مغلوں نے مذہبی رواداری کا ماڈل منگولوں سے مستعار لیا

مغلوں کی پالیسی منگول حکمت عملی کا احیا تھی، پروفیسراظفرمعین کی گفتگو

قبول اسلام سے قبل منگولوں نے تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کی پالیسی اپنائی۔ فوٹو: فائل

زیادہ تر لوگ جب مغلوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کے ذہن میں ایک ایسا جنوبی ایشیا ابھرتا ہے جو اپنے اوج کمال پر تھا۔

لوگوں کے پردۂ تصور پر مغل دور کی تعمیرات کی شان و شوکت، جنوبی ایشیائی فنون، ادب اور موسیقی پر ان کے چھوڑے گئے نقوش اُبھر آتے ہیں۔ ان کے ذہن میں مذہبی ہم آہنگی سے بھرپور سماج کا تصور جنم لیتا ہے جو تین صدیوں تک مغلوں کے دورحکمرانی میں پھلتا پُھولتا رہا۔

اس کے برعکس جب بہت سے لوگ منگولوں کے بارے میں غور کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ایک ایسے وحشی ہجوم کا تصور جنم لیتا ہے جو جہاں بھی گیا وہاں بربریت اور تباہی کی داستانیں رقم کرتا رہا۔ جدید تصورات میں ان دونوں تہذیبوں کو ایک دوسرے کے برعکس سمجھا جاتا ہے۔ تاہم تاریخ کے ایک ماہر کو یقین ہے کہ مغلوں نے مذہبی اور نسلی رواداری منگولوں سے سیکھی اور اس کا پرچار کیا۔


آسٹن میں واقع ٹیکساس یونی ورسٹی سے وابستہ پروفیسر اظفر معین جن کے مطالعے کا خاص میدان جنوبی ایشیا میں اسلام کی تاریخ اور مغل بادشاہت ہے اور مذہبی علوم کی تدریس کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس بارے میں متعدد آرا ء پائی جاتی ہیں کہ مغل بادشاہوں نے ' صلح کل' کی پالیسی کس سے متاثر ہوکر اپنائی۔ ایک عام رائے یہ ہے کہ وہ خواجگان چشت سے متاثر ہوئے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ فارسی علم و دانش سے متاثر ہوکر یہ پالیسی اختیار کی گئی۔

ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان تمام آراء کا کردار رہا ہوگا مگر میرے خیال میں مغلوں نے مذہبی ہم آہنگی کا ماڈل منگولوں سے مستعار لیا۔ ہم منگولوں کو وحشی سمجھتے ہیں مگر قبول اسلام سے قبل انھوں نے اپنی سلطنت میں تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کی پالیسی اپنالی تھی۔

پروفیسر معین کے مطابق مغلوں کی پالیسی منگول سلطنت میں رائج حکمت عملی کا احیا تھی۔

 
Load Next Story