عوام کا اثاثہ
اقتدار کی آڑ میں اثاثے بنانے والوں کا اگر احتساب نہ کیا گیا تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔
غریب ہونا کوئی اعزاز نہیں ہے ۔ جہالت اور غربت سے رسول پاکﷺ نے پناہ مانگی تھی لیکن جو لوگ اثاثے بنانے کی پوزیشن میں ہوں اور رہے ہوں وہ اگر ایسا نہ کریں تو پھر ان کی غربت اعزاز بن جاتی ہے۔
جیسے آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ سے پتہ چلتا ہے مگر افسوس کہ ایسے لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی ہمارا قومی آزار ہے جس میں ہم مبتلا ہیں۔ یہ ابتلا ہمیں اس حال میں لے آیا ہے ۔ جن لوگوں کو قدرت نے اقتدار دیا انھوں نے اس نعمت پر اکتفا نہ کیا اور اسے اپنی مالی خوشحالی کا ذریعہ بنا لیا ۔ رعایا خودکشیاں کرتی رہی اور یہ لوگ اثاثے بناتے رہے۔ عوام کیا کرتے عوام تو ہماری جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں بے زبان ہیں ان کی کسی سطح پر کوئی شنوائی نہیں ہوتی، اس لیے کسی نہ کسی کو تو آگے آنا تھا اور ان لوگوں کا احتساب کرنا تھا۔
اقتدار کی آڑ میں اثاثے بنانے والوں کا اگر احتساب نہ کیا گیا تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے اور وہ کیوں ایسی قوم کی حفاظت کرے گا جو دیانت و امانت کے کم تر تقاضوں کو بھی پورا نہیں کرتی۔ وہ رب العالمین ہے، رب المسلمین نہیں بلکہ مسلمانوں کو وہ دوسروں سے زیادہ سزا دیتا ہے کیونکہ وہ اس کی تعلیمات کے اقرار کے بعد بے وفائی کرتے ہیں۔ غداری کی سزا اس سے بہر حال زیادہ ہوتی ہے جو باہر کا ہوتا ہے اور جس کوئی عہد نہیں ہوتا۔
اثاثوں کا رضاکارانہ اعلان عام طور پر کم ہی ہوتا ہے لیکن ماضی کی حکومتیں کچھ ایسے قوانین بھی بنا گئیں یا غلطی سے ان سے کچھ ایسے کام بھی سر زد ہو گئے جس کے تحت جو لوگ اس ملک کے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں ، اہم عہدوں پر فائز ہیں یا قانون کے وضع کردہ دائر ہ کار کے تحت کاروبار کر رہے ہیں، ان کو اپنے اثاثوں کو ظاہر کرنا ہوتا ہے تا کہ وہ اپنی سالانہ آمدن کی بنیاد پر حکومت کو ٹیکس ادا کریں۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے تک ٹیکسوں کا حساب کرنے والے محکمے کے کارندے ٹیکس دینے والوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خزانے سے زیادہ اپنے خزانے کو بھرنے کو فوقیت دیتے تھے اور جو کچھ بچ جاتا وہ حکومت کے خزانے میں کسی حساب کتاب کے بغیر جمع کر دیا جاتا۔ ان کی کوئی چھان بین نہیں ہوتی تھی بلکہ ہمارے سیاستدان ہی ان کی ڈھال بن جاتے تھے اور اقتدار میں آنے والے اقتدار سے محروم لوگوں کو بھی تحفظ فراہم کرتے تھے۔ چور چوروں کا تحفظ نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔
ہماری حکومت کے سامنے ایسے ہی مسائل کے کئی پہاڑ کھڑے ہیں جن پر چڑھنے کے لیے اس کو راستہ نہیں مل رہا اور جو راستہ دکھائی دے رہا ہے وہ راستہ پہاڑ کی اترائی میں کھڑے عوام کی جانب جا رہا ہے اور پہاڑ پر چڑھنے کی بجائے عوام کو مزید زیر بار کیا جا رہا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان بار بار قوم سے رجوع کر رہے ہیں اور ان کو بتا رہے ہیں کہ ان کی قومی دولت کو کس قدر لوٹا گیا ہے ۔ انھوں نے ان لوٹے اثاثوں کو ملکی خزانے کا حصہ بنانے کے لیے ایک اسکیم متعارف کرائی ہے کہ چھپائے گئے مال کا بہت تھوڑا سا حصہ حکومتی خزانے میں جمع کرا کے اپنی دولت کو قانونی بنا لیں ۔
