بڑھوتری اور عدم مساوات
حکومت سمجھتی ہے کہ پاکستان میں سارے لوگ رجسٹرڈ ہیں اور ان سب سے ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے۔
سترکے عشرے کے آخری سال کی بات ہے، میں ایک ہفت روزہ رسالے میں کام کر رہی تھی ۔ وہاں ایک دن مجھے ''منشور'' رسالے کے ساٹھ کی دہائی کے کچھ شمارے مل گئے۔ ان میں ایک بجٹ کے بعد شایع ہو نے والا شمارہ بھی تھا۔ میں بجٹ کے بارے میں شایع ہونے والا مضمون پڑھ کر حیران رہ گئی۔اس میں وہی واویلا تھا جو ہر سال بجٹ پیش ہونے کے بعد مچتا ہے۔ گویا عوام دوست بجٹ کبھی پیش ہی نہیں ہوا۔
حالیہ بجٹ پیش ہونے کے بعد سول سوسائٹی کے دو تھنک ٹینکس نے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا جس میں حفیظ اے پاشا کی کتاب ''پاکستان میں بڑھوتری اور عدم مساوات، ایجنڈا برائے اصلاحات''کی رونمائی بھی ہوئی۔کتاب اور بجٹ کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کے بارے میں بھی باتیں ہوئیں۔
ایس ڈی پی آئی کے جبار صاحب کا کہنا تھا کہ موجودہ بجٹ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حکومت سمجھتی ہے کہ پاکستان میں سارے لوگ رجسٹرڈ ہیں اور ان سب سے ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے۔ فیڈرل گورنمنٹ کی آئینی تشریح کی تبدیلی کی بات بھی ہو رہی ہے تا کہ ایف بی آرکو بھی اس میں شامل کرکے اس کے اختیارات میں اضافہ کیا جا سکے۔ان کی رائے میں ٹیکس جوڈیشل سسٹم کو الگ کرنا چاہیے۔ان کی رائے میں موجودہ مالی سال میں اقتصادی بڑھوتری کی رفتار سست جب کہ افراط زر میں اضافہ ہوا ہے۔ قومی پیداوار اور سرمایہ کاری کا باہمی تناسب بہتر نہیں ہوا۔ اقتصادی سرگرمی کمزور اور ٹیکس کی سرگرمی بڑھے گی۔
بڑے پیمانے کی مینو فیکچرنگ تنزلی کا شکار ہے۔خسارے کی مالیات کاری کے تقاضے بڑھ رہے ہیں۔ ٹیکس کی بہت سی مراعات واپس لے لی گئی ہیں۔اسٹرکچرل ریفارم کا ایجنڈا سامنے آچکا ہے۔بجٹ میں برآمدات اور باہر سے آنے والی رقومات میں اضافہ بھی غیر واضح ہے۔نجکاری کی وجہ سے کچھ آمدنی ہوگی۔ دوست ممالک بھی کچھ مدد کریں گے۔آئی ایم ایف نے بھی سیفٹی نیٹ کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے، لیکن انرجی کے شعبے میں انھیں اپنی لاگت کی پوری ریکوری چاہیے۔این ایف سی ایوارڈ میں بھی تبدیلی کی بات ہو رہی ہے۔منی لانڈرنگ کے خلاف قانون بھی متوقع ہے۔سرکاری ملکیت والے اداروں کے نقصان کو بھی کم کرنا ہوگا، مزید قرضے لینے پڑیں گے۔ہمارے ہاں ٹیکس کے معاملے میں بالواسطہ ٹیکسوں پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے ۔ پی ایم ایل نے ٹیکسوں میں جو چھوٹ دی تھی اسے واپس لے لیا گیا ہے۔
قیصر بنگالی نے بجٹ پر بات کرنے سے پہلے حفیظ پاشا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے ایک مضمون کارکردگی بالمقابل بڑھوتری یا ترقی کا ذکرکیا جس کا اقتصادی انصاف کا پیغام ہمیشہ ان کے لیے مشعل راہ بنا رہا۔ بجٹ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ یک نکاتی بجٹ ہے یعنی لوگوں کی جیب سے پیسے کیسے نکالیں۔ یہ بجٹ معیشت کی جان نکال دے گا۔یہ ایک استحصالی بجٹ ہے، ٹیکس افسران لوگوں کو لوٹیں گے۔اس لوٹ کھسوٹ کی ابتدا 2000 ء میں مشرف کے دور سے ہوئی تھی۔ان کے بقول اسٹیٹ بینک اور متعلقہ وزارتوں میں شوکت عزیز کے زمانے سے لے کر اب تک میر جعفر بھرے پڑے ہیں۔ یہ سیاسی بحران ہے، یہ سیاسی اور اقتصادی اقتدار اعلیٰ کی جنگ ہے۔ہماری اشرافیہ بکنے والی جنس ہے۔ ان کے خاندان، ان کے اکاؤنٹس ، ان کی جائیداد سب بیرون ملک ہے۔یہاں کچھ ہوا تو یہ باہر بھاگ جائیں گے۔
مفتاح صاحب کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنے لیے جو ہدف مقررکیا ہے ،اس کا حصول ناممکن ہے۔ہمیں چین سے سولہ بلین مل جائینگے، دو بلین کی برآمدات ہونگی لیکن دوسری طرف ہم دالوں اورکھانا پکانے کے تیل سے لے کر ہر چیز درآمد کررہے ہیں۔اس لیے ہم کرنسی کی قیمت گرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، گزشتہ حکومت کے دور میں ایک پاکستانی 143 ڈالر کما رہا تھا ۔آج وہ107 ڈالر کما رہا ہے۔یعنی لیبر سستی ہوگئی ہے ، باقی سب کچھ مہنگا ہوگیا ہے۔ ہم نے اپنی صنعتی بنیاد کو نہیں بڑھایا جب کہ جاپان، سنگا پور،کوریا اور چین نے برآمدات کی بنیاد پر ترقی کی ، یہاں تک کہ بنگلہ دیش بھی برآمدات کی بنیاد پر ترقی کر رہا ہے لیکن ہم نے اس طرف دھیان نہیں دیا۔ہمیں اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہو گا۔
اکیڈیمیا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون استاد کا کہنا تھا کہ اقتصادی میدان میں ہم سے تین غلطیاں ہوئی ہیں۔
ستر کی نیشنلائزیشن کی پالیسی۔
ایٹمی دھماکے کے بعد فارن کرنسی اکاؤنٹ کو منجمد کرنا۔
کنزیومر فنانسنگ(بینکوں سے پیسا نکالنے کی جلدی)
ہمارے اخراجات بڑھ رہے ہیں اور آمدنی گھٹ رہی ہے۔پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ کی بات ہو رہی ہے لیکن ڈیم کے معاملے میں ہم نے کیا کیا۔ حکومت میڈیا پروجیکشن پر اتنا پیسا کیوں خرچ کرتی ہے۔
خاتون پروفیسر کا کہنا تھاکہ آب وہوا یا کلائمٹ چینج اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے لیکن اس حوالے سے جو قانون بننے جارہا ہے،اس کا پاکستان کے زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔
آخر میں حفیظ پاشا کے اصلاحاتی ایجنڈے کا کچھ ذکر ہو جائے:
معیشت کی بحالی کے لیے سب سے پہلے زراعت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ زراعت کے لیے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہے۔ نہری نظام اور آبیانے کی وصولی کو بہتر بنانا ہوگا ، حکومت کو سبسڈی دینا ہو گی،کھاد کی قیمت میں اضافہ نہ ہونے دیا جائے،کسانوں کو قرضے فراہم کیے جائیں۔
مینوفیکچرنگ کے شعبے کو بہتر بنایا جائے۔ ٹیرف میں پچیس فیصد اضافہ کیا جائے۔ صنعتی شعبے پر ٹیکس کا بوجھ مناسب حد کے اندر رکھا جائے۔
سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے۔اس کے لیے مالی ترغیبات اور اسپیشل ٹیکس ہالیڈے دی جائیں۔
عوامی ترقیاتی اخراجات کے لیے عمل در آمد کی استعداد بہتر بنائی جائے۔ترقیاتی پراجیکٹس کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔
سی پیک کے پراجیکٹس میں چین کی مکمل رعایتی فنانسنگ حاصل کی جائے۔
نجکاری سے فائدہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہمارے پاس خود مختار ، موثر اور چوکس ریگولیٹری ایجنسیز موجود ہوں جو سیاسی اثرو رسوخ سے آزاد ہوں اور انھیں عدالتی اختیارات حاصل ہوں۔نجکاری میں ملازمین کے مفادات کا تحفظ ضروری ہے۔
روزگارکے مواقع پیدا کیے جائیں۔کرنسی 140A کی قدرکم کرنے سے ڈالر کے مقابلے میں ملازمین کی اجرتیں کم ہو جاتی ہیں۔
پاکستان کے لیے لیبر قوانین اور کنونشنز پر عمل کرنا ضروری ہے۔اس کے لیے لیبر انسپکٹر مقررکیے جائیں اور لیبر کورٹس قائم کیے جائیں۔حکومت کو لیبر ایپلیٹ ٹریبونل بھی بنانے چاہئیں۔
ادائیگیوں کے توازن کو مستحکم بنایا جائے۔ برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔درامدات میں کمی کی جائے۔
بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔
پبلک فنانسز کی مینجمنٹ کے لیے ٹیکس ریفارمزکی جائیں۔
بجٹ کے خسارے کو کنٹرول کیا جائے۔
حکومتی قرضوں کی مینجمنٹ میں پائے جانے والے نقائص کو دور کیا جائے۔وزارت فنانس کی استعداد بڑھائی جائے۔قومی بچت کی اسکیموں کو پرکشش بنایا جائے۔
وفاق کو مضبوط بنایا جائے۔ اٹھارویں ترمیم پر عمل کیا جائے۔مقامی حکومتوں کے صوبائی قوانین آئین کی دفعہ 140A کے مطابق ہونے چاہئیں۔
نویں این ایف سی ایوارڈ میں یہ بات مانی جائے کہ صوبائی حکومتیں اب فنڈز کے معاملے میں مکمل طور پر با اختیار ہیں۔
انسانی ترقی کی رفتار کو تیز کیا جائے، پائیدار ترقیاتی مقاصد کو پورا کیا جائے، عدم مساوات کو کم کیا جائے۔ ریاست کو اشرافیہ کے پنجوں سے چھڑایا جائے۔آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو ختم کیا جائے،ذاتی آمدنی کی سب سے زیادہ غیر مساوی تقسیم سندھ میں ہے جب کہ خیبر پختونخواہ میں یہ فرق بہت کم ہے۔اس لیے ذاتی آمدنی پر ٹیکس کی شرح سندھ میں زیادہ ہونی چاہیے۔
پاکستان کے مختلف صوبوں اور اضلاع میں انسانی ترقی کے اشارئیے مختلف ہیں۔صوبائی حکومتوں کو اپنے پسماندہ اضلاع کی ترقی کے لیے خصوصی ترقیاتی پروگرام بنانا ہونگے۔حکومت کو غربت کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہونگے۔ سماجی تحفظ کو وسیع کرنا ہو گا۔اٹھارویں ترمیم کے بعد سماجی بہبود کا کام صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔
اقتصادی ترقی کے لیے گڈ گورنینس ضروری ہے۔
یہ کتاب فریڈرک ایبرٹ اسٹفتنگ نے شایع کی ہے۔پاکستان کی ترقی میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔
حالیہ بجٹ پیش ہونے کے بعد سول سوسائٹی کے دو تھنک ٹینکس نے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا جس میں حفیظ اے پاشا کی کتاب ''پاکستان میں بڑھوتری اور عدم مساوات، ایجنڈا برائے اصلاحات''کی رونمائی بھی ہوئی۔کتاب اور بجٹ کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کے بارے میں بھی باتیں ہوئیں۔
ایس ڈی پی آئی کے جبار صاحب کا کہنا تھا کہ موجودہ بجٹ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حکومت سمجھتی ہے کہ پاکستان میں سارے لوگ رجسٹرڈ ہیں اور ان سب سے ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے۔ فیڈرل گورنمنٹ کی آئینی تشریح کی تبدیلی کی بات بھی ہو رہی ہے تا کہ ایف بی آرکو بھی اس میں شامل کرکے اس کے اختیارات میں اضافہ کیا جا سکے۔ان کی رائے میں ٹیکس جوڈیشل سسٹم کو الگ کرنا چاہیے۔ان کی رائے میں موجودہ مالی سال میں اقتصادی بڑھوتری کی رفتار سست جب کہ افراط زر میں اضافہ ہوا ہے۔ قومی پیداوار اور سرمایہ کاری کا باہمی تناسب بہتر نہیں ہوا۔ اقتصادی سرگرمی کمزور اور ٹیکس کی سرگرمی بڑھے گی۔
