زاد راہ
شہر کے ایک اچھے بھلے علاقے جہاں کے مکانات کی قیمتیں اس وقت کروڑوں میں چل رہی ہیں
سورۃ الھمزہ میں واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ جو مال کو گن گن کر رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کو حطمۃ والی آگ میں ڈالے گا ۔ حطمۃ کا مطلب ہے ریزہ ریزہ، چورا چورا کردینا، کسی چیز کو توڑنا اورکوٹنا، یہ دوزخ کے ایک درجے کا نام ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے جن کے دلوں میں مال کی محبت بس گئی اور دلوں پر چڑھ گئی اس کے مجرموں کو حطمۃ کی آگ کے لمبے لمبے شعلوں میں بند کرکے تالے لگا دیے جائیں گے۔
قرآن مجید میں واضح طور پر روز مرہ کی زندگی کے معمولات کو احسن طریقے سے برتنے کے لیے احکامات تحریر ہیں کہ انسان کس طرح ان طریقوں کو اپنا سکتا ہے یعنی اگر مال دار ہے تو سارے مال پر خود ہی سانپ بن کر بیٹھ جانے میں نہ تو حکمت کا کوئی پہلو نکلتا ہے اور نہ ہی انسانیت کا بھلا ہوسکتا ہے اس مال کو کس طرح کس انداز میں خرچ کرنا چاہیے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے سب کچھ درج ہے لیکن آج کل کے اس مصروف دور میں ہمیں بہت سے معاملات کو سمجھنے اور اس کے اثرات جانچنے کی بھی فرصت نہیں ہے۔ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر ہمارے بہت سے مال دولت والے بہن بھائی جو اپنے دل میں خدا کے لیے بہت محبت رکھتے ہیں اور اس کے احکامات کے تحت اس کے بندوں کی مدد بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کی مدد ان کے تئیں تک تو ان کی عقل میں ثواب اور نیکی کے رجسٹر پر تحریر ہوجاتی ہے لیکن ان کی اس نیکی کے اثرات کس حد تک جاتے ہیں وہ سوچنے سمجھنے کی یا تو کوشش نہیں کرتے یا اللہ کے بندوں کی مدد کرتے ہوئے کچھ ضرورت سے زیادہ ہی آنکھیں میچ لیتے ہیں کہ خود اللہ ہی مدد کرے گا۔ آخر کو ہم اس کی راہ میں خرچ جو کر رہے ہیں لیکن اس طرح ہم اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآں ہوجاتے ہیں۔ ہمیں ضرور اس بات کی تحقیق کرکے مدد کرنی چاہیے کہ اس بندے کو اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟ اور کہیں وہ اس کی مدد کرکے کسی اور حقدار کی حق تلفی تو نہیں کر رہا ہے یا عجلت میں مدد کے نام پر کسی بندہ خدا کو مستقل سائل بنا رہے ہیں۔
شہر کے ایک اچھے بھلے علاقے جہاں کے مکانات کی قیمتیں اس وقت کروڑوں میں چل رہی ہیں، ایک بندہ خدا نے جو بیرون ملک برسوں سے مقیم تھا خوب کمایا کراچی میں اس اچھے علاقے کے تین منزلہ گھر جہاں پہلے وہ اپنے خاندان کے ساتھ خود رہائش پذیر تھا کرائے پر چڑھادیا تھا۔ کرایہ بھی ہزاروں میں تھا جس کا ایڈوانس لاکھوں میں گویا ملک سے باہر بھی سونا اور ملک میں بھی سونا کمایا جارہا تھاپھر اس بندہ خدا کو اپنے رب کی محبت یاد آئی جس نے اسے جھولی سے زیادہ ہی دے دیا تھا، تو فکر نے آگھیرا کہ آخرت میں اپنے رب کے سامنے کیا منہ لے کر جاؤں گا جب وہ پوچھے گا کہ اے بندہ خدا! میں نے تجھے اتنا نوازا اور تو نے میرے بندوں کو ان کے حصے کا پہنچایا بھی یا نہیں؟ بہرحال اسی خیال کے تحت ان کی طبیعت میں تبدیلی آئی، کسی طرح کسی اور خدا کے بندے سے ان کی ملاقات ہوئی اور طے پایا کہ وہ گھر وقف کردیا جائے تاکہ وہاں بچے دینی تعلیم حاصل کرسکیں، قرآن پاک حفظ کرسکیں۔ خیال بہت خوبصورت تھا اس پر عمل درآمد ہوا اور ایک کے بعد ایک اس گھر سے کرائے دار چلے گئے اور اس عمارت میں بچوں کا ایک اسکول قائم کردیا گیا جہاں دینی اور دنیاوی تعلیم دی جانے لگی چھوٹی بڑی اسکول ویگنیں، چھوٹی بچیوں بچوں کو لے کر آنے جانے لگیں، طلبا وطالبات کے والدین بھی اپنی گاڑیوں اور موٹربائیکس پر آنے جانے لگے یوں ویران گلی آباد ہوگئی، اس اسکول کی شہرت جلد ہی دور دور پھیل گئی لیکن ایسا ہرگز نہ تھا کہ یہ اسکول بنا فیس یا کم فیس پر چل رہا تھا اس کی فیس اچھی خاصی تھی، ایک صاحبہ نے جو خود بی۔ اے، بی۔ ایڈ تھیں اور اسلامیات اور اردو ان کے خاص مضامین تھے گھر سے قریب ہونے کی وجہ سے وہاں نوکری کے لیے پہنچیں تو صاف انکار کردیا گیا، ابھی وہ محترم پرنسپل کے کمرے میں ہی تھیں کہ کھلبلی مچ گئی سر آگئے۔۔۔۔ محترمہ سے فوراً رخصت لی گئی وہ اسکول سے نکلیں تو دیکھا کہ ایک چمچماتی نئے ماڈل کی گاڑی آکر رکی۔ ڈرائیور نے جلدی سے اتر کر دروازہ کھولا اور ایک باریش سفید کلف دار شلوار قمیض میں ملبوس محترم جن کے ہاتھ میں اسٹک اور سر پر ٹوپی تھی، ناک پر سنہری عینک جن سے چھلکتی آنکھوں سے تفاخر اور گردن کچھ زیادہ ہی اکڑی ہوئی تھی اترے اور بڑے غرور سے اسٹک زمین پر رکھتے سیڑھیاں چڑھے ان کے پیچھے ایک صاحبہ کالے برقعے میں ملبوس برآمد ہوئیں غالباً یہ ہیڈ مسٹریس تھیں اور ان صاحب جو غالباً اسکول کے مالک تھے اپنی مختلف برانچز میں دورے کے وقت ان کے ہمراہ ہوتی تھیں تاکہ بچیوں کے سیکشن کی نگرانی کرسکیں، کچھ ہی دیر میں اس جوڑے کی واپسی ہوگئی اور لاکھوں کی چمچماتی گاڑی یہ جا وہ جا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس گھر کے مالک کو اس بات کا ادراک تھا کہ وہ جس پر مددگار کے نام اپنا گھر بخش رہا ہے کیا وہ اس کے اہل ہیں یا قرآن حفظ کرنے والے بچوں کے لالچ میں وہ سب کچھ بھول گئے کہ اس نیک کام کے عوض وہ موصوف ڈھیروں فیسیں بھی وصول کریں گے اور اس طرح ان لوگوں کے غرور وتکبر میں کچھ اور اضافہ بڑھ جائے گا جنہوں نے ان سے اللہ کے نام پر وہ گھر حاصل کیا ہے یہ کیسی ڈپلومیسی ہے کہ ہم اس کے بندوں کو ان کا حق دینے میں بھی نہیں بخشتے یقیناً ان کے دل میں یہ جذبہ ضرور ابھرا ہوگا کہ وہاں خدا کا کلام بچے حفظ کریں گے پڑھیں گے یہ صدقہ جاریہ ہوگا جس کا ثواب انھیں ملے گا لیکن یہ ثواب حاصل کرنے کا کیسا عجیب طریقہ ہے جو خدا کے بندوں کو اس کی زمین پر اکڑ کر چلا رہا ہے ۔ کیا اس گھر کے مالک کا یہ فرض نہ تھا کہ پہلے خود پوری تحقیق کرتا اور پھر اپنی جائیداد اس کے حوالے کرتا؟ بہرحال خدا کی اس بستی میں بسنے والوں کے انداز نرالے، ڈھنگ نرالے اور احساسات نرالے۔
اللہ رب العزت کی عبادت کرنے کو مخلوق کی کمی نہیں کیا انسان اور کیا غیر انسان سب اسی کی جانب دیکھتے ہیں کیسی خوبصورت بات ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو بیچ کا راستہ اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے کہ یہ راستہ ہی بندے کو اس کی جانب لے جاتا ہے اس راستے کے ذرا ادھر اس کی محبت میں شدت سے ڈوبی وہ مخلوق ہے جو صرف اس کی عبادت کرتی ہے میری اور آپ کی دنیا میں رہتی خواہشات کی بھیڑ سے اسے کیا غرض اور خدا کو اپنی وہ مخلوق بھی بہت عزیز ہے لیکن اس بشر کو جو مقام اور نعمتوں سے نوازا ہے وہ کسی اور مخلوق کو نہیں دیں اس لیے کہ انسانوں کی بستی پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت کا سایہ بناکر عزت بخش دی گئی یوں انسان اشرف المخلوقات کہلایا لیکن ہم اپنی اس اہمیت سے واقف ہی نہیں ہیں جس سے خدا نے اتنی محبت کی، اتنی عزت دی جو دنیا کے بادشاہ تھے لیکن کیسے منسکرالمزاج، نرم خو، رحم دل، روادار اور مہربان کہ مثال نہیں ملتی پھر بھی آپ کی عبادت کے معمولات طویل تھے، حقوق العباد کا آپؐ نے کس قدر خیال رکھا لیکن اگر ہم ذرا بھی آپؐ کی زندگی پر غور کریں تو سمجھ میں آجائے کہ یہ مادیت پرستی زندگی کی رنگینی ہے جس کی بنیاد پانی پر ہے لیکن مالک کی محبت کی بنیاد نور سے شروع ہوکر دل پر ختم ہوتی ہے پھر بھی اس کی محبت کی کوئی حد نہیں ہے اپنے کسی بھی صدقے کو جاریہ سمجھنے سے پہلے یقین تو کرلیں کہ کیا یہ واقعی اس صدقے کے لائق ہے بھی یا نہیں۔۔۔۔؟
قرآن مجید میں واضح طور پر روز مرہ کی زندگی کے معمولات کو احسن طریقے سے برتنے کے لیے احکامات تحریر ہیں کہ انسان کس طرح ان طریقوں کو اپنا سکتا ہے یعنی اگر مال دار ہے تو سارے مال پر خود ہی سانپ بن کر بیٹھ جانے میں نہ تو حکمت کا کوئی پہلو نکلتا ہے اور نہ ہی انسانیت کا بھلا ہوسکتا ہے اس مال کو کس طرح کس انداز میں خرچ کرنا چاہیے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے سب کچھ درج ہے لیکن آج کل کے اس مصروف دور میں ہمیں بہت سے معاملات کو سمجھنے اور اس کے اثرات جانچنے کی بھی فرصت نہیں ہے۔ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر ہمارے بہت سے مال دولت والے بہن بھائی جو اپنے دل میں خدا کے لیے بہت محبت رکھتے ہیں اور اس کے احکامات کے تحت اس کے بندوں کی مدد بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کی مدد ان کے تئیں تک تو ان کی عقل میں ثواب اور نیکی کے رجسٹر پر تحریر ہوجاتی ہے لیکن ان کی اس نیکی کے اثرات کس حد تک جاتے ہیں وہ سوچنے سمجھنے کی یا تو کوشش نہیں کرتے یا اللہ کے بندوں کی مدد کرتے ہوئے کچھ ضرورت سے زیادہ ہی آنکھیں میچ لیتے ہیں کہ خود اللہ ہی مدد کرے گا۔ آخر کو ہم اس کی راہ میں خرچ جو کر رہے ہیں لیکن اس طرح ہم اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآں ہوجاتے ہیں۔ ہمیں ضرور اس بات کی تحقیق کرکے مدد کرنی چاہیے کہ اس بندے کو اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟ اور کہیں وہ اس کی مدد کرکے کسی اور حقدار کی حق تلفی تو نہیں کر رہا ہے یا عجلت میں مدد کے نام پر کسی بندہ خدا کو مستقل سائل بنا رہے ہیں۔
شہر کے ایک اچھے بھلے علاقے جہاں کے مکانات کی قیمتیں اس وقت کروڑوں میں چل رہی ہیں، ایک بندہ خدا نے جو بیرون ملک برسوں سے مقیم تھا خوب کمایا کراچی میں اس اچھے علاقے کے تین منزلہ گھر جہاں پہلے وہ اپنے خاندان کے ساتھ خود رہائش پذیر تھا کرائے پر چڑھادیا تھا۔ کرایہ بھی ہزاروں میں تھا جس کا ایڈوانس لاکھوں میں گویا ملک سے باہر بھی سونا اور ملک میں بھی سونا کمایا جارہا تھاپھر اس بندہ خدا کو اپنے رب کی محبت یاد آئی جس نے اسے جھولی سے زیادہ ہی دے دیا تھا، تو فکر نے آگھیرا کہ آخرت میں اپنے رب کے سامنے کیا منہ لے کر جاؤں گا جب وہ پوچھے گا کہ اے بندہ خدا! میں نے تجھے اتنا نوازا اور تو نے میرے بندوں کو ان کے حصے کا پہنچایا بھی یا نہیں؟ بہرحال اسی خیال کے تحت ان کی طبیعت میں تبدیلی آئی، کسی طرح کسی اور خدا کے بندے سے ان کی ملاقات ہوئی اور طے پایا کہ وہ گھر وقف کردیا جائے تاکہ وہاں بچے دینی تعلیم حاصل کرسکیں، قرآن پاک حفظ کرسکیں۔ خیال بہت خوبصورت تھا اس پر عمل درآمد ہوا اور ایک کے بعد ایک اس گھر سے کرائے دار چلے گئے اور اس عمارت میں بچوں کا ایک اسکول قائم کردیا گیا جہاں دینی اور دنیاوی تعلیم دی جانے لگی چھوٹی بڑی اسکول ویگنیں، چھوٹی بچیوں بچوں کو لے کر آنے جانے لگیں، طلبا وطالبات کے والدین بھی اپنی گاڑیوں اور موٹربائیکس پر آنے جانے لگے یوں ویران گلی آباد ہوگئی، اس اسکول کی شہرت جلد ہی دور دور پھیل گئی لیکن ایسا ہرگز نہ تھا کہ یہ اسکول بنا فیس یا کم فیس پر چل رہا تھا اس کی فیس اچھی خاصی تھی، ایک صاحبہ نے جو خود بی۔ اے، بی۔ ایڈ تھیں اور اسلامیات اور اردو ان کے خاص مضامین تھے گھر سے قریب ہونے کی وجہ سے وہاں نوکری کے لیے پہنچیں تو صاف انکار کردیا گیا، ابھی وہ محترم پرنسپل کے کمرے میں ہی تھیں کہ کھلبلی مچ گئی سر آگئے۔۔۔۔ محترمہ سے فوراً رخصت لی گئی وہ اسکول سے نکلیں تو دیکھا کہ ایک چمچماتی نئے ماڈل کی گاڑی آکر رکی۔ ڈرائیور نے جلدی سے اتر کر دروازہ کھولا اور ایک باریش سفید کلف دار شلوار قمیض میں ملبوس محترم جن کے ہاتھ میں اسٹک اور سر پر ٹوپی تھی، ناک پر سنہری عینک جن سے چھلکتی آنکھوں سے تفاخر اور گردن کچھ زیادہ ہی اکڑی ہوئی تھی اترے اور بڑے غرور سے اسٹک زمین پر رکھتے سیڑھیاں چڑھے ان کے پیچھے ایک صاحبہ کالے برقعے میں ملبوس برآمد ہوئیں غالباً یہ ہیڈ مسٹریس تھیں اور ان صاحب جو غالباً اسکول کے مالک تھے اپنی مختلف برانچز میں دورے کے وقت ان کے ہمراہ ہوتی تھیں تاکہ بچیوں کے سیکشن کی نگرانی کرسکیں، کچھ ہی دیر میں اس جوڑے کی واپسی ہوگئی اور لاکھوں کی چمچماتی گاڑی یہ جا وہ جا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس گھر کے مالک کو اس بات کا ادراک تھا کہ وہ جس پر مددگار کے نام اپنا گھر بخش رہا ہے کیا وہ اس کے اہل ہیں یا قرآن حفظ کرنے والے بچوں کے لالچ میں وہ سب کچھ بھول گئے کہ اس نیک کام کے عوض وہ موصوف ڈھیروں فیسیں بھی وصول کریں گے اور اس طرح ان لوگوں کے غرور وتکبر میں کچھ اور اضافہ بڑھ جائے گا جنہوں نے ان سے اللہ کے نام پر وہ گھر حاصل کیا ہے یہ کیسی ڈپلومیسی ہے کہ ہم اس کے بندوں کو ان کا حق دینے میں بھی نہیں بخشتے یقیناً ان کے دل میں یہ جذبہ ضرور ابھرا ہوگا کہ وہاں خدا کا کلام بچے حفظ کریں گے پڑھیں گے یہ صدقہ جاریہ ہوگا جس کا ثواب انھیں ملے گا لیکن یہ ثواب حاصل کرنے کا کیسا عجیب طریقہ ہے جو خدا کے بندوں کو اس کی زمین پر اکڑ کر چلا رہا ہے ۔ کیا اس گھر کے مالک کا یہ فرض نہ تھا کہ پہلے خود پوری تحقیق کرتا اور پھر اپنی جائیداد اس کے حوالے کرتا؟ بہرحال خدا کی اس بستی میں بسنے والوں کے انداز نرالے، ڈھنگ نرالے اور احساسات نرالے۔
اللہ رب العزت کی عبادت کرنے کو مخلوق کی کمی نہیں کیا انسان اور کیا غیر انسان سب اسی کی جانب دیکھتے ہیں کیسی خوبصورت بات ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو بیچ کا راستہ اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے کہ یہ راستہ ہی بندے کو اس کی جانب لے جاتا ہے اس راستے کے ذرا ادھر اس کی محبت میں شدت سے ڈوبی وہ مخلوق ہے جو صرف اس کی عبادت کرتی ہے میری اور آپ کی دنیا میں رہتی خواہشات کی بھیڑ سے اسے کیا غرض اور خدا کو اپنی وہ مخلوق بھی بہت عزیز ہے لیکن اس بشر کو جو مقام اور نعمتوں سے نوازا ہے وہ کسی اور مخلوق کو نہیں دیں اس لیے کہ انسانوں کی بستی پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت کا سایہ بناکر عزت بخش دی گئی یوں انسان اشرف المخلوقات کہلایا لیکن ہم اپنی اس اہمیت سے واقف ہی نہیں ہیں جس سے خدا نے اتنی محبت کی، اتنی عزت دی جو دنیا کے بادشاہ تھے لیکن کیسے منسکرالمزاج، نرم خو، رحم دل، روادار اور مہربان کہ مثال نہیں ملتی پھر بھی آپ کی عبادت کے معمولات طویل تھے، حقوق العباد کا آپؐ نے کس قدر خیال رکھا لیکن اگر ہم ذرا بھی آپؐ کی زندگی پر غور کریں تو سمجھ میں آجائے کہ یہ مادیت پرستی زندگی کی رنگینی ہے جس کی بنیاد پانی پر ہے لیکن مالک کی محبت کی بنیاد نور سے شروع ہوکر دل پر ختم ہوتی ہے پھر بھی اس کی محبت کی کوئی حد نہیں ہے اپنے کسی بھی صدقے کو جاریہ سمجھنے سے پہلے یقین تو کرلیں کہ کیا یہ واقعی اس صدقے کے لائق ہے بھی یا نہیں۔۔۔۔؟