تین باتیں جو میں نے اپنے دوست سے سیکھیں
اپنی کمزوریوں کو خود پر حاوی نہ ہونے دو۔ اگر کسی چیز کی اللہ نے کمی رکھی ہے تو دوسری طرف ڈھیروں نعمتوں سے بھی نوازا ہے
ہماری کالونی میں ایک بیوپاری ہاتھ میں تھیلا لیے پھرتا تھا۔ عمومی طور پر بیوپاری اپنا سودا بیچنے کےلیے زور سے آوازیں لگاتے ہیں، لیکن وہ شخص گلی میں داخلے اور نکلتے وقت دھیمے لہجے میں آواز لگاتا اور پھر چُپ کرکے گزر جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے بچپن میں جب اُس شخص کو دیکھتے تو دوڑ لگا دیتے، کیونکہ اس کے حلیے کو ہمارا کچا ذہن برداشت نہیں کرپاتا تھا۔ اُس شخص کا رنگ سفید، اتنا سفید کہ سفید رنگ بھی اس کے سامنے مدھم پڑجائے۔ اس کی آنکھیں، داڑھی، مونچھیں، بھنویں، سر اور جسم کے بال بھی سفید تھے۔
جب وہ گزرتا تو محلے کے بچے اسے تنگ کرتے، طرح طرح کی آوازیں کستے۔ ان سے نمٹنے کےلیے اس نے لوہے کا ڈنڈا رکھا ہوتا تھا۔ جو چھیڑتا تو اسے مارنے دوڑتا۔ میں نے ہمیشہ اسے سرخ یا نارنجی رنگ کے کپڑوں میں دیکھا۔ وہ سر جھکا کر چلتا۔ ایسا محسوس ہوتا کہ دھوپ اس سے برداشت نہ ہوتی تھی اور ماتھے پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں چھپاتا، گویا دھوپ میں اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہوں۔
اُس انسان کو کیا تکلیف تھی؟ اس کا اندازہ مجھے تب ہوا، جب میں گزشتہ سال ایک ایسے شخص سے ملا جو رنگ و صورت میں تو ہوبہو اس جیسا لیکن طور طریقوں اور زندگی کی دوڑ میں عام انسانوں کے برابر نہیں تو پیچھے بھی نہیں۔
یہ سفید رنگ دراصل ایک بیماری ایلبینزم (Albinism) کی وجہ سے ہے۔ آپ کو اللہ کی تخلیق کی شان کا اندازہ اس بات سے ہوگا کہ یہ بیماری جینز میں موجود ایک پگمنٹ (pigment) کی غیر موجودگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس پگمنٹ کو میلانین (Melanin) کہتے ہیں، جو جسم کے بال، آنکھوں اور جلد کے رنگ کو بناتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا لوگوں کی نظر پیدائشی طور پر کمزور ہوتی ہے۔ کسی چیز پر فوکس کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ آنکھیں کمزور ہونے کی وجہ سے تیز دھوپ برداشت نہیں کرسکتے۔
اس شخص سے مل کر مجھے اندازہ ہوا کہ زندگی واقعی بہت آسان ہے، اگر اپنی کمزوریوں کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دو۔ اگر کسی چیز کی اللہ نے کمی رکھی ہے تو دوسری طرف ڈھیروں نعمتوں سے بھی نوازا ہے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ کیسے اپنی ہر کمزوری کو، آنے والی مشکل کو، آسانی سے ہرا کر آگے بڑھ جاتا ہے۔
چند انمول سبق جو میرے اس دوست نے مجھے سکھائے، وہ میں قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا۔
جب آپ کو کوئی کام کہا جاتا ہے یا ذمے داری سونپی جاتی ہے تو جھٹ سے اسے پورا کرنے تو نہیں لگ جاتے؟ اگر آپ کی یہ اپروچ ہے تو اسے فوری طور پر چھوڑ دیں۔ کام کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ اول: کام کو فوراً شروع کردیا جائے۔ دوسرا: تسلی کے ساتھ پہلے سوچیں کہ کام کو کیسے کرنا ہے۔ جب نتیجے پر پہنچ جائیں تو کام شروع کردیں۔ آپ دیکھیں گے کہ کام نہ صرف وقت پر بلکہ بہتر انداز میں ہوگا۔
عظیم لوگوں کی یہ نشانیاں ہوتی ہیں کہ وہ اپنے کام پر نہیں طریقہ کار پر توجہ دیتے ہیں۔ ابراہم لنکن کا قول ہے: ''اگر مجھے آٹھ گھنٹے درخت کاٹنے کےلیے دیئے جائیں تو چھ گھنٹے آری تیز کرتا رہوں گا۔ اور آخری دو گھنٹوں میں درخت کاٹوں گا۔'' کام کو بہتر انداز میں کرنے کا یہی طریقہ ہے۔
ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کا بہترین دوست احباب کا نیٹ ورک ہو۔ لیکن بہت کم لوگ اسے مضبوطی سے بناسکتے ہیں۔ ہر رشتہ وقت مانگتا ہے۔
میں اسے دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ ایک طرف تو ایسے لوگوں کو قبول نہیں کرتا، لیکن دوسری طرف ایسے شخص سے دوستی بھی! میں نے اس سے پوچھا: تمھارے اتنے دوست کیسے ہیں؟ اس نے کہا ''جب میں کسی سے ملتا ہوں تو دل صاف رکھتا ہوں، بغض نہیں رکھتا، اور کوشش کرتا ہوں اپنی سوچ کو مثبت رکھوں۔ دوستی میں کوشش کرتا ہوں کہ جب کسی کو ضرورت ہو تو بغیر سوچے کہ بدلے میں مجھے کیا ملے گا، اس کی مدد کرتا ہوں۔''
