علی پور کا بھٹی نئے پاکستان کا معمار
اگر ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو نیا پاکستان دینا ہے، تو ہم سب کو ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا
لاہور/KARACHI:
''علی پور کا ایلی'' تو آپ نے سنا ہوگا، یہاں ذکر ہے علی پور کے بھٹی کا۔ وہ تمام لوگ جو نئے پاکستان کے خواب کی تعبیر چاہتے ہیں، وہ ''علی پور کے ایلی'' کے بجائے اگر علی پور کے بھٹی کے نقش قدم پر چلیں تو تعبیر جلد مل سکتی ہے۔
مخدوم بھٹی کا تعلق پنجاب کی دوردارز تحصیل بھیر کے ایک دور افتادہ اور چھوٹے سے گاؤں علی پور سے ہے۔ رسمی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھٹی نے بطور استاد عملی زندگی کا آغاز کیا۔ آگے بڑھنے اور کچھ کر گزرنے کی جستجو، 1998 میں مزید تعلیم کےلیے اسے انگلینڈ لے گئی، جہاں نہ صرف پڑھتا رہا بلکہ ایک دوسرے کالج میں پڑھاتا بھی رہا۔2002 میں وہ نیوزی لینڈ منتقل ہوگیا، اور وہاں پر بھی بطور استاد ایک ہائی اسکول میں درس و تدریس میں مشغول رہا۔ 2005 میں اسے کینیڈا میں مختصر وقت کےلیے پڑھانے کا موقع ملا اور اب وہ طویل عرصے سے آسٹریلیا میں علم کے موتی بکھیر رہا ہے۔
''یورپ کی اس چکاچوند زندگی میں آپ کو علی پور میں ویلفیئر کالج بنانے کا خیال کیسے آگیا؟'' میں نے مخدوم بھٹی سے پوچھا۔
''یورپ میں 15 سال درس و تدریس کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ہمارے اور ان کے تعلیمی طریقہ کار میں بہت فرق ہے۔ ہمارے ہاں بچے کی ذہانت کا اندازہ اس کے نمبروں سے لگایا جاتا ہے، جب کہ مغرب میں بچے کی رپورٹس ہوتی ہیں۔ مغرب میں بچے کی تربیت پر بہت زور دیا جاتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں یہ چیز مفقود ہے۔ پاکستان میں نہ پڑھنے والے بچوں کو ڈنڈے سے پڑھایا جاتا ہے، جبکہ مغرب میں بچے کے نہ پڑھنے کی وجہ معلوم کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں استاد کا بچے کی اسکول کے بعد والی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، جبکہ مغرب میں اسکول کے بعد کی زندگی پوری طرح استاد کی نظروں میں ہوتی ہے۔ یہ چیزیں وہاں کے نظام تعلیم کو ممتاز کرتی ہیں۔ میری خواہش تھی کہ میں جس چیز سے محروم رہا، میرے گاؤں کے بچے وہ حاصل کرلیں۔ اس لیے میں نے 'علی پور ویلفیئر کالج' کی بنیاد رکھی۔''
''لوگوں کا ردعمل کیسا تھا۔'' میں نے سوال کیا۔
''بے حد مایوس کن!'' اس کا جواب سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔
''لوگ سمجھتے تھے کہ یہ باہر سے پیسہ لے کر کالج بنایا گیا ہے (کیوں کہ مالک باہر ہوتا ہے)، اس لیے لوگ اپنے بچوں کو داخل ہی نہیں کرواتے تھے۔ کالج کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پیدا کی گئیں، مگر ہم ڈٹے رہے اور آج اللہ کے فضل سے ہم ترقی کی منازل طے کررہے ہیں اور فروغ علم کےلیے کوشاں ہیں۔''
علی پور کا بھٹی ان لوگوں کےلیے نشان منزل ہے جو نیا پاکستان چاہتے ہیں۔ جو عمران خان سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ خان صاحب نیا پاکستان بنائیں گے اور وہ لطف اٹھائیں گے۔ ایک ایسا پاکستان جہاں پر پاکستان کے تمام شہر ترقی کریں گے، جہاں پر لوگوں کو ترقی دیکھنے کےلیے لاہور یا کراچی نہیں جانا پڑے گا۔ لیکن کیا عمران خان گزشتہ 70 سال کا بگاڑ یکدم اور اکیلے ٹھیک کر پائیں گے؟ یقینی بات ہے کہ ایسا ناممکن ہے۔ کیونکہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اگر ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو نیا پاکستان دینا ہے، تو ہم سب کو ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنا ہوگا۔ اس کےلیے علی پور کا بھٹی ایک بہترین ماڈل ہے۔ وہ لوگ جو یورپ، دبئی اور دیگر غیر ممالک میں 20/25 سال سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور خان صاحب سے امید لگائے ہوئے ہیں نئے پاکستان کی، اپنی مدد آپ کے تحت اپنے پسماندہ شہر یا گاؤں میں ایک اسکول، کالج، اسپتال یا کم ازکم ایک ڈسپنسری ہی بنا کر نئے پاکستان کی تعمیر میں خان صاحب کے معاون بن جائیں۔
لاہور، اسلام آباد، کراچی، پشاور کے کتنے ہی اعلیٰ افسران ہیں، جو ٹاٹ کے اسکول سے پڑھ کر افسر بن چکے ہیں، مگر گاؤں کا اسکول آج بھی ترقی کےلیے کونسلر کا ہی مرہون منت ہے۔ اگر یہ افسران ذاتی دلچسپی لے کر اپنے گاؤں کے اسکول، ڈسپنسری، یا بجلی گھر کی تعمیر و مرمت یا درجہ بندی میں اضافہ کروادیں تو نیا پاکستان بہت جلد معرض وجود میں آجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''علی پور کا ایلی'' تو آپ نے سنا ہوگا، یہاں ذکر ہے علی پور کے بھٹی کا۔ وہ تمام لوگ جو نئے پاکستان کے خواب کی تعبیر چاہتے ہیں، وہ ''علی پور کے ایلی'' کے بجائے اگر علی پور کے بھٹی کے نقش قدم پر چلیں تو تعبیر جلد مل سکتی ہے۔
مخدوم بھٹی کا تعلق پنجاب کی دوردارز تحصیل بھیر کے ایک دور افتادہ اور چھوٹے سے گاؤں علی پور سے ہے۔ رسمی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھٹی نے بطور استاد عملی زندگی کا آغاز کیا۔ آگے بڑھنے اور کچھ کر گزرنے کی جستجو، 1998 میں مزید تعلیم کےلیے اسے انگلینڈ لے گئی، جہاں نہ صرف پڑھتا رہا بلکہ ایک دوسرے کالج میں پڑھاتا بھی رہا۔2002 میں وہ نیوزی لینڈ منتقل ہوگیا، اور وہاں پر بھی بطور استاد ایک ہائی اسکول میں درس و تدریس میں مشغول رہا۔ 2005 میں اسے کینیڈا میں مختصر وقت کےلیے پڑھانے کا موقع ملا اور اب وہ طویل عرصے سے آسٹریلیا میں علم کے موتی بکھیر رہا ہے۔
''یورپ کی اس چکاچوند زندگی میں آپ کو علی پور میں ویلفیئر کالج بنانے کا خیال کیسے آگیا؟'' میں نے مخدوم بھٹی سے پوچھا۔
''یورپ میں 15 سال درس و تدریس کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ہمارے اور ان کے تعلیمی طریقہ کار میں بہت فرق ہے۔ ہمارے ہاں بچے کی ذہانت کا اندازہ اس کے نمبروں سے لگایا جاتا ہے، جب کہ مغرب میں بچے کی رپورٹس ہوتی ہیں۔ مغرب میں بچے کی تربیت پر بہت زور دیا جاتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں یہ چیز مفقود ہے۔ پاکستان میں نہ پڑھنے والے بچوں کو ڈنڈے سے پڑھایا جاتا ہے، جبکہ مغرب میں بچے کے نہ پڑھنے کی وجہ معلوم کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں استاد کا بچے کی اسکول کے بعد والی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، جبکہ مغرب میں اسکول کے بعد کی زندگی پوری طرح استاد کی نظروں میں ہوتی ہے۔ یہ چیزیں وہاں کے نظام تعلیم کو ممتاز کرتی ہیں۔ میری خواہش تھی کہ میں جس چیز سے محروم رہا، میرے گاؤں کے بچے وہ حاصل کرلیں۔ اس لیے میں نے 'علی پور ویلفیئر کالج' کی بنیاد رکھی۔''
''لوگوں کا ردعمل کیسا تھا۔'' میں نے سوال کیا۔
''بے حد مایوس کن!'' اس کا جواب سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔
''لوگ سمجھتے تھے کہ یہ باہر سے پیسہ لے کر کالج بنایا گیا ہے (کیوں کہ مالک باہر ہوتا ہے)، اس لیے لوگ اپنے بچوں کو داخل ہی نہیں کرواتے تھے۔ کالج کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پیدا کی گئیں، مگر ہم ڈٹے رہے اور آج اللہ کے فضل سے ہم ترقی کی منازل طے کررہے ہیں اور فروغ علم کےلیے کوشاں ہیں۔''
علی پور کا بھٹی ان لوگوں کےلیے نشان منزل ہے جو نیا پاکستان چاہتے ہیں۔ جو عمران خان سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ خان صاحب نیا پاکستان بنائیں گے اور وہ لطف اٹھائیں گے۔ ایک ایسا پاکستان جہاں پر پاکستان کے تمام شہر ترقی کریں گے، جہاں پر لوگوں کو ترقی دیکھنے کےلیے لاہور یا کراچی نہیں جانا پڑے گا۔ لیکن کیا عمران خان گزشتہ 70 سال کا بگاڑ یکدم اور اکیلے ٹھیک کر پائیں گے؟ یقینی بات ہے کہ ایسا ناممکن ہے۔ کیونکہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اگر ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو نیا پاکستان دینا ہے، تو ہم سب کو ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنا ہوگا۔ اس کےلیے علی پور کا بھٹی ایک بہترین ماڈل ہے۔ وہ لوگ جو یورپ، دبئی اور دیگر غیر ممالک میں 20/25 سال سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور خان صاحب سے امید لگائے ہوئے ہیں نئے پاکستان کی، اپنی مدد آپ کے تحت اپنے پسماندہ شہر یا گاؤں میں ایک اسکول، کالج، اسپتال یا کم ازکم ایک ڈسپنسری ہی بنا کر نئے پاکستان کی تعمیر میں خان صاحب کے معاون بن جائیں۔
لاہور، اسلام آباد، کراچی، پشاور کے کتنے ہی اعلیٰ افسران ہیں، جو ٹاٹ کے اسکول سے پڑھ کر افسر بن چکے ہیں، مگر گاؤں کا اسکول آج بھی ترقی کےلیے کونسلر کا ہی مرہون منت ہے۔ اگر یہ افسران ذاتی دلچسپی لے کر اپنے گاؤں کے اسکول، ڈسپنسری، یا بجلی گھر کی تعمیر و مرمت یا درجہ بندی میں اضافہ کروادیں تو نیا پاکستان بہت جلد معرض وجود میں آجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