میں ٹیکس کیوں دوں
روز بروز اسی طرح ہمارے بہت سارے سرکاری تعلیمی ادارے تنزلی کاشکارہیں۔
www.facebook.com/syedzishanhyder
آج کے عام آدمی کے ذہن میں یہی سوال بار بار ابھرتاہے کہ وہ ٹیکس کیوں دے ؟حال ہی میں ہمارے منتخب وزیراعظم نے قوم سے ٹیکس دینے کی اپیل کی اورساتھ یہ بھی کہا جب تک بھرپور طریقے سے ٹیکس ادا نہیں کریں گے تب تک پاکستان قرضوں کی دلدل سے نہیں نکل سکتا۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ریاست کا نظام چلانے کے لیے حکومت کو خطیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اس کا ایک بڑا حصہ ٹیکس سے اکٹھا کرتی ہے،لہٰذا عوام کا بھی فرض عین ہے کہ وہ ریاست کا نظام بہتر انداز میں چلانے کے لیے ٹیکس ادا کریں۔ وزیراعظم کی مخلصانہ اپیل سرآنکھوں پرمگرعام آدمی کے دل میں شک وشبہات بہرحال موجود ہیں۔
جب ایک عام آدمی یہ سوچتاہے کہ اس کی بنیادی ضروریات بھی حکومت پوری نہیں کر رہی تو آخروہ ٹیکس کیوں ادا کرے ؟مثال کے طورپر کون نہیں جانتا کہ آپ سرکاری اسپتال اسکول میں چلے جائیں تو آپ سے کس قسم کا برتائو کیا جاتاہے اورکس درجے کی سہولیات موجود ہیں؟ شاید ہی کوئی کھاتا پیتا شخص سرکاری اسپتال میں جاکر اپنا علاج کرانا پسند کرے یاکوئی صاحب حیثیت شخص اپنے بچوں کو سرکاری اسکول بھیجے اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں اورکالجزمیں داخلے کے لیے میرٹ اتنا زیادہ ہے کہ بہت سارے بچے وہاں داخلہ لینے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
غربت کی وجہ سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول بھی نہیں بھیج پاتے۔ کچھ دانشورمغربی یورپ کی مثال دیتے ہیں کہ وہاں پر عوام اپنی آمدن کانصف حصہ ٹیکس ادا کرتے ہیں آخرکارپاکستانی شہری ایساکیوں نہیں کرسکتے ؟دراصل مغربی یورپ کے اندر بیشک ٹیکس بہت زیادہ ہے لیکن وہ ایک واضح مکمل ویلفیئر ریاستیں ہیں پچھلے سال دنیا کے مایاناز پولیٹیکل اسکالر ٹام چومسکی سے ملاقات ہوئی۔
ان سے پوچھنے پر کہ کونساملک بہترین ریاست کا نمونہ ہے تووہیں پر انھوں نے بتایاکہ ویسٹرن یورپ کے بہت سے ممالک اوربالخصوص ناروے اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ توآپ دیکھیں توناروے یا ڈنمارک جیسے ممالک کے اندر عوام کو صحت ،تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں بہترین سہولتیں میسر ہیں ۔اسی طرح اگر آپ امریکا جائیں تو وہاں پر سرکاری اورپرائیویٹ یونیورسٹیوں کے معیار میں فرق کرنا انتہائی مشکل ہوجاتاہے مثال کے طورپر دنیاکی مایاناز ہارورڈاوربرکلے یونیورسٹی ہیں جہاں سے مجھے خود تعلیم حاصل کرنے کاشرف ملا۔امریکا میںیہ دنیا کی دومایاناز یونیورسٹیاں ہارورڈ اوربرکلے موجود ہیں ۔
یہ ہارورڈ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ہے جب کہ برکلے ایک سرکاری یونیورسٹی ہے لیکن اگر آپ دونوں میں تعلیم حاصل کرکے دیکھیں توشاید ہی کوئی بال برابر فرق دونوں میں ہوجب کہ بہت سارے معاملات میں برکلے یونیورسٹی ہارورڈ سے سبقت لے جاتی ہے ۔کیاایسا ہمارے ملک میں بھی ہوتاہے ؟ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں میں دن بدن معیار گرتاچلاجارہاہے ۔ہماری چند سرکاری یونیورسٹیاں ابھی بھی اچھاتعلیم کامعیار چند شعبوں میں رکھتی ہیں مثلاًآج بھی پنجاب یونیورسٹی پنجاب میں نسبتاً اچھی سمجھی جاتی ہے لیکن اس کے اندر بھی بہت سارے ایسے شعبے ہیں جن پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
روز بروز اسی طرح ہمارے بہت سارے سرکاری تعلیمی ادارے تنزلی کاشکارہیں۔ایسی صورتحال ہمارے اسپتالوں کی ہے جنوبی پنجاب کے آپ نشتر اسپتال چلے جائیں تو وہاں پر آپکو دل دہلا دینے والے مناظر دکھائی دینگے ۔وہاں پر اکثر آپ کو مریض اپنی ہی ڈرپ خود ہاتھ میں پکڑے ہوئے دکھائی دینگے اورساتھ میں ضروری ادویات کامیسر نہ ہونا اب ایک عام بات بن چکی ہے۔اسی طرح زیادہ ترسرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرحضرات شام کو اپنے پرائیویٹ کلینک پر موٹی فیس لے کر علاج کرتے ہیں۔