کیا خوبصورت بات ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نیٹ ورک "Give and take" کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں۔ لیکن فرض کریں جب کسی کو آپ کی ضرورت پڑے تو بس "Give" کی سوچ رکھی جائے تو رشتہ کتنا مضبوط ہوگا؟ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ جو لوگوں کےلیے بے لوث ہوکر کچھ کریں تو اس شخص سے نہ سہی لیکن اللہ اپنے غیبی خزانوں سے کسی اور شخص کو وسیلہ بنادیتا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسان اپنے سے کمتر کو دبانے میں اپنی ہر ممکن طاقت لگادیتا ہے۔ چاہے وہ رتبہ، رشتہ میں، پیشہ میں، حیثیت میں، یہ طاقت اپنے آپ کو بہتر بنانے میں لگائے تو ایسی حرکتوں کی ضرورت نہ پڑے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو ازل سے چلا آ رہا ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔
خاص طور پر ایسا معاشرہ جہاں غلامانہ سوچ پائی جاتی ہو وہاں یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی۔ پھر ایسے معاشرے میں ہی روپے پیسے کو عزت مانا جاتا ہے۔ بندہ سمجھتا ہے کہ پیسہ، دولت، شہرت ہوگی تو لوگ عزت کریں گے۔ میرے دوست سے مل کر مجھے اندازہ ہوا کہ ان سب سے اہم چیز لوگوں کو ان کی حیثیت کے مطابق جواب دینا بھی شامل ہے۔ اگر آپ جواب نہیں دیتے پھر تو آپ یوں سمجھیں کہ آپ ایک بکری ہیں اور بھیڑیوں کے چنگل میں پھنس گئے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ بھیڑیے آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔
یقین مانیے کہ جواب دیں گے تو عزت ملے گی، وگرنہ جتنا مرضی بڑا رتبہ یا مال بنا لیں اگر لوگوں کو انکار نہیں کرسکیں گے تو آتے جاتے لوگ آپ کو باتیں سنا جائیں گے۔ اقبال کا شعر ہے
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
یہاں سیکھنے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ادب واحترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی کو جواب کیسے دیا جاسکتا ہے۔ یہ ہنر سیکھ لیں تو چیزیں نہایت آسان ہوجائیں گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جب وہ گزرتا تو محلے کے بچے اسے تنگ کرتے، طرح طرح کی آوازیں کستے۔ ان سے نمٹنے کےلیے اس نے لوہے کا ڈنڈا رکھا ہوتا تھا۔ جو چھیڑتا تو اسے مارنے دوڑتا۔ میں نے ہمیشہ اسے سرخ یا نارنجی رنگ کے کپڑوں میں دیکھا۔ وہ سر جھکا کر چلتا۔ ایسا محسوس ہوتا کہ دھوپ اس سے برداشت نہ ہوتی تھی اور ماتھے پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں چھپاتا، گویا دھوپ میں اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہوں۔
اُس انسان کو کیا تکلیف تھی؟ اس کا اندازہ مجھے تب ہوا، جب میں گزشتہ سال ایک ایسے شخص سے ملا جو رنگ و صورت میں تو ہوبہو اس جیسا لیکن طور طریقوں اور زندگی کی دوڑ میں عام انسانوں کے برابر نہیں تو پیچھے بھی نہیں۔
یہ سفید رنگ دراصل ایک بیماری ایلبینزم (Albinism) کی وجہ سے ہے۔ آپ کو اللہ کی تخلیق کی شان کا اندازہ اس بات سے ہوگا کہ یہ بیماری جینز میں موجود ایک پگمنٹ (pigment) کی غیر موجودگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس پگمنٹ کو میلانین (Melanin) کہتے ہیں، جو جسم کے بال، آنکھوں اور جلد کے رنگ کو بناتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا لوگوں کی نظر پیدائشی طور پر کمزور ہوتی ہے۔ کسی چیز پر فوکس کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ آنکھیں کمزور ہونے کی وجہ سے تیز دھوپ برداشت نہیں کرسکتے۔
اس شخص سے مل کر مجھے اندازہ ہوا کہ زندگی واقعی بہت آسان ہے، اگر اپنی کمزوریوں کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دو۔ اگر کسی چیز کی اللہ نے کمی رکھی ہے تو دوسری طرف ڈھیروں نعمتوں سے بھی نوازا ہے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ کیسے اپنی ہر کمزوری کو، آنے والی مشکل کو، آسانی سے ہرا کر آگے بڑھ جاتا ہے۔
چند انمول سبق جو میرے اس دوست نے مجھے سکھائے، وہ میں قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا۔
1) کام کرنے کا طریقہ سیکھیں
جب آپ کو کوئی کام کہا جاتا ہے یا ذمے داری سونپی جاتی ہے تو جھٹ سے اسے پورا کرنے تو نہیں لگ جاتے؟ اگر آپ کی یہ اپروچ ہے تو اسے فوری طور پر چھوڑ دیں۔ کام کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ اول: کام کو فوراً شروع کردیا جائے۔ دوسرا: تسلی کے ساتھ پہلے سوچیں کہ کام کو کیسے کرنا ہے۔ جب نتیجے پر پہنچ جائیں تو کام شروع کردیں۔ آپ دیکھیں گے کہ کام نہ صرف وقت پر بلکہ بہتر انداز میں ہوگا۔
عظیم لوگوں کی یہ نشانیاں ہوتی ہیں کہ وہ اپنے کام پر نہیں طریقہ کار پر توجہ دیتے ہیں۔ ابراہم لنکن کا قول ہے: ''اگر مجھے آٹھ گھنٹے درخت کاٹنے کےلیے دیئے جائیں تو چھ گھنٹے آری تیز کرتا رہوں گا۔ اور آخری دو گھنٹوں میں درخت کاٹوں گا۔'' کام کو بہتر انداز میں کرنے کا یہی طریقہ ہے۔
2) مضبوط نیٹ ورک بناؤ
ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کا بہترین دوست احباب کا نیٹ ورک ہو۔ لیکن بہت کم لوگ اسے مضبوطی سے بناسکتے ہیں۔ ہر رشتہ وقت مانگتا ہے۔
میں اسے دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ ایک طرف تو ایسے لوگوں کو قبول نہیں کرتا، لیکن دوسری طرف ایسے شخص سے دوستی بھی! میں نے اس سے پوچھا: تمھارے اتنے دوست کیسے ہیں؟ اس نے کہا ''جب میں کسی سے ملتا ہوں تو دل صاف رکھتا ہوں، بغض نہیں رکھتا، اور کوشش کرتا ہوں اپنی سوچ کو مثبت رکھوں۔ دوستی میں کوشش کرتا ہوں کہ جب کسی کو ضرورت ہو تو بغیر سوچے کہ بدلے میں مجھے کیا ملے گا، اس کی مدد کرتا ہوں۔''
کیا خوبصورت بات ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نیٹ ورک "Give and take" کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں۔ لیکن فرض کریں جب کسی کو آپ کی ضرورت پڑے تو بس "Give" کی سوچ رکھی جائے تو رشتہ کتنا مضبوط ہوگا؟ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ جو لوگوں کےلیے بے لوث ہوکر کچھ کریں تو اس شخص سے نہ سہی لیکن اللہ اپنے غیبی خزانوں سے کسی اور شخص کو وسیلہ بنادیتا ہے۔
3) لوگوں کو جواب دینا سیکھیں
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسان اپنے سے کمتر کو دبانے میں اپنی ہر ممکن طاقت لگادیتا ہے۔ چاہے وہ رتبہ، رشتہ میں، پیشہ میں، حیثیت میں، یہ طاقت اپنے آپ کو بہتر بنانے میں لگائے تو ایسی حرکتوں کی ضرورت نہ پڑے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو ازل سے چلا آ رہا ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔
خاص طور پر ایسا معاشرہ جہاں غلامانہ سوچ پائی جاتی ہو وہاں یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی۔ پھر ایسے معاشرے میں ہی روپے پیسے کو عزت مانا جاتا ہے۔ بندہ سمجھتا ہے کہ پیسہ، دولت، شہرت ہوگی تو لوگ عزت کریں گے۔ میرے دوست سے مل کر مجھے اندازہ ہوا کہ ان سب سے اہم چیز لوگوں کو ان کی حیثیت کے مطابق جواب دینا بھی شامل ہے۔ اگر آپ جواب نہیں دیتے پھر تو آپ یوں سمجھیں کہ آپ ایک بکری ہیں اور بھیڑیوں کے چنگل میں پھنس گئے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ بھیڑیے آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔
یقین مانیے کہ جواب دیں گے تو عزت ملے گی، وگرنہ جتنا مرضی بڑا رتبہ یا مال بنا لیں اگر لوگوں کو انکار نہیں کرسکیں گے تو آتے جاتے لوگ آپ کو باتیں سنا جائیں گے۔ اقبال کا شعر ہے
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
یہاں سیکھنے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ادب واحترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی کو جواب کیسے دیا جاسکتا ہے۔ یہ ہنر سیکھ لیں تو چیزیں نہایت آسان ہوجائیں گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