بلاول کا اصولی موقف

مذہبی اختلافات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے جمہوری نظام کو سخت نقصان ہوا ہے۔

tauceeph@gmail.com

بلاول بھٹو زرداری نے کل جماعتی کانفرنس میں اصولی مؤقف اختیارکیا۔ پارلیمانی نظام کو ڈھانے، طالع آزما قوتوں کے اقتدا کے لیے راستہ ہموار کرنے اور مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ترکیبیں حزب اختلاف کی جماعتوں کی کانفرنس کے اعلامیہ میں جگہ نہیں پاسکیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کی غیر جمہوری پالیسیوں اور بد ترین اقتصادی بد حالی کے خلاف مزاحمت کے لیے حزب اختلاف کے رہنماؤں کی اس کانفرنس نے عوام کو ایک امید کا ایک راستہ دکھایا۔ 8 گھنٹے سے زائد تک جاری رہنے والی کانفرنس کے اعلامیہ میں قومی ترقیاتی کونسل ، قرضہ کمیشن، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قانون سازی، قبائلی علاتوں کے انتخابات میں پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی کی منسوخی اور ججوں کے خلاف ریفرنس جیسے اہم مسائل شامل ہوئے۔

گزشتہ 25جولائی کے دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف احتجاج ایک اہم فیصلہ ہے مگر یہ سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے حصول تک متحد رہیں گی یا کوئی جماعت حکومت سے رعایت حاصل کر کے خاموشی کا ر استہ اختیار کرلے گی۔ ماضی میں بننے والے سیاسی اتحادوں کی تاریخ کی روشنی میں یہ سوال پاکستان کی تاریخ کے ہر طالب علم کے سامنے ہے۔ اس کانفرنس کے اعلامیہ میں قبائلی علاقوں میں آپریشن اورکرپشن کے مسئلے کا ذکر نہ ہونے سے کئی مبصرین کو کانفرنس میں شریک جماعتوں کے عزائم کو مختلف نوعیت کے معنی پہنانے کا موقع ملا۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن گزشتہ سال جولائی میں ہونے والے انتخابات کی غیر شفافیت کی بناء پر موجودہ حکومت کو عوام کی حقیقی نمایندہ حکومت تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔انھوں نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک کو منظم کرنے کے لیے مخالف سیاسی رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی تھی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نا معلوم قوتوں سے ملنے والی مدد کی امید لگائے بیٹھے تھے، یوں آصف زرداری نے سینیٹ کے چیئرمین اور صدارتی انتخابات کے لیے متفقہ امیدوار لانے پر اتفاق نہیں کیا تھا اور اپنی ہر مصیبت کی ذمے داری میاں نواز شریف پر عائد کرتے رہے تھے۔

مگر جب نیب نے آصف زرداری اور ان کے قریبی ساتھیوں کو جیل بھیجنے کا فیصلہ کرلیا تھا تواب پھر بلاول بھٹو زرداری کو اپنی صلاحتیںدکھانے کا موقع ملا۔ بلاول بھٹو نے افطار پارٹی میں مریم نواز، مولانا فضل الرحمن اور حاصل بزنجو وغیرہ کو مدعو کیا۔ پھر وہ ظہرانہ میں شرکت کے لیے جاتی امراء گئے۔ مولانا فضل الرحمن، شہباز شریف اور دیگر رہنماؤں سے بحث و مباحثہ کیا اور مولانا فضل الرحمن کی میزبانی میں ایک ایسی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تحریک انصاف ، جماعت اسلامی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے علاوہ تمام قومی جماعتوں نے شرکت کی۔ کانفرنس سے قبل میثاق معیشت کے حوالے سے مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں میں اختلافات کی خبریں آ رہی تھیں مگر حاصل بزنجو، اسفند یار ولی اور محمود اچکزئی کی کوششوں سے یہ جماعتیں کم سے کم اتفاق رائے کی بناء پر حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک پر متفق ہوگئیں۔ یہ ایک اہم قدم ہے۔

2018کے انتخابات سے پہلے بلوچستان کے اراکین اسمبلی میں اچانک تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے تھے۔ مسلم لیگ ن کے وزیر اعلیٰ ثناء اﷲ زہری کے خلاف ان کے ہم جماعت اراکین نے بغاوت کی اورایک نئی بلوچستان عوامی پارٹی وجود میں آئی۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان اچانک اتفاق رائے ہوا۔ آصف زرداری نے میاں نواز شریف کی رضا ربانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنانے کی تجویز نہ مانی اور صادق سنجرانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ یوں حزب اختلاف کی اکثریت کے باوجود ایک آزاد رکن کی اس اہم عہدے پر کامیابی خاصی مضحکہ خیز تھی۔


سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے مکمل طور پر غیر جانبدار ہونے کا ثبوت دیا، یوں حزب اختلاف اور خاص طور پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹروں میں مقبول ہوگئے مگر کہا جاتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز اس بات پر متفق ہوئے کہ سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی سے وفاقی حکومت کو دھچکا لگے گا اور حزب اختلاف پر عوام کا اعتماد پیدا ہوگا۔ اگرچہ اس مسئلے کو رہبر کمیٹی کے سپرد کیا گیا ہے اور حزب اختلاف نے چیئرمین کے لیے کسی امیدوار کے نام کا اعلان نہیں کیا، اس بناء پر یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ حزب اختلاف کا امیدوار کتنا مؤثر ہوگا اور کیا حزب اختلاف کے سینیٹر اس دفعہ پھر ہارس ٹریڈنگ کا شکار ہوں گے؟ان سوالوں کے جواب جلد سامنے آئیں گے۔

اعلامیہ کا ایک اہم نکتہ قومی ترقیاتی کونسل کے قیام کو مسترد کرنا ہے۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ اس کونسل کے قیام سے منتخب اداروں کی بالادستی کمزور ہو جائے گی ۔ اس کانفرنس کے اعلامیہ میں قومی قرضہ کمیشن کی تجویزکو بھی مسترد کیاگیا ہے۔ یہ کمیشن گزشتہ 10 برسوں کے دوران لیے جانے والے قرضوں کے استعمال کے بارے میں تحقیقات کرے گا۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے رہنما بار بار یہ نکتہ اٹھا رہے ہیں کہ قرضوں کے استعمال کے بارے میں تحقیقات کوکم ازکم پرویز مشرف کے دور سے شروع ہونی چاہیے۔ یہ رہنما یہ دلیل دیتے ہیں کہ خود عمران خان صدر پرویز مشرف کی حکومت کی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے تھے۔

تحریک انصاف نے صدر پرویز مشرف کو صدارت سے ہٹانے کی وکلاء تحریک کی بھرپور حمایت کی تھی۔ پھر اب پرویز مشرف حکومت کے لیے ہمدردیاں کیوں پیدا ہو رہی ہیں؟ بعض رہنما یہ الزام لگاتے ہیں کہ تحریک انصاف نے صدارتی ریفرنڈم میں صدر پرویز مشرف کی حمایت کی تھی۔ تحریک انصاف عوام کے دباؤ کی بناء پر پرویز مشرف کے خلاف وکلاء کی تحریک میں شامل ہوئی۔ تحریک انصاف کی مستقل سو چ وہی ہے جس کی بناء پر صدر مشرف کے صدارتی ریفرنڈم میں حمایت کی تھی۔ اس طرح کانفرنس نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قانون سازی پر زور دیا ہے۔

کانفرنس میں شرکت کرنے والے سیاسی کارکن کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے عمران خان کی نشری تقریر میں اسلامی تاریخ سے متعلق غلط حقائق بیان کرنے کے خلاف مہم کو اس کانفرنس کے ایجنڈا سے علیحدہ کر کے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے۔ ماضی میں بعض مذہبی معاملات کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے عوام کو حکومت کے خلاف ابھارنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

بظاہر یہ آسان راستہ ہے مگر تاریخ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی اختلافات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے جمہوری نظام کو سخت نقصان ہوا ہے اور جنونی مذہبی گروہوں کو تقویت ملی ہے۔ یہ جنونی گروہ ہمیشہ طالع آزما قوتوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، یوں بلاول نے وقتی مفاد کے بجائے مجموعی مفاد کو اہمیت دی ہے۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے بلاول کے اس مؤقف کی تائید کی ہے۔ یہ صحت مند سیاسی ماحول کے قیام کے لیے اہم پیش رفت ہے۔ اعلامیہ میں قبائلی علاقوں کی صورتحال کے بارے میں خاموشی افسوس ناک ہے۔

شہباز شریف کا کانفرنس کے بعد مڈ ٹرم انتخابات کا مطالبہ اور مولانا فضل الرحمن کی حمایت مسلم لیگ کی پالیسی میں تبدیلی کا اظہار ہے مگر فوری تبدیلی کا فائدہ وزیراعظم عمران خان کو ہوگا، حزب اختلاف کو حکومت کی تبدیلی کے بجائے عوام کو متحرک کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
Load Next Story