حکومتی عدم اعتماد اور اپوزیشن کی دریا دلی
اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں نہ تو مشترکہ احتجاجی تحریک پر متفق نظر آتی ہیں، نہ ڈٹ کر اپوزیشن کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں
بجٹ کے موضوع پر ہونے والے اجلاس، ایوان میں ایک خوشگوار تبدیلی کا موجب ہیں۔ اپوزیشن ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کے اعتراف کے ساتھ جمہوریت کو لاحق، ماضی کے فرسودہ رویوں کا ذکر کھلے دل سے کررہی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ سیاست اور خود اہل سیاست برسوں رگڑا لگنے کے بعد درست سمت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ آج کی حزب اختلاف ہے، جن کے بینچوں سے 'گو بابا گو' کے نعرے نہیں، میثاق معیشت کی آواز بلند ہوئی۔ اب طے یہ ہونا کہ سیاست کا نیا نیا سبق پڑھنے والی حکومت وقت ماضی کی سابقہ غلطیوں کے ساتھ سیاست کی ڈگری لے گی یا مل بِیٹھ کر سیاست کو بااختیار ہونے کا ایک موقع دیا جائے گا؟
غیر سیاسی اجزا کو سیاست کی اجزائے ترکیبی میں شامل کرنے کی جو غلطی اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں نے کی، آج اسی غطی کا الزام حکومت وقت پر ہے۔ ادھر وزیراعظم نے قومی ترقیاتی کمیشن کی تشکیل اور چیدہ چیدہ ممبران کا باضابطہ اعلان کیا، ادھر اپوزیشن نے میثاق معیشت کی آواز بلند کی۔
بلاشبہ یہ اچھا شگون ہے کہ جس کا کام، اسی کو ساجھے۔ حکومت شوق سے ملک کے سبھی اداروں کو ایک صفحے پر رکھنے کے جتن کرے، مگر میثاق معیشت کی پیشکش کےلیے یہاں انا کی کشتیاں جلانا ہی سیاسی دانشمندی ہے۔ وزیراعظم نے ملک کی معاشی صورتحال کے تناظر میں قومی ترقیاتی کونسل کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔ 12 رکنی کونسل کی سربراہی وزیرِاعظم عمران خان اور چیدہ چیدہ اراکین میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، چاروں وزرائے اعلیٰ، تجارت، خزانہ، خارجہ کے علاوہ منصوبہ بندی کے وزرا بھی شامل ہوں گے۔
قرضوں کے تحقیقاتی کمیشن کے بعد ترقیاتی کونسل حکومت کا وہ بڑا فیصلہ ہے، جس میں اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اور قومی سلامتی کونسل کے بعد یہ دوسرا ادارہ ہے، جس میں فوج کے سربراہ براہ راست شامل ہوں گے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ بگڑتی ہوئی معیشت کو بہتر بنانے کےلیے حکومت ترقیاتی کونسل پر اکتفا کرے گی یا اپوزیشن کی میثاق معیشت کی پیشکش کو بھی سنجیدہ لیا جائے گا۔
دوسرا اہم نکتہ اس کونسل کے ذریعے فوج کو پالیسی سازی کا حصہ بنائے جانے سے معیشت مظبوط ہوگی یا فوج کی حیثیت مزید مضبوط ہوجائے گی۔ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما حسن اقبال نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ''کیا قومی ترقیاتی کونسل قومی معاشی کونسل کی جگہ لے گا، جو کہ ایک آئینی فورم ہے؟ کیا فوج باضابطہ طور پر معاشی انتظام سنبھالنے کا کریڈٹ یا الزام خود پر لے گی؟ ایک شہری ہونے کے ناتے ان کے کچھ خدشات ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت فوج کو تنازعات میں دھکیل رہی ہے۔''
ایسے خدشات کا اظہار بلاول بھٹو ایوان میں اور مریم نواز ایوان کے باہر کرچکے ہیں۔ ماضی میں اس سے پہلے میاں محمد نواز شریف اپنے دوسرے دور میں ملک کی کمزور معیشت کے پیش نظر فوج کو براہ راست کاروبار کرنے کی اجازت دے چکے ہیں۔ آج پاکستان کی فوج دنیا کی وہ واحد فوج ہے جو سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ منظم کاروبار بھی کررہی ہے، عسکری سیمنٹ سے عسکری شادی ہال تک اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی سے فوجی کارن فلیکس تک، فوج کی سرپرستی میں پھلتا پھولتا کاروبار ہے۔
بجائے اس کے کہ حکومت ان حساس معاملات پر پارلیمان سے رجوع کرے، یہاں تو معاملہ ہی اور ہے۔ فیصل واوڈا اپوزیشن کو سڑکوں پر گھسیٹنے، ٹرکوں کے پیچھے لٹکانے اور نشان عبرت بنانے کےلیے للکار رہے ہیں۔ چھوٹے وزیر تو وزیر، یہاں تو ملک کے چیف ایگزیکٹیو بھی کمال ہیں۔
وزیراعظم کی زیرصدارت پارلیمانی اجلاس سے خبر آئی کہ اپوزیشن اے پی سی کرے یا سڑکوں پر نکلے، این آر او نہیں ملے گا۔ واللہ اعلم وزیراعظم اپوزیشن کی بجھِی چنگاری میں کیوں آگ بھڑکانا چاہتے ہیں؟ اپوزیشن بس دل بہلانے کو ذرا سی مخالفت کرلیتی ہے، وگرنہ تو ٹھنڈ ماحول ہے۔
حکومت کےلیے میدان بھی صاف ہے اور کنٹینرز اور سڑکوں کی سیاست کے بھی دور دور تک کوئی آثار نہیں ہیں۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں نہ تو مشترکہ احتجاجی تحریک پر متفق نظر آتی ہیں، نہ ڈٹ کر اپوزیشن کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ حال ہی میں بجٹ منظوری کا منظر ہی دیکھئے۔ ایوان سے باہر شور برپا کہ اپوزیشن کسی قیمت پر بجٹ منظور نہیں ہونے دے گی اور بجٹ منظو ہوگیا۔ نہ پنجاب اسمبلی میں کوئی مذمت، جہاں اپوزیشن کی تعداد حکومتی نمائندوں سے زیادہ ہے، نہ قومی اسمبلی میں حکومت کو بجٹ منظوری میں کوئی دشواری پیش آئی۔
اپوزیشن کی اس سادگی اور دریا دلی کے باوجود حکومت اہم قومی معاملات پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کو تیار نہیں۔ گزشتہ دس سال میں لیے گئے قرضوں کی تحقیقات کےلیے بننے والے کمیشن کے خدوخال کابینہ کی منظوری کے بعد میڈیا سے معلوم ہوئے۔ یہی معاملہ قومی ترقیاتی کونسل کی تشکیل اور اس میں شامل ممبران کا ہے۔
یہ کس نے کہا کہ معاشی دہشت گردی کرنے والوں کو آزاد کردیا جائے؟ جیلیں بھرنے کا یہ شوق بھی پورا کیا جائے، مگر کمزور جمہوریت کے کمزور اختیار رکھنے والے وزیراعظم کو قدم پھونک پھونک کر رکھنا لازم ہے، وگرنہ ون مین شو کا یہ تکبر بڑے بڑے شیر نگل گیا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
غیر سیاسی اجزا کو سیاست کی اجزائے ترکیبی میں شامل کرنے کی جو غلطی اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں نے کی، آج اسی غطی کا الزام حکومت وقت پر ہے۔ ادھر وزیراعظم نے قومی ترقیاتی کمیشن کی تشکیل اور چیدہ چیدہ ممبران کا باضابطہ اعلان کیا، ادھر اپوزیشن نے میثاق معیشت کی آواز بلند کی۔
بلاشبہ یہ اچھا شگون ہے کہ جس کا کام، اسی کو ساجھے۔ حکومت شوق سے ملک کے سبھی اداروں کو ایک صفحے پر رکھنے کے جتن کرے، مگر میثاق معیشت کی پیشکش کےلیے یہاں انا کی کشتیاں جلانا ہی سیاسی دانشمندی ہے۔ وزیراعظم نے ملک کی معاشی صورتحال کے تناظر میں قومی ترقیاتی کونسل کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔ 12 رکنی کونسل کی سربراہی وزیرِاعظم عمران خان اور چیدہ چیدہ اراکین میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، چاروں وزرائے اعلیٰ، تجارت، خزانہ، خارجہ کے علاوہ منصوبہ بندی کے وزرا بھی شامل ہوں گے۔
قرضوں کے تحقیقاتی کمیشن کے بعد ترقیاتی کونسل حکومت کا وہ بڑا فیصلہ ہے، جس میں اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اور قومی سلامتی کونسل کے بعد یہ دوسرا ادارہ ہے، جس میں فوج کے سربراہ براہ راست شامل ہوں گے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ بگڑتی ہوئی معیشت کو بہتر بنانے کےلیے حکومت ترقیاتی کونسل پر اکتفا کرے گی یا اپوزیشن کی میثاق معیشت کی پیشکش کو بھی سنجیدہ لیا جائے گا۔
دوسرا اہم نکتہ اس کونسل کے ذریعے فوج کو پالیسی سازی کا حصہ بنائے جانے سے معیشت مظبوط ہوگی یا فوج کی حیثیت مزید مضبوط ہوجائے گی۔ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما حسن اقبال نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ''کیا قومی ترقیاتی کونسل قومی معاشی کونسل کی جگہ لے گا، جو کہ ایک آئینی فورم ہے؟ کیا فوج باضابطہ طور پر معاشی انتظام سنبھالنے کا کریڈٹ یا الزام خود پر لے گی؟ ایک شہری ہونے کے ناتے ان کے کچھ خدشات ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت فوج کو تنازعات میں دھکیل رہی ہے۔''
ایسے خدشات کا اظہار بلاول بھٹو ایوان میں اور مریم نواز ایوان کے باہر کرچکے ہیں۔ ماضی میں اس سے پہلے میاں محمد نواز شریف اپنے دوسرے دور میں ملک کی کمزور معیشت کے پیش نظر فوج کو براہ راست کاروبار کرنے کی اجازت دے چکے ہیں۔ آج پاکستان کی فوج دنیا کی وہ واحد فوج ہے جو سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ منظم کاروبار بھی کررہی ہے، عسکری سیمنٹ سے عسکری شادی ہال تک اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی سے فوجی کارن فلیکس تک، فوج کی سرپرستی میں پھلتا پھولتا کاروبار ہے۔
بجائے اس کے کہ حکومت ان حساس معاملات پر پارلیمان سے رجوع کرے، یہاں تو معاملہ ہی اور ہے۔ فیصل واوڈا اپوزیشن کو سڑکوں پر گھسیٹنے، ٹرکوں کے پیچھے لٹکانے اور نشان عبرت بنانے کےلیے للکار رہے ہیں۔ چھوٹے وزیر تو وزیر، یہاں تو ملک کے چیف ایگزیکٹیو بھی کمال ہیں۔
وزیراعظم کی زیرصدارت پارلیمانی اجلاس سے خبر آئی کہ اپوزیشن اے پی سی کرے یا سڑکوں پر نکلے، این آر او نہیں ملے گا۔ واللہ اعلم وزیراعظم اپوزیشن کی بجھِی چنگاری میں کیوں آگ بھڑکانا چاہتے ہیں؟ اپوزیشن بس دل بہلانے کو ذرا سی مخالفت کرلیتی ہے، وگرنہ تو ٹھنڈ ماحول ہے۔
حکومت کےلیے میدان بھی صاف ہے اور کنٹینرز اور سڑکوں کی سیاست کے بھی دور دور تک کوئی آثار نہیں ہیں۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں نہ تو مشترکہ احتجاجی تحریک پر متفق نظر آتی ہیں، نہ ڈٹ کر اپوزیشن کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ حال ہی میں بجٹ منظوری کا منظر ہی دیکھئے۔ ایوان سے باہر شور برپا کہ اپوزیشن کسی قیمت پر بجٹ منظور نہیں ہونے دے گی اور بجٹ منظو ہوگیا۔ نہ پنجاب اسمبلی میں کوئی مذمت، جہاں اپوزیشن کی تعداد حکومتی نمائندوں سے زیادہ ہے، نہ قومی اسمبلی میں حکومت کو بجٹ منظوری میں کوئی دشواری پیش آئی۔
اپوزیشن کی اس سادگی اور دریا دلی کے باوجود حکومت اہم قومی معاملات پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کو تیار نہیں۔ گزشتہ دس سال میں لیے گئے قرضوں کی تحقیقات کےلیے بننے والے کمیشن کے خدوخال کابینہ کی منظوری کے بعد میڈیا سے معلوم ہوئے۔ یہی معاملہ قومی ترقیاتی کونسل کی تشکیل اور اس میں شامل ممبران کا ہے۔
یہ کس نے کہا کہ معاشی دہشت گردی کرنے والوں کو آزاد کردیا جائے؟ جیلیں بھرنے کا یہ شوق بھی پورا کیا جائے، مگر کمزور جمہوریت کے کمزور اختیار رکھنے والے وزیراعظم کو قدم پھونک پھونک کر رکھنا لازم ہے، وگرنہ ون مین شو کا یہ تکبر بڑے بڑے شیر نگل گیا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