ورلڈکپ دلچسپ مرحلے میں داخل
بڑی ٹیموں کی اَپ سیٹ شکستیں۔
ورلڈکپ کے آغاز پر انگلینڈ سمیت فیورٹس کیلئے سیمی فائنل تک رسائی کا سفر بڑا آسان نظر آرہا تھا، ابتدا میں بڑی ٹیموں کی کارکردگی بھی توقعات کے مطابق رہی۔
موسم اور کنڈیشنز کی تبدیلی کے ساتھ کنڈیشنز اور پچز کا مزاج بھی تبدیل ہوا تو چند غیر متوقع نتائج بھی سامنے آئے،خاص طور پر پاکستان کے کم بیک، انگلینڈ کی شکستوں نے پوائنٹس ٹیبل کی پوزیشن ہی بدل دی،سری لنکا نے انگلینڈ اور گرین شرٹس نے نیوزی لینڈ کو مات دیکر خطرے کی گھنٹی بجائی کہ کوئی بھی برج کسی بھی وقت الٹایا جاسکتا ہے،ابھی تک کے نتائج کو دیکھا جائے تو بھارتی ٹیم کی کارکردگی میں سب سے زیادہ تسلسل دیکھنے میں آیا ہے۔
بیٹسمین اپنے رول سے آگاہ اور بولرز کنڈیشنز کے مطابق بولنگ کررہے ہیں، فیلڈنگ میں بھی غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں،دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کو مضبوط امیدوار خیال نہیں کیا جارہا تھا لیکن کھلاڑیوں نے بہت جلد ماحول سے مطابقت پیدا کی، ٹیم مینجمنٹ کا ہوم ورک بھی اچھا نظر آیا،بولرز نے پچ کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہتر لائن و لینتھ سے حریفوں کیلئے مشکلات پیدا کیں، اس کی ایک مثال انگلینڈ کے خلاف میچ میں دیکھی جاسکتی ہے، میزبان بولرز اپنی ہوم کنڈیشنز میں بھی کینگروز کو رنز بنانے سے نہیں روک سکے۔
اننگز کے دوران بہتر حکمت عملی اختیار کی بھی تو پہلے ہی کافی نقصان ہوچکا تھا،انگلینڈ کی بیٹنگ میں مہمان بولرز کا بہتر پلان کارگر ہوا،اسی کی بدولت آسٹریلیا نے سیمی فائنل میں جگہ پکی کرنے والی پہلی ٹیم ہونے کا اعزاز حاصل کیا، نیوزی لینڈ نے بطور ٹیم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے،تاہم کامیابیوں کیلئے کپتان کین ولیمسن اور روس ٹیلر کی اچھی فارم پر انحصار کرنا پڑا۔
ٹاپ آرڈر کی ناکامی کے بعد بہت کم ٹیمیں سنبھلنے میں کامیاب رہی ہیں،کیویز اس معاملے میں دوسری ٹیموں سے ذرا مختلف ثابت ہوئے ہیں،اس کی وجہ سینئر بیٹسمین اور مشکل وقت میں اچھی کارکردگی دکھانے والے آل راؤنڈرز رہے ہیں، پاکستان کے خلاف میچ میں کین ولیمسن اور روس ٹیلر کی رخصتی کے بعد جمی نیشم اور کولن ڈی گرینڈ ہوم نے بیٹنگ کی لاج رکھی،بیٹنگ میں پاکستان کی تحمل مزاجی نے کیوی بولرز کو حاوی ہونے کا موقع نہیں دیا، بہرحال بڑی ٹیموں کی غلطیوں نے ورلڈکپ کو مزید دلچسپ بنادیا ہے۔
فیورٹس میں شامل ٹیموں کے ساتھ کوئی بھی خطرناک ٹیموں میں شامل پاکستان کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا،گرین شرٹس نے میگا ایونٹ میں غیر یقینی ہونے کی اپنی شناخت برقرار رکھی، مہم کے آغاز میں ویسٹ انڈیزکے خلاف میچ صرف 105رنز پر ڈھیر ہونے اور 7 وکٹ سے شکست کے بعد کوئی توقع نہیں کر رہا تھا کہ پاکستان ٹیم انگلینڈ کے خلاف میچ میں کم بیک کرسکے گی لیکن بیٹنگ لائن نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 348 رنز کا قابل قدر مجموعہ حاصل کیا،محمد حفیظ، بابر اعظم، سرفراز احمد سمیت بیٹسمین پر اعتماد ففٹیز بنانے میں کامیاب ہوئے۔
