خیبرپختونخوا میں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ
سب سے زیادہ تعلیمی اداروں میں خواتین ہراسانی کا شکار ہورہی ہیں
خیبرپختونخوا میں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا اور رواں سال کے چار ماہ میں صوبائی محتسب کو 31 خواتین نے ہراساں کئے جانے کی شکایات جمع کرادیں۔
سب سے زیادہ تعلیمی اداروں میں خواتین ہراسانی کا شکار ہورہی ہیں جبکہ دوسروں کو تحفظ دینے والے محکمہ پولیس میں بھی خواتین ہراساں کئے جانے سے محفوظ نہیں۔ محکمہ صحت اور گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو بھی ہراساں کئے جانے کا سامنا ہے۔
یکم فروری سے اب تک صوبائی محتسب کو موصول شکایات میں سائبر کرائم، پبلک مقامات پر ہراساں کئے جانے کے کیسز بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مختلف تعلیمی اداروں سے اب تک 8 خواتین نے ہراسانی کی شکایات جمع کرائی ہیں۔ ان میں یونیورسٹی آف ہری پور سے ایک، ڈائریکٹوریٹ آف ایلمینٹری و سکینڈری ایجوکیشن خیبر پختونخوا سے دو، یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نوشہرہ سے ایک، ورکرز ویلفئیر بورڈ اسکولز سے دو، پرائیویٹ ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنز سے دو، محکمہ صحت سے 5، محکمہ پولیس 3، پبلک مقامات 3، مائنز اینڈ منرل کی ایک شکایت شامل ہے۔
صوبائی محتسب رخشندہ ناز کے مطابق بعض کیسز پر باضابطہ کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ خواتین کو انٹرنیٹ، موبائل پیغامات اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ہراساں کیا جارہا ہے۔ صوبائی محتسب رخشندہ ناز کا کہنا ہے کہ خواتین کو جسمانی و گھریلو تشدد و بلاجواز نوکری سے فارغ کئے جانے کے کیسز کی شکایات بھی سنی جاسکتی ہیں۔
سرکاری و نجی اداروں میں ضابطہ اخلاق کو نمایاں جگہ پر آویزاں کرنا اور ہراسانی شکایت کی انکوائری کمیٹیوں کو فعال کرنا ضروری قرار دے دیا گیا ہے جس کی خلاف ورزی کی صورت میں ایک لاکھ روپے تک جرمانہ بھی کیا جائے گا۔
سب سے زیادہ تعلیمی اداروں میں خواتین ہراسانی کا شکار ہورہی ہیں جبکہ دوسروں کو تحفظ دینے والے محکمہ پولیس میں بھی خواتین ہراساں کئے جانے سے محفوظ نہیں۔ محکمہ صحت اور گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو بھی ہراساں کئے جانے کا سامنا ہے۔
یکم فروری سے اب تک صوبائی محتسب کو موصول شکایات میں سائبر کرائم، پبلک مقامات پر ہراساں کئے جانے کے کیسز بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مختلف تعلیمی اداروں سے اب تک 8 خواتین نے ہراسانی کی شکایات جمع کرائی ہیں۔ ان میں یونیورسٹی آف ہری پور سے ایک، ڈائریکٹوریٹ آف ایلمینٹری و سکینڈری ایجوکیشن خیبر پختونخوا سے دو، یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نوشہرہ سے ایک، ورکرز ویلفئیر بورڈ اسکولز سے دو، پرائیویٹ ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنز سے دو، محکمہ صحت سے 5، محکمہ پولیس 3، پبلک مقامات 3، مائنز اینڈ منرل کی ایک شکایت شامل ہے۔
صوبائی محتسب رخشندہ ناز کے مطابق بعض کیسز پر باضابطہ کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ خواتین کو انٹرنیٹ، موبائل پیغامات اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ہراساں کیا جارہا ہے۔ صوبائی محتسب رخشندہ ناز کا کہنا ہے کہ خواتین کو جسمانی و گھریلو تشدد و بلاجواز نوکری سے فارغ کئے جانے کے کیسز کی شکایات بھی سنی جاسکتی ہیں۔
سرکاری و نجی اداروں میں ضابطہ اخلاق کو نمایاں جگہ پر آویزاں کرنا اور ہراسانی شکایت کی انکوائری کمیٹیوں کو فعال کرنا ضروری قرار دے دیا گیا ہے جس کی خلاف ورزی کی صورت میں ایک لاکھ روپے تک جرمانہ بھی کیا جائے گا۔