بھارت میں ہندو مسلم فسادات

پر تشدد واقعات کا آغاز ضلع مظفر نگر کے گاؤں کاوال سے ہوا۔

پنچایت میں جذباتی اور غیر ذمے دارانہ باتیں ہوئیں جس کے باعث لوگ مشتعل ہو گئے اور جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ شروع ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

بھارت کی ریاست اترپردیش کے ضلع مظفرنگرمیںہندومسلم فسادات میںکم ازکم27 افراد مارے گئے ہیں۔ہلاک ہونے والوں میں ایک مقامی صحافی اور پولیس کا فوٹو گرافر بھی شامل ہے۔ مرنے والوں میں زیادہ مسلمان ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق متعدد علاقوںمیں مسلمانوں کی املاک کو نذر آتش کر دیا گیا۔ پورے ضلع میں حالات خاصے کشیدہ بتائے جا رہے ہیں۔ پورے شہر میں غیرمعینہ کرفیو نافذ کردیاگیاہے اور حفاظتی ذمے داریاں فوج نے سنبھال لی تھی۔

اطلاعات کے مطابق فوجی دستوں نے اتوار کی صبح شہرمیں فلیگ مارچ بھی کیا۔ یہ فسادات کیوں شروع ہوئے اس کے بارے میں میڈیا کی اطلاعات یہ ہیں کہ ایک ہوٹل میں جھگڑے کے دوران تین نوجوانوں کے قتل کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ 27 اگست کو ایک خاتون کو چھیڑنے سے منع کرنے پر جھگڑا ہوا جس میں تین نوجوان قتل ہو گئے۔ فریقین میں کشیدگی ختم کرانے کے لیے ہفتے کو پنچایت کا انعقاد کیا گیا۔ اس پنچایت میں جذباتی اور غیر ذمے دارانہ باتیں ہوئیں جس کے باعث لوگ مشتعل ہو گئے اور جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ شروع ہوا۔


مقامی پولیس نے اس موقف کی تائید کی۔ پر تشدد واقعات کا آغاز ضلع مظفر نگر کے گاؤں کاوال سے ہوا۔ جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے ضلع کے دیگر علاقے بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے اور مسلمانوں پر حملے اور ان کی املاک کو جلانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بھارت میں ہندو مسلم فساد نئی بات نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھارت کے اکثر شہروں میں ایسے فسادات ہوئے ہیں جن میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ فسادات میں ہمیشہ مسلمانوں کا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ بھارت کی ریاست گجرات میں بھی گودھرا ٹرین حادثے کے نتیجے میں مسلمانوں کا حملوں کا آغاز ہوا۔ المیہ یہ تھا کہ اس وقت ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے فسادیوں کو مکمل سپورٹ فراہم کی۔

اس وجہ سے مسلمانوں کا بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ بعد میں تحقیقات کے نتیجے میں گودھرا ٹرین حادثے میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں پر حملوں کے ذمے داروں کو سزائیں نہیں دی گئیں۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بھارت میں فسادات کے دوران انتظامیہ ہندوؤں کی حمایت کرتی ہے۔ اب مظفر نگر میں جو واقعہ ہوا ہے' اس سے فسادات مزید پھیلنے کا خطرہ ہے۔ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنا سیکولر تشخص برقرار رکھے اور فسادیوں کو کھل کھیلنے سے روکے۔

مظفر نگر میں فسادات کی اصل وجہ کیا ہے اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ میڈیا میں مختلف نوعیت کی اطلاعات موجود ہیں تاہم ایک بات ثابت ہے مظفر نگر ضلع کے مختلف علاقوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی موجود ہے۔ اب تک 27 آدمی مارے جا چکے ہیں۔ اشتعال انگیزی مزید بڑھی تو فسادات پھیلنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی بھاری تعداد آباد ہے۔ بھارتی حکومت کو ضلع مظفر نگر میں کشیدگی ختم کرانے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ فسادات میں ملوث بلوائیوں کو گرفتار کر کے قانون کے مطابق سزا دی جائے تاکہ اس شہر میں امن قائم ہو سکے۔
Load Next Story