ممنون حسین میری نظر میں
4 نومبر 1993ء کو میں بحیثیت ہائی کورٹ جج ریٹائر ہوا، کچھ دن تو میں اپنی بیٹی حنا ؔکے پاس امریکا چلا گیا، کئی مہینے ...
پشاور:
4 نومبر 1993ء کو میں بحیثیت ہائی کورٹ جج ریٹائر ہوا، کچھ دن تو میں اپنی بیٹی حنا ؔکے پاس امریکا چلا گیا، کئی مہینے خوب گھوما، اس عرصے میں نانا بھی بن گیا، واپس آیا تو پھر سے وکالت شروع کر دی، اُس دوران میری غیر موجودگی میں میرے دوسرے ساتھی وکلاء میرے چیمبر کو سنبھالے ہوئے تھے۔ میرے پاس سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے مقدموں کے علاوہ ثالثی کے لیے بھی کئی کیس تھے، جن میں سے بیشتر نمٹا دیے، ان کی جگہ دوسرے آ گئے ، ستمبر 1999ء کی بات ہے کہ میں، محتسبِ سندھ مقرر ہوا جس کا ذکر اپنی خود نوشت ''جاگتے لمحے'') (2012، ناشر فیروز سنز میں کیا ہے، وہ اس طرح کہ ''گورنر ہائوس سے فون آیا کہ گورنر ممنون حسین مجھ سے ملنا چاہتے ہیں' میری ممنون صاحب سے صرف علیک سلیک تھی۔
ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ وہ مجھے سندھ کا محتسب بنانا چاہتے ہیں' میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے مجھے اس قابل سمجھا، ساتھ ہی ساتھ میں نے معذرت کی کہ میرے پاس کئی ثالثی کے کیس چل رہے ہیں' فریقین نے مجھ پر اعتماد کر کے ثالث بنایا ہے اور جو فیس انھوں نے دی تھی وہ میں ہضم کر چکا ہوں اور واپس کرنے کی استطاعت نہیں ہے۔ ممنون صاحب بولے کہ اگر وہ مجھے اس بات کی اجازت دے دیں کہ اس منصب کے ہوتے ہوئے ثالثی کے مقدمے نمٹا دوں تو پھر کیا میں محتسب بننا پسند کروں گا؟ میں نے کہا کہ میں آپ کو کل بتائوں گا، گھر آ کر میں نے جسٹس اجمل میاں سے فون پر رابطہ کیا' وہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے سے ریٹائر ہو چکے تھے' انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ ''کیا ممنون صاحب سے تمہارے مراسم تھے؟ '' میں نے کہا ''بالکل نہیں'' اور ''نواز شریف سے؟'' میں نے کہا ''ان سے بھی نہیں'' اجمل میاں بولے ''یہ تو پرائزڈ پوسٹ ہے لیکن آزمائش میں ڈالنے والی' اللہ بہتر کرے گا۔'' اس عہدے کے لیے گورنر ممنون حسین نے اپنے کسی دوست' احباب یا سیاسی رفیق کو نہیں چُنا بلکہ ایک اجنبی کو اس کا اہل سمجھا ۔''
میں چار سال 1999-2003ء محتسب سندھ رہا، اس سارے عرصے میں محتسب سندھ کا ادارہ بڑا فعال رہا جس کی تفصیل میں، میں نہیں جانا چاہتا اور جو کچھ بھی میری کارکردگی رہی اُس پر اللہ تعالیٰ کی مدد و کرم شامل رہا، مجھے کہنا اب یہ ہے کہ محتسب کا ادارہ کم و بیش ایک دہائی سے اتنا فعال نہیں رہا ہے چاہے وہ وفاقی سطح ہو یا صوبائی، سیاسی مصلحتوں نے ایک ایسے ادارے کو جس کا صرف اور صرف کام ہر قسم کی کرپشن کو ختم کرنا ہے چاہے وہ رشوت ستانی ہو، قانونی بے قاعدگی، بد انتظامی یا غفلت وغیرہ سب اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں، قانون محتسب کو سپریم کورٹ کی طرح 'سو موٹو' اختیارات بھی دیتا ہے جس کے ذریعے اِن ساری برائیوں کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ نتیجتاً پورا بوجھ اعلیٰ عدالتوں پر پڑ جاتا ہے۔