اس اسکیم سے حکومت کو کیا نتائج حاصل ہوتے ہیں اس کا علم تو آنے والے دنوں میں ہوگا لیکن خبروں سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی اس پیشکش سے بہت کم لوگ استفادہ کر رہے ہیں۔ میں عرض کروں کہ اگر پاکستان کے عوام کے سیاسی لیڈر اور بڑے کاروباری لوگ اگر پاکستان کی بقاء کی خاطر اپنے اثاثوں کا رضاکارانہ طور پر اعلان دیں تو پاکستانی عوام حیران و پریشان ہو جائیں گے کہ ان کے ملک کے اپنے لوگوں کے پاس کس قدر دولت کے انبار موجود ہیں ۔ ہمیں کسی آئی ایم ایف یا عالمی مالیاتی اداروں کی قطعاً ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ وہ دولت ہے جو اس ملک میں رہ کر اس ملک کے وسائل کو استعمال کر کے ہی کمائی گئی ہے اور اس ملک کی امانت ہے لیکن ہم اس قومی امانت میں خیانت کر رہے ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل ہم نے دیکھا کہ اس ملک کے بااثر لوگوں کے گھروں میں لوٹی گئی دولت کے کروڑوں اربوں روپے نقدی کی صورت میں موجود ہیں جن کی گنتی کے لیے مشینیں بھی جواب دے گئیں تھیں ۔ عوام جب یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں اپنے لیڈروں کے لیے رہی سہی ہمدردی بھی ختم ہو جاتی ہے لیکن وہ ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے سوائے اس کے کہ ان کو الیکشن میں ووٹ نہ دیں۔
حکومت ملک کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے ۔ یہ مسائل اگر وہ صدق نیت سے حل کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر ہم عوام بھی ان کا ساتھ دیں گے اور اگر انھوں نے بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح سیاسی شعبدہ بازی کی کوشش کی تو پھر وہ جانیں اور ان کے مسائل۔ پاکستان کے عوام اب سیانے ہو گئے ہیں اگر وہ کسی سیاستدان کے لیے تحریک نہیں چلاتے تو کسی حکمران کی مدد پر بھی تیار نہیں تا آنکہ وہ ان کی مدد پر تیار نہ ہو۔ یہ اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیمیں ہم نے پہلے بھی بہت دیکھی ہیں اور ان کے نتائج سے بھی آگاہ ہیں ۔ یہ بڑے لوگوں کے کھیل ہیں جو وہ ایک دوسرے سے کھیلتے ہیں۔ ہم عوام کا اثاثہ تو دو وقت کی روٹی ہے جس کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
جیسے آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ سے پتہ چلتا ہے مگر افسوس کہ ایسے لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی ہمارا قومی آزار ہے جس میں ہم مبتلا ہیں۔ یہ ابتلا ہمیں اس حال میں لے آیا ہے ۔ جن لوگوں کو قدرت نے اقتدار دیا انھوں نے اس نعمت پر اکتفا نہ کیا اور اسے اپنی مالی خوشحالی کا ذریعہ بنا لیا ۔ رعایا خودکشیاں کرتی رہی اور یہ لوگ اثاثے بناتے رہے۔ عوام کیا کرتے عوام تو ہماری جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں بے زبان ہیں ان کی کسی سطح پر کوئی شنوائی نہیں ہوتی، اس لیے کسی نہ کسی کو تو آگے آنا تھا اور ان لوگوں کا احتساب کرنا تھا۔
اقتدار کی آڑ میں اثاثے بنانے والوں کا اگر احتساب نہ کیا گیا تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے اور وہ کیوں ایسی قوم کی حفاظت کرے گا جو دیانت و امانت کے کم تر تقاضوں کو بھی پورا نہیں کرتی۔ وہ رب العالمین ہے، رب المسلمین نہیں بلکہ مسلمانوں کو وہ دوسروں سے زیادہ سزا دیتا ہے کیونکہ وہ اس کی تعلیمات کے اقرار کے بعد بے وفائی کرتے ہیں۔ غداری کی سزا اس سے بہر حال زیادہ ہوتی ہے جو باہر کا ہوتا ہے اور جس کوئی عہد نہیں ہوتا۔
اثاثوں کا رضاکارانہ اعلان عام طور پر کم ہی ہوتا ہے لیکن ماضی کی حکومتیں کچھ ایسے قوانین بھی بنا گئیں یا غلطی سے ان سے کچھ ایسے کام بھی سر زد ہو گئے جس کے تحت جو لوگ اس ملک کے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں ، اہم عہدوں پر فائز ہیں یا قانون کے وضع کردہ دائر ہ کار کے تحت کاروبار کر رہے ہیں، ان کو اپنے اثاثوں کو ظاہر کرنا ہوتا ہے تا کہ وہ اپنی سالانہ آمدن کی بنیاد پر حکومت کو ٹیکس ادا کریں۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے تک ٹیکسوں کا حساب کرنے والے محکمے کے کارندے ٹیکس دینے والوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خزانے سے زیادہ اپنے خزانے کو بھرنے کو فوقیت دیتے تھے اور جو کچھ بچ جاتا وہ حکومت کے خزانے میں کسی حساب کتاب کے بغیر جمع کر دیا جاتا۔ ان کی کوئی چھان بین نہیں ہوتی تھی بلکہ ہمارے سیاستدان ہی ان کی ڈھال بن جاتے تھے اور اقتدار میں آنے والے اقتدار سے محروم لوگوں کو بھی تحفظ فراہم کرتے تھے۔ چور چوروں کا تحفظ نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔
ہماری حکومت کے سامنے ایسے ہی مسائل کے کئی پہاڑ کھڑے ہیں جن پر چڑھنے کے لیے اس کو راستہ نہیں مل رہا اور جو راستہ دکھائی دے رہا ہے وہ راستہ پہاڑ کی اترائی میں کھڑے عوام کی جانب جا رہا ہے اور پہاڑ پر چڑھنے کی بجائے عوام کو مزید زیر بار کیا جا رہا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان بار بار قوم سے رجوع کر رہے ہیں اور ان کو بتا رہے ہیں کہ ان کی قومی دولت کو کس قدر لوٹا گیا ہے ۔ انھوں نے ان لوٹے اثاثوں کو ملکی خزانے کا حصہ بنانے کے لیے ایک اسکیم متعارف کرائی ہے کہ چھپائے گئے مال کا بہت تھوڑا سا حصہ حکومتی خزانے میں جمع کرا کے اپنی دولت کو قانونی بنا لیں ۔
اس اسکیم سے حکومت کو کیا نتائج حاصل ہوتے ہیں اس کا علم تو آنے والے دنوں میں ہوگا لیکن خبروں سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی اس پیشکش سے بہت کم لوگ استفادہ کر رہے ہیں۔ میں عرض کروں کہ اگر پاکستان کے عوام کے سیاسی لیڈر اور بڑے کاروباری لوگ اگر پاکستان کی بقاء کی خاطر اپنے اثاثوں کا رضاکارانہ طور پر اعلان دیں تو پاکستانی عوام حیران و پریشان ہو جائیں گے کہ ان کے ملک کے اپنے لوگوں کے پاس کس قدر دولت کے انبار موجود ہیں ۔ ہمیں کسی آئی ایم ایف یا عالمی مالیاتی اداروں کی قطعاً ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ وہ دولت ہے جو اس ملک میں رہ کر اس ملک کے وسائل کو استعمال کر کے ہی کمائی گئی ہے اور اس ملک کی امانت ہے لیکن ہم اس قومی امانت میں خیانت کر رہے ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل ہم نے دیکھا کہ اس ملک کے بااثر لوگوں کے گھروں میں لوٹی گئی دولت کے کروڑوں اربوں روپے نقدی کی صورت میں موجود ہیں جن کی گنتی کے لیے مشینیں بھی جواب دے گئیں تھیں ۔ عوام جب یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں اپنے لیڈروں کے لیے رہی سہی ہمدردی بھی ختم ہو جاتی ہے لیکن وہ ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے سوائے اس کے کہ ان کو الیکشن میں ووٹ نہ دیں۔
حکومت ملک کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے ۔ یہ مسائل اگر وہ صدق نیت سے حل کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر ہم عوام بھی ان کا ساتھ دیں گے اور اگر انھوں نے بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح سیاسی شعبدہ بازی کی کوشش کی تو پھر وہ جانیں اور ان کے مسائل۔ پاکستان کے عوام اب سیانے ہو گئے ہیں اگر وہ کسی سیاستدان کے لیے تحریک نہیں چلاتے تو کسی حکمران کی مدد پر بھی تیار نہیں تا آنکہ وہ ان کی مدد پر تیار نہ ہو۔ یہ اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیمیں ہم نے پہلے بھی بہت دیکھی ہیں اور ان کے نتائج سے بھی آگاہ ہیں ۔ یہ بڑے لوگوں کے کھیل ہیں جو وہ ایک دوسرے سے کھیلتے ہیں۔ ہم عوام کا اثاثہ تو دو وقت کی روٹی ہے جس کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