بعد ازاں بولرز نے جوزبٹلر اور جوئے روٹ کی سنچریز کے باوجود تسلسل کے ساتھ وکٹیں حاصل کی، تجربہ کار بولرز محمد عامر اور وہاب ریاض نے کلیدی کردار ادا کیا، اس کے بعد کمزور ٹیموں میں شمار کی جانے والی سری لنکا کے خلاف 2 پوائنٹس حاصل کرنے کا موقع بارش کی وجہ سے ضائع ہوا، دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کے خلاف محمد عامر نپی تلی بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیٹسمینوں کیلئے مشکلات پیدا کرتے رہے تو دوسرے اینڈ سے شاہین شاہ آفریدی اور دیگر بولرز کارکردگی کا معیار برقرار نہیں رکھ پائے، وہاب ریاض نے مواقع پیدا کئے بھی تو آصف علی نے کیچ چھوڑدیا، پہلے 25 اوورز میں 150 سے زیادہ رنز کے بدلے میں صرف ایک وکٹ لینے کے بعد پاکستانی بولرز نے کم بیک کیا لیکن دو مزید کیچز گرائے جانے کی وجہ سے کینگروز نے 307 تک رنز جوڑ لئے۔
ہدف کے تعاقب میں فخر زمان کی وکٹ جلد گنوانے کے بعد پاکستان نے بحالی کے بعد 2وکٹوں کے نقصان پر 136 رنز بنا لیے تھے کہ امام الحق اور محمد حفیظ نے اپنی وکٹوں کی قربانی پیش کردی، شعیب ملک سینئر کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے، آصف علی بھی دباؤ برداشت نہیں کرسکے، حسن علی اور وہاب ریاض کی جارحانہ اننگز نے فتح کی امید دلائی لیکن دونوں مشن مکمل کرنے میں ناکام رہے، لوئر آرڈر میں اکثر ناکام رہنے والے کپتان سرفراز احمد بھی کوئی کرشمہ نہیں دکھاسکے۔
اس مرحلے تک صرف 3پوائنٹس حاصل کرنے والی پاکستان ٹیم کا اگلا امتحان بھارت کے خلاف میچ تھا، شائقین پر امید تھے کہ گرین شرٹس روایتی حریف کے خلاف چیمپئنز ٹرافی فائنل کی کارکردگی دہراتے ہوئے ٹورنامنٹ میں واپس آجائیں گے لیکن مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا،محمد عامر نے ایک بار پھر بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا لیکن دیگر بولرز نے ان کے کوئی سبق نہیں سیکھا،روہت شرما کے آگے بے بس بولنگ لائن ویرات کوہلی پر بھی قابو پانے میں ناکام رہی۔
ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے فخرزمان اور بابر اعظم ہی تھوڑی مزاحمت کرسکے،شعیب ملک، محمد حفیظ اور سرفراز احمد اپنی ٹیم کی پریشانیوں میں اضافہ کرکے چلتے بنے،ڈک ورتھ لوئیس میتھڈ پر پاکستان کو 89رنز سے شکست ہوئی تو تنقید کا طوفان برپا ہوگیا،بارش کی مداخلت یقینی ہونے کے باوجود ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ غلط تھا،اگر بھارت کو بیٹنگ کی دعوت دے دی گئی تھی تو محمد عامر کے سوا بولرز کنڈیشنز کو سمجھ نہیں پائے،سرفراز احمد کی کپتانی اور ناقص فیلڈنگ پر بھی بجا طور پر سوالات اٹھائے گئے۔
پاکستان ٹیم نے غلطیاں کیں،ان کا خمیازہ ناکامی کی صورت میں بھگتا لیکن اس کے بعد اٹھنے والا طوفان بدتمیزی کسی طور قابل قبول نہیں کہا جاسکتا،انگلینڈ میں پاکستانی شائقین کی جانب سے گالیاں دینے اور آوازے کسنے کے ساتھ سوشل میڈیا پر گھٹیا الفاظ کے استعمال تک جو بھی حرکتیں کی گئیں، ان کو کسی طور پر جائز نہیں کہا جاسکتا،ہار جیت کھیل کا حصہ ہے،تنقید اور غلطیوں کی نشاندہی کرنے میں بھی کوئی عار نہیں لیکن اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرکے بحیثیت قوم کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔
ایک نوجوان نے ایک شاپنگ مال میں کپتان سرفراز احمد کو تضحیک کا نشانہ بناکر دیار غیر میں اپنے ہی ملک کا مذاق اڑایا،میدان کے اندر شکستوں سے دوچار ٹیم کی باہر بھی حوصلہ شکنی ہوئی تو خدشہ تھا کہ کارکردگی کا گراف مزید نیچے گرے گا، بیشتر ناقدین گرین شرٹس کا سفر تمام ہونے کی پیش گوئی کررہے تھے لیکن اس کے بعد حیران کن کارکردگی دیکھنے میں آئی۔
جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں پاکستان کی بیٹنگ خواب غفلت سے جاگی،ٹیم پر بوجھ ثابت ہونے والے شعیب ملک کو ڈراپ کرکے حارث سہیل کو شامل کرنے کا فیصلہ درست ثابت ہوا، مڈل آرڈر بیٹسمین نے پر اعتماد بیٹنگ کرتے ہوئے ٹیم کا ٹوٹل 300 سے اوپر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، بابر اعظم نے بھی ففٹی بنائی،امام الحق اور فخرزمان بڑی اننگز تو نہیں کھیل پائے لیکن اچھا آغاز فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے، بولرز نے بھی تسلسل کے ساتھ وکٹیں حاصل کیں، محمد عامر کے بعد وہاب ریاض نے اچھی لائن و لینتھ پر بولنگ کی،شاداب خان کی فارم بھی لوٹ آئی۔
بقا کی جنگ میں اگلا معرکہ ایونٹ کی ناقابل شکست نیوزی لینڈ کی ٹیم کے ساتھ تھا،اس میچ میں شاہین شاہ آفریدی کی بولنگ نے کھیل کا نقشہ بدل دیا، بعد ازاں شاداب خان نے کین ولیمسن کی وکٹ اڑاکر کیویز کا بڑے سکور کا خواب خاک میں ملادیا، سپنرز کیلئے سازگار کنڈیشنز میں بولرز گیند کو ٹرن کرنے کے بجائے لینتھ کے ذریعے رنز روکنے کی کوشش میں رہے جس کی وجہ سے جمی نیشم اور کولن ڈی گرینڈ ہوم کو سیٹ ہونے کا موقع ملا،کیویز گرتے پڑتے بہتر ٹوٹل حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کے بعد بولرز نے بھی ابتدا میں مشکلات پیدا کیں، اس موقع پر بابر اعظم نے سنچری اننگز میں فتح کا مشن مکمل کیا۔
حارث سہیل نے بھی ذمہ دارانہ بیٹنگ کا مظاہر کیا،ایک پہاڑ گرانے کے بعد گرین شرٹس کا اگلا امتحان پہلی فتح کی متلاشی افغان ٹیم کے ساتھ تھا،پاکستانی بولرز نے وکٹیں تو حاصل کیں لیکن اننگز کے دوران حریف بیٹسمین روایتی جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے پریشانی بھی پیدا کرتے رہے،اصغر افغان کے بعد نجیب اللہ زدران نے بھی اچھے سٹروکس کھیلے اور ٹیم کا ٹوٹل 200سے اوپر پہنچانے میں مددگار ثابت ہوئے، شاہین شاہ آفریدی نے نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کی عمدہ فارم برقرار رکھی، دایاں ہاتھ زخمی ہونے کے باوجود وہاب ریاض نے اچھی بولنگ کی۔
ورلڈکپ کے ٹاپ بولرز میں شامل محمد عامر گزشتہ میچز جیسی کارکردگی نہیں دہراپائے، ان سطور کے لکھے جانے تک میچ میں پاکستان ٹیم فیورٹ تھی،گرین شرٹس کی مجموعی کارکرگی کا جائزہ لیا جائے تو کم بیک کی غیر معمولی صلاحیت کئی غلطیاں بھی سامنے آئی ہیں،کپتان کے فیصلوں،بیٹنگ میں سینئرز کے کردار، بولرز کی کارکردگی میں عدم تسلسل اور ناقص فیلڈنگ سمیت کئی مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے مسلسل کام کرتے رہنے کی ضرور ت ہے۔
موسم اور کنڈیشنز کی تبدیلی کے ساتھ کنڈیشنز اور پچز کا مزاج بھی تبدیل ہوا تو چند غیر متوقع نتائج بھی سامنے آئے،خاص طور پر پاکستان کے کم بیک، انگلینڈ کی شکستوں نے پوائنٹس ٹیبل کی پوزیشن ہی بدل دی،سری لنکا نے انگلینڈ اور گرین شرٹس نے نیوزی لینڈ کو مات دیکر خطرے کی گھنٹی بجائی کہ کوئی بھی برج کسی بھی وقت الٹایا جاسکتا ہے،ابھی تک کے نتائج کو دیکھا جائے تو بھارتی ٹیم کی کارکردگی میں سب سے زیادہ تسلسل دیکھنے میں آیا ہے۔
بیٹسمین اپنے رول سے آگاہ اور بولرز کنڈیشنز کے مطابق بولنگ کررہے ہیں، فیلڈنگ میں بھی غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں،دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کو مضبوط امیدوار خیال نہیں کیا جارہا تھا لیکن کھلاڑیوں نے بہت جلد ماحول سے مطابقت پیدا کی، ٹیم مینجمنٹ کا ہوم ورک بھی اچھا نظر آیا،بولرز نے پچ کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہتر لائن و لینتھ سے حریفوں کیلئے مشکلات پیدا کیں، اس کی ایک مثال انگلینڈ کے خلاف میچ میں دیکھی جاسکتی ہے، میزبان بولرز اپنی ہوم کنڈیشنز میں بھی کینگروز کو رنز بنانے سے نہیں روک سکے۔
اننگز کے دوران بہتر حکمت عملی اختیار کی بھی تو پہلے ہی کافی نقصان ہوچکا تھا،انگلینڈ کی بیٹنگ میں مہمان بولرز کا بہتر پلان کارگر ہوا،اسی کی بدولت آسٹریلیا نے سیمی فائنل میں جگہ پکی کرنے والی پہلی ٹیم ہونے کا اعزاز حاصل کیا، نیوزی لینڈ نے بطور ٹیم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے،تاہم کامیابیوں کیلئے کپتان کین ولیمسن اور روس ٹیلر کی اچھی فارم پر انحصار کرنا پڑا۔
ٹاپ آرڈر کی ناکامی کے بعد بہت کم ٹیمیں سنبھلنے میں کامیاب رہی ہیں،کیویز اس معاملے میں دوسری ٹیموں سے ذرا مختلف ثابت ہوئے ہیں،اس کی وجہ سینئر بیٹسمین اور مشکل وقت میں اچھی کارکردگی دکھانے والے آل راؤنڈرز رہے ہیں، پاکستان کے خلاف میچ میں کین ولیمسن اور روس ٹیلر کی رخصتی کے بعد جمی نیشم اور کولن ڈی گرینڈ ہوم نے بیٹنگ کی لاج رکھی،بیٹنگ میں پاکستان کی تحمل مزاجی نے کیوی بولرز کو حاوی ہونے کا موقع نہیں دیا، بہرحال بڑی ٹیموں کی غلطیوں نے ورلڈکپ کو مزید دلچسپ بنادیا ہے۔
فیورٹس میں شامل ٹیموں کے ساتھ کوئی بھی خطرناک ٹیموں میں شامل پاکستان کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا،گرین شرٹس نے میگا ایونٹ میں غیر یقینی ہونے کی اپنی شناخت برقرار رکھی، مہم کے آغاز میں ویسٹ انڈیزکے خلاف میچ صرف 105رنز پر ڈھیر ہونے اور 7 وکٹ سے شکست کے بعد کوئی توقع نہیں کر رہا تھا کہ پاکستان ٹیم انگلینڈ کے خلاف میچ میں کم بیک کرسکے گی لیکن بیٹنگ لائن نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 348 رنز کا قابل قدر مجموعہ حاصل کیا،محمد حفیظ، بابر اعظم، سرفراز احمد سمیت بیٹسمین پر اعتماد ففٹیز بنانے میں کامیاب ہوئے۔
بعد ازاں بولرز نے جوزبٹلر اور جوئے روٹ کی سنچریز کے باوجود تسلسل کے ساتھ وکٹیں حاصل کی، تجربہ کار بولرز محمد عامر اور وہاب ریاض نے کلیدی کردار ادا کیا، اس کے بعد کمزور ٹیموں میں شمار کی جانے والی سری لنکا کے خلاف 2 پوائنٹس حاصل کرنے کا موقع بارش کی وجہ سے ضائع ہوا، دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کے خلاف محمد عامر نپی تلی بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیٹسمینوں کیلئے مشکلات پیدا کرتے رہے تو دوسرے اینڈ سے شاہین شاہ آفریدی اور دیگر بولرز کارکردگی کا معیار برقرار نہیں رکھ پائے، وہاب ریاض نے مواقع پیدا کئے بھی تو آصف علی نے کیچ چھوڑدیا، پہلے 25 اوورز میں 150 سے زیادہ رنز کے بدلے میں صرف ایک وکٹ لینے کے بعد پاکستانی بولرز نے کم بیک کیا لیکن دو مزید کیچز گرائے جانے کی وجہ سے کینگروز نے 307 تک رنز جوڑ لئے۔
ہدف کے تعاقب میں فخر زمان کی وکٹ جلد گنوانے کے بعد پاکستان نے بحالی کے بعد 2وکٹوں کے نقصان پر 136 رنز بنا لیے تھے کہ امام الحق اور محمد حفیظ نے اپنی وکٹوں کی قربانی پیش کردی، شعیب ملک سینئر کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے، آصف علی بھی دباؤ برداشت نہیں کرسکے، حسن علی اور وہاب ریاض کی جارحانہ اننگز نے فتح کی امید دلائی لیکن دونوں مشن مکمل کرنے میں ناکام رہے، لوئر آرڈر میں اکثر ناکام رہنے والے کپتان سرفراز احمد بھی کوئی کرشمہ نہیں دکھاسکے۔
اس مرحلے تک صرف 3پوائنٹس حاصل کرنے والی پاکستان ٹیم کا اگلا امتحان بھارت کے خلاف میچ تھا، شائقین پر امید تھے کہ گرین شرٹس روایتی حریف کے خلاف چیمپئنز ٹرافی فائنل کی کارکردگی دہراتے ہوئے ٹورنامنٹ میں واپس آجائیں گے لیکن مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا،محمد عامر نے ایک بار پھر بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا لیکن دیگر بولرز نے ان کے کوئی سبق نہیں سیکھا،روہت شرما کے آگے بے بس بولنگ لائن ویرات کوہلی پر بھی قابو پانے میں ناکام رہی۔
ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے فخرزمان اور بابر اعظم ہی تھوڑی مزاحمت کرسکے،شعیب ملک، محمد حفیظ اور سرفراز احمد اپنی ٹیم کی پریشانیوں میں اضافہ کرکے چلتے بنے،ڈک ورتھ لوئیس میتھڈ پر پاکستان کو 89رنز سے شکست ہوئی تو تنقید کا طوفان برپا ہوگیا،بارش کی مداخلت یقینی ہونے کے باوجود ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ غلط تھا،اگر بھارت کو بیٹنگ کی دعوت دے دی گئی تھی تو محمد عامر کے سوا بولرز کنڈیشنز کو سمجھ نہیں پائے،سرفراز احمد کی کپتانی اور ناقص فیلڈنگ پر بھی بجا طور پر سوالات اٹھائے گئے۔
پاکستان ٹیم نے غلطیاں کیں،ان کا خمیازہ ناکامی کی صورت میں بھگتا لیکن اس کے بعد اٹھنے والا طوفان بدتمیزی کسی طور قابل قبول نہیں کہا جاسکتا،انگلینڈ میں پاکستانی شائقین کی جانب سے گالیاں دینے اور آوازے کسنے کے ساتھ سوشل میڈیا پر گھٹیا الفاظ کے استعمال تک جو بھی حرکتیں کی گئیں، ان کو کسی طور پر جائز نہیں کہا جاسکتا،ہار جیت کھیل کا حصہ ہے،تنقید اور غلطیوں کی نشاندہی کرنے میں بھی کوئی عار نہیں لیکن اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرکے بحیثیت قوم کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔
ایک نوجوان نے ایک شاپنگ مال میں کپتان سرفراز احمد کو تضحیک کا نشانہ بناکر دیار غیر میں اپنے ہی ملک کا مذاق اڑایا،میدان کے اندر شکستوں سے دوچار ٹیم کی باہر بھی حوصلہ شکنی ہوئی تو خدشہ تھا کہ کارکردگی کا گراف مزید نیچے گرے گا، بیشتر ناقدین گرین شرٹس کا سفر تمام ہونے کی پیش گوئی کررہے تھے لیکن اس کے بعد حیران کن کارکردگی دیکھنے میں آئی۔
جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں پاکستان کی بیٹنگ خواب غفلت سے جاگی،ٹیم پر بوجھ ثابت ہونے والے شعیب ملک کو ڈراپ کرکے حارث سہیل کو شامل کرنے کا فیصلہ درست ثابت ہوا، مڈل آرڈر بیٹسمین نے پر اعتماد بیٹنگ کرتے ہوئے ٹیم کا ٹوٹل 300 سے اوپر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، بابر اعظم نے بھی ففٹی بنائی،امام الحق اور فخرزمان بڑی اننگز تو نہیں کھیل پائے لیکن اچھا آغاز فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے، بولرز نے بھی تسلسل کے ساتھ وکٹیں حاصل کیں، محمد عامر کے بعد وہاب ریاض نے اچھی لائن و لینتھ پر بولنگ کی،شاداب خان کی فارم بھی لوٹ آئی۔
بقا کی جنگ میں اگلا معرکہ ایونٹ کی ناقابل شکست نیوزی لینڈ کی ٹیم کے ساتھ تھا،اس میچ میں شاہین شاہ آفریدی کی بولنگ نے کھیل کا نقشہ بدل دیا، بعد ازاں شاداب خان نے کین ولیمسن کی وکٹ اڑاکر کیویز کا بڑے سکور کا خواب خاک میں ملادیا، سپنرز کیلئے سازگار کنڈیشنز میں بولرز گیند کو ٹرن کرنے کے بجائے لینتھ کے ذریعے رنز روکنے کی کوشش میں رہے جس کی وجہ سے جمی نیشم اور کولن ڈی گرینڈ ہوم کو سیٹ ہونے کا موقع ملا،کیویز گرتے پڑتے بہتر ٹوٹل حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کے بعد بولرز نے بھی ابتدا میں مشکلات پیدا کیں، اس موقع پر بابر اعظم نے سنچری اننگز میں فتح کا مشن مکمل کیا۔
حارث سہیل نے بھی ذمہ دارانہ بیٹنگ کا مظاہر کیا،ایک پہاڑ گرانے کے بعد گرین شرٹس کا اگلا امتحان پہلی فتح کی متلاشی افغان ٹیم کے ساتھ تھا،پاکستانی بولرز نے وکٹیں تو حاصل کیں لیکن اننگز کے دوران حریف بیٹسمین روایتی جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے پریشانی بھی پیدا کرتے رہے،اصغر افغان کے بعد نجیب اللہ زدران نے بھی اچھے سٹروکس کھیلے اور ٹیم کا ٹوٹل 200سے اوپر پہنچانے میں مددگار ثابت ہوئے، شاہین شاہ آفریدی نے نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کی عمدہ فارم برقرار رکھی، دایاں ہاتھ زخمی ہونے کے باوجود وہاب ریاض نے اچھی بولنگ کی۔
ورلڈکپ کے ٹاپ بولرز میں شامل محمد عامر گزشتہ میچز جیسی کارکردگی نہیں دہراپائے، ان سطور کے لکھے جانے تک میچ میں پاکستان ٹیم فیورٹ تھی،گرین شرٹس کی مجموعی کارکرگی کا جائزہ لیا جائے تو کم بیک کی غیر معمولی صلاحیت کئی غلطیاں بھی سامنے آئی ہیں،کپتان کے فیصلوں،بیٹنگ میں سینئرز کے کردار، بولرز کی کارکردگی میں عدم تسلسل اور ناقص فیلڈنگ سمیت کئی مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے مسلسل کام کرتے رہنے کی ضرور ت ہے۔