شہر میں معصوم بچیوں کا قاتل گروہ سرگرم
ایک بچی کی نعش برآمد دوسری کو لاپتہ ہوئے ایک ماہ گزر چکا، پولیس بے بس
اولاد والدین کے لیے ایسی نعمت ہے کہ وہ اس کی حفاظت اور پرورش پر اپنی جان تک دینے کو تیارہوجاتے ہیں۔
اپنے منہ سے نوالہ نکال کر بچوں کو دیتے ہیں تاکہ ان کو دنیا بھرکی خوشیاں ملیں، جب وہ ان سے بچھڑتے ہیں یا ان کو کوئی تکلیف ہوتو والدین کی جان پہ بن آتی ہے، لیکن دوسری طرف پتھر دل جرائم پیشہ افراد ننھی کلیوں کو مسلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ میڈیا پر آئے روز ایسی مہم چلائی جاتی ہیں کہ بچوں کی حفاظت کریں، انجان افراد سے اشیاء نہ لے کرکھانے بارے ہدایات کی جاتی ہیں تاکہ قیمتی جانیں بچ سکیں، لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ایسا ہو ہی جاتا ہے، جس سے پھر انسانیت بھی شرما جائے۔
گوجرانوالہ میں ان دنوں بچوں کو اغواء کے بعد مبینہ طور پر زیادتی کرنے والا گروہ متحرک ہے، جس میں اب تک ایک بچی کی جان جا چکی ہے جبکہ دوسری کی تاحال تلاش جاری ہے۔ تھانہ گرجاکھ کے علاقہ محلہ افضل پورہ میں نبیل اور اس کی اہلیہ غربت میں بھی خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے کہ 15 مئی کو ان پہ قیامت ٹوٹ پڑی، ان کی تین سالہ بچی خضرفاطمہ گھر سے ٹافیاں لینے گئی اور واپس گھر نہ آئی، والدین نے اہل محلہ کے ساتھ بچی تلاش کی مگر رات بھر اس کی کوئی خبر نہ ملی۔
اگلے روز نبیل نے تھانہ گرجاکھ میں درخواست اور بچی کی تصویر دی مگر وہاں پر تعینات ایس ایچ او بدرمنیر نے غفلت و لاپرواہی کا مظاہرہ کیا اور درخواست پر کوئی کان نہ دھرے۔ بچی کو گھر کے پاس نالہ میں تلاش کیا گیا، مساجد میں اعلانات کروائے گئے، کیبل پر اشتہارارت چلائے گئے مگر 15 روز بعد والدین کو تھانہ ایمن آباد جوکہ گوجرانوالہ سے دس کلومیٹر کے فاصلہ پرہے پولیس سٹیشن بلایاگیا کہ ان کو ایک کم سن بچی کی نعش نہر سے ملی تھی، جسے لاوارث کرکے دفن کردیاگیا ہے۔ نبیل اپنی اہلیہ کے ہمراہ تھانہ ایمن آباد گیا، جہاں بچی کے کپڑوں کی شناخت ہونے پروالدین پر غشی کے دورے پڑنے لگے کیوں کہ وہ خضر فاطمہ ہی کے کپڑے تھے۔
بچی کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ ایس ایچ او ایمن آباد نے بتایاکہ ان کو نعش 20 مئی کو ملی تھی اور نعش چارپانچ روز پرانی تھی اس لیے فوری تدفین کرنا پڑی۔ بچی کاکامونکی میں پوسٹ مارٹم کروایاگیا، جس میں پتہ چلا کہ بچی کی موت گلا دبانے سے ہوئی تاہم مزید تفصیل کے لیے نمونہ جات فرانزک لیب بھیجے گئے ہیں۔ اس عمل میں پولیس کی ایک بہت بڑی کمزوری سامنے آئی کہ ضلع کے تیس تھانوں میں کوئی رابطہ نہیں، وائرلیس صرف سرکل کی حدتک کام کرتی ہے، بچی کی نعش کے ملنے بارے وائرلیس پر کال کی گئی، جو صدر سرکل تک ہی محدود رہی۔
نبیل کے گھر پر صف ماتم بچھ گئی، ایس ایچ او بدرمنیر نے والدین کو منع کیاکہ کسی سے بات نہ کریں، قاتل مل جائے گا۔ ابھی خضرفاطمہ کیس قتل میں تبدیل ہی ہوا تھا کہ اسی محلہ کے رہائشی سلیم کی 5 سالہ بچی کائنات بارے خبر آئی کہ وہ بھی ایک ماہ سے غائب ہے اور سلیم کے باربار چکر کاٹنے پر کائنات کا مقدمہ تک نہ درج ہوسکا۔ پانچ دن بعد سلیم کو ایس ایچ او کی طرف سے صرف رپورٹ کی کاپی دی گئی تاکہ وہ بھی اشتہار دے سکے۔
میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد پولیس افسران حرکت میں آئے، وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے بچیوں کے اغواء کی رپورٹ طلب کی تو سی پی او ڈاکٹر معین مسعود نے فوری طور پرایس ایچ او بدرمنیر کو معطل کردیا، تفتیش بھی سب انسپکٹر اشفاق سے لے کر سب انسپکٹر آفتاب کو دے دی گئی۔ پولیس نے پھر سے کیسز کی تفتیش کا آغاز کر دیا۔
تمام رشتہ داروں کے فون نمبر لئے گئے، سڑکوں پر لگے کیمروں کی ویڈیوز کا ریکارڈ لیا جانے لگا۔ پولیس اب تک درجنوں افراد کے کال ریکارڈز لے کر اس پر کام کرچکی ہے مگر تاحال بچی کے قاتل اور دونوں کے اغواء کار سامنے نہیں آ سکے۔ یہ کیس پولیس کے لئے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ پولیس اس چیلنج سے کیسے نمٹتی ہے؟
اپنے منہ سے نوالہ نکال کر بچوں کو دیتے ہیں تاکہ ان کو دنیا بھرکی خوشیاں ملیں، جب وہ ان سے بچھڑتے ہیں یا ان کو کوئی تکلیف ہوتو والدین کی جان پہ بن آتی ہے، لیکن دوسری طرف پتھر دل جرائم پیشہ افراد ننھی کلیوں کو مسلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ میڈیا پر آئے روز ایسی مہم چلائی جاتی ہیں کہ بچوں کی حفاظت کریں، انجان افراد سے اشیاء نہ لے کرکھانے بارے ہدایات کی جاتی ہیں تاکہ قیمتی جانیں بچ سکیں، لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ایسا ہو ہی جاتا ہے، جس سے پھر انسانیت بھی شرما جائے۔
گوجرانوالہ میں ان دنوں بچوں کو اغواء کے بعد مبینہ طور پر زیادتی کرنے والا گروہ متحرک ہے، جس میں اب تک ایک بچی کی جان جا چکی ہے جبکہ دوسری کی تاحال تلاش جاری ہے۔ تھانہ گرجاکھ کے علاقہ محلہ افضل پورہ میں نبیل اور اس کی اہلیہ غربت میں بھی خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے کہ 15 مئی کو ان پہ قیامت ٹوٹ پڑی، ان کی تین سالہ بچی خضرفاطمہ گھر سے ٹافیاں لینے گئی اور واپس گھر نہ آئی، والدین نے اہل محلہ کے ساتھ بچی تلاش کی مگر رات بھر اس کی کوئی خبر نہ ملی۔
اگلے روز نبیل نے تھانہ گرجاکھ میں درخواست اور بچی کی تصویر دی مگر وہاں پر تعینات ایس ایچ او بدرمنیر نے غفلت و لاپرواہی کا مظاہرہ کیا اور درخواست پر کوئی کان نہ دھرے۔ بچی کو گھر کے پاس نالہ میں تلاش کیا گیا، مساجد میں اعلانات کروائے گئے، کیبل پر اشتہارارت چلائے گئے مگر 15 روز بعد والدین کو تھانہ ایمن آباد جوکہ گوجرانوالہ سے دس کلومیٹر کے فاصلہ پرہے پولیس سٹیشن بلایاگیا کہ ان کو ایک کم سن بچی کی نعش نہر سے ملی تھی، جسے لاوارث کرکے دفن کردیاگیا ہے۔ نبیل اپنی اہلیہ کے ہمراہ تھانہ ایمن آباد گیا، جہاں بچی کے کپڑوں کی شناخت ہونے پروالدین پر غشی کے دورے پڑنے لگے کیوں کہ وہ خضر فاطمہ ہی کے کپڑے تھے۔
بچی کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ ایس ایچ او ایمن آباد نے بتایاکہ ان کو نعش 20 مئی کو ملی تھی اور نعش چارپانچ روز پرانی تھی اس لیے فوری تدفین کرنا پڑی۔ بچی کاکامونکی میں پوسٹ مارٹم کروایاگیا، جس میں پتہ چلا کہ بچی کی موت گلا دبانے سے ہوئی تاہم مزید تفصیل کے لیے نمونہ جات فرانزک لیب بھیجے گئے ہیں۔ اس عمل میں پولیس کی ایک بہت بڑی کمزوری سامنے آئی کہ ضلع کے تیس تھانوں میں کوئی رابطہ نہیں، وائرلیس صرف سرکل کی حدتک کام کرتی ہے، بچی کی نعش کے ملنے بارے وائرلیس پر کال کی گئی، جو صدر سرکل تک ہی محدود رہی۔
نبیل کے گھر پر صف ماتم بچھ گئی، ایس ایچ او بدرمنیر نے والدین کو منع کیاکہ کسی سے بات نہ کریں، قاتل مل جائے گا۔ ابھی خضرفاطمہ کیس قتل میں تبدیل ہی ہوا تھا کہ اسی محلہ کے رہائشی سلیم کی 5 سالہ بچی کائنات بارے خبر آئی کہ وہ بھی ایک ماہ سے غائب ہے اور سلیم کے باربار چکر کاٹنے پر کائنات کا مقدمہ تک نہ درج ہوسکا۔ پانچ دن بعد سلیم کو ایس ایچ او کی طرف سے صرف رپورٹ کی کاپی دی گئی تاکہ وہ بھی اشتہار دے سکے۔
میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد پولیس افسران حرکت میں آئے، وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے بچیوں کے اغواء کی رپورٹ طلب کی تو سی پی او ڈاکٹر معین مسعود نے فوری طور پرایس ایچ او بدرمنیر کو معطل کردیا، تفتیش بھی سب انسپکٹر اشفاق سے لے کر سب انسپکٹر آفتاب کو دے دی گئی۔ پولیس نے پھر سے کیسز کی تفتیش کا آغاز کر دیا۔
تمام رشتہ داروں کے فون نمبر لئے گئے، سڑکوں پر لگے کیمروں کی ویڈیوز کا ریکارڈ لیا جانے لگا۔ پولیس اب تک درجنوں افراد کے کال ریکارڈز لے کر اس پر کام کرچکی ہے مگر تاحال بچی کے قاتل اور دونوں کے اغواء کار سامنے نہیں آ سکے۔ یہ کیس پولیس کے لئے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ پولیس اس چیلنج سے کیسے نمٹتی ہے؟