محترم وزیراعظم زاہد اسلم کی باتوں پر ضرورغور کیجیے

یہ صورتحال انتہائی تشویشناک نہیں بلکہ خطرناک ہے۔اس اعتمادکوفوری طورپربحال ہوناچاہیے۔

raomanzar@hotmail.com

زاہداسلم کافون آیا۔آوازبالکل صاف نہیں تھی۔ گزارش کی کہ رنگ روڈسے اُترکرفون کرتا ہوں۔ دوچار منٹ بعدبات ہوئی تو آواز بھرپور طریقے سے سنائی دے رہی تھی۔ انتہائی مہذب لہجہ میں کہنے لگاکہ معیشت کو نقصان،اربوں یا کھربوں میں نہیں ہورہابلکہ نقصان اس قدرزیادہ ہے کہ اس کافی الحال اندازہ ہی نہیں کیاجاسکتا۔یہ غیرمعمولی بات ہے اوراس پرکوئی توجہ نہیں دے رہا۔پوچھاکہ تفصیل سے بتائیے کہ معاملہ کیاہے اورکیسے ہورہا ہے۔کمال سنجیدگی سے کہنے لگاکہ وزیراعظم اور بزنس کمیونٹی میں اعتمادکافقدان روزبروز بڑھتا جارہا ہے۔

یہ صورتحال انتہائی تشویشناک نہیں بلکہ خطرناک ہے۔اس اعتمادکوفوری طورپربحال ہوناچاہیے۔ بصورت دیگر،پاکستان میں بزنس کمیونٹی مکمل طور پر کام کرنا چھوڑدیگی۔اس کے بعددوبارہ معیشت کے پہیے کوچلانا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔زاہدکہنے لگاکہ آپ کسی بھی طریقے سے خان صاحب تک یہ بات پہنچائیں۔اس سے پہلے کہ عرض کرتاکہ میری وزیراعظم تک کوئی رسائی نہیں۔زاہدکہنے لگا کہ اس کوکالم کی شکل میں لکھیں۔ہوسکتاہے یہ کسی دوسرے کے ذریعے سے عمران خان صاحب تک پہنچ جائے۔ گفتگو میںجوکچھ کہا، گزارش کرتاہوں۔سب سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ زاہددراصل ہے کون اور اس کی بات کواس قدر سنجیدگی سے کیوں لے رہاہوں۔

شیخ زاہداسلم میرے بچپن کاجماعتی ہے۔دونوں ڈویژنل پبلک اسکول میں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ زاہدتین پشتوں سے حددرجہ کامیاب کاروباری انسان ہے اور بنیادی طورپرکپڑے کے کام سے منسلک ہے۔اس کی متعدد فیکٹریاں اورملیں ہیں، جواب اس کے بچے چلارہے ہیں۔ زاہدپورے کاروبارپرکڑی نظررکھتاہے اوراس نگرانی کی بدولت کامیاب بزنس مین ہے۔والدمحترم بھی کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ ساتھ ساتھ لائل پوربلدیہ کے کونسلربھی تھے۔ویسے ساٹھ کی دہائی میں بلدیاتی نمایندہ ہوناآج کے ایم پی اے کے برابر ہے یاتقابلی طریقے پرشائدزیادہ ہی ہو۔زاہدکے والد اور دیگربھائی بہن،جناح کالونی میں ہی رہتے تھے۔ ہمارا گھر بھی جناح کالونی میں ہی تھا۔اس لیے اسکول کے علاوہ بھی زاہد سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ والدسے لے کر خود زاہداسلم تک اوراب اس کے بچوں تک،یہ لوگ صرف اورصرف کاروبار کرتے رہے ہیں۔