آپ خود سوچیے جب ایک طرف انھیں موٹے پیسے مل رہے ہوں تووہ کس طرح سے اپنے سرکاری اسپتال میں اپنے فرائض کے اوپر توجہ دیں سکتے ہیں؟معاملہ صحت اور تعلیم تک ختم نہیں ہوتابلکہ ٹرانسپورٹ اورسب سے بڑھکر سیکیورٹی اورانصاف کے معاملات سب سے اہم ہیں افسوس کامقام ہے کہ ایک عام شہری کو ایک ایف آئی آردرج کرانے کے لیے آج بھی پیسہ دینا پڑتاہے اورپھر تفتیش کے مراحل سے گزرنے کے بعد ماتحت عدالتوں کے اندر دھکے کھا کھا کر جوتے ٹوٹ جاتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا۔ایسی صورتحال کے اندر عام شہری یہی سوچتاہے کہ آخر وہ ٹیکس کیوں اداکرے ؟
اگر سرکاردیگر سہولیات فراہم نہیں کرپاتی توناسہی کم ازکم حکومت کو فوری اورسستا انصاف عام شہریوں کو فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے اور اس انصاف کے حصول کے متمنی ہرطبقے کے لوگ ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے تعلیم اورصحت تو لوگ پرائیویٹ اداروں میں حاصل کرسکتے ہیں پر عدل وانصاف کے کورٹس اورپولیس اسٹیشنر وغیرہ پرائیویٹ طورپر میسر نہیں ہیں توگویاہر طبقے کا شخص ہمارے عدالتی نظام سے شدید متاثرہورہاہے اوراس کے بلواسطہ منفی اثرات ہماری معیشت پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔اب اس معیشت اورٹیکس کے حصول کے پیچھے ایک اوربھی سیاسی کشمکش جاری ہے ۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے پاس فنڈز کی کافی کمی آگئی کیونکہ بہت سارے پیسے صوبوں کو دیے گئے ۔اب اس چیز کابھی اندیشہ کیاجاتاہے کہ وفاقی حکومت اٹھارویں ترمیم میں ردوبدل یا رول بیک کر کے اپنا حصہ بڑھانے کی کوشش کریگی جوکہ انتہائی نامناسب اقدام ثابت ہوگا۔
دراصل پاکستان کے آئین کی رو سے تمام اختیارات اورفنانسز اورفنڈز کو نچلی سطح پر منتقل کرنا لازمی ہے اور اختیارات صوبائی اورمزید لوکل باڈیز یاضلع کونسل کے اورکارپوریشن کی سطح پر لے جایاجائے توپھر وہاں پر ٹیکس حاصل کرنا کافی آسان ہوجاتاہے بالخصوص اگر ضلع کونسل اوربلدیاتی اداروں کے پاس شہریوں کے تمام مسائل حل کرنے کے اختیارات آجائیں توپھر یہی بلدیاتی ادارے زیادہ سے زیادہ ٹیکس لے سکتے ہیں بشرطیکہ تمام ٹیکس کازیادہ تر حصہ اسی علاقے کے اوپر خرچ کیاجائے ۔
افسوس کی بات ہے جب دوردراز علاقوں سے ٹیکس وصول کرکے وفاقی اورصوبائی ادارے لے جاتے ہیں پھر وہ عام عوام کے خون پسینے کی کمائی ان اداروں کی تجوریوں میں چلی جاتی ہے پھر وہاں سے سرکاری افسران اورحکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ ہوجاتی ہے۔یہ نظام کچھ اس طرح سے کام کرتاہے کہ فنڈز کہاں جارہے، کہاں خرچ ہورہے ہیں اس پر عام آدمی یا ٹیکس ادا کرنیوالا نگاہ رکھ ہی نہیں سکتا۔
تواگر حکومت وقت کو ٹیکس بڑھاناہے توپھر انھیں پاکستانی آئین اور اٹھارویں ترمیم پر من وعن عمل کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے ہونگے اور اس طرح کی پالیسی مرتب کرنی ہوگی کہ زیادہ ترٹیکسز ضلع کونسل لیول پر موصول کیے جائیں اورپھر ان ٹیکسز کا زیادہ تر حصہ اسی علاقے یااسی شہر یا تحصیل کے اندر خرچ ہو تاکہ عوام کو اپنے پیسے اپنے اوپر ہی خرچ ہوتے ہوئے دکھائی دیں تاکہ ان کاحکومت پر اعتماد بحال ہو ۔ساتھ ہی عوامی نمائندوں اورسرکاری افسران کی کارکردگی ان کی نگاہ کے سامنے کھل کر آجائے ۔بہرحال جس طرح عوام اورحکمرانوں میں اس وقت دوریاں بہت بڑھ چکی ہیں ۔ایسی صورتحال کے اندر لوگوں سے ٹیکس وصول کرنا حکومت کے لیے نہایت مشکل ہوگا۔