آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2019 اور پاکستان

موجودہ ورلڈ کپ 2019 میں آسٹریلیا اور ہمارے روایتی حریف بھارت کی کرکٹ ٹیموں کی پرفارمنس اور کامیابی ہمارے سامنے ہے۔


Shakeel Farooqi July 02, 2019
[email protected]

کرکٹ کے کھیل کی جنم بھومی انگلینڈ میں ورلڈ کپ کا میلہ اپنے عروج پر ہے۔کرکٹ کے متوالوں پر اس کھیل کے شدید بخارکی سی کیفیت طاری ہے۔ کرکٹ کے علاوہ کوئی اور موضوع گفتگو نہیں ہے۔ ہر معاملہ التوائی کا شکار ہے کیونکہ ہرکسی کی زبان پر صرف ایک ہی معذرت سوار ہے اور وہ یہ کہ:

ذرا یہ ورلڈ کپ ہولے

پھر اس کے بعد دیکھیں گے

کرکٹ جو کبھی امرا و رؤسا کا کھیل ہوا کرتا تھا اب ایک عوامی کھیل بن چکا ہے۔ کمرشل ازم کے دور نے اسے کمائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بنا دیا ہے۔ دولت کی اسی بہتی ہوئی گنگا میں صرف کھلاڑی ہی نہیں بلکہ کاروباری ادارے اور لوگ بھی نہ صرف ہاتھ دھو رہے ہیں بلکہ مزے مزے سے نہا رہے ہیں۔ بچپن میں ہمارے بزرگ پڑھائی میں دلچسپی دلانے کے لیے اکثر یہ نصیحت کیا کرتے تھے:

پڑھو گے، لکھوگے تو ہو گے نواب

کھیلو گے، کودو گے ہوگے خراب

لیکن اب صورت حال اس کے الٹ ہوچکی ہے۔ پڑھے لکھے آج کل تلاش معاش میں جوتیاں چٹخاتے ہوئے پھرتے ہیں جب کہ کھلاڑیوں کے وارے نیارے ہیں۔ پڑھے لکھوں کی حالت پر ترس آتا ہے۔ بقول شاعر:

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں

انقلاب زمانہ اس کو کہتے ہیں۔ اس دلچسپ اور چشم کشا تبدیلی کے حوالے سے ایک بزرگ کا یہ قول یاد آرہا ہے

زبان خلق سے کہتا ہے بجلی کا کھمبا

کبھی کی رات بڑی اورکبھی کا دن لمبا

اعتراف جرم کے طور پر عرض ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں ایک مرتبہ ہم پر بھی کرکٹ کا نشہ سوار ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ہماری پڑھائی بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔ والد صاحب کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے مولا بخش کے ذریعے ہمارا سارا نشہ ہرن کردیا اور یوں ہم کرکٹر بننے کے بجائے پڑھاکو بن گئے۔ لیکن چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے والی کہاوت کے مصداق کرکٹ سے ہمارا لگاؤ آج تک برقرار ہے۔ بقول شاعر:

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

کرکٹ کے جنون کی وجہ سے ہم نے بہت سے نامور ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کو اپنے کھیل کے جوہر دکھاتے ہوئے بھی دیکھا۔ یہ مایہ ناز کھلاڑی آسودہ خاک ہیں۔ ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے:

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

ان جواہر صفت کھلاڑیوں کی فہرست ہی اتنی طویل ہے کہ یہ کالم ان کے نام گنوانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ چہ جائے کہ ان کے کارناموں کا کچھ تذکرہ کیا جائے۔ ان نابغہ روزگاروں میں بھارتی کھلاڑی پولی امریگر، وجے منجریکر اور وینو منگڈ شامل ہیں جب کہ پاکستانی کھلاڑیوں میں حنیف محمد، فضل محمود اور امتیاز احمد شامل ہیں۔

حسن اتفاق سے ریڈیو پاکستان سے وابستگی کی بدولت ہمیں ''کھیل اور کھلاڑی'' نامی پروگرام پیش کرنے کی وجہ سے مختلف کھیلوں کی نامور شخصیات سے بالمشافہ ملاقاتوں کا شرف بھی حاصل ہوا، جنھوں نے اپنے شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دے کر ملک و قوم کا نام دنیا بھر میں ہمیشہ کے لیے روشن کردیا ہے۔ سچ پوچھیے تو اقوام عالم میں پاکستان کی نیک نامی اور شناخت کا سہرا اس کے عظیم کھلاڑیوں کے سر ہے۔ دوسری جانب اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ان کھلاڑیوں کو جو معاشی اور معاشرتی آسودگی اور عظمت و بلندی حاصل ہوئی ہے وہ ملک و قوم کی خدمات انجام دینے کا ہی صلہ ہے اس حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی مثال عمران خان کی ہے جنھیں ملک و قوم نے ان کی کرکٹ کے میدان میں خدمات کے صلے میں وزارت عظمیٰ جیسے بلند ترین منصب تک پہنچادیا۔

چونکہ عمران خان کو معاشیات کے شعبے کا کوئی علم و تجربہ نہیں ہے اس لیے اس شعبے کی زبوں حالی کے حوالے سے ان کی کارکردگی قابل درگزر کہی جاسکتی ہے لیکن قومی کھیلوں، خصوصاً کرکٹ کی بلاتاخیر اصلاح و بحالی کے بارے میں ان سے توقعات وابستہ کرنا بالکل بجا ہے۔ اگرچہ وطن عزیز میں دیگر کھیلوں کی طرح کرکٹ کا بھی بڑا زبردست ٹیلنٹ موجود ہے لیکن میرٹ کے فقدان اور سفارش کلچر کی وجہ سے اس ٹیلنٹ سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔

صورت حال اتنی مایوس کن ہے کہ موجودہ کوچ مکی آرتھر کے حوالے سے سننے میں آچکا ہے کہ ان کے دل میں خودکشی کرنے کا خیال آگیا تھا۔ اس حوالے سے پاکستان کرکٹ کے ایک سابق کوچ بوب وولمر کی پراسرار موت بھی آج تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ اس تناظر میں کسی شاعر کا یہ شعر یاد آرہا ہے:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

موجودہ ورلڈ کپ 2019 میں آسٹریلیا اور ہمارے روایتی حریف بھارت کی کرکٹ ٹیموں کی پرفارمنس اور کامیابی ہمارے سامنے ہے۔ ان دونوں ٹیموں کے کھلاڑی معقول منصوبہ بندی، نظم و ضبط، تحمل مزاجی، دور اندیشی، ٹیم ورک، عزم محکم اور قومی جذبے سے سرشار ہیں جب کہ ہماری ٹیم میں ان خوبیوں کا فقدان نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ میچ میں افغان بچوں نے ہماری ٹیم کے چھکے چھڑا دیے اور نامعلوم کس کی دعاؤں کے طفیل ہم شرمناک اور عبرت ناک شکست سے دوچار ہونے سے بال بال بچ گئے۔ بس یوں کہیے کہ قسمت ہمارا ساتھ دے گئی اور رب ہم پر مہربان ہوگیا۔

اس میں شک نہیں کہ ہماری ٹیم میں بعض ایسے باصلاحیت کھلاڑی بھی شامل ہیں جن کا لوہا حریف بھی مانتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے کھلاڑی ہوش سے زیادہ جوش سے کام لیتے ہیں اور جلد بازی کا شکار ہوجاتے ہیں جس کے باعث کھیل کا پانسا پلٹ جاتا ہے اور ہم جیتی ہوئی بازی ہار جاتے ہیں۔ مثالی قیادت کا فقدان بھی ہماری ٹیم کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ آسٹریلیا، بھارت، بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیموں کے کپتانوں کی مثال ہمارے سامنے ہے جو اپنی ٹیم میں پیش پیش رہتے ہیں اور مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اپنے کھلاڑیوں کے حوصلے بلند کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری ٹیم کے کپتان کی ذاتی کارکردگی اور کپتانی بھی اطمینان بخش نہیں کہی جاسکتی۔ مگر جسے پیا چاہیں وہی سہاگن والی مثال ان پر صادق آتی ہے۔ انھیں واقعی مقدر کا سکندر کہا جاسکتا ہے۔ اپنی ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے عمران خان کی سب سے نمایاں خوبی یہ تھی کہ انھوں نے ٹیم کو فرنٹ سے لیڈ کیا جس کی بدولت وہ ورلڈ کپ 1992 کے فاتح قرار پائے اور بالآخر وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔

موجودہ ورلڈ کپ 2019 میں حصہ لینے والی پاکستانی ٹیم کی حالت اتنی پتلی ہے کہ اس کی سیمی فائنل تک رسائی حاصل ہونے کی خاطر پاکستانی قوم کو اپنے سب سے بڑے حریف اور ازلی دشمن بھارت کی کرکٹ ٹیم کی انگلینڈ کی ٹیم پر فتح حاصل کرنے کی دعائیں مانگنی پڑیں۔ تاہم ایک گمان یہ بھی پایا جاتا ہے کہ بھارت 30 جون کا میچ انگلینڈ سے جان بوجھ کر ہارا ہے تاکہ پاکستان کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے کے امکانات کم سے کم ہوجائیں۔ اگر آیندہ میچ میں انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کو ہرا دیا تو پاکستان ورلڈ کپ ٹورنامنٹ سے باہر ہوجائے گا۔ پاکستان کی امید کی ڈور کچے دھاگے کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ بہرحال امید پہ دنیا قائم ہے۔ بقول شاعر:

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے پاکستان کو اپنا آخری گروپ میچ جیتنا ہوگا جو آیندہ جمعہ کو بنگلہ دیش کے خلاف کھیلا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