نیب کی تفتیش کیخلاف ارسلان افتخار کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

عدالت، اٹارنی جنرل کا بحریہ ٹاؤن کیلیے کام کرنے کا معاملہ چھپانے کا بھی نوٹس


بادی النظر میں اٹارنی جنرل نے عدالتی فیصلے سے تجاوز کیا، عدالت، اٹارنی جنرل کا بحریہ ٹاؤن کیلیے کام کرنے کا معاملہ چھپانے کا بھی نوٹس۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے ڈاکٹر ارسلان اور ملک ریاض کے درمیاں لین دین کے حوالے سے نیب کی انکوائری کے خلاف نظر ثانی کی درخواست پر سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا جبکہ عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ بادی النظر میں اٹارنی جنرل نے نیب کو خط لکھ کر عدالتی فیصلے کے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے۔

عدالت نے ماضی میں اٹارنی جنرل عرفان قادر کا بحریہ ٹاؤن کے لیے کام کرنے کا معاملہ چھپانے کا بھی نوٹس لیا ہے اور آبزرویشن دی ہے کہ اگر اس حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا جاتا تو اٹارنی جنرل کو کبھی بھی یہ کام نہیں سونپا جاتا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل بینچ نے ڈاکٹر ارسلان کے وکیل سردار اسحاق کی طرف سے اس دلیل کو مسترد کیا جس میں انھوں نے کہا کہ چیئر مین نیب کی بیٹی بحریہ ٹاؤن کی ملازمت کرتی رہی ہے اور اس وجہ سے چیئر مین نیب جانب داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ارسلان کے وکیل نے اٹارنی جنرل کی غیر جانبداری کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ ماضی میں وہ بحریہ ٹاؤن کے لیے مقدمات کی پیروی کرتے رہے ہیں اور وہ اس معاملے میں وہ غیر جانبدار نہیں۔ انھوں نے کہا عدالت نے اٹارنی جنرل کو انکوائری کے لیے ریاستی مشینری فعال کرنے کا اختیار دیا تھا کیس نیب کو بھیجنے کا نہیں کہا تھا۔ فاضل وکیل نے کہا 2 پرائیویٹ افراد کے درمیان لین دین کی انکوائری کا اختیار نیب کے پاس نہیں۔

انھوں نے چیئر مین نیب کے حوالے سے متعدد الزامات عائد کیے اور کہا کہ وہ اس کیس میں ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں۔ فا ضل وکیل نے اسلام آباد کے حدود سے باہر حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج سے انکوائری کرانے کی درخواست کی۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ کیا انکوائری ملک سے باہر بھیج دیں یا کسی کو منگوائیں۔ بحریہ ٹاؤن کے وکیل زاہد بخاری نے الزامات مسترد کیے اور کہا کہ نیب کو انکوائری کا اختیار ہے ماضی میں بھی نیب نے عدالت کے حکم پر اس قسم کی انکوائریاں کی ہیں۔

انھوں نے کہا جب جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم سے متنازع افراد نکل گئے ہیں تو انکوائری پر اعتراض بلا جواز ہے۔ زاہد بخاری نے رجسٹرار کی طرف سے اس ضمن میں وضاحتی بیان جاری کرنے اور اسے نمایاں طور پر شائع کرانے کا نکتہ بھی اٹھا یا اور کہا کہ رجسٹرار نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے، انھیں ایسا نہیں کر نا چاہیے تھا۔ فاضل وکیل نے اٹارنی جنرل پر لگائے گئے الزامات کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ انھوں نے صرف پیغام رساں کا کردار ادا کیا تھا۔

ملک ریاض کے وکیل نے چیئر مین پر لگائے گئے الزامات بھی مسترد کیے اور کہا کہ اگر کسی کے بچے کی ملازمت غیر جانبداری کے لیے معیار مقرر ہو جائے تو پھر یہ سلسلہ یہی نہیں رکے گا، جج بھی محفوظ نہیں رہیں گے کیونکہ ججوں کے بچے پڑھتے بھی ہیں اور ملازمت بھی کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر انکوائری کسی جج سے کرانے کا فیصلہ کیا گیا تو وہ اس پر اعتراض کریں گے، میرے موکل نے اس ضمن میں واضح طور پر بتا دیا ہے کہ ملک ریاض کو کسی جوڈیشل کمیشن پر اعتماد نہیں ہوسکتا اس لیے وہ کسی کمیشن کو قبول نہیں کریں گے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بیٹی کی بنیاد پر جانبداری کا الزام عدالت نے نہیں مانا اس لیے اس پر زور دینے کی ضرورت نہیں، عدالت کے سامنے معیار بچے نہیں بلکہ اختیار اور اس کا استعمال ہے۔ فاضل جج نے کہا ہر شخص اور ادارے کی عزت، وقاراورساکھ اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا اٹارنی جنرل نے پیغام رساں کا کردار ادا نہیں کیا بلکہ ان کا خط تنازع کی اصل وجہ ہے۔

اٹارنی جنرل کو فیصلہ پڑھ کر دیکھنا چاہیے تھا کہ نیب کو انکوائری کا اختیار ہے بھی کہ نہیں۔ جسٹس جواد نے کہا اٹارنی جنرل نے مستعدی کا مظاہر ہ کیا ہے انھیں ریاستی مشینری کو فعال کرنے کے لیے کہا گیا تھا کیس نیب کو بھجوانے کا نہیں کہا گیا تھا۔ زاہد حسین کا کہنا تھا کہ یہ اختیار انھیں عدالت نے دیا تھا جس پر جسٹس خلجی نے کہا اگر عدالت نے دیا تھا تو غلط تھا وہ زمانہ گیا جب عدالت آئین میں ترمیم کا اختیار دیا کر تی تھی، عدالت نے اپنے فیصلے میں اینٹی کرپشن اور تعزیرات پاکستان کا بھی ذکر کیا ہے، بظاہر اٹارنی جنرل عدالت کے فیصلے سے با ہر نکلے ہیں۔

جسٹس جواد نے زاہد حسین بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب عدالت کے سامنے یہ معاملہ آیا تو آپ نے میمو کمیشن کی طرز پر انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن عدالت نے ایسا نہیں کیا۔ زاہد بخاری نے تجویز دی کہ سپریم کورٹ خود نیب سے کسی افسر کو انکوائری کے لیے مقرر کر دے۔ انھوں نے ارسلان کے کنڈکٹ کو بھی دیکھنے کی درخواست کی۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل اکبر تارڑ نے چیئرمین نیب پر لگائے گئے الزامات مسترد کیے اور کہا کہ ادارے کی آزادی ،خود مختاری، وقار، غیر جانبداری اور ساکھ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا انکوائری شفاف بنانے کے لیے جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنائی گئی تھی۔

جسٹس جواد نے کہا پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا نے عدالت کو بتایا تھا کہ ایگزیکٹیو بورڈ میٹنگ میں وہ شامل نہیں تھے جس میں جے آئی ٹی کا فیصلہ ہوا جبکہ انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ٹیم کے بعض ممبران متنازع ہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل شفیع چانڈیو نے تسلیم کیا اٹارنی جنرل ماضی میں بحریہ ٹاؤن کی پیروی کرتے رہے ہیں لیکن اس سے ان کی غیر جانبداری متاثر نہیں ہوتی کیونکہ وکیل مخالف بھی ماضی میں بحریہ ٹاؤن کے وکیل رہے ہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا عدالت جس سے انکوائری کرانے کا فیصلہ کرے گی حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ کرکے قرار دیا کہ اگلے دو دن میں صادر کردیا جائے گا۔

ملک ریاض حسین کی طرف سے نظرثانی کی درخواست جو گزشتہ دو سال سے زیر سماعت ہے، فاضل بینچ نے سماعت کے بعد اس کے بارے میں قرار دیا کہ دوسرے کیس میں ملک ریاض کی نظرثانی کی درخواست کی سماعت موجودہ بینچ نہیں کرے گا بلکہ تین فاضل جج صاحبان پر مشتمل لارجر بینچ سماعت کرے گا جس کے لیے ججوں کی نامزدگی چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے۔ این این آئی اور آن لائن کے مطابق جسٹس جواد ایس خواجہ نے دوران سماعت کہا کہ وہ نہیں بتاسکتے کہ انھیں کس قسم کے دھمکی آمیز خطوط آتے ہیں ڈرنے والے نہیں۔ زاہدی بخاری نے کہا کہ ان کے موکل کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، وارنٹ علی ریاض کے جاری ہوئے اور 16 گاڑیاں بحریہ ٹائون کی پکڑی گئیں، عدالت 14 جون کے اپنے فیصلے کے بعد ارسلان افتخار کا کنڈکٹ بھی ملاحظہ کرے اور چیئرمین نیب کو لکھے گئے دھمکی آمیز خطوط کا بھی نوٹس لیا جائے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے 3 آئینی نکات اٹھاتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب نے اسلام آباد پولیس اور ایف آئی اے سے کیوں بندے لیے ،ان کے پاس ایسی کون سی زیادہ مہارتیں تھیں جو نیب والوں کے پاس نہیں تھیں۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقاتی ٹیم کیلیے نام مانگے گئے تھے اور ایف آئی اے اور پولیس کو خط لکھے گئے تھے تاکہ شفاف تحقیقات ہوں۔ ہمارے سامنے عدالتی حکم تھا، یہ کام اٹارنی جنرل کے خط پر نہیں ہوا پنجاب بینک کیس میں بھی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی تھی۔ سردار اسحاق نے کہا کہ ارسلان افتخار کو ورغلا کر پیسے دیے گئے۔

آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے ارسلان افتخار کی نظرثانی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ بینچ آپس میں مشاورت کرکے 2دن میں فیصلہ سنا دے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے آبزرویشن دی کہ ہم بتانہیں سکتے کہ ہم کس قسم کے دھمکی آمیز خطوط آتے ہیں لیکن ہم ڈرنے والے نہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ کیوں نہ تفتیش کو ملک سے باہر بھیج دیں یا کسی کو باہر سے منگوالیں جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں تو کوئی ایماندار شخص نہیں کیوں نہ پھر ایف بی آئی اور اسکاٹ لینڈ یارڈ سے تحقیقات کروالیں؟۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں