حساب دوستاں درد دل
ہمارے سادہ لوح رہنما افراد اور جماعتوں کا احتساب توکرتے ہیں، لیکن اس کا دیرپا فائدہ نہیں ہوتا۔
ویسے تو جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے،کسی نہ کسی سطح پر لوٹ مارکا بازار گرم ہے، لیکن 1988 میں جب ملک جمہوری ہوگیا کرپشن کا آغاز ہوگیا۔ اصل میں کرپشن نہ افراد کا کیا دھرا ہے نہ جماعتوں کا ،کرپشن دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔
ہمارے سادہ لوح رہنما افراد اور جماعتوں کا احتساب توکرتے ہیں، لیکن اس کا دیرپا فائدہ نہیں ہوتا۔ ایک کرپٹ گروہ جاتا ہے دوسرا آجاتا ہے، اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کرپشن کا براہ راست نقصان عوام کو ہوتا ہے کیونکہ کرپشن میں استعمال ہونے والی بھاری دولت عوام کی محنت کی کمائی ہوتی ہے۔اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ کرپشن میں لوٹی جانے والی اربوں کی دولت ان کی محنت کی کمائی ہوتی ہے ، اس طرز عمل کا نام عوام کی سیاسی شعور سے محرومی ہے۔
آج کل کرپٹ اشرافیہ کے احتساب کا موسم ہے بڑے بڑے بت پابند سلاسل ہیں اور شدید ذلت سے دوچار ہیں لیکن بہادری یا بے حیائی کی بات یہ ہے کہ ان کے ہونٹوں پر پھیکی ہی سہی شرم آلود مسکراہٹ ضرور ہوتی ہے اور دوسری کمال کی بات یہ ہے کہ جب یہ حضرات پیشیاں بھگتنے کے لیے کورٹ جاتے ہیں تو ان کی قیمتی گاڑیاں گلاب کے پھولوں سے اٹی ہوئی ہوتی ہیں اور ایلیٹ کی گاڑیوں کو گلاب سے سجانے والے ''عوام'' ہی ہوتے ہیں لیکن یہ عام عوام نہیں ہوتے بلکہ خواص عوام ہوتے ہیں جن کی جیبیں اس مزدوری سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔
پچھلے دس سالوں کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ ان دس برسوں میں اتنی بھاری کرپشن کی گئی کہ 61 سال کی مجموعی کرپشن اس دس سالہ کرپشن کے سامنے ماند پڑجاتی ہے۔ ہماری اشرافیہ زندگی میں پہلی بار کرپشن کے بلکہ ناقابل یقین بھاری کرپشن کے الزامات میں پابند سلاسل ہے لیکن ان کے چہروں پر ایک مسکراہٹ ضرور ہوتی ہے، عوام ان کی ''بہادری'' دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔
ہمارے ایک محترم قائد فرما رہے ہیں کہ جھگڑے وگڑے، حساب کتاب، چھوڑو آگے کی طرف دیکھو۔ یہ مشورہ یقینا صائب ہے لیکن ہمارا کپتان کہہ رہا ہے کہ بھلے حکومت چلی جائے یا جان چلی جائے ''ان کو نہیں چھوڑوں گا'' فریق مخالف بھی ان پہاڑوں کے درمیان سے نکلنے کے سو سو جتن کر رہے ہیں برادر ملکوں کے دوست حکمرانوں کی سفارشیں لائی جا رہی ہیں ''اندر'' سے بھی دباؤ کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ لیکن لگ رہا ہے کہ اس بار ساری کوششیں ناکام ہو رہی ہیں کیونکہ احتساب کا دائرہ سکڑ نہیں رہا بلکہ پھیل رہاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دولت کی اندھی ہوس انسان کو نڈر بنا دیتی ہے لیکن ہر جرم کی دیر سے ہی سہی سزا ضرور ملتی ہے اور اس بار بائیں کندھے پر بیٹھنے والے فرشتے بھی بہ ضد نظر آتے ہیں کہ اب حساب کتاب ہر صورت میں ہوکر رہے گا۔ اس صورتحال سے اشرافیہ بہت پریشان ہے کہ صورت حال کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ ''نہ پائے رفتن ہے نہ جائے ماندن۔''
ہمارے معاشرے میں میڈیا کا بہت اہم کردار ہوتا ہے ، عشروں سے میڈیا کے بعض کارکن اپنی پیشانی پر ''برائے فروخت'' سجائے پھر رہے ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے بلکہ زیادہ تن دہی سے جاری ہے لیکن جو ہوا آج کل چل پڑی ہے اس میں برائے فروخت والوں کی بھی دال گلتی نظر نہیں آرہی ہے۔
ہماری اشرافیہ کی ایک عادت ہے اور یہ عادت اب اس کی اولاد میں بھی آگئی ہے کہ جب وہ راستوں سے گزرتے ہیں تو مسکراتے ہوئے عوام کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہیں یہ شہنشاہوں کا وتیرہ رہا ہے کہ جب وہ محل سے نکل کر سڑکوں پر آتے یا محلوں کی بالکونیوں میں کھڑے ہوکر اس طرح ہاتھ ہلاتے تھے جیسے کہہ رہے ہوں کہ مابدولت رعایا سے خوش ہیں۔ اب مابدولتوں کو گزرے ہوئے سیکڑوں سال ہو رہے ہیں لیکن ہمارے جمہوری مابدولت ہی نہیں بلکہ ان کی اولاد بھی ہاتھ ہلانے کی شاہانہ عادت میں مبتلا ہے۔
اصل قصہ یہ ہے کہ بے چارے عوام شاہوں، شہنشاہوں کے دور میں بحیثیت رعایا جس احساس کمتری کا شکار تھے آج کے جمہوری دور میں بھی اسی احساس کمتری کا شکار ہیں اور شاہوں کو اور ان کی کچی پکی آل اولاد کو دیکھ کر تالیاں بجاتی ہے لیکن اب یہ تالیاں بجانے والوں کی تعداد قوالوں کے پیچھے بیٹھ کر تالیاں بجانے والوں سے زیادہ نہیں۔ اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ اصلی تالی مار بہت تھوڑے رہ گئے ہیں اب جوتے ماروں کا کلچر آگے آرہا ہے اور اب عزت سادات سخت خطرے میں ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی حکمران عوام کو یہ بتانے والا نہیں آیا کہ قوت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں لوٹ مار کسی نہ کسی سطح پر ہمیشہ جاری رہی ہے لیکن پچھلے دس سال کی لوٹ مار نے 71 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے لوٹ مار کی دولت رکھنے کی جب جگہ کم پڑ گئی تو ہماری محترم اشرافیہ نے رکشے والوں، سبزی بیچنے والوں کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے ڈال دیے اور نکال لیے، بے چارے روٹی کپڑے سے محتاج غریب عوام حیران ہیں کہ وہ راتوں رات کروڑ پتی اور ارب پتی کیسے بن گئے۔ یہاں ہمارے ذہن میں شمی کپور کے وہ جملے گونجتے ہیں جو وہ اپنے جیسے سابق پھکڑ حال امیر دلیپ کمار کو دیکھ کر بار بار یہ سوال کرتا ہے کہ ''یار! تو امیرکیسے بن گیا؟''
شاہوں اور شہنشاہوں سے لے کر آج کے شاہوں اور شہنشاہوں سے غریب عوام یہ پوچھ رہے ہیں کہ یار! تو ارب پتی کیسے بن گیا؟ دلیپ کمار اس فلم میں ٹرین میں کوئلہ جھونکنے والا ریلوے انجن کے ڈرائیور کا ہیلپر تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بن گیا۔ اس انقلاب سے بے چارہ شمی کپور حیران رہ جاتا ہے اور بار بار دلیپ کمار سے پوچھتا ہے ''یار! تو امیر کیسے ہوگیا؟'' ہمیں پتا نہیں شمی کپور زندہ ہے یا بھگوان کو پیارا ہوگیا، اگر زندہ ہے تو پاکستان آئے اور ہماری اشرافیہ کے شاہوں، شہزادوں سے وہی سوال دہرائے کہ ''یار! تو امیر کیسے ہوگیا؟'' ہماری اشرافیہ پہلے کروڑ پتی تھی تو اب جمہوریت کی مہربانی سے ارب پتی بن گئی ہے ہمارے عوام سوال کر رہے ہیں '' حضور! آپ کروڑ پتی سے ارب پتی کیسے بن گئے؟''