سب کچھ پلاننگ کے تحت ہورہا ہے

سیاسی اور معاشی افق پر لوگوں پر مایوسی اور نا اُمیدی کے بادل اِس طرح ہرگزچھائے ہوئے نہیں تھے جتنے آج چھائے ہوئے ہیں۔


Dr Mansoor Norani July 03, 2019
[email protected]

تمام اختلافات کے باوجود اِس بات سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ 2017ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیکر اقتدار سے معزول کرنے سے پہلے ہمارے معاشی و اقتصادی حالات اس قدر خراب اور دگر گوں نہیں تھے جتنے آج ہیں۔

سیاسی اور معاشی افق پر لوگوں پر مایوسی اور نا اُمیدی کے بادل اِس طرح ہرگزچھائے ہوئے نہیں تھے جتنے آج چھائے ہوئے ہیں۔ عمران خان کی پر عزم اور ولولہ انگیز شخصیت کے بارے میں جو تاثر قوم کے دلوں اور دماغوں میں زبردستی پیدا کیا تھا وہ رفتہ رفتہ آج اپنی سحر انگیزی اور جادوگری کھوتا جا رہا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ میاں صاحب کے تیسرے عرصہِ اقتدار میں ہمارا ملک تنزلی اور ابتری کے دور سے باہر نکل آیا تھا۔ دس بارہ سال پر محیط دہشتگردی کو ختم کر کے ملک امن وامان سے بہرہ مند ہونے لگا تھا ۔ شہرکراچی بھی پچیس تیس سال بعد بد امنی کی صورتحال سے باہر نکل رہا تھا۔کون نہیں جانتا کہ 2013ء کے انتخابات سے پہلے اِن دونوں حوالوں سے ہمارے لوگ کس قدر حیران و پریشان تھے۔

دہشتگردی کی عالمی جنگ کا حصہ بن کر ہم نے اپنے ہی گھرکو تباہ کردیا تھا ۔ بم دھماکے یا خود کش حملے معمول تھے ۔ خود ہماری افواج کے ہزاروں نوجواں لقمہ اجل بن گئے۔ مشرف اور زرداری کی حکومتیں کوششوں کے باوجود امن قائم نہ کرسکیں۔ یہ اعزاز میاں نواز شریف کو ہی جاتا ہے کہ انھوں نے عزم صمیم کے ساتھ اِس کام کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی افواج کے ساتھ ملکر اِس ناسور کو جڑسے اُٹھا کر پھینک دیا۔

اِسی طرح انھوں نے کراچی شہر جو 1986ء سے آئے دن کے ہنگاموں اور خونیں احتجاجوں کی وجہ سے مکمل تباہ ہوچکا تھا ، رینجرز کے تعاون سے امن کا پیکر بنا دیا ۔ اِن دونوں مصائب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد میاں صاحب نے بجلی گیس اور توانائی کے بحران پر توجہ دی اوراِس سمت میں مثبت اور دور رس فیصلے کیے جن کے ثمرات سے ہمارے لوگ آج مستفید ہورہے ہیں۔

اِس دوران اُس وقت کی اپوزیشن اور خانصاحب کی جانب سے میاں صاحب کی راہ میں روڑے بھی اٹکائے جاتے رہے لیکن وہ ملکی ترقی کے اپنے ارادوں اور عزائم پر مکمل ڈٹے رہے۔126 دنوں کے دھرنوں کی ناکامی کے بعد انھوں نے پڑوسی ملک چائنا کے ساتھ ملکر ملک وقوم کے روشن مستقبل کے لیے سی پیک جیسے عظیم منصوبے کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا اور تیزی سے اُس میں شامل تمام منصوبوں کی بنیاد رکھی۔ سارے ملک میں سڑکوں ، شاہراہوں اور موٹرویزکی تعمیر اور انفرا اسٹرکچر کے نئے نئے جال بچھائے جانے لگے۔ نتیجتاً قوم مایوسیوں اور نا اُمیدیوں کے اندھیروں سے باہر نکل کر ایک روشن اور خوشحال مستقبل کی جانب بڑھنے لگی ۔ دنیا کے تمام مالیاتی ادارے وطن عزیز سے متعلق اچھی اور مثبت خبریں دینے لگے۔ ہماری اسٹاک مارکیٹ ایک تیزی سے ابھرتی ہوئی مارکیٹ کا درجہ حاصل کرنے لگی ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آئی ایم ایف کو بھی خدا حافظ کہہ دیا گیا۔

ملک کو تیزی سے آگے جاتا دیکھ کر وہ عالمی قوتیں جو پاکستان کوکبھی خوشحال اور خود مختار ہوتا نہیں دیکھ سکتیں حرکت میں آگئیں ۔اُن کے لیے سب سے تشویشناک چیز پاک چائنا کو ریڈور منصوبہ تھا ، جسے ہر حال میں وہ سبوتاژ کرنا چاہتے تھے۔ لہذا وہ اِسے روکنے کے لیے سازشیں کرنے لگے۔ ایسے میں اچانک پاناما اسکینڈل آگیا اور سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ وہ وزیراعظم جس کے کاموں اور کارناموں کو دیکھ کر لوگ پیشگوئیاں کرنے لگے تھے کہ 2018ء کا الیکشن بھی مسلم لیگ نون جیت جائے گی ۔ پاناما اسکینڈل کی تحت ایک کیس میں اعلیٰ عدالتوں سے نا اہل قرار دلوا کر ناصرف معزول کردیا گیا بلکہ دس سالوں کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی ڈال دیا گیا۔

