوسٹینگ ہوئی جب یہاں پاکستان کا سفارت خانہ نیا نیا قائم ہو اتھا اور آذربائجان سمیت سنٹرل ایشیا میں پاکستان نے اس بدلے ہو ئے تناظر میں سفارتی محاز پر یہاں اِن نو آزاد مسلم اکثریت کے ملکوںسے مضبوط معاشی ، اقتصادی ، تجارتی ، تعلقات کے ساتھ ملکی اور علاقائی دفاعی نوعیت کے امور کو بھی مستقبل کے تناظر میں اپنے قومی مفاد میں کر نا تھا۔ ہمارے ہاں 19 گریڈ میں ترقی کے بعدNIPA ٹرینگ کورس لازمی ہو تا ہے نجم الثاقب نے اس کے لیے بھی کو ئٹہ کا انتخاب کیا اور یہاں اپنی ادبی سرگرمیوں اور پرانی دوستیوں کے باوجود پہلی پو زیشن حاصل کی۔

پھرگریڈ 20 میں پر موشن پر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں سول افسران کو نیشنل سیکورٹی کورس کر نا ہو تا ہے نجم الثاقب نے نہ صرف یہ کورس کیا بلکہ یہاں اُسے وار کورس کے لیے بھی منتخب کر لیا گیا جو بریگیڈیئر سے میجر جنرل کی پرموشن کے لیے لازم ہو تا ہے یوں ثاقب اس اعتبار سے بھی فارن سروس کے اب تک کے وہ واحد افسر ہیںجو وار کورس بھی کر چکے ہیں۔ جونیئر سفارتکاری کے بعد مڈل لیول یا درمیانی سفارتکار کے طور پر نجم الثاقب نے کینیا اور کینڈا میں اہم کردار ادا کیا۔ کینڈا میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہے اور بیشتر ڈاکٹر انجینئر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اسپین میں نجم الثاقب نے نہ صرف خود بطور ادیب شاعر وہاں کی علمی ادبی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا بلکہ یہاں اُنہوں نے دو یونیورسیٹوں میں علامہ اقبال اور قائد اعظم نشستوں کا اجراء بھی کرا یا۔ اب اسپین کی اِن دونوں یو نیورسٹیوں میں اسلا میات ، مطالعہ پاکستان اور اردو ادب کے مضامین پڑھا ئے جا تے ہیں جس کے لیے پروفیسر پاکستان سے مقررہ مدت کی ملازمت پر وہاں جاتے ہیں۔ بطور سینئر سفارتکار جنوبی افریقہ میں نجم الثاقب کا کردار ایک بڑا چیلنج تھا۔

اہل علم ودانش یہ جانتے ہیں کہ ہندوستان کے اہم لیڈر موہن داس گاندھی جب ممبئی میں بطور وکیل ناکام ہو گئے تو انہوں نے ساوتھ افریقہ کا رخ کیا اور وہیں سے وہ لیڈر بنے یوں جنوبی افریقہ میں بھارتی سیاست کے نقوش گہرے اور بہت پرانے ہیں اور وہاں بھارتیوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے مگر پاکستانی بھی یہاں دو لاکھ سے زیادہ ہیں یوں یہ ثاقب کو ایسا ملک ملا تھا جہاں پاکستانی بڑی تعداد میں تھے اور ہر شعبہ ء زندگی میںاُ ن کا مقابلہ بھارتیوں سے تھا۔ یہاں اُنہوں نے آتے ہی پورے ساوتھ افریقہ میں مو جود پاکستانیوں کو ایک کیا پہلے یہاں مختلف شہروں میں پاکستانیوں کی مختلف تنظیمیں تھیں اِن کی کوششوں سے پاکستان ساؤتھ افریقہ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا اور اس کے تحت پورے جنوبی افریقہ کے 17 شہروں میں اس کے 17 ۔17 صدور نائب صدور اور جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے یوں یہاں دولاکھ سے زیادہ تارکینِ وطن کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم میسر آگیا،اُنہوں نے یہاں 10 ہزا ر سے زیادہ مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ جاری کئے اور یہاں ایجنٹ مافیا کا خاتمہ کردیا۔

2014 ء میںیہاں وفاقی وزیر آئے۔ 2015 ء میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف تین روزہ دور ے پر آئے اور اپنے ہم منصب سے ملا قات کی۔ معاشی اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دیتے ہو ئے یہاں پاکستانی مصنوعات اور اشیاء کی مارکیٹ میں گیارہ فیصد سے زیادہ اضافہ کیا۔ اِن کے دور میں ساؤتھ افریقہ میں پاکستان نے 11 بین الاقومی صنعتی نمائشوں میں شرکت کی۔ پاکستان سے 13 تجارتی وفود جنوبی افریقہ آئے اور یہاں کی مارکیٹ میں پاکستانی پنکھوں ،چاقو چھریوں آلات جراحی کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل کی مصنو عات میں بہت زیادہ اضافہ ہو ا۔

اُنہوں نے اپنی دن رات کی کوششوںسے یہاں Sassol اور Grindrod،Glencore جیسی بڑی کمپنیوں سے پاکستان میںاربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے راہ ہموار کی ، اُن کی کو شش رہی کہ برطانیہ ،کینڈا اور امریکہ کی طرح ساؤتھ افریقہ میں مقیم دو لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں کے نمائند وں کو پارلیمنٹ میں نمائند گی مل جائے اس کے لیے اُنہوں نے بنیاد کام کردیا ہے اور وہاں مقیم پاکستانی تارکین وطن اب متحد ہیں اور وہ دن دور نہیں جب جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ میں اِن کی نمائند گی ہو گی اس کے بعد 2017 ء میں بطور سفیر ہی نجم الثاقب برازیل جیسے اہم ملک میں تعینات ہوئے ہیں اور اب چونکہ وہ ایک سال بعد اپنی ملازمت سے ساٹھ سال کی مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے اس لیے یہ غالباً اُن کی آخری پو سٹنگ ہو۔ یہاں وہ نہ صرف برازیل کے سفیر ہیں بلکہ بولیویا،گیانا،سری نام،کولمبیا اور وینز ویلا کے لیے بھی پاکستانی سفیر ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے قریب سی ایس ایس افسران عموماً گھبرائے اور پریشان دکھائی دیتے ہیں لیکن نجم الثاقب مجھے کہیں زیادہ مطمئن نظر آئے وہ مارچ میں برازیل سے آئے تو اسلام آباد میں اگر چہ اُن کا قیام چند روز کا تھا مگر میری دعوت پر وہ دو روز کے لیے کو ئٹہ آئے جہاں دوستوں نے اُن کے اعزاز میں خصوصی ادبی نشست کا اہتمام کیا تھا اس موقع پر انہوں نے نوجوانوں سے خطاب بھی کیا ، میں نے ریٹائرمنٹ کے اعتبار سے پو چھا تو بولے:

اُسے خبر ہے میں کمزور ہوں ریاضی میں

خدا کا شکر مجھے بے حساب ملتا ہے

بولے کہ مجھے میرے رب نے اتنا نوازا کہ میری گنتی ختم ہو گئی ہے ، یہ نبی کریمﷺ سے میری اتھاہ عقیدت کا فیض ہے، میری ماں کی دعائیں ہیں اور اپنے وطن کی خد مت کا جذ بہ ہے کہ میرے مولا نے ہمیشہ بامرا د رکھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |