سندھ پھر محمد بن قاسم کے انتظار میں
وزیر اعظم کراچی آتے ہیں لیکن سندھ کے وزیر اعلیٰ ان کا خیر مقدم کرنے نہیں آتے۔
برسوں پہلے حبیب جالب نے کہا تھا:
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
آج کئی دہائیوں کے بعد بھی سندھ کے اکثر علاقوں اور بالخصوص دیہی آبادی میں یہی صورتحال موجود ہے، سندھ میں سندھیوں کی حکمرانی کو بھی برسوں گزرگئے لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی سندھ زبوں حالی، ٹوٹی پھوٹی کچی مٹی کی دیواروں اور کھلی غلیظ گندی نالیوں اور بوسیدہ ٹوٹے ہوئے مکانوں اور جھونپڑیوں کے ساتھ موجود ہے۔ ہیپاٹائٹس سی، ذہنی معذوری اور ایڈز کے مرض میں لوگ کثرت سے مبتلا ہو رہے ہیں اور یہاں بسنے والے اجڑ رہے ہیں یا پھر یہاں کے در و دیوار کی طرح بے حس و حرکت، شکست و ریخت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
ستم بالائے ستم غریب اور بے نوا لوگوں کی عزتیں تک محفوظ نہیں۔ غربت، اثر و رسوخ اور لاقانونیت یہاں سر چڑھ کر بول رہی ہے۔صاف دکھائی پڑتا ہے سندھ کے دیہی منظرنامے کو دیکھ کر کہ راجہ داہر کا خوف صوبہ سندھ میں رہنے والے لوگوں کا شاید مقدر بن گیا ہے اور اب تو جو واقعات کسی نہ کسی طور میڈیا پر رپورٹ ہوتے ہیں، ان کے تناظر میں محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ راجہ داہر اور اس کے ''حواری'' اکیس ویں صدی کی جدید سہولتوں سے آراستہ بھی ہوگئے ہیں۔
کالی پراڈو ہو یا سفید لینڈ کروزر یا پھر چمکتی ڈبل کیبن گاڑی اور ان میں بیٹھا ہر بڑا چھوٹا رئیس، سائیں یا وڈیرہ وہ ننگے پاؤں اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہر مرد و زن کے لیے خوف دہشت اور بربریت کی علامت بن کر رہ گیا ہے۔ جسے غریبوں کے حقوق کی پرواہ ہے اور نہ ان کے روزگار و علاج و تعلیم کی فکر۔ پہلے تو سندھ دھرتی کے مظلوم لوگوں کے لیے ایک ہی راجہ داہر تھا لیکن اب تو ایسے راجہ داہروں کی قطاریں سندھ کے ہر شہر، دیہات اور گاؤں میں لگ گئی ہیں اور ان کا خوف اس صوبے میں رہنے والوں کے ڈی این اے میں ایسا رچ بس گیا ہے کہ آزاد دیش کے یہ غلام ابن غلام سسک رہے ہیں، بلک رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں لیکن نہ ان کی فریاد سنی جا رہی ہے اور نہ ہی انھیں انصاف میسر آتا ہے، ان کے حقوق تو جائیں چولہے بھاڑ میں۔
حال ہی میں میڈیا میں سندھ کی ایک نڈر پڑھی لکھی مظلوم لڑکی ایڈووکیٹ ام رباب چانڈیو کو ایک عدالت سے باہر آتے ہوئے ننگے پاؤں دیکھا گیا۔ پولیس کمانڈوز کے پہرے میں یہ نوجوان خاتون وکیل احتجاجی طور پر اپنے پاؤں ننگے کیے ہوئے ہے کیونکہ اس کے دادا، اس کے والد اور اس کے چاچا کے تہرے قتل میں ملوث ملزمان پر اب تک فرد جرم عائد نہیں ہوئی اور خود اسے مسلسل جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔
ام رباب کو انصاف نہیں مل سکا، یوں ام رباب کی کہانی سندھ کے تقریباً ہر بڑے چھوٹے شہر اور گاؤں کے لوگوں کی کہانی ہے اور رباب شاید انصاف ملنے تک ننگے پاؤں رہے یا پھر وہ شاید ایسا نہ کرے؟ اسی سندھ دھرتی کی سب سے پہلی اور قدیم سیاسی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم بھی ایک بار اپنے بھائی کے قتل کا سن کر ننگے پاؤں سندھ کراچی کے مڈ ایسٹ اسپتال پہنچی تھیں لیکن نہ وزیر اعظم زندہ بچی اور نہ ہی اس کا بھائی اور نہ ہی ان کے قاتل آج برسوں گزر جانے کے بعد کیفر کردار تک پہنچے۔
