سر کے اوپر سر
ایک زمانہ ہوا ہم اس شور کرنے والی ’’بارات‘‘میں چپ رہتے ہیں اور چپ ہی رہنا بہترہے۔
کسی بھی کھیل کے تماشائیوں کو آپ نے دیکھا ہوگا بلکہ ہوسکتاہے آپ خود بھی کبھی ایسے تماشائیوں میں رہے ہوں جو اپنے فیورٹ کھلاڑیوں کو باہر سے صرف داد نہیں بلکہ ''مشورے''بھی دیتے ہیں۔ شاباش،پکڑو،مارو یہ کرو ، وہ کرو بلکہ اکثر تو جسمانی طور پر بھی ردعمل دیتے ہیں، زور لگاتے ہیں، کھڑے کھڑے، ٹیڑھے ٹیڑھے ہوکر خود کو اپنے فیورٹ کھلاڑی کے ساتھ پریکٹیکل بھی کرتے ہیں۔
ایسے ہی حکومت کے ساتھ بھی کرتے ہیں۔ ایسا کرو ویسا کرو۔آئی ایم ایف کے پاس مت جاؤ،اپنی آزادی وخودمختاری کو بچاؤ،خودکفیل ہوجاؤ،نرخ مت بڑھاؤ، ٹیکس مت لگاؤ، انکم سپورٹ بند کرؤ، کارڈوں کی ریوڑیاں مت بانٹو۔سفید ہاتھی مت پالو،نوالوں کے لیے ''منہ''پیدا مت کرو، ایسا کرو ویسا کرو۔پشتو میں ایک کہاوت بھی ہے کہ''تماشائی تو بیچ نشانے میں تیر مارتے ہیں''۔لیکن کسی نے کبھی کھلاڑی کی مجبوریوں کا بھی احساس کیاہے۔
وہ بھی تو چاہتاہے کہ حریف کو چاروں شانے چت کردے، اس پر دس بارہ ''گول''کردے یا باولنگ کرکے مخالف ٹیم کو پویلین بھیج دے اور خود سنچریاں بناکرمیچ کو کلین سویپ کر دیں لیکن مجبوری یہ ہے کہ مخالف کھلاڑی یا ٹیم ایسا کرنے دیں تب نا۔وہ بھی آلو چھولے بیچنے نہیں آئے ہوتے۔ہماری سیاسی ''گرین شرٹس'' بھی جب آئی ایم ایف یا کسی اور بین الاقوامی ٹیم سے ففٹی ففٹی کرنے جاتی ہے تو پوری تیاری سے جاتی ہے، نیٹ پریکٹس کرکے جاتی ہے اور بلندحوصلے کے ساتھ کچھ ''زاہدو عابدوں'' اور ''شیوخ''کی دعائیں ساتھ لے کر جاتی ہے۔لیکن مخالف ٹیم بھی کوئی معمولی ٹیم نہیں، ایک تو یہ کھیل اس کا ''جدی پشتی''اور خاندانی کھیل ہے اور دوسرا یہ کہ کھلاڑیوں کا انتخاب بھی میرٹ پرکرتی ہے ''مینڈیٹ''پر نہیں اور ورلڈ چمپئین بھی توہے چنانچہ ہماری ٹیم کو ہارکا کارڈ پہنا کر بھیج دیتی ہے۔
اب اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک اور پشتو کہاوت کا سہارا لینا پڑے گا،کہ ''سر کے اوپر ہمیشہ سر ہوتاہے''لیکن ان ''سروں'' میںکچھ ایسے ''سر'' بھی ہوتے ہیں جو دکھائی نہیں دیتے۔مثلاً ایک شوہر اگر باہر ''سیدھا''رہتاہے یا بچت کرتاہے، کسی نہ کسی طرح زیادہ سے کماتاہے، فضول خرچی نہیں کرتا،تو اس کے اوپر وہ''سر''ہوتاہے جس کا یہ ''تاج'' ہوتاہے لیکن ''تاج''دکھائی دیتاہے اور ''سر'' دکھائی نہیں دیتا۔ سپاہی کے اوپر حوالدار کا ''سر''حوالدار کے اوپر صوبے دار کا سر اور صوبے دار کے سر کے اوپر... چڑھتے جایئے بظاہر سب سے اوپر جو''سر''دکھائی دیتا ہے اس کے ''سر''کے اوپر بھی کوئی نہ کوئی کہیں نہ کہیں کوئی ''سر'' ضرور ہوتا ہے۔
اب مثلاً یہ جوتازہ ترین ''مژدہ جاں ''عرف بجٹ بلکہ ''پڈجٹ''آیاہے اور اس میں ''اہداف'' شامل کیے گئے ہیں وہ بھی ان ہی نادیدہ ''سروں'' کاکھیل ہے ورنہ ہماری ٹیم کے کھلاڑی بھی چاہتے ہیں کہ جیت کر آئیں لیکن وہ''سر''جیتنے دیں تب نا۔اب یہاں ایک اور کہاوت''دُم''ہلارہی ہے کہ کسی نے تیر سے پوچھا کہ تم اتنے تیز کیوں جا رہے ہو تو اس نے دھوئیں کی طرح پیچھے یہ جملہ چھوڑا۔کہ پیچھے ''کمان''کا زور ہے اور یہ ''کمان''اس نادیدہ ''سر''کے ہاتھ میں ہوتاہے۔ امیرمینائی نے کہا ہے،
کرے فریاد امیر ِ بے نوا اے دادرس کس کی
کہ ہردم کھینچ کرخنجر نئے سفاک آتے ہیں
ہم تو عین نشانے کے بیچوں بیچ''تیر''مارکر کہتے ہیں کہ حکومت اس انتہائی''قرض خواری اور سودکاری''کی حالت میں یہ انکم سپورٹ،کارڈ بازی،کروڑوں مکان، کروڑوں نوکریوں،بے شمار وقطار وزیروں مشیروں معاونوں اور سفید ہاتھیوں کا پالنا بند کردے۔تو کیا حکومت میں یہ جو بڑے بڑے''سر''سرسراتے رہتے ہیں۔اتنے بڑے بڑے پیٹوں کے اوپر جو مینڈیٹ لے کر آئے ہوئے ''سر'' ہیں یا انگریزی کا وراثت میں چھوڑا ہوا شاہی نظام ہے ،کیا وہ اس سے ناواقف ہیں اور اس کی نقب زنیوں سے ناآشنا ہیں۔ فنڈز کی بندربانٹ ان سے چھپی ہوئی ہے،نہیں ہرگز نہیں۔
سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
سب کے سب۔ یہ اور وہ سب کا سب سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی عوام کے ساتھ وہ کررہے ہیں جو کبھی یزید نے بھی نہیں کیاہوگا۔جو کبھی چنگیزخان نے سوچا بھی نہیں ہوگا اور ہلاکو نے محسوس بھی نہیں کیاہوگا لیکن پھر بھی کرتے ہیں اس لیے کہ ہر''سر''کے اوپر کوئی نہ کوئی اور ''سر'' ہوتا ہے۔ تیر کے پیچھے کوئی نہ کوئی کمان ہوتی ہے ،کوئی بھی آزاد وخودمختار نہیں ہوتا۔
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہے وہ''سر کرے'' ہم کو عبث بدنام کیا
چنانچہ ہم کبھی بجٹوں اور نرخناموں پرکچھ نہیں لکھتے اور کیوں لکھیں۔صحرا میں اذانیں دینے سے فائدہ؟شور مچے گا، دانش بگھاری جائے گی، دور دور کی کوڑیاں لائی جائیں گی لیکن ہوگا وہی
جو منظور''سر''ہوتاہے
ایک زمانہ ہوا ہم اس شور کرنے والی ''بارات''میں چپ رہتے ہیں اور چپ ہی رہنا بہترہے۔
پہلے ہربات پہ ہم بولتے تھے
اب فقط ہاتھ اٹھا دیتے ہیں