این ای ڈی یونیورسٹی کے ’’اسمارٹ اریگیشن سسٹم‘‘ کی کھیتوں میں کامیاب آزمائش
آبپاشی کے اس جدید نطام کو فصلوں پر آزمانے سے پانی کی 50 فیصد بچت اور پیداوار میں اضافہ دیکھا گیا
جامعہ این ای ڈی کے ریسرچ سینٹر فار آرٹی فیشل انٹیلی جنس (آر سی اے آئی) کے ماہرین اور طالبعلموں نے زرعی آب پاشی کےلیے ایک کم خرچ اور جدید نظام بنایا ہے جس سے پانی کی ضرورت 50 فیصد تک کم ہوجاتی ہے اور فصلوں میں پیداوار بھی بہترین ہوتی ہے۔ اب کئی کھیتوں اور باغات میں اس نظام کی کامیاب آزمائش کی گئی ہے جس کے بعد اس کے بہترین اور متوقع نتائج سامنے آئے ہیں۔
پانی کی قلت کے شکار سندھ کے کاشتکاروں نے مقامی سطح پر تیارکردہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔ اس سسٹم کی بدولت پانی کے استعمال میں 50 فیصد کمی ہوئی ہے اور بقیہ پانی سے دیگر اراضی کاشت ہورہی ہے۔ اس کے نتیجے میں کسانوں کی آمدنی میں 30 سے 35 فیصد اضافہ بھی ہوا ہے۔
ڈاکٹر خرم کی نگرانی میں تیار کیا گیا یہ نظام، زمین اور مٹی کی کیفیت، نمکیات کی مقدار، کھیت کے درجہ حرارت اور آب و ہوا اور ماحول کی درست پیمائش کرتے ہوئے سائنسی بنیادوں پر پانی کی ضرورت سے آگاہ کرتا ہے۔
اسمارٹ اریگیشن سسٹم کے نام سے تیار اس نظام پر کام کرنے والے انجینئر احسن رحمان نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے کسان زمین کی صورتحال سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ رہتا ہے۔ اس سے کسان واقف ہوجاتا ہے کہ پانی کی کب اور کتنی ضرورت ہے کیونکہ زائد پانی بھی فصلوں کو خراب کرسکتا ہے۔
اسمارٹ اریگیشن سسٹم اپنی قیمت سے لے تنصیب تک بہت سادہ ہے۔ اول تو یہ شمسی توانائی سے کام کرتا ہے اور کم خرچ نظام کو ایک کسان بھی پانچ منٹ میں نصب کرسکتا ہے۔ اس کا روزانہ خرچ صرف چار سے پانچ روپے ہے جس سے ایک ایکڑ زرعی زمین کا احاطہ کیا جاسکتا ہے۔
احسن رحمان نے بتایا کہ سندھ میں اب تک 15 فارمز نے اسے استعمال کیا ہے اور پانی کی 50 فیصد بچت یقینی بناتے ہوئے بہترین پیداوار حاصل کی ہے۔ یہ غیرملکی نظاموں کے مقابلے میں بہت ہی ارزاں ہے۔ مہنگے غیرملکی سسٹم صرف ریڈنگ فراہم کرتے ہیں جبکہ اس میں موجود جدید سینسرز، جی پی آر ایس اور جی ایس ایم کمیونی کیشن نظام کھیت کی کیفیت کا ڈیٹا، موبائل ایپ اور ایس ایم ایس کے ذریعے کسان تک بھیجتےہیں۔
کراچی کے مضافات میں گڈاپ ٹاؤن کے ایک کاشتکار محمد رفیق نے بتایا کہ وہ 17 ایکڑ پر لیموں کاشت کررہے ہیں اور اس نظام سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گڈاپ میں زیرِ زمین پانی کی سطح مزید نیچے جارہی ہے اور اب پانی 800 فٹ پر دستیاب ہے۔
''ہمیں آٹھ کلومیٹر دور سے پانی لانا پڑتا ہے تاہم اب اسمارٹ نظام کی بدولت پانی کی کھپت آدھی ہوئی ہے اور پیداوار بھی 35 فیصد بڑھی ہے۔ کیونکہ یہ نظام ہوا میں نمی کا تناسب، زیرِ زمین نائٹریٹس اور کھارے پن کو بھی نوٹ کرتا ہے،'' محمد رفیق نے مزید کہا۔
اسمارٹ اریگیشن سسٹم روایتی آب پاشی سے کئی گنا بہتر ہے اور انقلابی فوائد کا حامل ہے۔ ضرورت ہے کہ مزید کسانوں کو بھی اس سے آگہی ہو اور وہ اسے آزمائیں۔
اس طرح پاکستان کے کھیتوں اور کھلیانوں میں اسمارٹ سسٹم کی تنصیب سے غذائی پیداوار میں اضافہ کرکے غذائی قلت پر قابو پانے میں مدد مل سکے گی۔
اچھی بات یہ ہے کہ آل پاکستان فروٹس اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپورٹرز امپورٹرز ایسوسی ایشن نے اس میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم کے سربراہ وحید احمد نے اسے انقلابی قدم قرار دیا ہے اور اس ٹیکنالوجی کو پاکستان بھر میں فروغ دینے کےلیے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔
پانی کی قلت کے شکار سندھ کے کاشتکاروں نے مقامی سطح پر تیارکردہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔ اس سسٹم کی بدولت پانی کے استعمال میں 50 فیصد کمی ہوئی ہے اور بقیہ پانی سے دیگر اراضی کاشت ہورہی ہے۔ اس کے نتیجے میں کسانوں کی آمدنی میں 30 سے 35 فیصد اضافہ بھی ہوا ہے۔
ڈاکٹر خرم کی نگرانی میں تیار کیا گیا یہ نظام، زمین اور مٹی کی کیفیت، نمکیات کی مقدار، کھیت کے درجہ حرارت اور آب و ہوا اور ماحول کی درست پیمائش کرتے ہوئے سائنسی بنیادوں پر پانی کی ضرورت سے آگاہ کرتا ہے۔
اسمارٹ اریگیشن سسٹم کے نام سے تیار اس نظام پر کام کرنے والے انجینئر احسن رحمان نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے کسان زمین کی صورتحال سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ رہتا ہے۔ اس سے کسان واقف ہوجاتا ہے کہ پانی کی کب اور کتنی ضرورت ہے کیونکہ زائد پانی بھی فصلوں کو خراب کرسکتا ہے۔
اسمارٹ اریگیشن سسٹم اپنی قیمت سے لے تنصیب تک بہت سادہ ہے۔ اول تو یہ شمسی توانائی سے کام کرتا ہے اور کم خرچ نظام کو ایک کسان بھی پانچ منٹ میں نصب کرسکتا ہے۔ اس کا روزانہ خرچ صرف چار سے پانچ روپے ہے جس سے ایک ایکڑ زرعی زمین کا احاطہ کیا جاسکتا ہے۔
احسن رحمان نے بتایا کہ سندھ میں اب تک 15 فارمز نے اسے استعمال کیا ہے اور پانی کی 50 فیصد بچت یقینی بناتے ہوئے بہترین پیداوار حاصل کی ہے۔ یہ غیرملکی نظاموں کے مقابلے میں بہت ہی ارزاں ہے۔ مہنگے غیرملکی سسٹم صرف ریڈنگ فراہم کرتے ہیں جبکہ اس میں موجود جدید سینسرز، جی پی آر ایس اور جی ایس ایم کمیونی کیشن نظام کھیت کی کیفیت کا ڈیٹا، موبائل ایپ اور ایس ایم ایس کے ذریعے کسان تک بھیجتےہیں۔
کراچی کے مضافات میں گڈاپ ٹاؤن کے ایک کاشتکار محمد رفیق نے بتایا کہ وہ 17 ایکڑ پر لیموں کاشت کررہے ہیں اور اس نظام سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گڈاپ میں زیرِ زمین پانی کی سطح مزید نیچے جارہی ہے اور اب پانی 800 فٹ پر دستیاب ہے۔
''ہمیں آٹھ کلومیٹر دور سے پانی لانا پڑتا ہے تاہم اب اسمارٹ نظام کی بدولت پانی کی کھپت آدھی ہوئی ہے اور پیداوار بھی 35 فیصد بڑھی ہے۔ کیونکہ یہ نظام ہوا میں نمی کا تناسب، زیرِ زمین نائٹریٹس اور کھارے پن کو بھی نوٹ کرتا ہے،'' محمد رفیق نے مزید کہا۔
اسمارٹ اریگیشن سسٹم روایتی آب پاشی سے کئی گنا بہتر ہے اور انقلابی فوائد کا حامل ہے۔ ضرورت ہے کہ مزید کسانوں کو بھی اس سے آگہی ہو اور وہ اسے آزمائیں۔
اس طرح پاکستان کے کھیتوں اور کھلیانوں میں اسمارٹ سسٹم کی تنصیب سے غذائی پیداوار میں اضافہ کرکے غذائی قلت پر قابو پانے میں مدد مل سکے گی۔
اچھی بات یہ ہے کہ آل پاکستان فروٹس اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپورٹرز امپورٹرز ایسوسی ایشن نے اس میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم کے سربراہ وحید احمد نے اسے انقلابی قدم قرار دیا ہے اور اس ٹیکنالوجی کو پاکستان بھر میں فروغ دینے کےلیے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