بودا پسٹ…دنیا کامنفرد شہر
بودا پسٹ یورپ کے مشہور دریا، ڈینیوب کے کنارے آباد ہے۔ یہ دریا اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے
ان دنوں میں ہنگری کے دارالحکومت بودا پسٹ میں ہوں۔ یہ شہر تاریخ اقوام عالم میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا مرکز و محور رہا۔ تاریخ کا طالب علم ہو یا بین الاقوامی تعلقات کا تجزیہ نگار، یورپ کے فطری حسن کا دلدادہ ہو یا عام سیاح بودا پسٹ کا شہر سب کے لیے کشش رکھتا ہے۔ مشرقی یورپ اور مغربی یورپ کے وسط میں واقع ہنگر ی کا دارالحکومت بودا پسٹ رقبے اور آبادی کے اعتبار سے بڑا ملک نہیں لیکن اس میں ہر وہ کشش موجود ہے جو کسی بھی طرح کے مسافر یا محقق کے تجسس کو مطمئن کر سکتی ہے۔ بودا پسٹ سے دو گھنٹے کی مسافت پر ویانا کا خوابناک شہر بھی ہے لیکن اس کے باوجود بودا پسٹ کی اہمیت اور کشش منفرد ہے۔
بودا پسٹ یورپ کے مشہور دریا، ڈینیوب کے کنارے آباد ہے۔ یہ دریا اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک کنارے پر بودا کا قدیم شہر آباد ہے جب کہ دوسرے کنارے پر پسٹ کا شہر ہے۔ ان دونوں شہروں کو پلوں کے ذریعے ملایا گیا ہے۔ دریائے ڈینیوب یورپ کا دوسرا بڑا دریا ہے۔ جرمنی کے جنگلات سے نکلنے والا یہ دریا 2860 کلو میٹر فاصلہ طے کر کے رومانیہ کے علاقے میں بحیرہ اسود میں جا گرتا ہے۔ دریائے ڈینیوب دس ملکوں سے گزرتا ہے جن میں جرمنی، ہنگری، آسٹریا، کروشیا، سربیا، بلغاریہ، مالاووا، یوکرین اور رومانیہ شامل ہیں۔ ہنگری کی تمام تر کشش دریائے ڈینیوب ہے۔ اس قوم نے اس دریا سے سماجی اور معاشی اعتبار سے جو فائدہ اٹھا یا ہے وہ دوسرے ممالک کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔
ہنگری کی آبادی تقریباً 98 لاکھ ہے جن میں سے 20 لاکھ افرد بودا پسٹ میں رہتے ہیں۔ خواندگی کا تناسب 99 فی صد ہے۔ یہاں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان جرمن ہے۔ اس کے بعد مقامی زبان ہنگری بولی جاتی ہے۔ ہنگری میں مقامی لوگ انگریزی نہیں بولتے۔ ملک میں سائن بورڈ یا رہنما اشارے انگریزی زبان میںملتے ہیں۔ مجموعی طور پر ہنگری سیاحوں کے لیے ایک محفوظ ملک ہے۔ آبادی کی اکثریت رومن کتھولک ہے جب کہ تناسب کے اعتبار سے یہاں سولہ فی صد افراد یہودی مذہب کے ماننے والے ہیں۔ مسلمانوں کی تعدا د بہت کم ہے۔ آبادی کے اعتبار سے ایک فی صد سے کم مسلمان یہاں آباد ہیں۔ بودا پسٹ میں ایک صوفی بزرگ ''گل بادشاہ'' کا مزار بھی ہے ۔ یہ جگہ سیاحوں کے لیے خاصی کشش رکھتی ہے۔
روایات کے مطابق پانچ سو سال قبل یہ صوفی بزرگ بودا پسٹ میں تبلیغ دین کا کام کرتے رہے۔ انھیں پھول اگانے کا بہت شوق تھا اس لیے ان کا نام گل بابا مشہور ہو گیا۔ بودا پسٹ کی ایک اونچی پہاڑی پر ان کا مزار ہے۔ ہنگری کی حکومت نے ترکی کے تعاون سے اس کی تزین و آرائش کا کام کیا ہے۔ مزار کی عمارت انتہائی پر کشش ہے یہاں ایک مسجد بھی ہے اور آنے والے مہمانوں کے تاثرات لکھنے کے لیے" مہمانوں کی کتاب" بھی رکھی گئی ہے۔ ہنگری میں پاکستانیوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف 145 پاکستانی ہنگری میں سرکاری طور پر رجسٹرڈ ہیں۔
ہنگری میں مردوں کی اوسط عمر71 سال اور خواتین کی اوسط عمر 78 سال ہے۔ صحت عامہ، تعلیم اور سوشل سیکیورٹی کی سہولت کے باعث یہاں کے لوگ صحت مند اور توانا نظر آتے ہیں۔ آبادی بڑھنے کی رفتار کے اعتبار سے ہنگری غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آبادی کی بڑھوتری منفی34 فی صد ہے۔