ممنون صاحب کی ساری زندگی، جس کو میں نے قریب سے دیکھا ایمانداری، اعلیٰ ظرفی، شرافت، خوفِ خدا سے مزیّن رہی، گورنری سے پہلے اور اس کے بعد بھی وہ برنس روڈ کے عقب میں ایک معمولی سے فلیٹ میں رہتے تھے اور بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ بعد میں وہ اپنا فلیٹ دے کر اور قرض سے ڈیفنس سوسائٹی میں پانچ سو گز کے بنگلے میں منتقل ہو گئے۔ پھر انھوں نے پانچ سو گز کے بنگلے کو ڈھائی ڈھائی سو گز کے دو حصوں ( پورشن) میں کرا لیا۔ ایک حصے میں وہ خود، بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے، جب کہ دوسرا حصہ انھوں نے بیچ دیا اور قرضہ اتار دیا۔ پچھلے دنوں اُن کے ہاں گیا تو معلوم ہوا کہ فروخت کیا ہوا پورشن بڑے بیٹے نے، جو بینک میں ہے، قرض لے کر پھر سے خرید لیا ہے، اس طرح پورا گھر اب اُن کا ہی ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ سیکیورٹی والے اب نہ انھیں، اور نہ اُن کے خاندان کے دیگر افراد کو اس گھر میں رہنے دے رہے ہیں اور فی الوقت پورا خاندان اسٹیٹ گیسٹ ہائوس میں چلا گیا ہے جب کہ ممنون صاحب بیگم صاحبہ کے ساتھ اسلام آباد چلے جائیں گے۔
ممنون صاحب، ایک زمانے میں پھلوں کی تجارت کرتے تھے جو ایک عرصے تک جاری رہی، جب سے کچھ لوگوں نے پھلوں کے پارسلوں میں ہیروئن اور دیگر منشیات منگوانی شروع کر دی تو انھوں نے اس کاروبار کو خیر باد کہہ دیا اور دوسرے کاروبار اپنا لیے، وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ایک اہم عہدے پر فائز تھے، کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر بھی رہے جس سے ان کی تاجر برادری میں مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے ایم بی اے بھی اس وقت کیا جب ملک کا اعلیٰ ترین تعلیمی ادارہ آئی بی اے (انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن) کراچی میں قائم ہوا، اور اٹھارہ اٹھارہ پی ایچ ڈی قابل پروفیسرز یہاں تعلیم دیتے تھے ، لیکن انھوں نے ایم بی اے کر کے، ملازمت کے بے شمار مواقعے ہوتے ہوئے بھی نوکری کرنا پسند نہ کیا، شاید اُن کا میدان تجارت اور سیاست ہی تھا ۔
مسز ممنون حسین کا بھی یہی انداز ہے، اُن کی سادگی، انکساری، شرافت اور خدا ترسی مثالی ہے۔ اُن کا انٹرویو جو ایک روزنامے میں شایع ہوا، اُن کی شخصیت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ میری بیوی قمرؔ نے انٹرویو پڑھا تو بے اختیار آبدیدہ ہو گئیں، 3 اگست کو اُن کا فون آیا کہ وہ اگلے روز اسلام آباد جا رہی ہیں اور میری بیوی سے خدا حافظ کہنا چاہتی ہیں، اُس وقت میں جسٹس ناصر اسلم زاہد کی رہائش گاہ پر عیادت کو گیا ہوا تھا جو پچھلے دنوں کہیں آتے جاتے ایسے گِرے کہ سر پر شدید چوٹیں آئیں اور دو ہفتے اسپتال میں گزارے، میں ان کی خیریت ٹیلی فون پر معلوم کر لیا کرتا تھا، عبوری حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں ہر خاص و عام کا یہ خیال تھا کہ وہ اس دور میں وزیر اعظم پاکستان ہوں گے، لیکن سیاسی مصلحتیں کارفرما ہوئیں۔ بہرحال میں نے مسز ممنون حسین کو موبائل پر کہا کہ اس وقت تو میں نکلا ہوا ہوں، مسز خیری سے آپ کی بات گھر پہنچ کر کرا دوں گا، پھر میں نے مسز ممنون کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ بھابھی اب تو آپ ''خاتونِ اوّل'' ہو گئی ہیں، اب ہمیں کیا پوچھیں گی؟ وہ یہ سنتے ہی برہم ہو گئیں، کہنے لگیں ارے بھائی! آپ کیسی باتیں کرتے ہیں آپ سب کی دُعا ئیں تھیں، بس اللہ تعالیٰ عزت رکھے۔
صدر کے اختیارات اٹھارہویں دستوری ترامیم کے بعد وہ نہیں رہے جو پہلے تھے، اور صدر کی حیثیت بس ایک سربراہِ مملکت کے طور پر رہ گئی ہے، بہرحال صدر کا عہدہ ایک اہم عہدہ ہے اور گو کہ صدرِ مملکت کا سیاسی اور انتظامی اُمور سے تعلق نہیں ہے لیکن اُس کی رائے کی ایک اخلاقی اور سماجی حیثیت ہے جس کو نظر انداز کرنا ایک مشکل مرحلہ ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ جناب ممنون حسین کراچی میں قتل و غارت، غنڈہ گردی ، بھتہ خوری ، مذہبی منافرت و دیگر تخریبی کارروائیوں کے بارے میں بھی انتہائی فکر مند رہتے ہیں، اُن کا کراچی میں آنا جانا، کراچی اور اس کے شہریوں کے لیے حوصلہ افزا اور تقویت کا باعث ہو گا اور شرپسند عناصر کے لیے حوصلہ شکن بھی۔ ساتھ ہی ساتھ فاٹا کے علاقے جو صدر کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، وہاں بھی بہتری کی صورت نکل سکتی ہے۔ اس وقت کراچی میں پچیس تیس لاکھ خانماں برباد لوگ کسمپرسی کی حالت میں پڑے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد فاٹا کے مکینوں کی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ فاٹا میں ترقیاتی کاموں کے ساتھ فاٹا کے اُجڑے ہوئے خاندان اپنے علاقے میں پھر سے آباد ہو سکیں۔
خوشی کی بات ہے کہ اس دفعہ ملک کا صدر کوئی وڈیرا، سردار یا سرمایہ دار نہیں بلکہ متوسط طبقے کا ایک شریف النفس، پڑھا لکھا، محبِ وطن اور اصول پرست انسان ہے۔
(نوٹ : مضمون نگارسابق چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ ہیں)
4 نومبر 1993ء کو میں بحیثیت ہائی کورٹ جج ریٹائر ہوا، کچھ دن تو میں اپنی بیٹی حنا ؔکے پاس امریکا چلا گیا، کئی مہینے خوب گھوما، اس عرصے میں نانا بھی بن گیا، واپس آیا تو پھر سے وکالت شروع کر دی، اُس دوران میری غیر موجودگی میں میرے دوسرے ساتھی وکلاء میرے چیمبر کو سنبھالے ہوئے تھے۔ میرے پاس سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے مقدموں کے علاوہ ثالثی کے لیے بھی کئی کیس تھے، جن میں سے بیشتر نمٹا دیے، ان کی جگہ دوسرے آ گئے ، ستمبر 1999ء کی بات ہے کہ میں، محتسبِ سندھ مقرر ہوا جس کا ذکر اپنی خود نوشت ''جاگتے لمحے'') (2012، ناشر فیروز سنز میں کیا ہے، وہ اس طرح کہ ''گورنر ہائوس سے فون آیا کہ گورنر ممنون حسین مجھ سے ملنا چاہتے ہیں' میری ممنون صاحب سے صرف علیک سلیک تھی۔
ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ وہ مجھے سندھ کا محتسب بنانا چاہتے ہیں' میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے مجھے اس قابل سمجھا، ساتھ ہی ساتھ میں نے معذرت کی کہ میرے پاس کئی ثالثی کے کیس چل رہے ہیں' فریقین نے مجھ پر اعتماد کر کے ثالث بنایا ہے اور جو فیس انھوں نے دی تھی وہ میں ہضم کر چکا ہوں اور واپس کرنے کی استطاعت نہیں ہے۔ ممنون صاحب بولے کہ اگر وہ مجھے اس بات کی اجازت دے دیں کہ اس منصب کے ہوتے ہوئے ثالثی کے مقدمے نمٹا دوں تو پھر کیا میں محتسب بننا پسند کروں گا؟ میں نے کہا کہ میں آپ کو کل بتائوں گا، گھر آ کر میں نے جسٹس اجمل میاں سے فون پر رابطہ کیا' وہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے سے ریٹائر ہو چکے تھے' انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ ''کیا ممنون صاحب سے تمہارے مراسم تھے؟ '' میں نے کہا ''بالکل نہیں'' اور ''نواز شریف سے؟'' میں نے کہا ''ان سے بھی نہیں'' اجمل میاں بولے ''یہ تو پرائزڈ پوسٹ ہے لیکن آزمائش میں ڈالنے والی' اللہ بہتر کرے گا۔'' اس عہدے کے لیے گورنر ممنون حسین نے اپنے کسی دوست' احباب یا سیاسی رفیق کو نہیں چُنا بلکہ ایک اجنبی کو اس کا اہل سمجھا ۔''
میں چار سال 1999-2003ء محتسب سندھ رہا، اس سارے عرصے میں محتسب سندھ کا ادارہ بڑا فعال رہا جس کی تفصیل میں، میں نہیں جانا چاہتا اور جو کچھ بھی میری کارکردگی رہی اُس پر اللہ تعالیٰ کی مدد و کرم شامل رہا، مجھے کہنا اب یہ ہے کہ محتسب کا ادارہ کم و بیش ایک دہائی سے اتنا فعال نہیں رہا ہے چاہے وہ وفاقی سطح ہو یا صوبائی، سیاسی مصلحتوں نے ایک ایسے ادارے کو جس کا صرف اور صرف کام ہر قسم کی کرپشن کو ختم کرنا ہے چاہے وہ رشوت ستانی ہو، قانونی بے قاعدگی، بد انتظامی یا غفلت وغیرہ سب اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں، قانون محتسب کو سپریم کورٹ کی طرح 'سو موٹو' اختیارات بھی دیتا ہے جس کے ذریعے اِن ساری برائیوں کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ نتیجتاً پورا بوجھ اعلیٰ عدالتوں پر پڑ جاتا ہے۔
ممنون صاحب کی ساری زندگی، جس کو میں نے قریب سے دیکھا ایمانداری، اعلیٰ ظرفی، شرافت، خوفِ خدا سے مزیّن رہی، گورنری سے پہلے اور اس کے بعد بھی وہ برنس روڈ کے عقب میں ایک معمولی سے فلیٹ میں رہتے تھے اور بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ بعد میں وہ اپنا فلیٹ دے کر اور قرض سے ڈیفنس سوسائٹی میں پانچ سو گز کے بنگلے میں منتقل ہو گئے۔ پھر انھوں نے پانچ سو گز کے بنگلے کو ڈھائی ڈھائی سو گز کے دو حصوں ( پورشن) میں کرا لیا۔ ایک حصے میں وہ خود، بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے، جب کہ دوسرا حصہ انھوں نے بیچ دیا اور قرضہ اتار دیا۔ پچھلے دنوں اُن کے ہاں گیا تو معلوم ہوا کہ فروخت کیا ہوا پورشن بڑے بیٹے نے، جو بینک میں ہے، قرض لے کر پھر سے خرید لیا ہے، اس طرح پورا گھر اب اُن کا ہی ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ سیکیورٹی والے اب نہ انھیں، اور نہ اُن کے خاندان کے دیگر افراد کو اس گھر میں رہنے دے رہے ہیں اور فی الوقت پورا خاندان اسٹیٹ گیسٹ ہائوس میں چلا گیا ہے جب کہ ممنون صاحب بیگم صاحبہ کے ساتھ اسلام آباد چلے جائیں گے۔
ممنون صاحب، ایک زمانے میں پھلوں کی تجارت کرتے تھے جو ایک عرصے تک جاری رہی، جب سے کچھ لوگوں نے پھلوں کے پارسلوں میں ہیروئن اور دیگر منشیات منگوانی شروع کر دی تو انھوں نے اس کاروبار کو خیر باد کہہ دیا اور دوسرے کاروبار اپنا لیے، وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ایک اہم عہدے پر فائز تھے، کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر بھی رہے جس سے ان کی تاجر برادری میں مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے ایم بی اے بھی اس وقت کیا جب ملک کا اعلیٰ ترین تعلیمی ادارہ آئی بی اے (انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن) کراچی میں قائم ہوا، اور اٹھارہ اٹھارہ پی ایچ ڈی قابل پروفیسرز یہاں تعلیم دیتے تھے ، لیکن انھوں نے ایم بی اے کر کے، ملازمت کے بے شمار مواقعے ہوتے ہوئے بھی نوکری کرنا پسند نہ کیا، شاید اُن کا میدان تجارت اور سیاست ہی تھا ۔
