وزیر اعلیٰ نے چیئرمین سینٹ کو بچانے کیلئے رابطے بڑھا دیئے

چیئرمین سینٹ آئینی عہدہ ہے اور اس کی مدت 5 سال ہے مدت پوری ہونے کے بعد حزب اقتدار اور حزب اختلاف اپنا فیصلہ کریں۔

چیئرمین سینٹ آئینی عہدہ ہے اور اس کی مدت 5 سال ہے مدت پوری ہونے کے بعد حزب اقتدار اور حزب اختلاف اپنا فیصلہ کریں۔ فوٹو: فائل

آل پارٹیز کانفرنس(اے پی سی) کے فیصلے کے تحت چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی جن کا تعلق بلوچستان سے ہے اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان سے گرمی کے موسم میں سیاسی ماحول میں بھی شدید گرمی پیدا ہوگئی ہے۔

چیئرمین سینٹ میر صادق سنجرانی بلوچستان کی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے نامزد کردہ ہیں جنہیں تحریک انصاف اور پی پی پی کی سپورٹ سے اس عہدے پر کامیابی حاصل ہوئی تھی آج پی پی پی اپوزیشن جماعت ہونے کے ناطے اے پی سی کے فیصلے کی حمایت کر رہی ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال بھی اس حوالے سے سیاسی میدان میں کود پڑے ہیں اور اُنہوں نے اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو روکنے کیلئے اپنی ٹیم کے ہمراہ اسلام آباد میں پڑاؤ ڈال دیا ہے اور مختلف سیاسی رہنماؤں سے رابطوں کا آغاز کرتے ہوئے اُنہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر موجودہ چیئرمین سینٹ کو اس طرح سے ہٹایا گیا تو بلوچستان کے لوگ اس فیصلے کو مثبت انداز میں نہیں دیکھیں گے۔ بلوچستان کی نمائندگی کو مذاق بنا کر اس کے ساتھ نہ کھیلا جائے۔

چیئرمین سینٹ آئینی عہدہ ہے اور اس کی مدت 5 سال ہے مدت پوری ہونے کے بعد حزب اقتدار اور حزب اختلاف اپنا فیصلہ کریں۔ اُن کا یہ بھی موقف ہے کہ جب چیئرمین سینٹ کیلئے صادق سنجرانی کا نام لیا جارہا تھا تو اُس وقت تمام سیاسی جماعتوں نے بڑے بحث و مباحثہ کے بعد بلوچستان کے مسائل اور احساس محرومی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا اب اگر اپوزیشن جماعتوں نے کوئی غلط فیصلہ کیا تو بلوچستان میں اس کا منفی تاثر جائے گا لہٰذا اپوزیشن کو سیاست سے زیادہ بڑھ کر اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

وزیراعلیٰ جام کمال نے اپنی جماعت کے دو اہم سابق وزراء اعلیٰ جن میں میر جان محمد جمالی اور سردار صالح محمد بھوتانی شامل تھے کو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین و رکن قومی اسمبلی آصف علی زرداری کے پاس بھی بھیجا اس ملاقات کے حوالے سے کوئی بڑا بریک تھرو تو نہیں ہوا تاہم پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے باپ پارٹی کے رہنماؤں کو یہ تسلی ضرور دی کہ اس معاملے پر فیصلہ رہبر کمیٹی کرے گی۔ واضح رہے کہ اس ملاقات سے قبل چیئرمین سینٹ میر صادق سنجرانی بھی سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کر چکے ہیں۔

صادق سنجرانی کے آصف علی زرداری سے اچھے تعلقات رہے ہیں اور انہیں پی پی پی کے دور اقتدار میں بلوچستان کے معاملات کو دیکھنے کیلئے باقاعدہ پریزیڈنٹ ہاؤس اسلام آباد میں بٹھایا گیا تھا اور چیئرمین سینٹ کیلئے جب اُن کا نام لیا گیا تو اس وقت پی پی پی اُن کی حمایت میں پیش پیش تھی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور اُن کی ٹیم کی یہ کوشش ہے کہ چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ لانے دی جائے اس لئے اُن کا زیادہ زور پی پی پی کی طرف ہے کیونکہ اگر وہ اس معاملہ سے پی پی پی کو مائنس کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر یہ تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جا سکے گی۔ ان سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اپوزیشن جماعتوں کیلئے ایک ''سافٹ ٹارگٹ'' ہیں اور اس کمزور مورچے سے فتح یاب ہو کر اپوزیشن جماعتیں اپنے اصل ہدف پر جانا چاہتی ہیں ۔


سیاسی حلقوں کے مطابق اس سے قبل یہ باتیں بھی سننے میں آئی ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں نے آئندہ سینٹ کی چیئرمین شپ پہلے سردار اختر مینگل کی پارٹی کو دینے کیلئے مشاورت کی تاہم وفاقی بجٹ2019-20ء کی منظوری سے قبل بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کی وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات اور پھر اُن کے6 نکاتی معاہدے پر عملدرآمد کرنے کی حکومتی یقین دہانی اور بجٹ کی منظوری میں بھرپور ساتھ دینے کے فیصلے اور اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے یہ آئینی عہدہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعتوں نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی میں سے کسی ایک کو دینے پر غور و خوص شروع کردیا ہے جس کیلئے نیشنل پارٹی کے میر حاصل بزنجو اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ کے نام لئے جا رہے ہیں تاہم اس حوالے سے ابھی کسی نام پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔

بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس آئینی عہدے کیلئے نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر حاصل خان بزنجو فیورٹ قرار دیئے جا رہے ہیں ۔نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر حاصل بزنجونے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کیلئے متحد ہوگئی ہیں تاہم نئے چیئرمین سینٹ کیلئے کسی نام پر اتفاق نہیں ہوا، اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُنہوں نے چیئرمین سینٹ کیلئے کوئی لابنگ نہیں کی اور نہ ہی کسی نے اُن سے نیا چیئرمین سینٹ نامزد کرنے کیلئے کوئی مشاورت کی ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بی این پی مینگل نیشنل پارٹی کے ساتھ سیاسی مخاصمت کے باعث سپورٹ نہیں کرے گی جبکہ دو روز قبل سردار اختر جان مینگل نے اپنے ایک انٹرویو میں بلوچستان کی حکومت پر بھی سیاسی میزائل داغتے ہوئے کہا ہے کہ لوہا گرم ہے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی تبدیلی کیلئے جب بھی موقع ملا ہتھوڑا ماردیں گے۔ اپوزیشن کو اس حوالے سے بعض آزاد ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کی اپوزیشن جماعتیں اس بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کا کافی عرصے سے بغور جائزہ لے رہی ہیں۔ سردار اختر مینگل مولانا فضل الرحمان کی جانب سے بلائی گئی اے پی سی سے قبل آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں کرچکے ہیں جبکہ بلوچستان اسمبلی میں آزاد رکن نواب اسلم رئیسانی بھی گذشتہ دنوں اسلام آباد میں انتہائی سرگرم رہے اور اُنہوں نے مولانا فضل الرحمان، سردار اختر جان مینگل سمیت دیگر رہنماؤں سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں۔ سردار اختر مینگل اور نواب اسلم رئیسانی کی مولانا فضل الرحمان سے الگ الگ ملاقاتوں کو سیاسی حلقے اُس وقت بہت اہمیت دے رہے تھے اور اب اس موقع پر جب چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی باتیں ہو رہی ہیں۔

سردار اختر مینگل کا جام حکومت کے خلاف تگڑا بیان آنا اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں میں اندرون خانہ بلوچستان میں بھی تبدیلی کیلئے سوچ و بچار سنجیدگی سے ہو رہا ہے کیونکہ بلوچستان اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام (ف) اور بی این پی مینگل بڑی اتحادی جماعتیں ہیں اور انہیں (ن) لیگ، پشتونخواملی عوامی پارٹی جن کا ایک ایک رکن ہے سمیت آزاد رکن نواب اسلم رئیسانی کی حمایت حاصل ہے ۔

تاہم بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اپوزیشن کو ابھی تک نمبر آف گیم میں وہ سبقت حاصل نہیں جو اسے جام حکومت گرانے کیلئے درکار ہے ۔ان سیاسی مبصرین کے مطابق چیئرمین سینٹ کے بعد بلوچستان میں بھی تبدیلی کے حوالے سے ''سیاسی کھیل'' کا آغاز ہو سکتا ہے جس کی باز گشت آہستہ آہستہ سنائی دے رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سیاسی شطرنج میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ و وزیراعلیٰ جام کمال کس طرح سے اپنی ''چالیں''چلتے ہیں اور گیم کا پانسہ پلٹتے ہیں کیونکہ شطرنج کے اس سیاسی کھیل میں اُنہیں اور اُن کی جماعت کو دونوں اطرف سے''شہہ'' مل رہی ہے اس کھیل میں اُن کی جماعت کا بادشاہ اور وزیر دونوں ہی خطرے میں لگتے ہیں بادشاہ کو بچاتے ہیں تو وزیر مارا جاتا ہے اور وزیر کو بچاتے ہیں تو بادشاہ مارا جائے گا۔

اگلی چال اِنہیں بڑے غور و خوض اور سمجھداری سے چلنا ہوگی کیونکہ اُن کے مدمقابل گرو کھلاڑی ہیں جو سیاسی مات دینے میں شہرت رکھتے ہیں؟۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپنی سیاسی بصیرت سے جام کمال اور ان کی ٹیم جس میں بعض سیاسی گرو بھی شامل ہیں جن کا تذکرہ اوپر کیا جا چکا ہے کس طرح سے اپنے بادشاہ اور وزیر کو بچانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ تاہم سیاسی مخالفین کی کوئی بھی سیاسی چال ان کے بادشاہ یا وزیر میں سے کسی ایک کو مات دے سکتی ہے۔
Load Next Story