کتنی دلخراش حقیقت ہے کہ سندھ نے اس کے ارباب اختیار کو جو کچھ دیا اس کا عشر عشیر بھی وہ سندھ کو نہ دے سکے اور یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سندھ مسلسل قربانیاں دیتا آرہا ہے۔ لاکھوں مہاجرین کا استقبال انھوں نے انصار بن کر کیا پھر آمریتوں کے دور میں جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریکیں سب سے موثر اور تادیر سندھ کے شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں چلی ہیں لیکن جمہوریت سہولتوں، آسائشوں کے پھل رئیسوں، وڈیروں، سرداروں نے کھائے، ان سے کھانے پینے اور مال بنانے میں جو کسر رہ گئی تھی وہ مہاجروں کے نام پر بنائی گئی ایک جماعت نے پوری کردی۔ یہ ایک مسلم امر ہے کہ سندھ کا اصل مسئلہ ''خراب حکمرانی'' ہے۔
کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے، ملک کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور وفاقی حکومت کو سب صوبوں سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر بھی لیکن اس کا استحصال ہر دور حکومت میں ہوتا رہا ہے۔ نعمت اللہ اور مصطفی کمال کے دور میں یہ جتنا خوبصورت اور سہولتوں سے آراستہ شہر تھا اب برسوں سے اتنا ہی بدصورت اور بری انتظامی مشینری کا شکار چلا آرہا ہے۔ دراصل وفاق نے ہمیشہ سندھ کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک روا رکھا ہے اور دونوں کے درمیان تنازعات یہاں رہنے بسنے والوں کے لیے سوہان روح بن کر رہ گئے ہیں۔ جس طرح صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پورے پاکستان اور سب صوبوں کے ہوتے ہیں اسی طرح انھیں بلاامتیاز اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا یوں خرابی اور بربادی جاری و ساری چلی آرہی ہے۔
عمران خان کی حکومت نے بھی سندھ اور کراچی کے لیے جو کرنا تھا اپنے منشور اور اعلان کے تحت وہ نہیں کیا البتہ لوگوں کے بسے بسائے کاروبار اور گھر اجاڑ کر ضرور رکھ دیے۔ حکومت سندھ واحد اپوزیشن حکومت ہے لیکن اسلام آباد میں اس کی کوئی لابی یا ترجمانی نہیں ہے۔ خود سندھ میں شہری اور دیہی علاقوں میں لسانی امتیاز بھی بہت سے تنازعے پیدا کر چکا ہے۔ اسی طرح دیگر چھوٹے بڑے مسائل اور تنازعوں نے وفاق (مرکزی حکومت) اور سندھ (کراچی) کے درمیان خلیج پیدا کردی ہے۔ اور سندھ اور وفاقی حکومت میں تعلقات کا بگاڑ اس نہج تک پہنچ گیا ہے کہ اب دونوں نے ایک دوسرے سے بات چیت بھی ختم کردی ہے۔
وزیر اعظم کراچی آتے ہیں لیکن سندھ کے وزیر اعلیٰ ان کا خیر مقدم کرنے نہیں آتے، عمران خان سرکاری خرچے پر عمرے پر جہاز بھر کر لے جاتے ہیں لیکن سندھ کے وزیر اعلیٰ کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ شہری اور دیہی سندھ میں ویسے ہی فاصلے بڑھ رہے تھے۔ رہی سہی کمی عمران خان کی ''تبدیلی'' یا ''نئے پاکستان'' کی منطق نے پوری کردی۔اور دروغ بر گردن راوی اب تو لوگ کہنے لگے ہیں کہ ہمارا پرانا پاکستان ہی ہمارے لیے اچھا تھا اور ہمیں ایسی تبدیلی نہیں چاہیے جس میں جسم و جاں کا رشتہ بھی برقرار نہ رہ سکے۔
تحریک انصاف کے دور میں بھی پورے خطے میں انصاف سے قاتل زیادہ بڑا نظر آتا ہے اور بااثر لوگوں کے لیے قانون اب بھی کچے دھاگے اور موم کی مانند ہے جسے وہ جب چاہیں توڑ دیں یا اپنی مرضی کے مطابق اسے موڑ دیں۔ہمیں اس سے انکار نہیں ہے کہ اختلاف کو جمہوریت کا حسن بتایا گیا ہے لیکن اگر یہ انسانی زندگی یا پھر کروڑوں لوگوں کے لیے مصائب و آلام کا سبب بن جائے تو یہ کرب بن کر رہ جاتا ہے۔
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
آج کئی دہائیوں کے بعد بھی سندھ کے اکثر علاقوں اور بالخصوص دیہی آبادی میں یہی صورتحال موجود ہے، سندھ میں سندھیوں کی حکمرانی کو بھی برسوں گزرگئے لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی سندھ زبوں حالی، ٹوٹی پھوٹی کچی مٹی کی دیواروں اور کھلی غلیظ گندی نالیوں اور بوسیدہ ٹوٹے ہوئے مکانوں اور جھونپڑیوں کے ساتھ موجود ہے۔ ہیپاٹائٹس سی، ذہنی معذوری اور ایڈز کے مرض میں لوگ کثرت سے مبتلا ہو رہے ہیں اور یہاں بسنے والے اجڑ رہے ہیں یا پھر یہاں کے در و دیوار کی طرح بے حس و حرکت، شکست و ریخت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
ستم بالائے ستم غریب اور بے نوا لوگوں کی عزتیں تک محفوظ نہیں۔ غربت، اثر و رسوخ اور لاقانونیت یہاں سر چڑھ کر بول رہی ہے۔صاف دکھائی پڑتا ہے سندھ کے دیہی منظرنامے کو دیکھ کر کہ راجہ داہر کا خوف صوبہ سندھ میں رہنے والے لوگوں کا شاید مقدر بن گیا ہے اور اب تو جو واقعات کسی نہ کسی طور میڈیا پر رپورٹ ہوتے ہیں، ان کے تناظر میں محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ راجہ داہر اور اس کے ''حواری'' اکیس ویں صدی کی جدید سہولتوں سے آراستہ بھی ہوگئے ہیں۔
کالی پراڈو ہو یا سفید لینڈ کروزر یا پھر چمکتی ڈبل کیبن گاڑی اور ان میں بیٹھا ہر بڑا چھوٹا رئیس، سائیں یا وڈیرہ وہ ننگے پاؤں اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہر مرد و زن کے لیے خوف دہشت اور بربریت کی علامت بن کر رہ گیا ہے۔ جسے غریبوں کے حقوق کی پرواہ ہے اور نہ ان کے روزگار و علاج و تعلیم کی فکر۔ پہلے تو سندھ دھرتی کے مظلوم لوگوں کے لیے ایک ہی راجہ داہر تھا لیکن اب تو ایسے راجہ داہروں کی قطاریں سندھ کے ہر شہر، دیہات اور گاؤں میں لگ گئی ہیں اور ان کا خوف اس صوبے میں رہنے والوں کے ڈی این اے میں ایسا رچ بس گیا ہے کہ آزاد دیش کے یہ غلام ابن غلام سسک رہے ہیں، بلک رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں لیکن نہ ان کی فریاد سنی جا رہی ہے اور نہ ہی انھیں انصاف میسر آتا ہے، ان کے حقوق تو جائیں چولہے بھاڑ میں۔
حال ہی میں میڈیا میں سندھ کی ایک نڈر پڑھی لکھی مظلوم لڑکی ایڈووکیٹ ام رباب چانڈیو کو ایک عدالت سے باہر آتے ہوئے ننگے پاؤں دیکھا گیا۔ پولیس کمانڈوز کے پہرے میں یہ نوجوان خاتون وکیل احتجاجی طور پر اپنے پاؤں ننگے کیے ہوئے ہے کیونکہ اس کے دادا، اس کے والد اور اس کے چاچا کے تہرے قتل میں ملوث ملزمان پر اب تک فرد جرم عائد نہیں ہوئی اور خود اسے مسلسل جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔
ام رباب کو انصاف نہیں مل سکا، یوں ام رباب کی کہانی سندھ کے تقریباً ہر بڑے چھوٹے شہر اور گاؤں کے لوگوں کی کہانی ہے اور رباب شاید انصاف ملنے تک ننگے پاؤں رہے یا پھر وہ شاید ایسا نہ کرے؟ اسی سندھ دھرتی کی سب سے پہلی اور قدیم سیاسی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم بھی ایک بار اپنے بھائی کے قتل کا سن کر ننگے پاؤں سندھ کراچی کے مڈ ایسٹ اسپتال پہنچی تھیں لیکن نہ وزیر اعظم زندہ بچی اور نہ ہی اس کا بھائی اور نہ ہی ان کے قاتل آج برسوں گزر جانے کے بعد کیفر کردار تک پہنچے۔
کتنی دلخراش حقیقت ہے کہ سندھ نے اس کے ارباب اختیار کو جو کچھ دیا اس کا عشر عشیر بھی وہ سندھ کو نہ دے سکے اور یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سندھ مسلسل قربانیاں دیتا آرہا ہے۔ لاکھوں مہاجرین کا استقبال انھوں نے انصار بن کر کیا پھر آمریتوں کے دور میں جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریکیں سب سے موثر اور تادیر سندھ کے شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں چلی ہیں لیکن جمہوریت سہولتوں، آسائشوں کے پھل رئیسوں، وڈیروں، سرداروں نے کھائے، ان سے کھانے پینے اور مال بنانے میں جو کسر رہ گئی تھی وہ مہاجروں کے نام پر بنائی گئی ایک جماعت نے پوری کردی۔ یہ ایک مسلم امر ہے کہ سندھ کا اصل مسئلہ ''خراب حکمرانی'' ہے۔
کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے، ملک کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور وفاقی حکومت کو سب صوبوں سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر بھی لیکن اس کا استحصال ہر دور حکومت میں ہوتا رہا ہے۔ نعمت اللہ اور مصطفی کمال کے دور میں یہ جتنا خوبصورت اور سہولتوں سے آراستہ شہر تھا اب برسوں سے اتنا ہی بدصورت اور بری انتظامی مشینری کا شکار چلا آرہا ہے۔ دراصل وفاق نے ہمیشہ سندھ کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک روا رکھا ہے اور دونوں کے درمیان تنازعات یہاں رہنے بسنے والوں کے لیے سوہان روح بن کر رہ گئے ہیں۔ جس طرح صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پورے پاکستان اور سب صوبوں کے ہوتے ہیں اسی طرح انھیں بلاامتیاز اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا یوں خرابی اور بربادی جاری و ساری چلی آرہی ہے۔
عمران خان کی حکومت نے بھی سندھ اور کراچی کے لیے جو کرنا تھا اپنے منشور اور اعلان کے تحت وہ نہیں کیا البتہ لوگوں کے بسے بسائے کاروبار اور گھر اجاڑ کر ضرور رکھ دیے۔ حکومت سندھ واحد اپوزیشن حکومت ہے لیکن اسلام آباد میں اس کی کوئی لابی یا ترجمانی نہیں ہے۔ خود سندھ میں شہری اور دیہی علاقوں میں لسانی امتیاز بھی بہت سے تنازعے پیدا کر چکا ہے۔ اسی طرح دیگر چھوٹے بڑے مسائل اور تنازعوں نے وفاق (مرکزی حکومت) اور سندھ (کراچی) کے درمیان خلیج پیدا کردی ہے۔ اور سندھ اور وفاقی حکومت میں تعلقات کا بگاڑ اس نہج تک پہنچ گیا ہے کہ اب دونوں نے ایک دوسرے سے بات چیت بھی ختم کردی ہے۔
وزیر اعظم کراچی آتے ہیں لیکن سندھ کے وزیر اعلیٰ ان کا خیر مقدم کرنے نہیں آتے، عمران خان سرکاری خرچے پر عمرے پر جہاز بھر کر لے جاتے ہیں لیکن سندھ کے وزیر اعلیٰ کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ شہری اور دیہی سندھ میں ویسے ہی فاصلے بڑھ رہے تھے۔ رہی سہی کمی عمران خان کی ''تبدیلی'' یا ''نئے پاکستان'' کی منطق نے پوری کردی۔اور دروغ بر گردن راوی اب تو لوگ کہنے لگے ہیں کہ ہمارا پرانا پاکستان ہی ہمارے لیے اچھا تھا اور ہمیں ایسی تبدیلی نہیں چاہیے جس میں جسم و جاں کا رشتہ بھی برقرار نہ رہ سکے۔
تحریک انصاف کے دور میں بھی پورے خطے میں انصاف سے قاتل زیادہ بڑا نظر آتا ہے اور بااثر لوگوں کے لیے قانون اب بھی کچے دھاگے اور موم کی مانند ہے جسے وہ جب چاہیں توڑ دیں یا اپنی مرضی کے مطابق اسے موڑ دیں۔ہمیں اس سے انکار نہیں ہے کہ اختلاف کو جمہوریت کا حسن بتایا گیا ہے لیکن اگر یہ انسانی زندگی یا پھر کروڑوں لوگوں کے لیے مصائب و آلام کا سبب بن جائے تو یہ کرب بن کر رہ جاتا ہے۔