یہیں سے پاکستان غیر مستحکم ہونے لگا اور زوال و پستی کی ایک نئی تاریخ لکھی جانے لگی۔ کہنے کو مسلم لیگ نون ہی کی حکومت کو رہنے دیا گیا لیکن اُس کے سپہ سالار کو بدل کر کامیابی اورکامرانی کے تمام دروازے بند کر دیے گئے۔ قیادت کے بدل جانے سے جو نقصان ہوا کرتا ہے وہ آج ہمارے سب کے سامنے ہے۔ میاں نواز شریف کے بعد گرچہ شاہد خاقان عباسی نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھال لیا لیکن انھیں بھی چین سے حکومت کرنے موقعہ نہیں دیا گیا۔ جھوٹے سچے مقدمات کا سایہ اُن کے سر پر بھی مسلط رہا۔ اِس دوران وہ تمام راہیں ہموارکی جاتی رہیں جوحکومت کرنے کے تجربوں اور اہلیتوں سے نابلد شخص کو وزیر اعظم بنانے پر منتج ہوتی رہیں۔

اِن تمام کارروائیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہمارا ملک معاشی اور اقتصادی طور پر اتنا کمزور اور لاغر ہوگیا کہ ہمیں اگلے چند ماہ کا بھی پتہ نہیں کہ ہم کس حال میں ہونگے، جو پیسہ دوست ممالک سے امداد یا قرضوں کی صورت میں لیا گیا وہ کہاں خرچ ہو رہا ہے کسی کو پتہ نہیں۔ آئی ایم ایف جس کی ہشت پالی گرفت سے ہم 2017ء میں آزاد ہوچکے تھے ایک بار پھرسختی کے ساتھ جکڑ دیے گئے ہیں ۔ ملکی کرنسی کو اتنا ڈس کریڈٹ کردیا گیا ہے کہ ہم اپنے پڑوس کے قریبی ممالک کے لوگوں سے بھی نظریں ملا کر بات نہیں کرسکتے۔ ملک بھر میں تمام ترقیاتی کام روک دیے گئے ہیں ۔ سی پیک سے بھی ایسی ہی خبریں آ رہی ہیں۔ بجلی اورگیس کی قیمتیں دگنی اور تگنی کی جا رہی ہیں۔ عوام پر مہنگائی اورگرانی کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ تمام بزنس اورکاروبار منجمد ہوتا جا رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ ایک پلاننگ کے تحت کیا جا رہا ہے۔ایک اچھی بھلی چلتی حکومت کو چلتا کرکے وطن عزیز کا جو حال اِن دوسال میں کردیا گیا ہے اُس کی مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔ عالمی طاقتوں کو ایک ترقی یافتہ پاکستان کبھی قبول اورمنظور نہیں ہوگا۔ اُسے ایسا ہی کمزور ، لاغر اور محتاج پاکستان مطلوب ہے۔ بدقسمتی سے جب جب ہمارے حالات کچھ بہتری کاعندیہ دینے لگتے ہیں ایسی ہی کوئی گھناؤنی سازش کر دی جاتی ہے اور ہم دھڑام سے دس بیس سال پیچھے دھکیل دیے جاتے ہیں۔

کہنے کو ہم ایک ایٹمی ریاست بنے ہوئے ہیں اور حال یہ ہے کہ پیسے پیسے کو ترس رہے ہیں۔ ہمارا وزیراعظم جوکبھی قرضے اور ادھار لینے کو اپنی ذلت سمجھا کرتا تھا آج دونوں ہاتھوں سے یہ قرضے بھی سمیٹ رہا ہے اور بڑے فخر سے اپنی قوم کو اپنے یہ کارنامے بھی گنوا رہا ہے۔ بھارت جو ہمارا ازلی دشمن سمجھا جاتا ہے اُس سے نہ صرف مذاکرات کے لیے منت وسماجت کر رہا ہے بلکہ سلامتی کونسل میں اُس کی مستقل نشست کے لیے حیران کن طور پر ووٹ دینے کا بھی وعدہ کر رہا ہے۔یہی کام اگر سابق وزیراعظم کرتا تووہ مودی کا یار اور غدار کہلاتا لیکن خان صاحب کے لیے آج سب کچھ حلال اورجائز بن چکا ہے۔

ملک کی معاشی صورتحال اتنی گمبھیر ہوچکی ہے کہ حکمرانوں کوکچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ وہ کبھی سمندر سے تیل اور گیس کے اُمید کے سہارے چند ماہ گزار لیتے ہیں اورکبھی دوست ممالک سے امداد لے کر دیوالیہ ہونے سے بچ جاتے ہیں۔لیکن انھیں بھی نہیں معلوم کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ ایمنسٹی اسکیم اور ڈیم ٖفنڈ میں جمع ہونے والی رقم بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ چوروں ، لٹیروں اور ڈاکوؤں سے بھی وہ اب تک ایک ڈھیلا بھی حاصل نہیں کرسکے۔ لہذا سارا زور عوام کو نچوڑنے پر لگا ہوا ہے۔

پچھلے دس ماہ یہ کہہ کر گزار لیے کہ سابقہ حکومت نے مالیاتی خسارہ اتنا کردیا تھا کہ ہم قرضوں کے علاوہ کچھ کرنہیں سکتے تھے۔ اب عوام کو یہ کہہ کر دھمکایا جا رہا ہے کہ ٹیکس نہیں دوگے تو قرضے ادا نہیں ہونگے۔ قوم کو اگر پہلے خبر ہوجاتی کہ آپ نے یہی سب کچھ کرنا ہے تو شاید وہ آپ کی باتوں میں نہیں آتے۔ وہ اب یہ کہنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں کہ آپ سے اچھے تو پچھلے حکمراں ہی تھے جنہوں نے آپ کے بقول مصنوعی طور پر نہ صرف ڈالر کو قابو میں کر رکھا تھا بلکہ گیس اور بجلی کے ریٹس بھی کم کر رکھے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