تھر کے مور اور مرتی ممتا

تھر کے مسئلے کے جز وقتی حل تلاش کرنے کے بجائے وہاں مستقل حکمت عملی اپنائی جائے


انعم احسن July 03, 2019
تھر میں انسان اور چرند پرند قحط سالی کا شکار ہورہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

یہ تیز و تند ہوائیں ان فضاؤں سے یکسر مختلف تھیں جو اپنے اندر بہت سی کیفیات ضم کیے ہوئے تھیں۔ ان ہواؤں کی سنسناہٹ میں جہاں جابجا تپتی ریت محلول ہوچکی تھی، وہیں یہ اپنے اندر صحراؤں کا سینہ چیرتی دھوپ کی شدت، کچھ خاموش رودادیں، بے بسی و اداسی میں لپٹی عورت کے جھریوں بھرے چہرے پر کھنچی ہوئی بے ترتیب لکیروں سے جھلکتی الم کی داستانیں منعکس کررہی تھیں۔ جو کہیں اپنے لڑکپن میں ہی ادھیڑ عمر بڑھیا کی شکل اختیار کرچکی تھی۔ جس سے بڑھاپے اور جوانی کے درمیان لکیر کھینچنا خاصا مشکل ہوجاتا ہے۔

وہ اکیلی تھی۔ گلے میں کنٹلا، پورے بازوؤں اور پیروں میں مخصوص قسم کی سفید کڑیاں پہنے، گہرے رنگ کا گھاگھرا اور چولی زیب تن کیے ہوئے، اپنے بائیں پلو کو دانتوں میں دبائے ادھ کھلا چہرہ اور سر پر کئی مٹکے اٹھائے صحرائے تھر کی تپتی ریت پر ننگے پاؤں بس چلتی جارہی تھی۔ چہرے پر مسرت، خوشحالی اور رونق کے آثار نہایت مدھم تھے۔ شاید یہی بڑی وجہ تھی کہ یہاں کی خواتین کے پہناوے میں شوخ رنگ لباس شامل ہیں۔ یہاں کی عورت تن تنہا پورے کنبے کا کھانا بناتی ہے، میلوں دور چل کر پانی کے مٹکے بھر کر لاتی ہے، بکریاں چراتی ہے، لکڑیاں اکٹھی کرتی ہے اور مویشیوں کو چارہ ڈالنا بھی اسی کے ذمے ہوتا ہے۔

ہر ڈھلتی شام کے گہرے ہوتے سائے اپنے ساتھ بھوک، افلاس، غربت اور کسمپرسی کا نیا پیغام لاتے ہیں۔ قحط، اناج کی کمی، کھارا پانی اور مختلف موذی وباؤں جیسی آفات ان کی منڈیروں پر بال بکھیرے ڈیرہ جمائے رکھتی ہیں۔ آج بھی یہ عورت نمک، مرچ اور چٹنی سے روٹی کھاتی ہے، پھر بھی صبر و قناعت کی پتلی بنے سورج کی تپش سے جلتے ریگستان میں اپنے لہو سے زندگی کے بیابان کو سینچتی جاتی ہے۔

اکیسویں صدی کی اس عورت کا موازنہ اگر آج کی ترقی یافتہ عورت سے کریں تو صورتحال اس کے برعکس نظر آئے گی۔ آج کی عورت جہاں سڑکوں پر اپنے نام نہاد حقوق اور آزادی کےلیے نعرے لگاتی نظر آتی ہے، وہیں دن بہ دن اپنی قدر گنوا رہی ہے۔ آسائشوں سے بھرپور زندگی، معاشرے کے بدلتے رنگوں میں ڈھل جانے کا رنگ، اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی، مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی آزادی، نت نئے ملبوسات کو زیب تن کرنے کی آزادی اور پھر بھی چڑیا کی طرح خود کو پنجرے میں قید محسوس کرتی ہے۔

یہ داستان تھر کے بے آب و گیاہ ریگستان کی جواں ہمت عورتوں کی ہے۔ موروں کا دیس کہلائے جانے والے دیس میں جا بجا امید کے رنگ نظر آتے ہیں۔ یہاں کی عورتیں اس صحرا میں زندگی کے پودے لگائے بیٹھی ہیں، وہ عورتیں جن کے بازو رنگ برنگی چوڑیوں سے بھرے ہوتے ہیں، لیکن ان کی کلائیوں میں رستم ہند سے زیادہ طاقت ہے۔ زندگی کے بوجھ سے جھکی کمر لیکن اپنے عزم کے سہارے مسائل کے کوہ ہمالیہ کے سامنے سینہ تانے کھڑی ہیں۔ کم و بیش تین ہزار دیہات پر مشتمل اس علاقے کے ہر گھر کی داستان ایک جیسی ہے۔

صحت مند خواتین صحت مند معاشروں کی علامت ہوتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں تو ہر چیز ہی نرالی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس چھٹے سب سے بڑے ملک میں چوالیس فیصد بچوں کو غذائیت کی کمی کا سامنا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے پاکستانی بچوں کی مجموعی تعداد کروڑوں میں بنتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر صرف چھ ماہ سے لے کر تیئیس ماہ تک کی عمر کی بچوں کی مثال لی جائے، تو ان میں غذائیت کی کمی کی شرح پچاسی فیصد ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس عمر کے شیر خوار بچوں میں سے صرف پندرہ فیصد بچوں کو کافی غذائیت والی خوراک دستیاب ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف اڑتیس فیصد مائیں ہی پہلے چھ ماہ تک بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ اس شرح میں کمی کی وجوہات مقامی روایات، ماؤں پر کام کاج کا بوجھ اور مصنوعی دودھ فروخت کرنے والی کمپنیوں کی طاقتور مارکیٹنگ ہیں۔

خوراک کی کمی کا سب سے زیادہ شکار صحرائے تھر کی خواتین ہوتی ہیں۔ یہاں کی خواتین کو روزانہ ایک روٹی، چند گلاس لسی اور معمولی خوراک دستیاب ہوتی ہے۔ اس خوراک سے وہ زیادہ سے زیادہ بارہ سو کیلوریز حاصل کرپاتی ہیں۔ اور ان کیلوریز میں سے کم از کم دو سو سے تین سو کیلوریز تو صرف اس مشقت پر خرچ ہوجاتی ہیں جو وہ روزانہ میلوں دور سروں پر پانی کے بھاری مٹکے رکھ کر ننگے پاؤں پیدل پانی لانے کےلیے کرتی ہیں۔ جس کا براہ راست اثر ان ماؤں کی صحت پر پڑتا ہے۔ تھر کی یہ کمزور مائیں کمزور بچوں کو جنم دیتی ہیں اور یہاں پیدا ہونے والے لگ بھگ 49 فیصد بچے انڈر ویٹ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں بہت سی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ جہاں بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں پیدا ہونے والے بچوں میں سے تیس فیصد پانچ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی چل بستے ہیں۔ اور یہاں زچگی کے دوران یا بعد میں عورتوں کے شرح اموات بھی بہت زیادہ ہے۔

تھر کے موضوع پر درجنوں رپورٹس بنیں، سیکڑوں کالمز اور بلاگز لکھے گئے، سرکار نے خواتین کی بھوک ختم کرنے کےلیے گندم کی بوریاں بھیجیں۔ مگر ان بوریوں میں گندم سے زیادہ مٹی کے ڈھیلے بھرے گئے تھے۔ ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے مٹھی کے علاوہ علاقے بھر میں کہیں بھی کوئی سرکاری ہسپتال نہیں ہے۔ سرکار کے حصے کا کام چند مخیر ادارے کررہے ہیں۔ انہی اداروں میں الخدمت فاؤنڈیشن بھی ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت جہاں علاقے میں پانی کے کنویں کھودے گئے، وہیں ماں اور بچے کی صحت کےلیے اقدامات کیے گئے۔ اس خیراتی ادارے کے قائم کردہ اسپتالوں اور مراکز صحت کو سرکاری تحویل میں دیا گیا۔ خیراتی اداروں کی جانب سے مسلسل کام کے بعد حکومت سندھ بھی میدان میں آگئی ہے۔ شنید ہے کہ نئے مراکز صحت، پانی کے کنویں اور غذائی کمی پورا کرنے کےلیے اقدامات کررہی ہے۔

لیکن تھر کے مسئلے کے جز وقتی حل تلاش کرنے کے بجائے وہاں مستقل حکمت عملی اپنائی جائے۔ تھر کا علاقہ بنجر ہونے کے باوجود اپنے اند دلکشی اور جاذبیت رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں کے صحرائی ٹیلوں اور کچے گھروں کے آنگن میں اپنے خوبصورت پر پھیلائے مور رنگ بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ یہ مور جہاں بارش کی آمد کی خبر سناتے ہیں، وہیں بیرونی آفات اور حملوں کی پیش گوئی بھی کرتے ہیں۔ لیکن افسوس! اب یہ خوبصورت مور نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ انسانوں کی طرح مویشیوں اور پرندوں کی بھی کئی نسلیں بھوک، افلاس، پانی کی کمی اور طبعی سہولیات کی غیر فراہمی کی بھنیٹ چڑھ گئیں۔

ضررت اس امر کی ہے کہ تھر میں موجود منصوبوں پر غور کیا جائے۔ تھر کی عورتوں کو وقتی طور پر چند کلو گندم فراہم کردینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انہیں مستقل بنیادوں پر سہولیات فراہم کی جائیں۔ صحت مند ماں ہی صحت مند اولاد اور صحت مند معاشرے کی علامت ہوتی ہے۔ اگر ماؤں کو بہتر خوراک ملے گی تو ہی آنے والی نسلیں صحت مند پیدا ہوں گی۔ عوتوں میں غذائی قلت کو دور کرکے ان کو بروقت آگاہی دی جائے اور تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس کے علاوہ تھر میں پینے کے صاف اور میٹھے پانی کے نئے منصوبے لگانے کے ساتھ ساتھ پانی کو ذخیرہ کرنے کےلیے بھی موثر انتظامات کیے جائیں۔ بنیادی مراکز صحت تک خواتین کی رسائی کو ممکن بناتے ہوئے ان کا معیار زندگی اور معیار صحت بہتر کیا جائے۔ تھر میں موسمی درجہ حرارت اور دھوپ کی شدت سے مستفید ہوکر وہاں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگائے جائیں۔ تاکہ تھر میں نئی اصلاحات لائی جاسکیں اور اقوام متحدہ کے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ کے گولز پر عمل درآمد کیا جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں