عجب آزاد مرد تھا
ادریس بختیار ہمیشہ خبر کی معروضیت ، خبرکی زبان اور ایجنڈا جرنلزم جیسے معاملات پر بحث و مباحثہ پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔
صحافت کبھی مشن تھا ، پھر صنعت میں تبدیل ہوا ، پھر پروفیشن بن گیا مگر خبرکی بنیاد معروضیت ہی رہی۔ صحافی کے سیاسی خیالات کو حالات و واقعات کے پس منظر اور تجزیہ کے لیے ضروری جانا گیا مگر خبر تحریر کرتے ہوئے غیر جانبداری اور حقائق ہی کو خبر قرار دینے کو لازمی سمجھا گیا۔
پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں صحافت ریاستی دباؤکا شکار رہی۔ ریاست نے اپنی مرضی کے مواد کو اخبارات کے ذریعے ترویج کو لازمی قرار دینے کی کوشش کی ، جس کی بناء پر اخبارات جدید اداروں میں تبدیل نہ ہوسکے۔ چند ہی اخبارات میں پروفیشنل ایڈیٹرکا ادارہ قائم ہوا۔ بیشتر اخبارات میں سرمایہ دارانہ کلچر ہی رائج رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ اخباری صنعت میں پروفیشنل صحافیوں کی تعداد انگلیوں پرگنی جاسکتی ہے۔
ان صحافیوں میں ایک ادریس بختیار تھے۔ ادریس بختیار حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق نچلے درمیانے طبقے سے تھا۔ ادریس کے والد ایک سیاسی کارکن تھے، وہ جنرل ایوب خان کے مقابلے پر فاطمہ جناح کے حامی تھے، یوں انھیں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ ادریس بختیار کی والدہ نے اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے دن رات محنت کی۔ ادریس بختیار بہن،بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، ان کو شروع سے ہی محنت کی عادت پڑگئی، سندھ یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی سے ایم اے کیا۔
ادریس بختیار جوانی میں مولانا مودودی کے نظریات سے متاثر ہوئے، سی ایس پی افسر بننے کا نہ سوچا مگر گھر کے حالات کی بنا پر حیدرآباد کے ایک انگریزی اخبار میں پروف ریڈر ہوگئے اور پھر باقاعدہ صحافی بن گئے، وہ 70ء کی دھائی میں کراچی آگئے۔ اس وقت جنرل یحییٰ خان کا دور تھا۔ پہلے 1970ء میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات ہوئے، سندھ اور پنجاب سے پیپلز پارٹی، سرحد اور بلوچستان سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام اور مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کامیاب ہوئی۔
جنرل یحییٰ خان نے اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا۔چند سیاسی اور سیاسی مذہبی جماعتوں نے جنرل یحییٰ خان کے مشرقی پاکستان میں ہونے والے ایکشن کی حمایت کی۔ ادریس بختیار اس وقت ایک خبررساں ایجنسی میں کام کرتے تھے۔ مارچ 1971ء میں آپریشن شروع ہوا۔ اخبارات پر سنسرشپ عائد کردی گئی پھر اخباری مالکان کی اس یقین دھانی پر کہ حکومت کی ہدایات پر مکمل عمل ہوگا سنسرشپ کو نرم کردیا گیا۔مقامی خبررساں ایجنسی غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوںسے خبریں لیتی تھی۔
مغربی خبررساں ایجنسیوں کے نمایندے مشرقی پاکستان کے حالات کی حقیقی منظرکشی کر رہے تھے۔ ادریس کو ان خبروں کے مطالعہ کا موقع ملا مگر یہ خبریں اخبارات کو ٹرانسمٹ نہیں ہوسکتی تھیں۔ ادریس بختیار کا کہنا تھا کہ یہ خبریں شایع ہوجاتیں تو مغربی پاکستان کی فضاء تبدیل ہو جاتی۔ ان کی خواہش تھی کہ اگر اس وقت کی خبریں دستیاب ہوں تو انھیں ایک کتاب کی شکل دی جائے تو ملکی سیاست کے طلبہ کے لیے یہ کتاب ایک خزانہ ثابت ہوگی۔
ادریس بختیار سیاسی رہنماؤں کی گفتگو سے اندازہ لگالیتے کہ اس سیاسی رہنما کی سیاست پر کتنی گرفت ہے۔ ادریس بختیار کو 70ء کی دہائی سے جاننے والے محمودلئیق اپنی یادداشتوں کو جمع کرکے کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرکا عہدہ سنبھالا تو ان کی حکومت نے کچھ بنیادی اقدامات کیے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں بھٹو حکومت پر تنقید کی۔
لیاقت آباد سے قومی اسمبلی کے رکن پروفیسر غفور احمد جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا اب تک سیاسی منظر نامے میں گمنام تھے۔ اس پریس کانفرنس سے پروفیسر غفورکے علاوہ کئی اور پرانے رہنماؤں نے خطاب کیا مگر پروفیسر غفور نے مدلل استدلال اختیار کیا۔ ادریس بختیار نے اس پریس کانفرنس کو مکمل طور پرکورکیا۔ وہ پریس کانفرنس کے بعد کراچی پریس کلب آئے تو انھوں نے پروفیسر غفور کی صلاحیتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے پیشگوئی کی تھی کہ یہ صاحب ملک کے بڑے سیاسی رہنما بنیں گے، ادریس کی مردم شناسی حیرت انگیز تھی۔ چند ماہ بعد ہی پروفیسر غفور کا شمار حزب اختلاف کے اہم رہنماؤںمیں ہونے لگا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف چند افسروں نے بغاوت کی کوشش کی۔ ان افسروں کے خلاف اٹک قلعہ میں مقدمہ چلا، ضیاء الحق اس عدالت کے سربراہ تھے۔ ادریس نے اس مقدمہ کی پوری کارروائی کور کی۔ اگرچہ عدالت کی کارروائی کی رپورٹنگ ایک مشکل کام تھا مگر ادریس نے عدالتی کارروائی کو اس طرح معروضی انداز میں پیش کیا کہ کسی فریق نے بھی اس رپورٹنگ پر اعتراض نہیں کیا۔