ہنگری کی دستاویزی تاریخ ساڑھے تین ہزار سال پرانی ہے مشرقی یورپ سے خانہ بدوش ہجرت کر کے اس خطے میں آئے اور دریا کنارے بستی بسائی۔ یہ خطہ رومن سلطنت کی تابع بھی رہا۔ یہاں یونان نے بھی حکمرانی کی۔ بعدازاں جرمن قبائل نے اس خطے پر اپنا اثر قائم کیا۔ قبائلی دور میں ہنگری کا انتظام وقفے وقفے سے طاقتور قبائل کے قبضے میں آتا رہا۔ حتیٰ کہ یہ 435 میں یہاں ایک طاقتور قبیلے"Huns" نے حکومت قائم کر لی اور اس علاقے کا نام ہنگری قرار پایا۔ ہنگری کا لفظ بلگور اور ترکی زبان سے لیا گیا ہے جس کا مطلب "دس تیر "Ten Arrows ہے۔ ہنگری کے عوام بطور ایک قوم 900میں متحد ہوئے جب کہ کتھولک ریاست 1000 میں قرار پائی ۔
بارھویں صدی کے وسط میں منگولوں نے اس خطے کو تاراج کیا۔ 1526 سے 1699 تک تقریباً پونے دو سو سال سلطنت عثمانیہ کے تحت مسلمانوں کی عملداری میں رہا۔ اس کے علاوہ روسیوں نے بھی یہاں حکمرانی کی۔ یہ ملک دو عالمی جنگوں کا میدان بھی رہا۔ ان جنگوں کے دوران بودا پسٹ شہر کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔
بودا پسٹ میں ہنگری کی پارلیمنٹ بلڈنگ کے قریب دریائے ڈینیوب کے کنارے اسٹیل کے بہت سے جوتے نصب ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دوسری جنگ عظیم کے دوران بودا پسٹ میں رہنے والے یہودیوں کو دریا کے کنارے کھڑا کر کے جوتے اتارنے کا حکم دیا گیا اور پھر گولی مار کر دریا میں گرا دیا گیا۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق نازیوں نے یہودیوں کو ان کی سازشوں کی سزا دینے کے لیے یہ عمل کیا۔ آج یہ جگہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے تصاویر اتارنے کی ایک اہم جگہ شمار کی جاتی ہے۔ یہاں دن بھر سیاحوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے ہٹلر کے نظریات کو پھیلانے کے لیے قائم کی گئی تنظیم"Arrow Cross Party" نے اسی ہزار سے زائد یہودیوں کو ہنگری سے نکل جانے کا حکم دیا۔ ان میں سے بیس ہزار یہودیوں نے خود کو بودا پسٹ میں روپوش کر لیاتھا۔ اس عسکری تنظیم نے ان کو ڈھونڈ نکالا اور حکم عدولی کرنے پر ان کو دریائے ڈینیوب کے کنارے اپریل1945ء میں یہ مثالی سزا دی ۔
بودا پسٹ یورپ کے مشہور دریا، ڈینیوب کے کنارے آباد ہے۔ یہ دریا اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک کنارے پر بودا کا قدیم شہر آباد ہے جب کہ دوسرے کنارے پر پسٹ کا شہر ہے۔ ان دونوں شہروں کو پلوں کے ذریعے ملایا گیا ہے۔ دریائے ڈینیوب یورپ کا دوسرا بڑا دریا ہے۔ جرمنی کے جنگلات سے نکلنے والا یہ دریا 2860 کلو میٹر فاصلہ طے کر کے رومانیہ کے علاقے میں بحیرہ اسود میں جا گرتا ہے۔ دریائے ڈینیوب دس ملکوں سے گزرتا ہے جن میں جرمنی، ہنگری، آسٹریا، کروشیا، سربیا، بلغاریہ، مالاووا، یوکرین اور رومانیہ شامل ہیں۔ ہنگری کی تمام تر کشش دریائے ڈینیوب ہے۔ اس قوم نے اس دریا سے سماجی اور معاشی اعتبار سے جو فائدہ اٹھا یا ہے وہ دوسرے ممالک کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔
ہنگری کی آبادی تقریباً 98 لاکھ ہے جن میں سے 20 لاکھ افرد بودا پسٹ میں رہتے ہیں۔ خواندگی کا تناسب 99 فی صد ہے۔ یہاں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان جرمن ہے۔ اس کے بعد مقامی زبان ہنگری بولی جاتی ہے۔ ہنگری میں مقامی لوگ انگریزی نہیں بولتے۔ ملک میں سائن بورڈ یا رہنما اشارے انگریزی زبان میںملتے ہیں۔ مجموعی طور پر ہنگری سیاحوں کے لیے ایک محفوظ ملک ہے۔ آبادی کی اکثریت رومن کتھولک ہے جب کہ تناسب کے اعتبار سے یہاں سولہ فی صد افراد یہودی مذہب کے ماننے والے ہیں۔ مسلمانوں کی تعدا د بہت کم ہے۔ آبادی کے اعتبار سے ایک فی صد سے کم مسلمان یہاں آباد ہیں۔ بودا پسٹ میں ایک صوفی بزرگ ''گل بادشاہ'' کا مزار بھی ہے ۔ یہ جگہ سیاحوں کے لیے خاصی کشش رکھتی ہے۔
