پاکستانی جمہوریت دیکھیں
بحرانی کیفیت کی وجہ سے عوام غلیظ اور بد بودار نظام کی وجہ سے ہیجانی کیفیت کا شکار ہے
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگ بجٹ پر اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس کالم کا آغازکیسے کیا جائے۔دالوں، سبزیوں ، دودھ ، چینی، مرغی کا گوشت اور چائے پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے اگر حکومت ٹیکس لگا کر ملک کی معیشت کو بحال کرنا چاہتی ہے تو ریسٹورنٹ جو اعلیٰ درجے کے ہیں ان پر ٹیکس کا بوجھ ڈالے جب کہ وہ ٹیکس بھی گاہک ہی دیں گے مگر وہاں آنے والوں میں یہ افراد نہیں ہیں جنھیں ہم مستری، پلمبر، ٹھیلے والے، کلرک کہتے ہیں یہ بے چارے تو ایسے ہوٹل کے سامنے سے گزرتے ہوئے کتراتے ہیں۔
اگر آپ کو ٹیکس لگانا ہے، بے شک وہ دو سو فیصد ہو تو ان اشیا پر لگائیں سگریٹ، پان، چھالیہ، کتھا، میک اپ کا سامان، موبائل، امپورٹڈ پرفیوم، گاڑیاں، منرل واٹر یہ ترجیحات ہیں۔ امیروں کی، غریبوں کا اس سے کیا تعلق ایک سال قبل میں نے کالم میں لکھا تھا کہ اگر مرغی کے ریٹس پر توجہ نہ دی گئی تو یہ گائے کے گوشت کا مقابلہ کرے گی ۔
پچھلے دنوں مرغی 320 روپے میں فروخت ہو رہی تھی جب کہ گائے کا گوشت 475 روپے کلو فروخت ہو رہا تھا۔ ڈاکٹرکہتے ہیں ''مرغی کھاؤ'' زبان کا ذائقہ کہتا ہے کہ '' گائے کا گوشت '' کھایا جائے، بھلا بتائیے ارباب اختیار تو دونوں کے مزے لوٹ رہے ہیں جب کہ غریب مفلسی کا شکار ہے، اس قوم کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ اتنی سختیاں جھیلے گی، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ آ بیل مجھے مار والی کہاوت نہ کرے جبھی تو اپوزیشن احتجاج کے دریا میں اتر گئی ہے۔ اس وقت اپوزیشن حکومت کے لیے تمام راستے معدوم کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہے، اگر حکومت توجہ دے تو بجٹ خسارے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ مہنگائی کے باعث عوام دو وقت کی روٹی کے لیے بھی محتاج ہوتے جارہے ہیں ۔
ادھر وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ''کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آؤں گا، حکومت کیا میری جان چلی جائے، چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا '' مانا کہ عمران خان بحیثیت وزیر اعظم اس پاکستان کی معیشت کو بہترکرنا چاہتے ہیں اور یہ بات حقیقت ہے کہ وہ جس منصب پر فائز ہیں وہ اپنا کام بہت ایمانداری سے کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔ دس سال میں اس ملک کو کیسے لوٹا گیا، اب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ کمیشن تحقیقات کریگا۔
تیری باری اور میری باری نے قواعد وضوابط کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی تھیں،کراچی سے لے کر خیبر تک جن سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے تشویش ناک حد تک بینکوں سے قرضے لے کر معاف کرائے ہیں، ان کے کھاتے کھولے جائیں اور یہ معاف کرائے گئے قرضے واپس لیے جائیں تو شاید ہم آئی ایم ایف سے 50 فیصد قرضوں سے جان چھڑا لیں۔
کسی بھی صوبے میں جہاں جہاں ہاؤس بلڈنگ کام کر رہی ہے وہاں اگرکوئی غریب صرف 2 بیڈ روم کی ایک قسط ادا کرنے میں غربت کی وجہ سے ناکام ہوجائے تو اس غربت کے مارے کی توہین وتذلیل کی جاتی ہے، واجب الاحترام وہ غریب جو پیٹ کاٹ کر باقاعدگی سے ہاؤس بلڈنگ کی قسطیں مکروفریب سے بالاتر ہوکر ادا کرتا ہے لہٰذا کمیشن کو چاہیے کہ جن صاحب حیثیت لوگوں نے سیاسی حضرات نے بینکوں سے قرضے لے کر معاف کرائے، ان سے پائی پائی وصول کی جائے آخر اس مملکت خداداد میں غربت کے مارے لوگوں کو کیوں کچلا جا رہا ہے؟
جنھوں نے اختیاراتی داستانے پہن رکھے ہیں وہ قرضے معاف کرا کر بھی شاہانہ طرز زندگی گزار رہے ہیں لہٰذا وزیر اعظم پہلی فرصت میں اس کمیشن پر توجہ دیں اور انھیں کھل کر مکمل آزادی کے ساتھ کام کرنے دیں۔ قوم مہنگائی اور مشکلات کے باوجود خانصاحب آپ کا ساتھ دے رہی ہے لہٰذا بینکوں سے لیے گئے تمام قرضوں کو جو معاف کرائے گئے ہیں ان سے یہ کمیشن پائی پائی وصول کریں اور اس کمیشن میں ایسے لوگوں کو شامل کیا جائے جو معاشرتی اقدار ضابطہ اخلاق کے امین ہوں۔
چاروں صوبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ لوٹا، ماری اورکرپشن نے قانونی تقاضوں کوکچل کر رکھ دیا ہے، قرضے کسی بھی منصوبہ بندی کے لیے بلکہ اپنے مفادات کے لیے گئے، جنھوں نے قرضے لیے وہ محلوں میں رہتے ہیں، غربت کا مارا دو کمرے کے فلیٹ کے لیے کئی دہائیوں تک گردش میں رہ کر اپنے تحفظات کی بھیک مانگتا رہتا ہے یہ کیسا انصاف ہے اب ان بگڑے نوابوں کا بھی مکافات عمل ہونا چاہیے، خان صاحب شکوک و شبہات سے برملا ہوکر سب کو کھڑا کریں۔ محمود وایازکی طرح آئین وجمہوریت کا راگ الاپنے والوں نے اس قوم کی زندگی کی مانگ اجاڑ کر رکھ دی ہے، یہ قوم معاشی طور پر بانجھ ہوچکی ہے ۔
بحرانی کیفیت کی وجہ سے عوام غلیظ اور بد بودار نظام کی وجہ سے ہیجانی کیفیت کا شکار ہے لہٰذا یہ کمیشن اب اس اکتاہٹ کے سفرکا اختتام کرے تاکہ اس ملک کو ملیامیٹ کرنے والوں کا سیاسی درجہ حرارت اپنے انجام کو پہنچے ان حالات کی وجہ سے غربت کی ماری، اس قوم کی آنکھیں تو ہیں مگر بینائی کام نہیں کرتی۔ قومی اسمبلی روز مچھلی بازارکا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے۔ ایم این اے اور ایم پی اے اپنی پارٹیوں کو بچانے کے لیے مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں، مسائل کا حل نکالنے کے بجائے اس پر خوشنودی کے چراغ جلائے جاتے ہیں ۔
30 ہزار چنگ چی رکشے بند کردیے گئے، اب کیوں بند کیے اس کا جواب تو ان کے پاس بھی نہیں ،حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ چاروں صوبوں کے وزیر اعلیٰ پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کو دعوت دیں کہ وہ کثیر تعداد میں بسیں روڈ پر لائیں، انھیں ہر قسم کا تحفظ دیا جائے مگر چونکہ یہ عوام کے مسائل کے حل کرنے کا معاملہ ہے، لہٰذا اس پر عمل کرنا مشکل ہے ، ہم جیسے کم عقل صحافی کا ذہن توکام کرتا ہے مگر یہ اسمبلی کے بادشاہ جو وزیر اعلیٰ کہلاتے ہیں توکیا ان کے ذہن میں نئی تجاویز نہیں آتیں؟
میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کسی بھی صوبے کے وزیر اعلیٰ بھیس تبدیل کرکے چنگ چی رکشے میں سفرکریں، اگر رحم دل ہوں گے تو میرا یہ دعویٰ ہے کہ وہ شاید وزارت سے استعفیٰ دے کر قدرت کے سامنے سرخرو ہوں گے مگر یہاں تو گدی نشینی نسل در نسل چل رہی ہے، یہ ہزار سی سی گاڑی میں سفر نہیں کرسکتے پھر چنگ چی تو ان کی کوس سے لاکھوں میل دور ہے ۔
کیا اسے آپ جمہوریت کہتے ہیں پاکستان میں تو جمہوریت کو ان سیاستدانوں نے کھلونا بناکر رکھ دیا ہے، بس ان کی سوچ ہے کہ جمہوریت کا دیا جلتا رہے اور اس جمہوریت کے سائے تلے رشوت ستانی، قتل وغارت گری، انسانیت ناپید غرض اب قانون افادیت کھوتا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر آنکھوں دیکھا حال دکھایا جا رہا ہے، مجال ہے کہ دکھایا جانے والا واقعے پر اس سے وابستہ کسی وزیر نے دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہو سب اپنی مستی میں مست ہیں اور ہمارے کچھ سیاستدان اس سوشل میڈیا کو بہت برا سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کسی کی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالنا ہے جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، اس سوشل میڈیا نے قوم کی آنکھیں کھول دی ہیں جس کی وجہ سے کچھ سیاسی حضرات بہت پریشان ہیں مگر مسائل کو حل نہ کرنے کی انھوں نے قسم کھا رکھی ہے۔ غوروفکر عمل پیرا جیسے جملے تو ان سیاستدانوں کی نگاہ میں لفظی جملے کی حیثیت رکھتے ہیں، بے شک ایسے واقعات دیکھنے کے بعد قوم کا وقار مجروح ہوتا رہے تو اس بات کو ہم یقینی طور پر مان لیں کہ مسائل کی کھڑکیاں بند ہوں گی تو سیاست بھی زندہ رہے گی ۔
صوبوں میں صحت، ٹریفک، بدعنوانی، رئیس زادوں کے منہ زورگھوڑے، پانی، الیکٹرک، قتل وغارتگری، ٹرانسپورٹ غرض ہر شعبے کے وزرا موجود ہونے کے باوجود ضابطہ اخلاق کی تدفین ہوچکی ہے۔ آئین سیاستدانوں کے لیے بلند و بالا عمارتوں کی شکل اختیارکرچکا ہے جب کہ قوم یہ چاہتی ہے کہ آئینی ذمے داریوں کو والہانہ انداز میں پورا کیا جائے لیکن سیاستدانوں نے آئینی دکانیں جو ان کی نگاہ میں روحانی ہیں ،کھول لی ہیں مگر اظہار مذمت کا لفظ ان کی نگاہ میں چھوٹا ہے جبھی یہ اسے استعمال نہیں کرتے آخر میں غریب کے پاس ایک ہی لفظ رہ جاتا ہے کہ رہے وطن سلامت ۔
اگر آپ کو ٹیکس لگانا ہے، بے شک وہ دو سو فیصد ہو تو ان اشیا پر لگائیں سگریٹ، پان، چھالیہ، کتھا، میک اپ کا سامان، موبائل، امپورٹڈ پرفیوم، گاڑیاں، منرل واٹر یہ ترجیحات ہیں۔ امیروں کی، غریبوں کا اس سے کیا تعلق ایک سال قبل میں نے کالم میں لکھا تھا کہ اگر مرغی کے ریٹس پر توجہ نہ دی گئی تو یہ گائے کے گوشت کا مقابلہ کرے گی ۔
پچھلے دنوں مرغی 320 روپے میں فروخت ہو رہی تھی جب کہ گائے کا گوشت 475 روپے کلو فروخت ہو رہا تھا۔ ڈاکٹرکہتے ہیں ''مرغی کھاؤ'' زبان کا ذائقہ کہتا ہے کہ '' گائے کا گوشت '' کھایا جائے، بھلا بتائیے ارباب اختیار تو دونوں کے مزے لوٹ رہے ہیں جب کہ غریب مفلسی کا شکار ہے، اس قوم کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ اتنی سختیاں جھیلے گی، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ آ بیل مجھے مار والی کہاوت نہ کرے جبھی تو اپوزیشن احتجاج کے دریا میں اتر گئی ہے۔ اس وقت اپوزیشن حکومت کے لیے تمام راستے معدوم کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہے، اگر حکومت توجہ دے تو بجٹ خسارے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ مہنگائی کے باعث عوام دو وقت کی روٹی کے لیے بھی محتاج ہوتے جارہے ہیں ۔
ادھر وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ''کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آؤں گا، حکومت کیا میری جان چلی جائے، چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا '' مانا کہ عمران خان بحیثیت وزیر اعظم اس پاکستان کی معیشت کو بہترکرنا چاہتے ہیں اور یہ بات حقیقت ہے کہ وہ جس منصب پر فائز ہیں وہ اپنا کام بہت ایمانداری سے کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔ دس سال میں اس ملک کو کیسے لوٹا گیا، اب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ کمیشن تحقیقات کریگا۔
تیری باری اور میری باری نے قواعد وضوابط کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی تھیں،کراچی سے لے کر خیبر تک جن سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے تشویش ناک حد تک بینکوں سے قرضے لے کر معاف کرائے ہیں، ان کے کھاتے کھولے جائیں اور یہ معاف کرائے گئے قرضے واپس لیے جائیں تو شاید ہم آئی ایم ایف سے 50 فیصد قرضوں سے جان چھڑا لیں۔
کسی بھی صوبے میں جہاں جہاں ہاؤس بلڈنگ کام کر رہی ہے وہاں اگرکوئی غریب صرف 2 بیڈ روم کی ایک قسط ادا کرنے میں غربت کی وجہ سے ناکام ہوجائے تو اس غربت کے مارے کی توہین وتذلیل کی جاتی ہے، واجب الاحترام وہ غریب جو پیٹ کاٹ کر باقاعدگی سے ہاؤس بلڈنگ کی قسطیں مکروفریب سے بالاتر ہوکر ادا کرتا ہے لہٰذا کمیشن کو چاہیے کہ جن صاحب حیثیت لوگوں نے سیاسی حضرات نے بینکوں سے قرضے لے کر معاف کرائے، ان سے پائی پائی وصول کی جائے آخر اس مملکت خداداد میں غربت کے مارے لوگوں کو کیوں کچلا جا رہا ہے؟
جنھوں نے اختیاراتی داستانے پہن رکھے ہیں وہ قرضے معاف کرا کر بھی شاہانہ طرز زندگی گزار رہے ہیں لہٰذا وزیر اعظم پہلی فرصت میں اس کمیشن پر توجہ دیں اور انھیں کھل کر مکمل آزادی کے ساتھ کام کرنے دیں۔ قوم مہنگائی اور مشکلات کے باوجود خانصاحب آپ کا ساتھ دے رہی ہے لہٰذا بینکوں سے لیے گئے تمام قرضوں کو جو معاف کرائے گئے ہیں ان سے یہ کمیشن پائی پائی وصول کریں اور اس کمیشن میں ایسے لوگوں کو شامل کیا جائے جو معاشرتی اقدار ضابطہ اخلاق کے امین ہوں۔
چاروں صوبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ لوٹا، ماری اورکرپشن نے قانونی تقاضوں کوکچل کر رکھ دیا ہے، قرضے کسی بھی منصوبہ بندی کے لیے بلکہ اپنے مفادات کے لیے گئے، جنھوں نے قرضے لیے وہ محلوں میں رہتے ہیں، غربت کا مارا دو کمرے کے فلیٹ کے لیے کئی دہائیوں تک گردش میں رہ کر اپنے تحفظات کی بھیک مانگتا رہتا ہے یہ کیسا انصاف ہے اب ان بگڑے نوابوں کا بھی مکافات عمل ہونا چاہیے، خان صاحب شکوک و شبہات سے برملا ہوکر سب کو کھڑا کریں۔ محمود وایازکی طرح آئین وجمہوریت کا راگ الاپنے والوں نے اس قوم کی زندگی کی مانگ اجاڑ کر رکھ دی ہے، یہ قوم معاشی طور پر بانجھ ہوچکی ہے ۔
بحرانی کیفیت کی وجہ سے عوام غلیظ اور بد بودار نظام کی وجہ سے ہیجانی کیفیت کا شکار ہے لہٰذا یہ کمیشن اب اس اکتاہٹ کے سفرکا اختتام کرے تاکہ اس ملک کو ملیامیٹ کرنے والوں کا سیاسی درجہ حرارت اپنے انجام کو پہنچے ان حالات کی وجہ سے غربت کی ماری، اس قوم کی آنکھیں تو ہیں مگر بینائی کام نہیں کرتی۔ قومی اسمبلی روز مچھلی بازارکا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے۔ ایم این اے اور ایم پی اے اپنی پارٹیوں کو بچانے کے لیے مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں، مسائل کا حل نکالنے کے بجائے اس پر خوشنودی کے چراغ جلائے جاتے ہیں ۔
30 ہزار چنگ چی رکشے بند کردیے گئے، اب کیوں بند کیے اس کا جواب تو ان کے پاس بھی نہیں ،حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ چاروں صوبوں کے وزیر اعلیٰ پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کو دعوت دیں کہ وہ کثیر تعداد میں بسیں روڈ پر لائیں، انھیں ہر قسم کا تحفظ دیا جائے مگر چونکہ یہ عوام کے مسائل کے حل کرنے کا معاملہ ہے، لہٰذا اس پر عمل کرنا مشکل ہے ، ہم جیسے کم عقل صحافی کا ذہن توکام کرتا ہے مگر یہ اسمبلی کے بادشاہ جو وزیر اعلیٰ کہلاتے ہیں توکیا ان کے ذہن میں نئی تجاویز نہیں آتیں؟
میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کسی بھی صوبے کے وزیر اعلیٰ بھیس تبدیل کرکے چنگ چی رکشے میں سفرکریں، اگر رحم دل ہوں گے تو میرا یہ دعویٰ ہے کہ وہ شاید وزارت سے استعفیٰ دے کر قدرت کے سامنے سرخرو ہوں گے مگر یہاں تو گدی نشینی نسل در نسل چل رہی ہے، یہ ہزار سی سی گاڑی میں سفر نہیں کرسکتے پھر چنگ چی تو ان کی کوس سے لاکھوں میل دور ہے ۔
کیا اسے آپ جمہوریت کہتے ہیں پاکستان میں تو جمہوریت کو ان سیاستدانوں نے کھلونا بناکر رکھ دیا ہے، بس ان کی سوچ ہے کہ جمہوریت کا دیا جلتا رہے اور اس جمہوریت کے سائے تلے رشوت ستانی، قتل وغارت گری، انسانیت ناپید غرض اب قانون افادیت کھوتا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر آنکھوں دیکھا حال دکھایا جا رہا ہے، مجال ہے کہ دکھایا جانے والا واقعے پر اس سے وابستہ کسی وزیر نے دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہو سب اپنی مستی میں مست ہیں اور ہمارے کچھ سیاستدان اس سوشل میڈیا کو بہت برا سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کسی کی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالنا ہے جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، اس سوشل میڈیا نے قوم کی آنکھیں کھول دی ہیں جس کی وجہ سے کچھ سیاسی حضرات بہت پریشان ہیں مگر مسائل کو حل نہ کرنے کی انھوں نے قسم کھا رکھی ہے۔ غوروفکر عمل پیرا جیسے جملے تو ان سیاستدانوں کی نگاہ میں لفظی جملے کی حیثیت رکھتے ہیں، بے شک ایسے واقعات دیکھنے کے بعد قوم کا وقار مجروح ہوتا رہے تو اس بات کو ہم یقینی طور پر مان لیں کہ مسائل کی کھڑکیاں بند ہوں گی تو سیاست بھی زندہ رہے گی ۔
صوبوں میں صحت، ٹریفک، بدعنوانی، رئیس زادوں کے منہ زورگھوڑے، پانی، الیکٹرک، قتل وغارتگری، ٹرانسپورٹ غرض ہر شعبے کے وزرا موجود ہونے کے باوجود ضابطہ اخلاق کی تدفین ہوچکی ہے۔ آئین سیاستدانوں کے لیے بلند و بالا عمارتوں کی شکل اختیارکرچکا ہے جب کہ قوم یہ چاہتی ہے کہ آئینی ذمے داریوں کو والہانہ انداز میں پورا کیا جائے لیکن سیاستدانوں نے آئینی دکانیں جو ان کی نگاہ میں روحانی ہیں ،کھول لی ہیں مگر اظہار مذمت کا لفظ ان کی نگاہ میں چھوٹا ہے جبھی یہ اسے استعمال نہیں کرتے آخر میں غریب کے پاس ایک ہی لفظ رہ جاتا ہے کہ رہے وطن سلامت ۔