مسز ممنون حسین کا بھی یہی انداز ہے، اُن کی سادگی، انکساری، شرافت اور خدا ترسی مثالی ہے۔ اُن کا انٹرویو جو ایک روزنامے میں شایع ہوا، اُن کی شخصیت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ میری بیوی قمرؔ نے انٹرویو پڑھا تو بے اختیار آبدیدہ ہو گئیں، 3 اگست کو اُن کا فون آیا کہ وہ اگلے روز اسلام آباد جا رہی ہیں اور میری بیوی سے خدا حافظ کہنا چاہتی ہیں، اُس وقت میں جسٹس ناصر اسلم زاہد کی رہائش گاہ پر عیادت کو گیا ہوا تھا جو پچھلے دنوں کہیں آتے جاتے ایسے گِرے کہ سر پر شدید چوٹیں آئیں اور دو ہفتے اسپتال میں گزارے، میں ان کی خیریت ٹیلی فون پر معلوم کر لیا کرتا تھا، عبوری حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں ہر خاص و عام کا یہ خیال تھا کہ وہ اس دور میں وزیر اعظم پاکستان ہوں گے، لیکن سیاسی مصلحتیں کارفرما ہوئیں۔ بہرحال میں نے مسز ممنون حسین کو موبائل پر کہا کہ اس وقت تو میں نکلا ہوا ہوں، مسز خیری سے آپ کی بات گھر پہنچ کر کرا دوں گا، پھر میں نے مسز ممنون کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ بھابھی اب تو آپ ''خاتونِ اوّل'' ہو گئی ہیں، اب ہمیں کیا پوچھیں گی؟ وہ یہ سنتے ہی برہم ہو گئیں، کہنے لگیں ارے بھائی! آپ کیسی باتیں کرتے ہیں آپ سب کی دُعا ئیں تھیں، بس اللہ تعالیٰ عزت رکھے۔
صدر کے اختیارات اٹھارہویں دستوری ترامیم کے بعد وہ نہیں رہے جو پہلے تھے، اور صدر کی حیثیت بس ایک سربراہِ مملکت کے طور پر رہ گئی ہے، بہرحال صدر کا عہدہ ایک اہم عہدہ ہے اور گو کہ صدرِ مملکت کا سیاسی اور انتظامی اُمور سے تعلق نہیں ہے لیکن اُس کی رائے کی ایک اخلاقی اور سماجی حیثیت ہے جس کو نظر انداز کرنا ایک مشکل مرحلہ ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ جناب ممنون حسین کراچی میں قتل و غارت، غنڈہ گردی ، بھتہ خوری ، مذہبی منافرت و دیگر تخریبی کارروائیوں کے بارے میں بھی انتہائی فکر مند رہتے ہیں، اُن کا کراچی میں آنا جانا، کراچی اور اس کے شہریوں کے لیے حوصلہ افزا اور تقویت کا باعث ہو گا اور شرپسند عناصر کے لیے حوصلہ شکن بھی۔ ساتھ ہی ساتھ فاٹا کے علاقے جو صدر کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، وہاں بھی بہتری کی صورت نکل سکتی ہے۔ اس وقت کراچی میں پچیس تیس لاکھ خانماں برباد لوگ کسمپرسی کی حالت میں پڑے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد فاٹا کے مکینوں کی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ فاٹا میں ترقیاتی کاموں کے ساتھ فاٹا کے اُجڑے ہوئے خاندان اپنے علاقے میں پھر سے آباد ہو سکیں۔
خوشی کی بات ہے کہ اس دفعہ ملک کا صدر کوئی وڈیرا، سردار یا سرمایہ دار نہیں بلکہ متوسط طبقے کا ایک شریف النفس، پڑھا لکھا، محبِ وطن اور اصول پرست انسان ہے۔
(نوٹ : مضمون نگارسابق چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ ہیں)