بڑے پیمانے کی مینو فیکچرنگ تنزلی کا شکار ہے۔خسارے کی مالیات کاری کے تقاضے بڑھ رہے ہیں۔ ٹیکس کی بہت سی مراعات واپس لے لی گئی ہیں۔اسٹرکچرل ریفارم کا ایجنڈا سامنے آچکا ہے۔بجٹ میں برآمدات اور باہر سے آنے والی رقومات میں اضافہ بھی غیر واضح ہے۔نجکاری کی وجہ سے کچھ آمدنی ہوگی۔ دوست ممالک بھی کچھ مدد کریں گے۔آئی ایم ایف نے بھی سیفٹی نیٹ کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے، لیکن انرجی کے شعبے میں انھیں اپنی لاگت کی پوری ریکوری چاہیے۔این ایف سی ایوارڈ میں بھی تبدیلی کی بات ہو رہی ہے۔منی لانڈرنگ کے خلاف قانون بھی متوقع ہے۔سرکاری ملکیت والے اداروں کے نقصان کو بھی کم کرنا ہوگا، مزید قرضے لینے پڑیں گے۔ہمارے ہاں ٹیکس کے معاملے میں بالواسطہ ٹیکسوں پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے ۔ پی ایم ایل نے ٹیکسوں میں جو چھوٹ دی تھی اسے واپس لے لیا گیا ہے۔
قیصر بنگالی نے بجٹ پر بات کرنے سے پہلے حفیظ پاشا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے ایک مضمون کارکردگی بالمقابل بڑھوتری یا ترقی کا ذکرکیا جس کا اقتصادی انصاف کا پیغام ہمیشہ ان کے لیے مشعل راہ بنا رہا۔ بجٹ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ یک نکاتی بجٹ ہے یعنی لوگوں کی جیب سے پیسے کیسے نکالیں۔ یہ بجٹ معیشت کی جان نکال دے گا۔یہ ایک استحصالی بجٹ ہے، ٹیکس افسران لوگوں کو لوٹیں گے۔اس لوٹ کھسوٹ کی ابتدا 2000 ء میں مشرف کے دور سے ہوئی تھی۔ان کے بقول اسٹیٹ بینک اور متعلقہ وزارتوں میں شوکت عزیز کے زمانے سے لے کر اب تک میر جعفر بھرے پڑے ہیں۔ یہ سیاسی بحران ہے، یہ سیاسی اور اقتصادی اقتدار اعلیٰ کی جنگ ہے۔ہماری اشرافیہ بکنے والی جنس ہے۔ ان کے خاندان، ان کے اکاؤنٹس ، ان کی جائیداد سب بیرون ملک ہے۔یہاں کچھ ہوا تو یہ باہر بھاگ جائیں گے۔
مفتاح صاحب کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنے لیے جو ہدف مقررکیا ہے ،اس کا حصول ناممکن ہے۔ہمیں چین سے سولہ بلین مل جائینگے، دو بلین کی برآمدات ہونگی لیکن دوسری طرف ہم دالوں اورکھانا پکانے کے تیل سے لے کر ہر چیز درآمد کررہے ہیں۔اس لیے ہم کرنسی کی قیمت گرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، گزشتہ حکومت کے دور میں ایک پاکستانی 143 ڈالر کما رہا تھا ۔آج وہ107 ڈالر کما رہا ہے۔یعنی لیبر سستی ہوگئی ہے ، باقی سب کچھ مہنگا ہوگیا ہے۔ ہم نے اپنی صنعتی بنیاد کو نہیں بڑھایا جب کہ جاپان، سنگا پور،کوریا اور چین نے برآمدات کی بنیاد پر ترقی کی ، یہاں تک کہ بنگلہ دیش بھی برآمدات کی بنیاد پر ترقی کر رہا ہے لیکن ہم نے اس طرف دھیان نہیں دیا۔ہمیں اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہو گا۔
اکیڈیمیا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون استاد کا کہنا تھا کہ اقتصادی میدان میں ہم سے تین غلطیاں ہوئی ہیں۔
ستر کی نیشنلائزیشن کی پالیسی۔
ایٹمی دھماکے کے بعد فارن کرنسی اکاؤنٹ کو منجمد کرنا۔
کنزیومر فنانسنگ(بینکوں سے پیسا نکالنے کی جلدی)
ہمارے اخراجات بڑھ رہے ہیں اور آمدنی گھٹ رہی ہے۔پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ کی بات ہو رہی ہے لیکن ڈیم کے معاملے میں ہم نے کیا کیا۔ حکومت میڈیا پروجیکشن پر اتنا پیسا کیوں خرچ کرتی ہے۔
خاتون پروفیسر کا کہنا تھاکہ آب وہوا یا کلائمٹ چینج اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے لیکن اس حوالے سے جو قانون بننے جارہا ہے،اس کا پاکستان کے زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔
آخر میں حفیظ پاشا کے اصلاحاتی ایجنڈے کا کچھ ذکر ہو جائے:
