صدر زرداری کی رخصتی

سچ پوچھیے تو ایوان صدارت تک انھیں پہنچانے میں بھی قسمت کا ہی بہت بڑا ہاتھ ہے۔


Shakeel Farooqi September 09, 2013
[email protected]

جس طرح موت کا ایک دن معین ہے اسی طرح ریٹائرمنٹ کا بھی ایک دن اور تاریخ مقرر ہے۔ اس اعتبار سے صدارتی عہدے سے جناب آصف علی زرداری کا ریٹائر ہونا بھی ایک لازمی امر تھا۔ مگر فی الواقع 8 ستمبر کو ایوان صدر سے ان کی رخصتی اس اعتبار سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے کہ وہ ملک کے پہلے سویلین صدر ہیں جو اپنی 5 سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے بعد عزت اور وقار کے ساتھ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ اس سرخروئی میں جہاں ان کی ذہانت کا بہت بڑا کردار ہے وہاں ان کی خوش قسمتی کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔ اس لحاظ سے اگر انھیں مقدرکا سکندر کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ ان سے پہلے کے صدور کا جو انجام اور حشر ہوا وہ پوری پاکستانی قوم کے سامنے ہے

سچ پوچھیے تو ایوان صدارت تک انھیں پہنچانے میں بھی قسمت کا ہی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ شاید انھوں نے اپنی زندگی میں قصر صدارت میں قدم رکھنے کا خواب بھی نہ دیکھا ہو۔ مگر ہوتا وہی ہے جو قدرت کو منظور ہوتا ہے اور لوح تقدیر پر لکھا ہوتا ہے۔

محترمہ بے نظیربھٹو کے ساتھ ان کی شادی ان کی تقدیر کے جاگنے کا ایک خوشگوار بہانہ بن گئی۔ ابھی کل کی بات ہے جب 1987 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے جس کے بعد ہی ان کی قسمت نے پلٹا کھایا۔ ان کی عملی سیاست کا آغاز بھی محترمہ بے نظیر بھٹو ہی کا مرہون منت ہے۔ 1993 سے 1996 تک وہ محترمہ کی کابینہ میں مختلف مناسب پر فائز رہے۔ بے نظیر کی حکومت کا یہ دوسرا دور تھا۔ بے نظیر حکومت کے گرنے کے بعدزرداری صاحب پر برا وقت آیا اور انھیں گرفتار کرلیا گیا۔

2004 میں انھیں رہائی حاصل ہوئی جس کے بعد جلاوطنی اختیار کرکے وہ دبئی چلے گئے۔ پھر بی بی کی شہادت کا سانحہ رونما ہوگیا اور اس کے بعد فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے اعلان کردہ متنازعہ این آر او کے تحت وہ ایک مرتبہ پھر وطن واپس آکر ملک کے سیاسی دھارے میں شامل ہوگئے اور موج حوادث سے لڑتے لڑتے بالآخر ایوان صدارت تک جاپہنچے۔ انھوں نے ایک غیر معمولی طور پر منجھے ہوئے سیاست دان کی حیثیت سے نئی نئی تدبیریں آزمائیں جن کے نتیجے میں فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کو انجام کار استعفیٰ دے کر بیرون ملک جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔

اس سے انکار ممکن نہیں کہ سیاسی میدان میں ان کا داخلہ ان کی اہلیہ محترمہ کی وجہ سے ہی ممکن ہوا مگر یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ انھوں نے اپنی ذہانت اور حکمت عملی سے وہ مقام حاصل کرکے دکھایا جس کا شاید تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مواقعے تو زندگی میں بہت سے لوگوں کو حاصل ہوتے ہیں لیکن گنتی کے صرف چند لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جو موقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھاکر سب کو انگشت بہ دنداں کردیتے ہیں۔ بے شک آصف علی زرداری کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں کیا جائے گا۔

ان کے مخالفین خواہ ان کے بارے میں کچھ بھی کہیں لیکن یہ حقیقت ثابت شدہ اور ناقابل تردید ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچنے اور وطن عزیز کی سیاست میں اپنا مقام بنانے میں صدر (سابق) آصف علی زرداری کی مسلسل جدوجہد اور غیر معمولی صلاحیت کا بھی بہت بڑا کمال ہے۔ اس لحاظ سے اگر انھیں ایک کامیاب Strategist کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔ انھیں مرد آہن کہنا بھی شاید مبالغہ آرائی نہ ہو کیوں کہ گیارہ سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارنے اور طرح طرح کے نامساعد حالات سے دوچار ہونے کے باوجود ان کے پایہ استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ بلاشبہ مردآہن کی حیثیت سے انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اپنے شدید ترین مخالفوں کو بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور کردیا۔

صبروتحمل اور ضبط و استقلال ان کی ڈھال اور سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کی بدولت انھوں نے اپنے بدترین مخالفین کی بڑی سے بڑی چالوں کو بھی نہایت آسانی کے ساتھ ناکام بنادیا۔ ان کے بعض حریفوں نے تو تہذیب و شائستگی کی تمام حدود کو عبور کرکے ان کی کردار کشی میں کوئی بھی کسر باقی نہ چھوڑی اور انھیں مسلسل اپنی تند و تیز تنقید کا نشانہ بنائے رکھا۔ مگر انھوں نے اپنی قوت برداشت کی انتہا کردی۔ بہ قول غالب:

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

زرداری کی اس خوبی پر ہمیں انڈین نیشنل کانگریس کے سر کردہ رہنما گاندھی جی کے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ موصوف ایک بحری جہاز پر سفر کر رہے تھے کہ چند گوروں کو ایک شرارت سوجھی انھوں نے چھوٹی چھوٹی پرچیوں پر کچھ لکھا اور اس کے بعد ان پرچیوں کو ایک پیپر پن کے ساتھ نتھی کرکے ایک شخص کے ہاتھوں دور بیٹھے ہوئے گاندھی جی کو بھجوادیا اور ان کے ردعمل کا تماشہ دیکھنے لگے۔ گاندھی جی نے ایک ایک کرکے ان تمام پرچیوں پر لکھی ہوئی عبارات کو پڑھا اور اس کے بعد اپنی دھوتی کی انٹی سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالی اور پیپر پن کو اس میں حفاظت کے ساتھ رکھ دیا۔

اس کے بعد انھوں نے ایک پرچی کی پشت پر لکھا ''میں نے اپنے کام کی چیز سنبھال کر رکھ لی ہے جس کے لیے آپ کا شکریہ ! باقی پرچیاں میرے کسی کام کی نہیں ہیں اس لیے آپ کو واپس کر رہا ہوں'' ہمیں چونکہ زرداری سے ملاقات کا موقع چونکہ کبھی خواب میں بھی میسر نہیں آیا اس لیے ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ اتنی غیر معمولی قوت برداشت انھیں اپنے بزرگوں سے ورثے میں ملی ہے، یا عطیہ خدا وندی ہے۔ ہمارا قیاس یا غالب گمان یہی ہے کہ کسی بھی ذریعے سے حاصل ہونے والی اس انتہائی قوت برداشت کو کمال کی حد تک پروان چڑھانا ان کا اپنا ہی کارنامہ ہوسکتا ہے۔ زرداری اپنے ہم عصروں پر بھاری رہے ہوں یا نہ رہے ہوں مگر ضبط و تحمل اورگالی کا جواب گالی سے نہ دینے کے معاملے میں ہمیشہ سب پر بھاری رہے ہیں۔ ان کی ہی ایک خوبی انھیں دوسروں پر امتیاز دلانے کے لیے کافی ہے۔

صدر زرداری کے دور میں بعض اچھے کام بھی ہوئے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ انھوں نے اپنی مفاہمتی پالیسیوں کی بدولت اپنی 5 سالہ جمہوری مدت کو پایہ تکمیل تک پہنچاکر ملک کی 66 سالہ تاریخ میں ایک سنہری باب کا اضافہ کیا۔

1973 کے آئین کی بحالی، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی، آزاد اور غیر جانب دار الیکشن کمیشن کی تشکیل، غیر جانب دار نگراں حکومت کا قیام، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے لاکھوں گھرانوں کی آبرو مندانہ مالی اعانت، سوئیٹ ہومز کے ذریعے بیت المال سے ایک لاکھ سے زیادہ مستحقین کی امداد، ایک لاکھ 5 ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز کے لیے ملازمتوں کی فراہمی، سابق ادوار میں ملازمت سے برطرف کیے گئے ہزاروں سرکاری ملازمین کی بحالی، لاکھوں کنٹریکٹ ملازمین کی ریگولرائزیشن، ٹریڈ یونینوں پر عاید پابندیوں کا خاتمہ، آغاز حقوق بلوچستان، گلگت اور بلتستان کو صوبے کا درجہ اور کاشتکاروں کو بے نظیر ٹریکٹر اسکیم کے تحت سستے ٹریکٹروں کی فراہمی سمیت عوامی فلاح و بہبود کے متعدد اقدامات شامل ہیں۔

انسان خطا کا پتلا ہے اور چونکہ زرداری بھی آخر ایک انسان ہی ہیں، اس لیے ان کا دامن بھی غلطیوں اور کوتاہیوں سے پاک نہیں ہے۔ سوئز کیس کے باعث ان کی ساکھ کو بڑا نقصان پہنچا اور ان کی پارٹی کے دو وزرائے اعظم برطرفی سے دوچار ہوگئے۔ تاہم یہ ان کی انتہائی خوش نصیبی ہے کہ قصر صدارت سے ان کی رخصتی ایسے خوشگوار ماحول میں ہوئی کہ ان کے سب سے بڑے اور پرانے حریف وزیر اعظم میاں نواز شریف نے نہ صرف ان کے اعزاز میں پرتکلف ظہرانہ دیا بلکہ انھیں زبردست خراج تحسین بھی پیش کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