انھیں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا۔ ویسے آنابھی نہیں چاہیے۔اس لیے کہ یہ اپنی محنت پر صاحبِ ثروت لوگ ہیں۔ایک اہم بات یہاں کرناضروری سمجھتا ہوں۔کیونکہ یہ خاندان بنیادی طورپرپشتینی رئیس رہا ہے اورمحنت کرکے دولت مندہواہے۔اس لیے ان لوگوں میں کسی طرح کی بناوٹ یاتصنع موجودنہیں ہے۔بلکہ یہ کہنا چاہونگاکہ زاہدمیں نودولتیوںکی کوئی عادت موجودنہیں ہے۔ اسے دیکھ کرکوئی یہ نہیں کہہ سکتاکہ وہ کتنابھرپورتاجرہے اوروہ کسی سے، اس معاملہ پرقطعاًبات نہیں کرتا۔ والدفوت ہوچکے ہیں۔ اب تمام بھائی علیحدہ علیحدہ اطمینان سے کاروبار کر رہے ہیں۔ ہاں زاہد،بذاتِ خود،فیصل آباد چیمبر آف کامرس کا صدربھی رہا ہے اوربڑاکامیاب صدر رہاہے۔ تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ ملکی معیشت پر اس کی حددرجہ گہری نظر ہے اور وہ ان معاملات کو باریکی سے سمجھتاہے۔

فون پرکہنے لگاکہ کسی بھی تاجرکی کسی بھی حکومت سے وابستگی نہیں ہوتی۔وہ توصرف یہ دیکھتاہے کہ کونسی حکومت ''بزنس فرینڈلی''ہے اورکون سی نہیں ہے۔ کاروباری طبقہ ہر حکومت کوکاروباری آنکھ سے دیکھتا اورپرکھتاہے۔جوحکومت اس کے لیے مثبت پالیسیاں تشکیل کرے۔سرکاری عمال کے غیظ وغضب سے دوررکھے۔سرمایہ کوجائزطریقے سے فروغ دینے پر کسی قسم کی پابندی نہ ہو،وہ ان کے لیے بہترین حکومت ہوتی ہے۔انکوکسی اورچیزسے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔ زاہدنے قطعاًیہ نہیں کہاکہ حکومت کو ''سیٹھ فرینڈلی'' ہونا چاہیے۔گفتگوکااہم ترین نکتہ یہ تھاکہ موجودہ حکومت کاروباری طبقے کااعتمادحاصل نہیں کرپارہی۔حکومت،ان کی معاشی ٹیم اور اکابرین نے اس خلاکوپورایاکم کرنے کے لیے کوئی خاص محنت نہیں کی۔نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ تاجرطبقے اور موجودہ حکومت کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ عدم اعتماد کے نقصان کافی الحال اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

یہ اربوں، کھربوں سے بھی بہت زیادہ ہے۔عرض کرناضروری ہے کہ نقصان کم ازکم موجودہ حالات میں ہماری سوچ سے بھی زیادہ ہے۔زاہدیہ بھی کہنے لگا،کہ تاجرحضرات کاخیال تھاکہ ٹیکس اور دیگرمعاملات میں حکومت بہت بڑے کاروباری جنات سے پوچھ گچھ کریگی۔کھرب پتی لوگوں سے ان کے ذرایع آمدنی، منافع اورجائیدادکاحساب لے گی۔مگرعملی طورپرتویہ معاملہ پانچ لاکھ تک کے بیوپاری تک آچکاہے۔اس کا یہ مطلب ہواکہ ٹیکس سے منسلک سرکاری عمال چھوٹے سے چھوٹے کاروباری آدمی کی بھی پگڑی اُچھالنے کی پوزیشن میں آچکے ہیں۔یعنی،بڑے بڑے مگرمچھوں پر آہنی ہاتھ ڈالنے کے بجائے،کھوکھے اورریڑھی بانوں تک معاملات آچکے ہیں۔ اس سے بدترین خوف پیدا ہوچکا ہے۔


بقول زاہد،محترم وزیراعظم کواس اَبتر صورتحال سے آشنائی ضروری ہے۔انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ تاجرطبقہ، خوف اور عدم اعتمادکی کیفیت میں ہے۔اس سے ملکی معیشت بیٹھ جائے گی۔کوئی بھی بندہ کاروبارکرنے کے لیے تیارنہیں ہوگا۔ زاہد اسلم سے دس بارہ منٹ طویل بات ہوئی اوراس کے بعد طے ہوا کہ ہم دونوں،ایک ڈیڑھ ہفتہ میں ملیں گے اور اس معاملہ پر بیٹھ کرسنجیدگی سے دوبارہ غورکرینگے۔

ایک رویہ تویہ ہوسکتاہے کہ ہم اس عنصرکوبالکل رَد کر دیں کہ کاروباری طبقہ عدم تحفظ کاشکارہے۔یعنی کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔گورنراسٹیٹ بینک کی ایک پریس کانفرنس سن کرکم از کم میرے جیسے جاہل آدمی کو یہی لگاکہ پاکستانی معیشت بالکل درست ہے اورکسی قسم کاکوئی ایشویامسئلہ نہیں ہے۔ ڈالرکی اُڑان کے متعلق ان کی گفتگوکالبِ لباب تھاکہ یہ پاکستانی معیشت کے لیے سودمندہے۔ماہرمعاشیات ہرگز ہرگز نہیں ہوں۔ سائنس کاسادہ ساطالبعلم ہوں۔ان کی ڈالرکے متعلق منطق سے کوئی بھی ماہرمعاشیات متاثرنہیں ہوا۔ بہرحال ڈالرکی قدر میں اضافہ کاحتمی پیغام یہ ہے کہ پاکستانی کرنسی کمزورہورہی ہے اوریہ کوئی مثبت بات نہیں ہے۔

گورنراسٹیٹ بینک کی ذہانت ایک طرف مگر انھیں کاروبارکرنے کاوہ تجربہ حاصل نہیں ہے جو زاہد اسلم اوراس طرح کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تاجر حضرات کے پاس ہے۔اگرہم اس حقیقت کوتسلیم ہی نہ کریں کہ ملکی معیشت شدیدمسائل کاشکار ہے، تو میرے نزدیک یہ ''ملک دشمنی'' ہوگی۔سرکاری معاشی اکابرین کومعیشت کو درپیش مسائل کابھرپورادراک ہونا چاہیے۔ذاتی خیال ہے کہ صورتحال اس درجہ گھمبیر ہے کہ مسئلہ معاشی ٹیم کے علاوہ خان صاحب کے ریڈارپربھی ہوناچاہیے۔مجموعی طورپر تاثر بھرپور طریقے سے منفی ہی ہے۔یہ حددرجہ کڑواسچ ہے۔

دوسرامعاملہ یہ کہ معیشت کے مسائل کاادراک کرتے ہوئے،ٹیکس نیٹ کوبڑھانے اوراقتصادی اصلاحات کو بتدریج رائج کرناچاہیے۔ہرکام ایک ساتھ شروع کرنے سے مسائل پیچیدہ ترہوچکے ہیں۔بتدریج اصلاحات سے ایک تو گھبراہٹ کاعنصرسامنے نہیں آئے گا۔پانچ سال کی مدت میں حکومت معاملات کوبہترکرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔معاشی فوری اعلانات سے اعتمادکی فضاکوبہت دھچکا لگا ہے۔بہتری اسی وقت ممکن ہے جب وزیراعظم اوران کی ٹیم کوکاروباری طبقے کی درست صورتحال اورخیالات کا اندازہ ہو۔اس لیے تجویز کرتا ہوں،کہ محترم وزیراعظم فوری طور پر پاکستان کی بزنس کمیونٹی سے ضلع سطح تک رابطے میں آئیں۔ بذاتِ خود،ہرصوبے میں جاکر،ضلع کی حدتک تاجرحضرات سے ذاتی ملاقاتیں کریں۔ چیمبرآف کامرس کے لوگوں سے بھی بات کریں۔مگران سے بھی زیادہ،اہم وہ لوگ ہیں جوبذاتِ خودکاروباری ہیں اور ہر طرح کی سیاست سے دور ہیں۔میں تویہ عرض کرونگا کہ آج کی ٹیکنالوجی کے ذریعے، عمران خان صاحب،دن میں ایک گھنٹہ،ہرضلع کے تاجر حضرات سے ویڈیوکانفرنس کریں۔

ان کی تجاویزکوسنجیدگی سے لیں۔ان کی بہتری کے فیصلوں میں کوئی تاخیرنہ کریں۔وزیراعظم بذاتِ خود،دن میں ایک گھنٹہ، ان کاروباری حضرات سے خودمکالمہ کریں۔صرف تین چار ہفتوں میں وزیراعظم،اس عدم اعتمادکی خلیج کوپاٹ دینگے جو اس وقت حددرجہ گہری اوربڑی ہوتی جارہی ہے۔بیرونی تعلقات اپنی جگہ پرحددرجہ اہم ہیں۔مگرملک کی معیشت اور اس سے وابستہ لوگ سب سے زیادہ اہم ہیں۔خان صاحب کی شخصیت کاسب سے اہم پہلویہ ہے کہ ان کی دیانتداری پر کوئی انگلی نہیں اُٹھاسکتا۔ ذاتی نفع اورنقصان سے اوپرنکل چکے ہیں۔اچھی ساکھ ان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔یہ ساکھ ان کے کاروباری طبقے سے تعلقات کوبہت بہتربناسکتی ہے۔

ہاں یہ بھی عرض کرتاچلوں۔کہ عمران خان کے علاوہ کاروباری طبقہ کسی بھی بابویا معاشی ٹیم سے مطمئن نہیں ہوگا۔ان کی معاشی ٹیم بہترہے۔مگراس کی ساکھ وہ نہیں ہے جومحترم وزیراعظم کی ہے۔لہٰذا،سب کام چھوڑکر،خان صاحب کو تاجر کمیونٹی سے براہِ راست رابطہ کرناچاہیے۔اس رابطے کی بدولت وہ اعتماد واپس آجائے گا،جو اس وقت سب کے لیے سوہانِ روح بن چکاہے۔جس سے ڈالرکی مصنوعی قلت پیداکی جارہی ہے۔ جس سے مہنگائی کے عفریت کو توانا کیا جا رہا ہے۔

ذہن میں رہناچاہیے کہ بدقسمتی یاخوش قسمتی سے ہمارے ملک میں شخصیات نظام سے زیادہ اہم ہیں۔ عمران خان وہ انسان ہے جس پرلوگ اب بھی اعتماد کرتے ہیں۔ مگر براہِ راست مکالمہ کی عدم موجودگی سے بزنس کمیونٹی دورسے دورترہوتی جارہی ہے۔ تھوڑے عرصے بعد،یہ موجودہ حکومت کواپنادشمن قرار دے دیگی۔اس وقت کی صورتحال کو سنبھالنا تقریباً ناممکن ہوگا۔کیونکہ ایک بارانسانی ذہن میں کوئی منفی بات بیٹھ جائے،تواسے کھرچ کرختم کرناآسان نہیں ہوتا۔ اس منفی صورتحال کوکسی صورت میں پھلنے پھولنے نہیں دینا چاہیے۔یہاں تک عرض کرونگاکہ خان صاحب،فیصل آباد، سیالکوٹ،گوجرانوالہ اور دیگرصنعتی شہروں میں مستند تاجر حضرات کواسلام آبادآنے کی دعوت دیں۔ان سے کھل کربات کریں۔ان کے مسائل کوحل کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔شائد زاہد اسلم کا شکوہ،وزیراعظم کی ٹیبل تک پہنچ جائے۔ شائد براہِ راست رابطے شروع ہوجائیں۔ شائداعتمادکی فضابحال ہوجائے!
Load Next Story