کوچۂ سخن

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

غزل



کچھ شعر کشیدے ہیں ابھی آنکھ کے نم سے
یہ دیکھ لے کیا کام لیا ہے ترے غم سے
ہر بات پہ اپنی میں اٹھاتا رہوں قسمیں
یہ بات مجھے ٹھیک نہیں لگتی قسم سے
دنیا کی طرح تُو نے بھی الجھاؤ میں رکھا
مشکل سے میں نکلا ہوں تری زلف کے خم سے
پہلے ہی کسی کام کا اُس نے نہیں چھوڑا
اب جانیے کیا کام اسے پڑ گیا ہم سے
دنیا سے محبت کبھی پھر کی نہیں ہم نے
کچھ ایسے کرم ہم پہ ہوئے ایک ستم سے
آ جائیں گے ملنے جو طبیعت رہی اچھی
لوگوں کی طرح وعدے نہیں ہوتے ہیں ہم سے
(امجد عادِس۔ راولاکوٹ، آزادکشمیر)


۔۔۔
غزل



دُھواں کرو اگر بجھا ہوا ہے دل
اڑائو راکھ گر جلا ہوا ہے دل
تُو جس جگہ بٹھا کے چل دیا اِسے
ابھی تلک وہیں پڑا ہوا ہے دل
جناب نے جو رابطہ نہیں کِیا
سو شام سے مرا بجھا ہوا ہے دل
کہیں پہ اُس خمار کا بخار ہے
کہیں بیمار سا پڑا ہوا ہے دل
ادائے فرض و سنتِ حضور میں
ادا نہیں، مرا قضا ہوا ہے دل
ہے اس کا اندروں بہت پھٹا ہوا
رگیں الگ مگر سِلا ہوا ہے دل
(فاطمہ مہرو۔ لاہور)


۔۔۔
غزل



آ گیا عمر گنوا کر ترے اظہار کا پَل
راہِ دشوار ہوا اب ترے اقرار کا پل
ختم کر کے ابھی پہنچا تھا اسی نقطے پر
آ گیا سامنے پھر سے وہی پرکار کا پل
پھر سے اک بار بچانا ہے مجھے دشمن کو
جائے نہ ہاتھ سے میرے کہیں ایثار کا پل
اب کڑی دھوپ میں آیا ہے مجھے یاد بہت
کتنا پر کیف تھا وہ سایۂ دیوار کا پل
ایک سالار کی قسمت نہیں طاؤس و رباب
تخت لگتا ہے اسے ہر نئی یلغار کا پل
وہ تری ہار فقط جیت میں ڈھل سکتی تھی
تُو گنواتا نہ اگر ہاتھ سے رفتار کا پل
عقل نے کر تو دیا اپنی ضرورت کے تحت
پر مناسب نہ لگا مجھ کو یہ انکار کا پل
جب حقیقت سے ہوا سامنا ہر جذبے کا
آ گیا بیچ محبت کے بھی تکرار کا پل
ہر حقیقت کا سفر صورتِ آزار سہی
پر نہیں راحتِ جاں بھی گل و گلزار کا پَل
(شہزاد تابش۔ لاہور)


۔۔۔
غزل



کس طرح یاروں نے پوشیدہ خزانے ڈھونڈے
پھر یہی زخمِ دروں کون نہ جانے ڈھونڈے
ہم جو گزرے ہیں خرابے سے تو حیرت یہ ہے
جتنے ڈھونڈے ہیں محبت کے فسانے ڈھونڈے
ایک دن جان تو جانی تھی کسی طور سہی
کیا سے کیا اس نے بھی کھونے کے بہانے ڈھونڈے
اس کے پہلو میں ہیں تو رین بسیرا کر لیں
نت نئے کون، کہاں کس میں ٹھکانے ڈھونڈے
آج پھر میں نے کتابوں سے مہک پائی ہے
آج پھر میں نے کہیں پھول پرانے ڈھونڈے
آئے زانو میں تو سر دھر دیا اس کے آگے
اترے پہلو میں تو بازو کے سرہانے ڈھونڈے
(حمزہ ہاشمی سوز۔ لاہور)


۔۔۔
غزل



کروں میں اور کوئی دُوجا بھرے اچھا نہیں لگتا
مرا سایہ مری چغلی کرے اچھا نہیں لگتا
مری ہر بات کانوں سے مرے چھپ کر مجھے کہنا
مِرے کوئی بھی کانوں کو بَھرے اچھا نہیں لگتا
کہو کچھ بھی مگر اے یار مجھ سے جھوٹ مت کہنا
مِرا پیارا مِرے ہاتھوں مَرے اچھا نہیں لگتا
نبھایا کر زباں کا قول اے پاگل تُو مومن ہے
اگر مومن بھی الٹے پا پِھرے اچھا نہیں لگتا
مری گردن اڑا دو پر مری دستار رہنے دو
بِنا عزت کوئی زِیں سے گِرے اچھا نہیں لگتا
علی کی زیست کے دھاگے سمندر میں بہا ڈالو
کوئی ڈھونڈے مرے الجھے سِرے اچھا نہیں لگتا
(علی پیر۔ ساہیوال)


۔۔۔
غزل



رات گئے تک یوں ہی چلتا رہتا ہوں
ویرانی سے باتیں کرتا رہتا ہوں
میری چھاؤں میں بیٹھنے والے سوچ ذرا
سارا دن میں دھوپ میں جلتا رہتا ہوں
جیون مجھ کو روز گزارے جاتا ہے
میں ہوں کہ بس خاک اڑتا رہتا ہوں
میں نے اک دن جھوٹ کا لقمہ کھایا تھا
اب میں اکثر خون اگلتا رہتا ہوں
ایک عجب سا پیڑ بلاتا ہے مجھ کو
اور میں اس کے خوف سے ڈرتا رہتا ہوں
جب بھی میں نے تجھ سے ملنا ہوتا ہے
خود سے تیری باتیں کرتا رہتا ہوں
(طارق جاوید۔ کبیر والا)


۔۔۔
غزل



تمام عمر کا کوئی تو ہم نوا نکلے
خوشی نہیں تو کوئی غم ہی دیرپا نکلے
کچھ اس لیے بھی میں اک شخص سے نبھا رہا ہوں
مرے وجود میں جتنی بھی ہے وفا نکلے
میں اس لیے تری بستی کے پاس بیٹھ گیا
مری تلاش میں شاید تری صدا نکلے
ہے تیرگی سو ابھی چاند سے میں کہتا ہوں
کہ اپنے ہاتھ میں لے کر ذرا دیا نکلے

نہ جانے کون سی دنیا میں آ گیا عزمی
کہ جس سے ہاتھ ملائے وہی خدا نکلے
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے۔ گجرات)


۔۔۔
غزل



اداس راتوں کے اشک پی کر بڑا ہوا ہے
دیا ہوا کے مقابلے میں کھڑا ہوا ہے
عجب تو یہ ہے جو میری خاطر لکھا گیا تھا
نصیب اپنی مصیبتوں میں پڑا ہوا ہے
ضرورتیں ہیں کہ سَر پٹخنے پہ آ گئی ہیں
سکون اپنے مطالبے پر اڑا ہوا ہے
سمیٹتا ہوں بس ایک جملے میں شاعری کو
کسی کادکھ ہے ہمارے پلے پڑا ہوا ہے
اسی لیے تو یہ سچ سے آگے نکل گئے ہیں
وکیل لوگوں نے جھوٹ اچھا گھڑا ہوا ہے
شریر لہریں اداس نغمے سنا رہی ہیں
ضرور دریا کسی ندی سے لڑا ہوا ہے
ہمارے حصے میں کب رہا ہے یہ سبز موسم
ہمارا گلشن بہار رُت میں جھڑا ہوا ہے
یہاں معاشی نظام کیسے چلے گا ساجد
کہ شہر سارا تو شاعری میں پڑا ہوا ہے
(لطیف ساجد۔ حافظ آباد)


۔۔۔
غزل



کرائے پر یہاں کمرے تو ہیں مکان نہیں
تمہارا شہر ہے اور کوئی میزبان نہیں
تعلقات نوعیت کی بھینٹ چڑھتے رہے
سو آج دل میں اذیت ہے امتنان نہیں
لکیر پیٹنے والوں نے وقت ضایع کِیا
وہ سانپ پاس کیٹیلے کا پاسبان نہیں
ہمارے بیچ کوئی بات مشترک بھی تو ہو
کہ آرٹ، شعر، محبت میں اس کا دھیان نہیں
نگاہیں پاک صحیفے ہیں، ان چھوئے لب ہیں
مزید وہ مری جانب سے بدگمان نہیں
(عقیل عباس۔ منڈی بہاؤالدین)


۔۔۔
غزل



ڈر رہا تھا مجھے لگا میں ہوں
اور پھر اس نے کہہ دیا میں ہوں
ایک دن میں نے حسن کو جکڑا
ایک دن خواب نے کہا میں ہوں
مجھ کو لاحق ہے آگ لے آؤ
چوں کہ شعلے کا مسئلہ میں ہوں
داستاں سن سنا کے لوٹ گئے
وہ پتنگے جنہیں دیا میں ہوں
جو مجھے چاہتے ہیں، چاہتے ہیں
ہر کسی کو کہاں روا میں ہوں
(نعیم رضا بھٹی۔ منڈی بہاؤالدین)


۔۔۔
غزل



سات سمندر پار سے آنا بنتا ہے
یار مَرے تو حشر اٹھانا بنتا ہے
میں نے تیری خاطر دنیا چھوڑی تھی
تیرا مجھ کو چھوڑ کے جانا بنتا ہے
کچھ نہ کچھ تو چال چلن میں ہوتا ہے
ایسے کوئی کب افسانہ بنتا ہے
تیرا سارا شہربھرا ہے رندوں سے
میرا ہی کیوں جام نشانہ بنتا ہے
مشکل سے ہی ہاتھ فقیری آتی ہے
مشکل سے ہی عشق ٹھکانہ بنتا ہے
(ناصر چوہدری۔ راولپنڈی)


۔۔۔
غزل



قبیلہ عشق کا میرے خلاف ہو رہا تھا
روایتوں سے بڑا انحراف ہو رہا تھا
پھر ایک ہجر کا احرام لا تھمایا گیا
دیارِ درد کا پہلا طواف ہو رہا تھا
میں عین سیڑھیوں پہ بیٹھا مسکرا رہا تھا
مر ے وجود پہ جب ہاتھ صاف ہو رہا تھا
قبائے زرد نے پیڑوں کو ڈھانپ رکھا تھا
برہنہ شاخ پر موسم غلاف ہو رہا تھا
یہ دستکیں مری بنیاد تک ہلا رہی تھیں
کہ جسم و جان میں جیسے شگاف ہو رہا تھا
کئی بلاؤں نے گھیرے میں لے رکھا تھا مجھے
کسی کی یاد کا جب اعتکاف ہو رہا تھا
یہ وقت رک گیا طاہر مرے دریچے پر
سو میرے ہونے کا یوں اعتراف ہو رہا تھا
(طاہر بلوچ۔ ملتان)


۔۔۔
غزل



بھلے کا بدلہ بھلا ملے گا جو تم کسی کا بھلا کرو گے
بڑوں کا کہنا ہی سچ ہے یارو بُرا کرو گے بُرا بھرو گے
خدا سے ڈرتا ہے جو بھی یارو، جہاں میں اس کو نہ ڈر کسی کا
جو ڈر خدا کا نہ تم کو ہو گا تو ہر کسی سے سدا ڈرو گے
وہی ہے مالک، وہی ہے خالق، وہی ہے داتا، وہی ہے رازق
وہ تم کو روزی بڑھا کے دے گا جو شکر اس کا ادا کرو گے
جو اس کے احکام تم نہ مان تو اس کی عظمت تو کم نہ ہو گی
عذاب نازل تمھی پہ ہو گا، یہ اپنے حق میں بُرا کرو گے
سبھی یہ باتیں بجا ہیں طاہرؔ ذرا یہ اپنے لیے بھی سوچو
بجز خرافات کیا ہے دامن میں حشر میں تم بھی کیا کرو گے
(ملک محمد سلیم طاہر۔ خانیوال)


۔۔۔
غزل
عجب سی برف زادی ہے
کسی سورج کی عادی ہے
گھنے جنگل سے آئی ہے
سُنا ہے، شاہزادی ہے
پہنچ میری خدا تک ہے
مجھے ماں نے دعا دی ہے
زمیں اک لاش تھی میں نے
سمندر میں بہا دی ہے
حجازی مر گیا اپنا
محلے میں منادی ہے
(نذیر حجازی۔ نوشکی، بلوچستان)


کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچۂ سخن''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk
Load Next Story