معیشت کی بحالی کے لیے سب سے پہلے زراعت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ زراعت کے لیے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہے۔ نہری نظام اور آبیانے کی وصولی کو بہتر بنانا ہوگا ، حکومت کو سبسڈی دینا ہو گی،کھاد کی قیمت میں اضافہ نہ ہونے دیا جائے،کسانوں کو قرضے فراہم کیے جائیں۔
مینوفیکچرنگ کے شعبے کو بہتر بنایا جائے۔ ٹیرف میں پچیس فیصد اضافہ کیا جائے۔ صنعتی شعبے پر ٹیکس کا بوجھ مناسب حد کے اندر رکھا جائے۔
سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے۔اس کے لیے مالی ترغیبات اور اسپیشل ٹیکس ہالیڈے دی جائیں۔
عوامی ترقیاتی اخراجات کے لیے عمل در آمد کی استعداد بہتر بنائی جائے۔ترقیاتی پراجیکٹس کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔
سی پیک کے پراجیکٹس میں چین کی مکمل رعایتی فنانسنگ حاصل کی جائے۔
نجکاری سے فائدہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہمارے پاس خود مختار ، موثر اور چوکس ریگولیٹری ایجنسیز موجود ہوں جو سیاسی اثرو رسوخ سے آزاد ہوں اور انھیں عدالتی اختیارات حاصل ہوں۔نجکاری میں ملازمین کے مفادات کا تحفظ ضروری ہے۔
روزگارکے مواقع پیدا کیے جائیں۔کرنسی 140A کی قدرکم کرنے سے ڈالر کے مقابلے میں ملازمین کی اجرتیں کم ہو جاتی ہیں۔
پاکستان کے لیے لیبر قوانین اور کنونشنز پر عمل کرنا ضروری ہے۔اس کے لیے لیبر انسپکٹر مقررکیے جائیں اور لیبر کورٹس قائم کیے جائیں۔حکومت کو لیبر ایپلیٹ ٹریبونل بھی بنانے چاہئیں۔
ادائیگیوں کے توازن کو مستحکم بنایا جائے۔ برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔درامدات میں کمی کی جائے۔
بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔
پبلک فنانسز کی مینجمنٹ کے لیے ٹیکس ریفارمزکی جائیں۔
بجٹ کے خسارے کو کنٹرول کیا جائے۔
حکومتی قرضوں کی مینجمنٹ میں پائے جانے والے نقائص کو دور کیا جائے۔وزارت فنانس کی استعداد بڑھائی جائے۔قومی بچت کی اسکیموں کو پرکشش بنایا جائے۔
وفاق کو مضبوط بنایا جائے۔ اٹھارویں ترمیم پر عمل کیا جائے۔مقامی حکومتوں کے صوبائی قوانین آئین کی دفعہ 140A کے مطابق ہونے چاہئیں۔
نویں این ایف سی ایوارڈ میں یہ بات مانی جائے کہ صوبائی حکومتیں اب فنڈز کے معاملے میں مکمل طور پر با اختیار ہیں۔
انسانی ترقی کی رفتار کو تیز کیا جائے، پائیدار ترقیاتی مقاصد کو پورا کیا جائے، عدم مساوات کو کم کیا جائے۔ ریاست کو اشرافیہ کے پنجوں سے چھڑایا جائے۔آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو ختم کیا جائے،ذاتی آمدنی کی سب سے زیادہ غیر مساوی تقسیم سندھ میں ہے جب کہ خیبر پختونخواہ میں یہ فرق بہت کم ہے۔اس لیے ذاتی آمدنی پر ٹیکس کی شرح سندھ میں زیادہ ہونی چاہیے۔
پاکستان کے مختلف صوبوں اور اضلاع میں انسانی ترقی کے اشارئیے مختلف ہیں۔صوبائی حکومتوں کو اپنے پسماندہ اضلاع کی ترقی کے لیے خصوصی ترقیاتی پروگرام بنانا ہونگے۔حکومت کو غربت کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہونگے۔ سماجی تحفظ کو وسیع کرنا ہو گا۔اٹھارویں ترمیم کے بعد سماجی بہبود کا کام صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔
اقتصادی ترقی کے لیے گڈ گورنینس ضروری ہے۔
یہ کتاب فریڈرک ایبرٹ اسٹفتنگ نے شایع کی ہے۔پاکستان کی ترقی میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