بجٹ اور خوف و ہراس کی فضا
عوام و خواص میں یہ تاثر عام ہے کہ حکومتی اقتصادی ٹیم کا مقصد کسی بھی طریقے سے پیسہ اکٹھا کرنا ہے۔
قومی اسمبلی نے آیندہ مالی سال کے لیے 7036 ارب روپے حجم کا بجٹ منظورکرلیا۔ حکومتی ترامیم کثرت رائے سے منظور جب کہ اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کردی گئی ہیں۔ بجٹ کو اپوزیشن کی جماعتوں نے عوام و ملک دشمن قرار دے کر رد کردیا ہے۔
ملک بھر کے مزدور رہنماؤں ان کی تنظیموں نے کاروباری شخصیات اور ان کی تنظیموں نے اس بجٹ پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔ ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نے تو یکم جولائی سے اپنی فیکٹریاں بند کرنے کا اعلان کردیا ہے، جس سے لاکھوں مزدوروں کے بے روزگار ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت اور ایوان صنعت و تجارت کراچی ملک کی دیگر کاروباری و تجارتی تنظیموں نے بجٹ کو غیر اطمینان بخش قرار دیا ہے۔ عارف حبیب نے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے حکومت معاشی خودکشی پر اتر آئی ہے۔ معاشی ماہرین محصولات کے ہدف کو ناممکن قرار دے رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے نئے نوٹ چھاپنے اور مزید قرضہ لینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ جب کہ حکومت پہلے ہی 10 ماہ کے دوران 5 ہزار ارب روپے کے قرضہ لے چکی ہے۔
ملک کی اقتصادی صورتحال یہ ہے کہ معاشی ترقی کی شرح 6.2 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 3.3 فیصد رہی، زرعی شعبے میں شرح نمو 3.8 فیصد کے بجائے 0.85 رہی، صنعتی ترقی 7.6 فیصد کے بجائے 1.40 فیصد رہی۔ ڈالر کی مسلسل اڑان ملکی معیشت کو بے حال کر رہی ہے ، سونے کے نرخ عالمی مارکیٹ میں کم ہونے کے باوجود ہمارے ہاں روز افزوں بڑھ رہے ہیں، مہنگائی کی شرح بے تحاشا بڑھ جانے کے باوجود مخصوص اسکیل کے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں صرف 10 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے جو ٹیکس لگا کر واپس لے لیا جائے گا کم ازکم اجرت میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا ہے نہ اس کم ازکم معیار کو یقینی اور قابل عمل بنانے کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے ہیں۔
EOBI پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جو پانچ چھ ہزار پنشن لینے والے بزرگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ قومی بچت اسکیموں میں جن میں بڑی تعداد میں ریٹائرڈ ملازمین، معذور اور بیوائیں اپنی جمع پونجی رکھ کر جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کی کوششیں کرتے ہیں اس میں کسی اضافے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ موٹرسائیکلوں پر لائف ٹائم ٹیکس اور گاڑیوں پر سالانہ فی سیٹ جو ٹیکس عائد کیے گئے ہیں اس کا فوری اور براہ راست اثر غریب لوگوں پر پڑے گا جو موٹرسائیکلوں، ویگنوں اور بسوں وغیرہ میں سفر کرتے ہیں۔
جائیدادوں، کرایہ داری، بینک لین دین پر ٹیکسز کے سلسلے میں بھی عوام غیر یقینی اور خوف کی صورتحال سے دوچار ہیں، کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے بڑھا کر 63 سال کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے اس سے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا۔ حکومت کا اندازہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں 3 سال کا اضافہ کرکے وہ پنشن و دیگر واجبات کی مد میں ہر سال 24 ارب روپے اور تین سال کے دوران 72 ارب کی بچت کر سکے گی۔ لیکن 3 سال کے بعد جب ان ریٹائرڈ ملازمین کو مزید واجبات کے ساتھ ادائیگی کرنی ہوگی تو معاشی صورتحال کیا بنے گی؟
