کراچی میں وزیراعظم کی کاوشیں

کراچی میں جن بد ترین جرائم کا ارتکاب کیا جارہا ہے ان میں سب سے سنگین ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی ہے۔


Zaheer Akhter Bedari September 09, 2013
[email protected]

ISLAMABAD: محترم وزیراعظم نے اپنے دو قیمتی دن کراچی کو دے کر کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے جو اقدامات کیے جو منصوبہ بندی کی اس میں ان کے خلوص پر تو شک نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ اندازہ ضرور ہوتاہے کہ محترم وزیراعظم اور ان کے مشیر یا تو کراچی کے انتہائی پیچیدہ بلکہ گمبھیر مسائل سے واقف نہیں یا پھر انھوں نے اسے وہ اہمیت نہیں دی جو دی جانی چاہیے تھی۔ رینجرز آپریشن کا جو نسخہ تجویز کیا گیا ہے یہ نسخہ کئی برسوں سے آزمایا جارہاہے۔ اسی میں جو نئی بات شامل کی گئی ہے وہ ہے رینجرز کو تفتیش اور عدالت تک مجرموں کو پہنچانے کا اختیار۔

یہ اختیار اس لیے دیا گیا ہے کہ رینجرز جن مجرموں کو پکڑ کر تفتیش کے لیے پولیس کے حوالے کرتی ہے پولیس ''بوجہ'' وہ ذمے داریاں پوری نہیں کرتی جس کی وجہ سے مجرم یا تو ضمانتیں کرالینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں یا ثبوت اور گواہ کے نہ ہونے سے بری کردیے جاتے ہیں۔ اسی خرابی یا کمزوری کو دور کرنے کے لیے رینجرز کو بڑی حد تک با اختیار بنایا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے اس با اختیاری سے کراچی کے مختلف النوع مجرموں کو رینجرز سزائیں دلانے میں کسی حد تک کامیاب ہو لیکن کراچی میں ہونے والے مختلف النوع جرائم، ان کے مقاصد اور ان میں ملوث مجرموں کی شہریت سے پوری واقفیت کے بغیر آپریشن اندھے کی لاٹھی کا کام ہی انجام دے سکتاہے۔

کراچی میں جن بد ترین جرائم کا ارتکاب کیا جارہا ہے ان میں سب سے سنگین ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی ہے، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کا ارتکاب نہ تفریحاً ہورہا ہے نہ ان خطرناک جرائم کا ارتکاب للو پنجو قسم کے مجرم کررہے ہیں، سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی جرم نہیں بلکہ ریاست اور تمام ریاستی اداروں کے خلاف منظم اور منصوبہ بند بغاوت ہے۔

جس کا مقصد اقتدار پر قبضہ کرکے ملک میں اپنی پسند کا نظام قائم کرنا ہے جو طاقتیں یہ خطرناک سازش کررہی ہیں ان کی کراچی میں بڑے پیمانے پر موجودگی کا اعتراف حکومت بھی کررہی ہے، سیاست دان بھی اور مذہبی جماعتیں بھی۔دوسرے بڑے جرائم میں بینکوں اور صرافوں کی دکانوں کو لوٹنا، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری شامل ہے۔ ان جرائم میں اگرچہ مختلف جرائم پیشہ گروہ بھی ملوث ہیں لیکن ان جرائم کا ارتکاب وہ گروہ بھی کررہے ہیں جو ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی میں ملوث ہیں جس کا مقصد اپنی مالیاتی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے۔

ان گروہوں کی یہ خطرناک سرگرمیاں کراچی تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ خیبر پختونخوا سے بلوچستان تک پھیلا ہوا ہے' ان کا ہدف صرف بے گناہ انسان ہی نہیں بلکہ سیکیورٹی فورسز ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ منظم اور انتہائی منصوبہ بند بغاوت ہے تو کیا اسے اس رینجرز کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے جو برسوں سے انھیں ختم کرنے کی کوششوں میں ناکام رہی ہے۔

اس بغاوت کے بعد بھی بار بار ان طاقتوں کو مذاکرات کی دعوت دینا اور مذاکرات کی کامیابی پر یقین کرنا کیا اس حقیقت کی نشان دہی نہیں کہ ہم اس منظم منصوبہ بند بغاوت کو بھی اسٹریٹ کرائم ہی سمجھ رہے ہیں ۔ کیا اس فکری کجروی کو نااہلی کہا جائے' عقل ودانش کا دیوالیہ پن کہاجائے ان طاقتوں کے نظریات سے ہم آہنگی سمجھا جائے گا یا ڈر اور خوف کی انتہا کا نام دیاجائے؟ وجہ کچھ بھی ہو اس خطرناک عفریت سے نمٹنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا جارہا ہے وہ ایک مذاق یا دیوانہ پن ہی لگتاہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برسوں پہلے بعض حلقوں کی طرف سے اس بات کی نشان دہی کی گئی تھی کہ کراچی میں دہشت گرد تیزی سے جمع ہورہے ہیں تو اس انکشاف کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کے بجائے مذاق اڑایاگیا۔ بعض اعلیٰ ظرف حکام کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ''کراچی سب کا ہے اور یہاں رہنے کا حق سب کو ہے'' یہ فلسفہ کسی بے عقلی کا نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے سیاسی مفادات تھے، اس فلسفے کا فائدہ سب سے زیادہ جرائم پیشہ گروہوں نے اٹھایا اور کراچی کے جرائم پیشہ گروہ بھی ان میں شامل ہوگئے اور بھتے اور اغوا برائے تاوان کا وہ کلچر عام ہوا جس کی زد میں آج چھوٹے چھوٹے کاروباری، ڈاکٹرز، انجینئرز اور مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے بھی آگئے ہیں۔

ہر طرف ایک خوف ودہشت کی فضا قائم ہے، کراچی کا کوئی شہری اپنے آپ کو نہ گھر کے اندر محفوظ سمجھتا ہے نہ گھر کے باہر حتیٰ کہ قانون نافذ کرنے والے بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والوں کے لواحقین کی گریہ و زاری، گلی گلی سے جنازوں کے جلوس، دھرنے، احتجاج، خوف و ہراس یہ وہ منظر نامہ ہے جو عروس البلاد کا مقدر بن گیاہے۔ اس انارکی کا سدباب کرنے سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان مختلف النوع خطرناک جرائم کا ارتکاب کرنے والوں میں سے کتنے فیصد کا تعلق کراچی سے ہے اور کتنے فیصد کا تعلق دوسرے علاقوں سے ہے۔ کہاجا تاہے کہ دوسرے ملکوں سے کراچی میں آنے اور یہاں کے باضابطہ شہری بننے والوں کی تعداد 20لاکھ سے زیادہ ہے۔ روزگار کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا ہر ملک کی روایت ہے لیکن اگر روزگار کے بجائے جرائم مقصد ہو تو ایسے تارکین وطن کو رکھنا وطن دشمنی ہی ہوسکتی ہے۔

ہمارے قانون نافذ کرنے وال اداروں اور ایجنسیوں کو یہ شکایت ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے مسلح ونگ ہیں جو جرائم میں ملوث ہیں۔ یہ شکایت غلط نہیں لیکن اس کا ازالہ اندھی پکڑ دھکڑ سے ممکن نہیں، اس کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات کی اور انھیں اس بات پر قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلح ونگ نہ سیاسی پارٹیوں کے مفاد میں ہیں نہ ملک وقوم کے۔ سیاسی پارٹیوں کو رضا کارنہ طورپر اپنے اپنے مسلح ونگ کو ختم کرنا چاہیے۔ اس کے لیے عام معافی تک بھی جایا جاسکتا ہے۔ اگر اس کے باوجود کوئی پارٹی اپنے مسلح ونگ ختم نہیں کرتی تو پھر اسے غیر قانونی قرار دیا جانا چاہیے۔ پولیس یا رینجرز جب کوئی آپریشن شروع کرتی ہے تو گناہ گاروں سے زیادہ بے گناہ لوگ اس کی زد میں آتے ہیں اور سارے شہر میں خوف و ہراس اور بے چینی پھیل جاتی ہے۔ پکڑ دھکڑ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔

کراچی کی بد ترین صورت حال کو قابو کرنے کے لیے متحدہ کی طرف سے کراچی میں فوج بلانے کا مطالبہ کیاگیا۔ فوج بلانے کا یہ پہلا مطالبہ نہیں اس سے پہلے اے این پی اور بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے فوج بلانے کا مطالبہ بار بار کیا جاتارہا لیکن کسی نے اسے اہمیت نہیں دی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متحدہ کی طرف سے کیے جانے والے اس مطالبے کو اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنایا جارہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے سیاست دان جو دودھ کے جلے ہیں وہ چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں۔ موجودہ مایوس کن حالات میں فوج کی طرف دیکھنا ایک فطری بات ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ کراچی جیسے وسیع و عریض شہر میں فوج کو لاکھڑا کرنا کئی سنجیدہ مسائل کا باعث بن سکتاہے۔

اس مسئلے کے حل کے لیے سب سے پہلی ضرورت مجرموں کا تیزی سے ٹرائل اور سخت ترین سزاؤں کا نظام ہے، خواہ اس کے لیے قانون سازی کرکے سر سری سماعت کی عدالتیں کیوں نہ قائم کرنی پڑیں۔ اس حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں میں بڑے پیمانے پر اضافہ اور انھیں فعال کرنا بھی ضروری ہے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی جس قدر پھیلی ہوئی ہے اس کے سد باب کے لیے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ضرورت ہے دہشت گرد اور دوسرے جرائم پیشہ گروہ عوام کی بستیوں ہی میں رہتے ہیں اور ان بستیوں ہی سے نکلتے ہیں اور واپس آتے ہیں اگر عوام چوکنا رہیں اور اپنے ارد گرد ہونے والی سرگرمیوں کو اپنی نظر میں رکھیں تو مجرموں کو جرائم سے روکنے اور انھیں پکڑنے میں بہت کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔

میاں صاحب نے دو دن کی کوششوں کے بعد کراچی کو پر امن بنانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ ادھورے ہیں۔ جب تک ان مسائل کی سنگینی کا اندازہ کرکے ان کی روک تھام کے لیے ایک جرأت مندانہ قومی پالیسی نہیں بنائی جاتی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کراچی کی کانفرنس میں اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہ اس عفریت کا ہر حال میں خاتمہ ہونا چاہیے۔ اب یہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس خطرناک مسئلے سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کریں۔ سر سری سماعت کی سیاست اور اقدامات سے کام نہیں چل سکتا۔ رینجرز جرائم پیشہ گروہوں کو تو روک سکتی ہیں لیکن رینجرز کے لیے دہشت گردوں کو ختم کرنا آسان ہے نہ ممکن نظر آتا ہے۔ پھر حکومت کا آپشن کیا ہوگا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں