پی پی ایل تنازعات کا شکار سیاسی دلچسپی نظر نہیں آتی

2008سے ادارے پر سوالات اٹھ رہے ہیں، انتظامیہ اقدامات کا دفاع کررہی ہے۔


Zafar Bhutta June 29, 2019
2008سے ادارے پر سوالات اٹھ رہے ہیں، انتظامیہ اقدامات کا دفاع کررہی ہے فوٹو : فائل

لاہور:

ریاستی ادارہ پاکستان پٹرولیم (پی پی ایل) حکومتوں کی عدم دلچسپی کے باعث 2008 سے بدانتظامی اور تنازعات کا شکار ہے جب کہ اس عرصے میں کمپنی نے ایسے کئی اقدامات کیے ہیں جن پر سوالیہ نشان لگ چکے ہیں۔


2008اور2009میں کمپنی نے جنگ زدہ یمن اور عراق سے 100ملین ڈالرکے کاروباری معاہدے کیے۔ 2012 میں پی پی ایل نے ایم این ڈی ایکسپلوریشن اور پروڈکشن نامی چھوٹی کمپنی 180ملین ڈالر میں خریدی جبکہ ماہرین کے مطابق اس کمپنی کی مالیت40سے 50ملین ڈالر تھی۔2013میں پی پی ایل نے ایک چھوٹا ایل پی جی پلانٹ 100ملین ڈالر میں خریدا جبکہ اس پلانٹ کئی گنا زیادہ پیداوار دینے والا پلانٹ پاکستانی کمپنی نے 200ملین ڈالر میں لگایا۔

پی پی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن ندیم قریشی نے بطور چیئرمین آڈٹ کمیٹی ایم این ڈی ایکسپلوریشن کی خریداری میں100ملین ڈالر کے گھپلے کی نشاندہی کی جس پر انھیں بورڈ کی رکنیت سے برطرف کردیا گیا۔

ایک سوال پر پی پی ایل کے ترجمان نے بتایاکہ معاہدے کے وقت یمن ایک محفوظ اور پرامن ملک تھا، حالات بہتر ہونے پرہمیں فائدہ ہوگا۔ عراق تیل کی دولت سے مالامال ملک ہے، یہاں سیکیورٹی معاملات قابل کنٹرول ہیں۔ ایم این ڈی ایکسپلوریشن کی خریداری کا معاملہ نیب کی زیرتفتیش ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں