شکست پر شائقین کو حدود پار نہیں کرنی چاہئیں پروفیسر اعجاز فاروقی
اگر ہم بھارت سے جیت جاتے تو پلیئرز کی ہر حرکت شائقین کو اچھی لگتی مگر بدقسمتی سے ہار گئے۔
ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کی مہم جاری اور مجھے امید ہے کہ کھلاڑی قوم کو مایوس نہیں کریں گے، پہلا مرحلہ سیمی فائنل میں رسائی کا ہے، منزل اب قریب ہی نظر آ رہی ہے، البتہ بھارت سے میچ کے بعد جو کچھ ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا۔
روایتی حریف سے ہارنے پر پوری قوم کا مورال ڈاؤن اور سوگ کا سا سماں بن جاتا ہے، ایسے میں لوگ تنقید بھی کرتے ہیں مگر اس کی ایک حد ہونی چاہیے جسے کبھی پار کر کے بے عزتی تک لانا جائز نہیں بلکہ بہت غیرمناسب ہے۔
قومی ٹیم کے کپتان سرفرازاحمد میرے لیے اولاد کی طرح ہیں، میری خوش قسمتی ہے کہ تین سال تک جب پی سی بی گورننگ بورڈ کا رکن رہا تو اسی دوران سرفراز کو پہلے ٹی ٹوئنٹی اور پھر ون ڈے کیلئے کپتان مقرر کیا گیا،پھر جب میری ذمہ داری کا دورانیہ مکمل ہو رہا تھا تب ٹیسٹ کی قیادت بھی انھیں سونپ دی گئی، اچھی پرفارمنس اور خراب پرفارمنس اپنی جگہ مگر اس حد تک نہیں جانا چاہیے کہ ذاتی حملے اور ہراساں کیا جائے، حد کو پار نہ کریں، ٹیم کو ایک خراب پرفارمنس کے بعد دوسرا موقع تو دیں، ویسے بھی بھارت سے پاکستان پہلی بار نہیں ہارا۔
ورلڈکپ میں تو کبھی روایتی حریف کو شکست نہیں دی اور سات بار ناکامی ہوئی، یہ نہ بھولیں کہ اسی سرفراز کی قیادت میں دو برس قبل انگلینڈ میں ہی ٹیم نے بھارت کو چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں ہرایا تھا، کیا پتا اس بار بھی تاریخ اپنے آپ کو دہرا دے،جذباتی نہ ہوں،لعن طعن سے کھلاڑی دباؤ کا شکار ہوتے اور کارکردگی کا معیار مزید گر جاتا ہے، انھیں حوصلہ دیں کیونکہ وہی قوم کو خوشیوں کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ میں پوری پاکستانی قوم سے درخواست کرتا ہوں کہ کھلاڑی ہمارے ہیرو ہیں وہ کبھی جیتتے تو کبھی ہارتے ہیں، مگر اس دوران ہمیں اپنی حدود کو پار نہیں کرنا چاہیے، اچھی پرفارمنس کا انتظار کریں۔
جیسے ٹیم نے جنوبی افریقہ کو شکست دی، گوکہ فیلڈنگ کا معیار اچھا نہیں رہااور ہاتھوں سے کئی کیچز ڈراپ ہوئے،اس کے باوجود فتح نصیب ہوئی،پھر نیوزی لینڈ جیسی ناقابل شکست ٹیم کو بھی زیر کر لیا، مجھے یقین ہے کہ جس دن پاکستانی ٹیم نے کیچز گرانا چھوڑ دیئے ورلڈکپ تو کیا کسی بھی ایونٹ میں کوئی حریف اسے نہیں ہرا سکے گا، ہم جتنی بار ہارے اس میں فیلڈنگ کا اہم کردار رہا، آپ کسی بھی حریف کے اہم بیٹسمین کا کیچ چھوڑ دیں پھر تو اسے بہترین پرفارم کرنے کا مکمل لائسنس مل جاتا ہے۔
میں ماضی میں کئی ٹیموں کا منیجر رہ چکا اور بخوبی جانتا ہوں کہ منیجرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سائے کی طرح کھلاڑیوں کے ساتھ رہیں، انھیں حدود سے آگاہ کریں کہ کہاں جا سکتے ہیں اور کہاں نہیں،ویسے اگر ہم بھارت سے جیت جاتے تو پلیئرز کی ہر حرکت شائقین کو اچھی لگتی مگر بدقسمتی سے ہار گئے لہٰذا منفی چیزیں ہی سامنے آئیں۔ گزشتہ ورلڈکپ میں چیف سلیکٹر معین خان بھی تنازع میں پھنس گئے تھے جنھیں وطن واپس آنا پڑا تھا، لہٰذا احتیاط ضروری ہے۔
روایتی حریف سے ہارنے پر پوری قوم کا مورال ڈاؤن اور سوگ کا سا سماں بن جاتا ہے، ایسے میں لوگ تنقید بھی کرتے ہیں مگر اس کی ایک حد ہونی چاہیے جسے کبھی پار کر کے بے عزتی تک لانا جائز نہیں بلکہ بہت غیرمناسب ہے۔
قومی ٹیم کے کپتان سرفرازاحمد میرے لیے اولاد کی طرح ہیں، میری خوش قسمتی ہے کہ تین سال تک جب پی سی بی گورننگ بورڈ کا رکن رہا تو اسی دوران سرفراز کو پہلے ٹی ٹوئنٹی اور پھر ون ڈے کیلئے کپتان مقرر کیا گیا،پھر جب میری ذمہ داری کا دورانیہ مکمل ہو رہا تھا تب ٹیسٹ کی قیادت بھی انھیں سونپ دی گئی، اچھی پرفارمنس اور خراب پرفارمنس اپنی جگہ مگر اس حد تک نہیں جانا چاہیے کہ ذاتی حملے اور ہراساں کیا جائے، حد کو پار نہ کریں، ٹیم کو ایک خراب پرفارمنس کے بعد دوسرا موقع تو دیں، ویسے بھی بھارت سے پاکستان پہلی بار نہیں ہارا۔
ورلڈکپ میں تو کبھی روایتی حریف کو شکست نہیں دی اور سات بار ناکامی ہوئی، یہ نہ بھولیں کہ اسی سرفراز کی قیادت میں دو برس قبل انگلینڈ میں ہی ٹیم نے بھارت کو چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں ہرایا تھا، کیا پتا اس بار بھی تاریخ اپنے آپ کو دہرا دے،جذباتی نہ ہوں،لعن طعن سے کھلاڑی دباؤ کا شکار ہوتے اور کارکردگی کا معیار مزید گر جاتا ہے، انھیں حوصلہ دیں کیونکہ وہی قوم کو خوشیوں کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ میں پوری پاکستانی قوم سے درخواست کرتا ہوں کہ کھلاڑی ہمارے ہیرو ہیں وہ کبھی جیتتے تو کبھی ہارتے ہیں، مگر اس دوران ہمیں اپنی حدود کو پار نہیں کرنا چاہیے، اچھی پرفارمنس کا انتظار کریں۔
جیسے ٹیم نے جنوبی افریقہ کو شکست دی، گوکہ فیلڈنگ کا معیار اچھا نہیں رہااور ہاتھوں سے کئی کیچز ڈراپ ہوئے،اس کے باوجود فتح نصیب ہوئی،پھر نیوزی لینڈ جیسی ناقابل شکست ٹیم کو بھی زیر کر لیا، مجھے یقین ہے کہ جس دن پاکستانی ٹیم نے کیچز گرانا چھوڑ دیئے ورلڈکپ تو کیا کسی بھی ایونٹ میں کوئی حریف اسے نہیں ہرا سکے گا، ہم جتنی بار ہارے اس میں فیلڈنگ کا اہم کردار رہا، آپ کسی بھی حریف کے اہم بیٹسمین کا کیچ چھوڑ دیں پھر تو اسے بہترین پرفارم کرنے کا مکمل لائسنس مل جاتا ہے۔
میں ماضی میں کئی ٹیموں کا منیجر رہ چکا اور بخوبی جانتا ہوں کہ منیجرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سائے کی طرح کھلاڑیوں کے ساتھ رہیں، انھیں حدود سے آگاہ کریں کہ کہاں جا سکتے ہیں اور کہاں نہیں،ویسے اگر ہم بھارت سے جیت جاتے تو پلیئرز کی ہر حرکت شائقین کو اچھی لگتی مگر بدقسمتی سے ہار گئے لہٰذا منفی چیزیں ہی سامنے آئیں۔ گزشتہ ورلڈکپ میں چیف سلیکٹر معین خان بھی تنازع میں پھنس گئے تھے جنھیں وطن واپس آنا پڑا تھا، لہٰذا احتیاط ضروری ہے۔