1978ء میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے منہاج برنا کی قیادت میں حزب اختلاف کے اخبارات پر پابندیوں کے خلاف تحریک چلائی۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کا ایک گروہ تحریک سے علیحدہ ہوا اور اپنی پی ایف یو جے قائم کرلی۔ ادریس بختیار بھی اس پی ایف یو جے کا حصہ بن گئے۔ اس پی ایف یو جے کے کئی رہنما جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔ کچھ نے پلاٹ اور دیگر مراعات حاصل کیں مگر ادریس نے کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں کیا۔
ان کے پاس ویسپا اسکوٹر تھی۔ وہ لیاقت آباد کے قریب ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے۔ بڑے مشکل حالات میں بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے تھے۔ ادریس کے تعلقات میں نظریاتی تفریق کبھی حائل نہیں ہوئی۔ ان کے دوستوں میں معروف کمیونسٹ لا مذہب مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔ ان کے حیدرآباد کے دوستوں کا کہنا ہے کہ نوجوانی سے ان کے دوستوں میں مخالف نظریات رکھنے والے شامل تھے۔
ادریس کو اپنے ان دوستوں سے تعلقات پر ہمیشہ فخر رہا۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سہیل سانگی کہتے ہیں کہ ادریس سے پہلی ملاقات پی این اے کی تحریک کے دوران ہوئی اس وقت وزیراعظم بھٹو نے دوبارہ انتخابات کا اعلان کیا تھا ،ادریس انتخابات کی کوریج کے لیے حیدرآباد آئے تھے،اس دن سیاسی صورتحال پر گرما گرم بحث ہوئی مگر ادریس نے بحث میں یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ میرے نظریات کے مخالف ہیں، سہیل کہتے ہیں''ہماری دوستی میں کبھی نظریاتی سرحدیں آڑے نہیں آئیں''۔
راقم الحروف کو 1985ء میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے افسر تعلقات عامہ کا عہدہ مل گیا تو پہلے دن میری باس نے جو ایک سی ایس پی افسر تھی مجھے دو فائلیں مطالعہ کے لیے دیں۔ ایک فائل میں ان صحافیوں کے نام تھے جو اتھارٹی کے پسندیدہ تھے۔ یہ صحافی اتھارٹی سے مالیاتی اور دیگر مراعات حاصل کرتے تھے۔ دوسری فائل ان صحافیوں کی تھی جو مجاز حکام کی نظر میں بلیک لسٹ تھے۔ ان صحافیوں میں ادریس بختیار ، ظفر عباس اور قیصر محمود شامل تھے۔ ادریس بختیار نے ایوان ہائے صنعت و تجارت کا سی اے اے کے بارے میں وائٹ پیپر شام کے اخباراسٹار میں خبر کی صورت میں شایع کیا۔ انھوں نے اس خبر پر مؤقف حاصل کرنے کے لیے ڈائریکٹر جنرل کے دفتر پر ٹیلی فون کیا مگر ان کا ٹیلی فون نہیں سنا گیا۔
خبر کی اشاعت پر سی اے اے میں تہلکہ مچ گیا۔ حکام بالا نے تحقیقات کیں اور ادریس کا ٹیلی فون نہ اٹھانے کی ذمے داری ایک خاتون سیکریٹری پر عائد کی۔ راقم الحروف کو ایک اہلکار نے بتایا کہ اس لڑکی کی برطرفی ایک صورت میں رک سکتی ہے کہ ادریس بختیار واضح کریں کہ ان کی اس سیکریٹری سے بات نہیں ہوئی تھی۔ جب شام کو کراچی پریس کلب میں میں نے ادریس کو اس صورتحال سے آگاہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ کسی بھی شخص کے سامنے پیش ہو کر اس بات کی وضاحت کے لیے تیار ہیں کہ اس سیکریٹری سے ان کی بات نہیں ہوئی تھی، یوں ادریس کے اس اعلان کی خبر سی اے اے کے حکام کو ملی اور اس لڑکی کی ملازمت بچ گئی۔
ادریس بختیار ہمیشہ خبر کی معروضیت ، خبرکی زبان اور ایجنڈا جرنلزم جیسے معاملات پر بحث و مباحثہ پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ انھوں نے وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے تحت ابلاغ عامہ سے متعلق ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اپنی معروضات تحریری طور پر پیش کیں، پھر بغیر کسی معاوضہ کے کانفرنسوں میں مقالوں کا ترجمہ اور ان کی ادارت کی ذمے داری سنبھالی اور اپنی بیماری کے باوجود اس تھکا دینے والے کام کو تکمیل تک پہنچایا۔
گزشتہ دو برسوں کے دوران میڈیا کے بحران سے ادریس خاصے دلبرداشتہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس بحران کا مقابلہ کرنے والی صحافیوں کی تنظیمیں بے اثر ہوچکی ہیں، ادریس اس بحران کا شکار ہوئے۔ ادارے نے ادریس کو اچانک برطرف کردیا، ان سے ملنے والے دور ہونے لگے۔ ایک سینئر صحافی کے ساتھ ایسا سلوک تاریخ کا سیاہ باب ہے ۔ یہ صدمہ انھیں موت کے دروازے تک لے گیا۔ادریس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے جیسا غالب نے کہا تھا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا