دھمکیاں دباؤ صحافی ملک چھوڑنے پر مجبور

قبائلی اضلاع کے صحافی اندرون اور بیرون ملک مہاجرت لینے پر مجبور ہیں۔


وصال یوسفزئی July 03, 2019
قبائلی اضلاع کے صحافی اندرون اور بیرون ملک مہاجرت لینے پر مجبور ہیں۔

حسن فرحان طارق بھی ان صحافیوں میں شامل ہیں جن کو دھمکیوں کی وجہ سے آخر کار ملک چھوڑنا پڑا اور آج کل کنییڈا میں رہائیش پزیر ہیں۔ حسن فرحان نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے مجبوری کی خاطر اپنے ملک کو چھوڑا کیونکہ اس کو مسلسل دھمکی آمیز کالز موصول ہورہی تھی اور ان کو باربار دھمکایا جارہا تھا کہ آپکی خبر قومی مفاد عامہ کے خلاف ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلسل دھمکی آمیز کالز کی وجہ سے آخر کار اس نے ملک چھوڑنے کی حامی بھرلی۔ حسن فرحان کو ایگریکلچر یونیورسٹی پر حملے کی فالواپ سٹوری کرنے پر جان کی دھمکیاں دئ گئی۔ حسن فرحان کے دوست سراج الدین جو ان کے ساتھ ڈان ٹی وی میں بطور رپورٹر کام کرتے ہیں نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حسن فرحان کو کافی دھمکیاں مل رہی تھی اور اکثر وہ پریشان رہتا تھا جس کی وجہ سے اس نے بالااخر کار وطن چھوڑنے کا ارادہ کرلیا اور آج کل وہ کنیڈا میں مقیم ہیں۔ سراج کا مزید کہنا تھا کہ حسن فرحان ڈان ٹی وی کے لیے کرائم بیٹ کور کرتے تھے اور وہ ایک محنتی رپورٹر تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ اور پشاور میں کئی ایسے صحافی تھے جن کو جان سے مارنے کی دھمکیوں کی وجہ سے ملک چھوڑنا پڑا ۔

رپورٹرزود اوٹ بارڈرز کی جانب سے بنائی جانے والی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2017 کی 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان 139 ویں نمبر پر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان پریس فریڈم فاونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 2002 سے لے کر اب تک پاکستان میں 73 ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں صحافیوں اور میڈیا میں کام کرنے والے کارکنان کو قتل کیا جاچکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2001 سے 2015 تک 40 کے قریب صحافیوں کو ہراساں کیا جاچکا ہے اور ان کو دھمکیاں دی جاچکی ہیں۔

رپورٹرز ود اوٹ بارڈر کے ڈاریکٹر اقبال خٹک نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہمیشہ صحافیوں کو خطرات اور دھمکیوں کا سامنا ہوتا ہیں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی جنگ میں خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع کے اکثر صحافی اسلام اباد اور بیرون ملک سیاسی پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہیں جہاں پر ہرسال ہزاروں کی تعداد میں مائگریشن ہوتی ہیں جن میں صحافی بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع کے صحافی بھی اندرون اور بیرون ملک مہاجرت لینے پر مجبور ہوگئے تھے حالانکہ کسی کی یہ خواہش نہیں ہوتی کہ اپنے ملک اور اپنے لوگوں کو چھوڑے اور ایسی جگہ پناہ لے لیں جہاں اس کی کوئی جان پہچان نہ ہوں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات غلط ہیں کہ صحافیوں نے حالات کا فائدہ اٹھا کر دوسرے ممالک میں پناہ لی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر صحافی یہ نہ کرتے تو ان کے پاس صرف موت کا اپشن ہی رہ جاتا، ابھی تک حکومت اور دوسرے اداروں کی جانب سے صحافیوں کی حفاظت کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے انکا کہنا تھا کہ صحافیوں کو ریاستی اور غیر ریاستی عناصر سے ہمیشہ خطرات لاحق ہوتے ہیں جب کہ ان کو مارنے اور ان کو دھمکیاں دینے کے واقعات ہر روز رپورٹ ہوتے ہیں۔

خیبر یونین اف جرنلسٹ کے سیکٹری محمد نعیم نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبر یونین آف جرنلسٹ صحافیوں کو نشانہ بنانے کے خلاف ہمیشہ اپنی اواز اٹھاتا ہے جبکہ جن صحافیوں کو دھمکی آمیز خطوط یا کال موصول ہوتی ہیں ان کو رپورٹ کرتے ہیں اور دوسروں اداروں کے ساتھ ملکر ان کو محفوظ مقام منتقل کرنے میں ان کی مالی مدد بھی کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں کئی صحافی دھمکیوں کی وجہ سے اپنے علاقے چھوڑ گئے تھے اور یونین نے انکی مدد کی تھی اور انکو ہر قسم کی سپورٹ مہیا کی تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ خیبر پختونخواہ اور پشاور میں کتنے ایسے صحافی تھے جن کو دھمکیوں کی وجہ سے ملک کو چھوڑنا پڑا تو انکا کہنا تھا کہ اس حوالے سے یونین ڈیٹا شیر نہیں کرتی کیونکہ جو صحافی بیرونی ملک پناہ لینے پر مجبور ہیں ان کو مشکلات سامنے اسکتے ہیں۔

محمد نعیم کا کہنا تھا کہ کہ اس حوالے سے وقتاً فوقتاً ان کی پولیس اور سیکیورٹی اداروں سے بھی میٹنگ ہوتی ہیں اور ان کو صحافیوں کی تحفظ کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا جاتاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ماضی میں پولیس کی جانب سے صحافیوں کو اسلحہ کی اجازت بھی دی گئی لیکن صحافیوں نے اس آفر کو قبول نہیں کیا کیونکہ صحافی صرف اداروں کی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں نہ کہہ وہ سکیورٹی اداروں کا کام کریں ۔ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے سنئیر صحافی شاہ خالد شاہ جی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود بھی دھمکیوں کا شکار ہوا تھا اور پشاور منتقل ہوچکا تھا انکا کہنا تھا کہ اگرچہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع میں صحافی دھمکیوں اور حراست کا شکار ہوئے تھے لیکن ابھی کافی حالات سنبھل گئے ہیں اور امن کی صورت حال میں بھی بہتری آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خود ابھی اپنے علاقے باجوڑ سے رپورٹنگ کرتے ہیں اور ان کو کوئی مشکلات نہیں ارہی ہیں۔

خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں صحافیوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ابھی حکومت اور سکیورٹی اداروں کی کوششوں سے امن کی صورت حال میں کافی بہتری ائی ہیں اور حکومت صحافیوں کی تحفظ اور ان کو تمام سہولیات میسر کرہی ہیں تاکہ وہ اپنے رپورٹنگ میں مزید بہتری لائے اور اداروں کی مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع کے صحافی بھی اپنے علاقوں کو واپس لوٹ چکے ہیں اور اپنے علاقوں سے بلاخوف اپنے صحافت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں