قطر اور جرمنی کی کاوشوں سے طالبان ’آل افغان پیس کانفرنس‘ کے انعقاد پر متفق
امریکا اور افغان طالبان کے دوران قطر میں مذاکرات کا ساتواں دور بھی جاری ہے
طالبان نے افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے قطر اور جرمنی کی تجویز کردہ کثیر القومی 'آل افغان پیس کانفرنس' میں شرکت کرنے کے لیے ہامی بھر لی ہے۔
عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے لیے جرمنی کے خصوصی نمائندے مارکس پوٹزیل کی جانب سے جاری بیان میں کثیرالقومی مذاکرات 'آل افغان پیس کانفرنس' کے 7 اور 8 جولائی کو دوحہ میں انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان مذاکرات میں طالبان نے بھی شرکت کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
یہ کانفرنس قطر اور جرمنی کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہیں تاہم طالبان نے کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنی سابقہ شرط کو برقرار رکھا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ افغان طالبان کسی بھی ایسے مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے جس میں کابل حکومت کا کوئی ایک نمائندہ بھی شریک ہو۔
طالبان کی شرط کے پیش نظر قطر اور جرمنی نے آل افغان پیس کانفرنس کے لیے افغانستان کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد کو مدعو کیا ہے تاہم کابل انتظامیہ کے نمائندوں کو ذاتی حیثیت میں کانفرنس میں شرکت کی اجازت ہوگی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی افغانستان کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو کابل حکومت کی جانب سے سیکڑوں شرکاء کی ناقابل عمل فہرست کے باعث ناکام ہو گئی تھی۔
عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے لیے جرمنی کے خصوصی نمائندے مارکس پوٹزیل کی جانب سے جاری بیان میں کثیرالقومی مذاکرات 'آل افغان پیس کانفرنس' کے 7 اور 8 جولائی کو دوحہ میں انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان مذاکرات میں طالبان نے بھی شرکت کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
یہ کانفرنس قطر اور جرمنی کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہیں تاہم طالبان نے کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنی سابقہ شرط کو برقرار رکھا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ افغان طالبان کسی بھی ایسے مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے جس میں کابل حکومت کا کوئی ایک نمائندہ بھی شریک ہو۔
طالبان کی شرط کے پیش نظر قطر اور جرمنی نے آل افغان پیس کانفرنس کے لیے افغانستان کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد کو مدعو کیا ہے تاہم کابل انتظامیہ کے نمائندوں کو ذاتی حیثیت میں کانفرنس میں شرکت کی اجازت ہوگی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی افغانستان کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو کابل حکومت کی جانب سے سیکڑوں شرکاء کی ناقابل عمل فہرست کے باعث ناکام ہو گئی تھی۔