کراچی میں قیام امن کی کوشش
ٹاک شوز میں بھی ان کے نمایندوں کا رویہ جارحانہ ہوتا ہے۔
22 اگست کو ملک میں ضمنی انتخابات کے بعد پی ٹی آئی نے لاہور میں دھرنا دیا اور مظاہرہ کیا، اس مظاہرے میں جو بدنظمی دیکھنے میں آئی وہ اس پارٹی کی مجموعی و اندرونی صورت حال کی بہترین ترجمانی کرتی ہے۔ ایک صاحب نے تو اپنے کالم میں اس بات کا برملا اظہار بھی کیا ہے کہ پی ٹی آئی کی قومی انتخابات سے قبل جو شہرت و مقبولیت کا ڈھول پیٹا گیا تھا وہ محض پروپیگنڈہ تھا۔ اس جماعت میں کبھی بھی نظم و نسق موجود نہ تھا اور نہ ہی کارکنان کا کوئی مشترکہ لائحہ عمل، اس کا مظاہرہ پہلے بھی کئی بار ہوتا رہا ہے مگر اس دھرنے کے دوران تو سب کھل کر سامنے آگیا کہ تمام کارکنان پہلے آپس میں دست و گریباں رہے اور پھر رپورٹرز اور صحافیوں پر حملہ آور ہوگئے۔
ٹاک شوز میں بھی ان کے نمایندوں کا رویہ جارحانہ ہوتا ہے۔ سوال کا اصل جواب دینا تو ہمارے یہاں بڑے بڑے معتبر سیاستدانوں کو بھی نہیں آتا مگر پی ٹی آئی کے نمایندوں کا تو مخصوص رویہ ہے کہ ایک دو باتیں سب نے رٹ لی ہیں اور ہر سوال کے جواب میں وہی بار بار دہرائی جاتی ہیں، زیادہ تر انداز گفتگو اور Body Language میں عمران خان کی نقل کی کوشش کی جاتی ہے اور ٹوئٹر پر تو گویا اس پارٹی کے نوجوانوں (یوتھ) کو سب کچھ اول فول بکنے کی کھلی آزادی ہے (مختلف شخصیات اور سیاسی پارٹیوں کے خلاف) کہ جس کو چاہیں جو چاہیں اس کے خلاف فرمائیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، انتہا یہ کہ بے چارے مخدوم جاوید ہاشمی تک کو انھوں نے معاف نہ کیا، ایک ذرا سی بات پر جس کو میں غلطی ہرگز نہ لکھ سکوں گی۔ مگر محض پی ٹی آئی کو ہدف تنقید بنانا بھی جائز نہیں۔ کیا دوسری سیاسی جماعتوں کے کردار کو قابل تعریف کہہ سکتے ہیں؟
جس ملک میں ہر سمت بدنظمی، افراتفری، خوف و دہشت کا راج ہو، جس کا ہر ادارہ مکمل طور پر ناکامی سے ہمکنار اور غیر تربیت یافتہ افراد کی آماجگاہ ہو، جہاں کے ذمے داران مکمل طور پر غیر ذمے داری کا ثبوت پیش کر رہے ہوں وہاں کیا سیاسی جماعتوں کا ملکی صورت حال بہتر کرنے میں کوئی کردار نہیں ہوتا ہے؟ ہر جماعت اپنے نظریے اور رویے پر نہ صرف قائم ہے، بلکہ اڑی ہوئی ہے۔ کسی موقع اور کسی اصول پر سمجھوتہ کرنے یا کسی قسم کا تعاون کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنے بنیادی اصول اور ترجیحات کو ترک کردیں مگر ملکی مفاد کے لیے ایک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق رائے تو پیدا کیا جاسکتا ہے۔
ملکی حالات بالخصوص دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری اور امن وامان کی بگڑتی صورت حال ہر شخص اور ہر سیاسی جماعت کا مشترکہ مسئلہ ہے اور سب سے بڑھ کر ملک کا وجود۔ خدانخواستہ طاغوتی طاقت کا اگلا نشانہ شام، مصر، عراق کے بعد ہمارا ملک ہوا تو کیا ہماری حالت لبنان اور بیروت سے مختلف نہیں ہوگی؟ کیا ساری سیاست، سارے اختلافات اسی ملک میں رہتے ہوئے ہیں کہ نہیں؟ خدا نہ کرے ملک کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے تو پھر یہ ساری سیاست دھری کی دھری رہ جائے گی بلکہ خود ان جماعتوں کا وجود ہی باقی نہ رہے گا۔ یہ سوچ کر ہی ہم اپنا حب الوطنی کا کردار ادا نہیں کرسکتے، کچھ دن کے لیے اپنے اندرونی یا بنیادی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک بچانے، حالات کو سازگار بنانے اور امن و امان قائم کرنے کے لیے ہی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کرسکتے۔
فی الحال تو ہمارے سیاستدانوں کا کردار محض ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنا اور دوسروں کی صحیح بات کو بھی غلط ثابت کرنے کے سوا اور کچھ نہیں، دوسروں کے اگلے پچھلے تمام اعمال کا احتساب کرنا اور اپنے رویے کی اصلاح نہ کرنا ہر جماعت ہر سیاستدان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ وہ جماعتیں جو ملک میں ہر روز درجنوں کے حساب سے قتل، اغوا اور بھتہ خوری کا شکار ہونے والوں کے لیے لب کشا ہونا بھی گناہ کبیرہ تصور کرتی ہیں ان کے دل میں مصر و شام کا درد اور پیٹ میں مروڑ تو اٹھتا ہے مگر اپنے ملک میں مرتے ہوئے بے گناہ نظر نہیں آتے۔ کیا یہ صورت حال کسی بھی ایسی سیاسی پارٹی کے کردار پر سوال نہیں اٹھاتی جو ملکی انتخابات میں اسی ملک کے لوگوں سے ووٹ طلب کرنے تو آتے ہیں مگر ان کے دکھ درد میں شریک ہونا پسند نہیں کرتے؟ ایسے ہی سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ ''تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو''۔
اس تناظر میں یہ بات بڑی خوشی کی ہے کہ وزیراعظم صاحب نے کراچی بدامنی کے لیے واقعی سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات پر توجہ مبذول فرمائی ہے۔ اب خدا کرے یہ اقدامات واقعی ٹھوس، غیرجانبدارانہ، حقیقت پسندانہ اور شفاف بھی ہوں۔ جن اداروں کو اس کام کی ذمے داری سونپی گئی ہے، وہ بھی واقعی سنجیدہ، ذمے دار اور اپنے کام میں مخلص ہوں۔ کیونکہ ماضی میں اصلاح احوال کے لیے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر سنجیدگی، جانبداری اور اپنے عہدے و شعبے کے خلاف کام کرنے کی کئی واضح اور حقیقت پر مبنی مثالیں ہمارے ذرایع ابلاغ کی زینت بن چکی ہیں۔
ویسے اس سلسلے میں کچھ اقدامات کا چرچا تو اس قدر ہوگیا ہے کہ اصل مجرموں نے اپنے ٹھکانے اور عارضی طور پر ہی سہی ارادے بھی تبدیل کرلیے ہیں مگر کچھ اقدامات کو خفیہ رکھنے کا بھی ذکر کیا جارہا ہے ان ہی میں شاید وہ ترکیب بھی خفیہ ہے کہ جس کے ذریعے غیر ذمے داروں میں احساس ذمے داری اور شاطر و چالاک اپنے اداروں کے مخبروں کو ذمے دار اور محب وطن بنایا جاسکے گا۔
ہمارے ملک و قوم کی سب سے بڑی بدنصیبی ملک میں جاگیردارانہ، وڈیرانہ ماحول اور بیوروکریسی کا منطقی کردار رہا ہے جس سے تاحال نجات کا کوئی راستہ متعین نہیں کیا گیا ہے اور نہ اس نظام سے چھٹکارے کا کوئی واضح امکان مستقبل قریب میں نظر آرہا ہے۔ ملک کے اصلی محنت کش، باہنر، مہذب اور تعلیم یافتہ مگر نچلے اور متوسط طبقے کے افراد کے وجود کو ابھی تک شرف قبولیت حاصل نہ ہوسکا۔ رہ گیا آئین جس کو متفقہ آئین بھی کہا جاتا ہے اس کے تقدس پر بھی کئی بار انگلیاں اٹھائی جاچکی ہیں اور اس کا احترام و نفاذ (بظاہر) کہیں نظر نہیں آتا۔ ایسی صورت حال میں جب قانون بھی اندھا ہو اور ملک کے طاقتور عناصر بھی سرگرم عمل ہوں تو یہ یقین کرلینا کہ کوئی بھی قدم اور عمل واقعی جانبدارانہ ہوگا اور شکوک و شبہات پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لیے کافی ہیں۔
اب تک کراچی میں جو حالات بہتر کرنے کے لیے آپریشن ہوئے وہ بالآخر کسی مخصوص جماعت یا گروہ کے لیے ہی ثابت ہوئے، جوکہ ابتدا سے انتہا تک جانبدارانہ ہی کہے جاسکتے ہیں۔ میں نے مندرجہ بالا سطروں میں جاگیردارانہ نظام کا ذکر کیا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام ہمارے ملک میں واحد نظام ہے جو ٹھوس بنیادوں پر استوار ہے، ورنہ ملک کا ہر ادارہ، ہر نظام ناکامی و بدامنی کا شکار ہے لہٰذا یہ طبقہ اپنے مفادات کے خلاف کسی قسم کی مداخلت اور للکار کو برداشت کر ہی نہیں سکتا۔ ملک کے باقی ادارے ان ہی کے دم قدم سے آباد اور قائم ہیں۔
اگر ایسے میں نچلے اور متوسط طبقے کے پڑھے لکھے، مہذب اور اخلاقی اصولوں پر کاربند چند افراد کھلم کھلا اس طبقہ اشرافیہ کو چیلنج کریں تو کیا یہ ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے آخری حد تک نہیں جائیں گے؟ اب چاہے اس کوشش میں کوئی شہر، کوئی صوبہ تو کیا پورا ملک داؤ پر لگ جائے مگر وہ اپنے مفادات پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اس تناظر میں حکومت کی موجودہ کوششوں کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ اگر بااثر افراد کی مداخلت کے بغیر کوئی بھی مخلصانہ کوشش شہر کراچی کیا پورے ملک میں امن قائم کرنے کے لیے کی جائے تو کامیابی یقینی ہے۔ اور اگر بااثر طبقہ اپنا کھیل کھیلنے میں کامیاب ہوگیا تو شاید وقتی طور پر تو حالات بہتر ہوجائیں لیکن پائیدار امن کی امید رکھنا عبث ہوگی۔