روایات کے مطابق پانچ سو سال قبل یہ صوفی بزرگ بودا پسٹ میں تبلیغ دین کا کام کرتے رہے۔ انھیں پھول اگانے کا بہت شوق تھا اس لیے ان کا نام گل بابا مشہور ہو گیا۔ بودا پسٹ کی ایک اونچی پہاڑی پر ان کا مزار ہے۔ ہنگری کی حکومت نے ترکی کے تعاون سے اس کی تزین و آرائش کا کام کیا ہے۔ مزار کی عمارت انتہائی پر کشش ہے یہاں ایک مسجد بھی ہے اور آنے والے مہمانوں کے تاثرات لکھنے کے لیے" مہمانوں کی کتاب" بھی رکھی گئی ہے۔ ہنگری میں پاکستانیوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف 145 پاکستانی ہنگری میں سرکاری طور پر رجسٹرڈ ہیں۔
ہنگری میں مردوں کی اوسط عمر71 سال اور خواتین کی اوسط عمر 78 سال ہے۔ صحت عامہ، تعلیم اور سوشل سیکیورٹی کی سہولت کے باعث یہاں کے لوگ صحت مند اور توانا نظر آتے ہیں۔ آبادی بڑھنے کی رفتار کے اعتبار سے ہنگری غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آبادی کی بڑھوتری منفی34 فی صد ہے۔
ہنگری کی دستاویزی تاریخ ساڑھے تین ہزار سال پرانی ہے مشرقی یورپ سے خانہ بدوش ہجرت کر کے اس خطے میں آئے اور دریا کنارے بستی بسائی۔ یہ خطہ رومن سلطنت کی تابع بھی رہا۔ یہاں یونان نے بھی حکمرانی کی۔ بعدازاں جرمن قبائل نے اس خطے پر اپنا اثر قائم کیا۔ قبائلی دور میں ہنگری کا انتظام وقفے وقفے سے طاقتور قبائل کے قبضے میں آتا رہا۔ حتیٰ کہ یہ 435 میں یہاں ایک طاقتور قبیلے"Huns" نے حکومت قائم کر لی اور اس علاقے کا نام ہنگری قرار پایا۔ ہنگری کا لفظ بلگور اور ترکی زبان سے لیا گیا ہے جس کا مطلب "دس تیر "Ten Arrows ہے۔ ہنگری کے عوام بطور ایک قوم 900میں متحد ہوئے جب کہ کتھولک ریاست 1000 میں قرار پائی ۔
بارھویں صدی کے وسط میں منگولوں نے اس خطے کو تاراج کیا۔ 1526 سے 1699 تک تقریباً پونے دو سو سال سلطنت عثمانیہ کے تحت مسلمانوں کی عملداری میں رہا۔ اس کے علاوہ روسیوں نے بھی یہاں حکمرانی کی۔ یہ ملک دو عالمی جنگوں کا میدان بھی رہا۔ ان جنگوں کے دوران بودا پسٹ شہر کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔
بودا پسٹ میں ہنگری کی پارلیمنٹ بلڈنگ کے قریب دریائے ڈینیوب کے کنارے اسٹیل کے بہت سے جوتے نصب ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دوسری جنگ عظیم کے دوران بودا پسٹ میں رہنے والے یہودیوں کو دریا کے کنارے کھڑا کر کے جوتے اتارنے کا حکم دیا گیا اور پھر گولی مار کر دریا میں گرا دیا گیا۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق نازیوں نے یہودیوں کو ان کی سازشوں کی سزا دینے کے لیے یہ عمل کیا۔ آج یہ جگہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے تصاویر اتارنے کی ایک اہم جگہ شمار کی جاتی ہے۔ یہاں دن بھر سیاحوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے ہٹلر کے نظریات کو پھیلانے کے لیے قائم کی گئی تنظیم"Arrow Cross Party" نے اسی ہزار سے زائد یہودیوں کو ہنگری سے نکل جانے کا حکم دیا۔ ان میں سے بیس ہزار یہودیوں نے خود کو بودا پسٹ میں روپوش کر لیاتھا۔ اس عسکری تنظیم نے ان کو ڈھونڈ نکالا اور حکم عدولی کرنے پر ان کو دریائے ڈینیوب کے کنارے اپریل1945ء میں یہ مثالی سزا دی ۔