دوسری جانب ان تین سالوں میں ریٹائر ہونے والے 90 ہزار ملازمین کی جگہ 90 ہزار نوجوان سرکاری نوکریوں سے محروم رہ جائیں گے۔ بہت سوں کی ملازمت کی عمریں نکل جائیں گی جس سے بے روزگاری، احساس محرومی، مایوسی اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگا جب کہ پہلے ہی ملک میں بے روزگاری کا سیلاب ہے ملک کی آبادی کی اکثریت بھی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ خود پی ٹی آئی کو کامیاب کرانے میں بھی نوجوانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ پی ٹی آئی نے کروڑوں ملازمتیں دینے کے وعدے بھی کیے ہوئے ہیں۔ غربت و افلاس کے مارے لوگ پہلے ہی خودکشیاں کر رہے ہیں۔ اپنے گردے اور بچے بیچنے اور جرائم کرنے پر مجبور ہیں۔
حکومت 15 لاکھ عمرہ زائرین کو زیر بحث لاتے ہوئے ان لاکھوں لوگوں کی حالت زیست پر غور کیوں نہیں کرتی جو روزانہ خیرات خانوں اور ہوٹلوں کے فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر اپنے پیٹ کا جہنم بھرتے ہیں، لاکھوں بھوکے سو جاتے ہوں گے۔ اس ملک کا تو ایک ایک بھکاری بھی ہر اشیائے صرف پر کئی سطحی ٹیکس ادا کرکے اشرافیہ کو موجیں اڑانے کا موقعہ فراہم کرتا ہے لیکن ارباب اقتدار و اختیار کے پاس غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی پروگرام ہے نہ اس طرف ان کی توجہ ہے۔
اسمبلی میں قانون سازی و بجٹ سازی کے بجائے ہنگامہ خیزی اور الزام تراشیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے کچھ یہی حال ٹی وی ٹاک شوز کا ہے جہاں سیاستدان خوشآمد، دروغ گوئی، مبالغہ آرائی، جھوٹ در جھوٹ بول کر اپنی پاک دامنی اور مخالفین کی کردار کشی اپنا نصب العین بنائے ہوئے نظر آتے ہیں ، اسی پر ان کی پارٹی رینکنگ بنتی ہے۔ جس میں صلاحیت اورکارکردگی کا کوئی عمل دخل نظر نہیں آتا ہے۔ پچھلے ہفتے چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پارلیمنٹ دیکھیں تو ڈپریشن، معیشت کی خبریں مایوس کن، پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھتے ہیں تو اپوزیشن اور قائد ایوان کو بولنے نہیں دیا جاتا، معیشت کا سنتے ہیں کہ وہ آئی سی یو میں ہے۔
عوام و خواص میں یہ تاثر عام ہے کہ حکومتی اقتصادی ٹیم کا مقصد کسی بھی طریقے سے پیسہ اکٹھا کرنا ہے۔ حکومتی منتخب ارکان غیر منتخب ماہرین کا دفاع اور حکومتی ترجمان اپنے بیانات سے حکومت چلاتے نظر آ رہے ہیں جس سے ان کی سیاسی ساکھ اور سیاسی مستقبل داؤ پر لگ گئے ہیں۔ حکومتی پالیسی صرف وقتی اقدامات کا ملغوبہ نظر آتی ہے جس کی نہ کوئی سمت ہے نہ کوئی بنیاد۔ پی ٹی آئی کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی جماعت اسلامی نے بھی بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور مہنگائی و بیروزگاری کے خلاف مہم کا آغاز کردیا ہے۔ اپوزیشن کی دیگر پارٹیاں پہلے ہی اس کے خلاف تحریک چلانے کا تہیہ کیے بیٹھی ہیں۔
مزدور یونینز تنخواہوں اور پنشن میں 25 فیصد اضافہ، کم ازکم اجرت 30 ہزار اور ای او بی آئی پنشن کی رقم کم ازکم 15 ہزار کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اسد عمر نے بھی چینی کی قیمت میں اضافہ واپس لینے، تنخواہوں میں مزید 10 سے 15 فیصد اضافہ اور چھوٹی گاڑیوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ دوسری جانب حکومتی ترجمان یہ عذر پیش کر رہے ہیں کہ ہم چینی کی قیمتیں نہ بڑھاتے تو کہا جاتا کہ شوگر مالکان حکومت کا حصہ ہیں اس لیے ایسا نہیں کیا گیا۔ وزیر اعظم نے مہنگائی کو روکنے کے احکامات دے دیے ہیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ جب 10 ماہ میں 11 مرتبہ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کیا جاچکا ہے تو مہنگائی کی شرح کس طرح کم کی جاسکے گی؟
ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سال پاکستانیوں نے 240 ارب روپے کی رضاکارانہ خیرات نکالی، کسی بھی ناگہانی مصیبت اور سانحات کی گھڑیوں میں شہری حکومتی اداروں سے بڑھ چڑھ کر مالی امداد کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ لوگ ٹیکس ایمانداری سے کیوں ادا نہیں کرتے؟ اس کی بڑی وجہ ٹیکس وصولی کا نظام اس کے اہلکاروں پر عوام کا عدم اعتماد اور ٹیکس رقم کے غلط استعمال کے خدشات ہیں ۔ حالیہ بل میں ایف بی آر کو گھروں پر چھاپے مارنے کے اختیارات غیر ظاہر شدہ سونے، غیر ملکی کرنسی اور پرائز بانڈ ضبط کرنے کی بازگشت نے عوام میں سراسیمگی، خوف و ہراس اور مایوسی کی کیفیت پیدا کر دی ہے جس سے معاشی جمود کی کیفیت طاری ہوچکی ہے معاشی سرگرمیاں محدود ہوچکی ہیں۔ معیشت کے پہیے کو رواں دواں رکھنے اور غیر یقینی، مایوسی اور خوف و ہراس کی فضا کو ختم کرکے حکومتی اداروں پر شہریوں کے اعتماد کو بحال کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جو حکومت کے لیے ایک مشکل ہدف ہے اور حکومت کی سیاسی بقا کا تقاضا بھی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے۔
ملک بھر کے مزدور رہنماؤں ان کی تنظیموں نے کاروباری شخصیات اور ان کی تنظیموں نے اس بجٹ پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔ ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نے تو یکم جولائی سے اپنی فیکٹریاں بند کرنے کا اعلان کردیا ہے، جس سے لاکھوں مزدوروں کے بے روزگار ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت اور ایوان صنعت و تجارت کراچی ملک کی دیگر کاروباری و تجارتی تنظیموں نے بجٹ کو غیر اطمینان بخش قرار دیا ہے۔ عارف حبیب نے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے حکومت معاشی خودکشی پر اتر آئی ہے۔ معاشی ماہرین محصولات کے ہدف کو ناممکن قرار دے رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے نئے نوٹ چھاپنے اور مزید قرضہ لینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ جب کہ حکومت پہلے ہی 10 ماہ کے دوران 5 ہزار ارب روپے کے قرضہ لے چکی ہے۔
ملک کی اقتصادی صورتحال یہ ہے کہ معاشی ترقی کی شرح 6.2 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 3.3 فیصد رہی، زرعی شعبے میں شرح نمو 3.8 فیصد کے بجائے 0.85 رہی، صنعتی ترقی 7.6 فیصد کے بجائے 1.40 فیصد رہی۔ ڈالر کی مسلسل اڑان ملکی معیشت کو بے حال کر رہی ہے ، سونے کے نرخ عالمی مارکیٹ میں کم ہونے کے باوجود ہمارے ہاں روز افزوں بڑھ رہے ہیں، مہنگائی کی شرح بے تحاشا بڑھ جانے کے باوجود مخصوص اسکیل کے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں صرف 10 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے جو ٹیکس لگا کر واپس لے لیا جائے گا کم ازکم اجرت میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا ہے نہ اس کم ازکم معیار کو یقینی اور قابل عمل بنانے کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے ہیں۔
EOBI پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جو پانچ چھ ہزار پنشن لینے والے بزرگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ قومی بچت اسکیموں میں جن میں بڑی تعداد میں ریٹائرڈ ملازمین، معذور اور بیوائیں اپنی جمع پونجی رکھ کر جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کی کوششیں کرتے ہیں اس میں کسی اضافے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ موٹرسائیکلوں پر لائف ٹائم ٹیکس اور گاڑیوں پر سالانہ فی سیٹ جو ٹیکس عائد کیے گئے ہیں اس کا فوری اور براہ راست اثر غریب لوگوں پر پڑے گا جو موٹرسائیکلوں، ویگنوں اور بسوں وغیرہ میں سفر کرتے ہیں۔
جائیدادوں، کرایہ داری، بینک لین دین پر ٹیکسز کے سلسلے میں بھی عوام غیر یقینی اور خوف کی صورتحال سے دوچار ہیں، کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے بڑھا کر 63 سال کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے اس سے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا۔ حکومت کا اندازہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں 3 سال کا اضافہ کرکے وہ پنشن و دیگر واجبات کی مد میں ہر سال 24 ارب روپے اور تین سال کے دوران 72 ارب کی بچت کر سکے گی۔ لیکن 3 سال کے بعد جب ان ریٹائرڈ ملازمین کو مزید واجبات کے ساتھ ادائیگی کرنی ہوگی تو معاشی صورتحال کیا بنے گی؟
دوسری جانب ان تین سالوں میں ریٹائر ہونے والے 90 ہزار ملازمین کی جگہ 90 ہزار نوجوان سرکاری نوکریوں سے محروم رہ جائیں گے۔ بہت سوں کی ملازمت کی عمریں نکل جائیں گی جس سے بے روزگاری، احساس محرومی، مایوسی اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگا جب کہ پہلے ہی ملک میں بے روزگاری کا سیلاب ہے ملک کی آبادی کی اکثریت بھی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ خود پی ٹی آئی کو کامیاب کرانے میں بھی نوجوانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ پی ٹی آئی نے کروڑوں ملازمتیں دینے کے وعدے بھی کیے ہوئے ہیں۔ غربت و افلاس کے مارے لوگ پہلے ہی خودکشیاں کر رہے ہیں۔ اپنے گردے اور بچے بیچنے اور جرائم کرنے پر مجبور ہیں۔
حکومت 15 لاکھ عمرہ زائرین کو زیر بحث لاتے ہوئے ان لاکھوں لوگوں کی حالت زیست پر غور کیوں نہیں کرتی جو روزانہ خیرات خانوں اور ہوٹلوں کے فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر اپنے پیٹ کا جہنم بھرتے ہیں، لاکھوں بھوکے سو جاتے ہوں گے۔ اس ملک کا تو ایک ایک بھکاری بھی ہر اشیائے صرف پر کئی سطحی ٹیکس ادا کرکے اشرافیہ کو موجیں اڑانے کا موقعہ فراہم کرتا ہے لیکن ارباب اقتدار و اختیار کے پاس غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی پروگرام ہے نہ اس طرف ان کی توجہ ہے۔
اسمبلی میں قانون سازی و بجٹ سازی کے بجائے ہنگامہ خیزی اور الزام تراشیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے کچھ یہی حال ٹی وی ٹاک شوز کا ہے جہاں سیاستدان خوشآمد، دروغ گوئی، مبالغہ آرائی، جھوٹ در جھوٹ بول کر اپنی پاک دامنی اور مخالفین کی کردار کشی اپنا نصب العین بنائے ہوئے نظر آتے ہیں ، اسی پر ان کی پارٹی رینکنگ بنتی ہے۔ جس میں صلاحیت اورکارکردگی کا کوئی عمل دخل نظر نہیں آتا ہے۔ پچھلے ہفتے چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پارلیمنٹ دیکھیں تو ڈپریشن، معیشت کی خبریں مایوس کن، پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھتے ہیں تو اپوزیشن اور قائد ایوان کو بولنے نہیں دیا جاتا، معیشت کا سنتے ہیں کہ وہ آئی سی یو میں ہے۔
عوام و خواص میں یہ تاثر عام ہے کہ حکومتی اقتصادی ٹیم کا مقصد کسی بھی طریقے سے پیسہ اکٹھا کرنا ہے۔ حکومتی منتخب ارکان غیر منتخب ماہرین کا دفاع اور حکومتی ترجمان اپنے بیانات سے حکومت چلاتے نظر آ رہے ہیں جس سے ان کی سیاسی ساکھ اور سیاسی مستقبل داؤ پر لگ گئے ہیں۔ حکومتی پالیسی صرف وقتی اقدامات کا ملغوبہ نظر آتی ہے جس کی نہ کوئی سمت ہے نہ کوئی بنیاد۔ پی ٹی آئی کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی جماعت اسلامی نے بھی بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور مہنگائی و بیروزگاری کے خلاف مہم کا آغاز کردیا ہے۔ اپوزیشن کی دیگر پارٹیاں پہلے ہی اس کے خلاف تحریک چلانے کا تہیہ کیے بیٹھی ہیں۔
مزدور یونینز تنخواہوں اور پنشن میں 25 فیصد اضافہ، کم ازکم اجرت 30 ہزار اور ای او بی آئی پنشن کی رقم کم ازکم 15 ہزار کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اسد عمر نے بھی چینی کی قیمت میں اضافہ واپس لینے، تنخواہوں میں مزید 10 سے 15 فیصد اضافہ اور چھوٹی گاڑیوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ دوسری جانب حکومتی ترجمان یہ عذر پیش کر رہے ہیں کہ ہم چینی کی قیمتیں نہ بڑھاتے تو کہا جاتا کہ شوگر مالکان حکومت کا حصہ ہیں اس لیے ایسا نہیں کیا گیا۔ وزیر اعظم نے مہنگائی کو روکنے کے احکامات دے دیے ہیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ جب 10 ماہ میں 11 مرتبہ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کیا جاچکا ہے تو مہنگائی کی شرح کس طرح کم کی جاسکے گی؟
ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سال پاکستانیوں نے 240 ارب روپے کی رضاکارانہ خیرات نکالی، کسی بھی ناگہانی مصیبت اور سانحات کی گھڑیوں میں شہری حکومتی اداروں سے بڑھ چڑھ کر مالی امداد کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ لوگ ٹیکس ایمانداری سے کیوں ادا نہیں کرتے؟ اس کی بڑی وجہ ٹیکس وصولی کا نظام اس کے اہلکاروں پر عوام کا عدم اعتماد اور ٹیکس رقم کے غلط استعمال کے خدشات ہیں ۔ حالیہ بل میں ایف بی آر کو گھروں پر چھاپے مارنے کے اختیارات غیر ظاہر شدہ سونے، غیر ملکی کرنسی اور پرائز بانڈ ضبط کرنے کی بازگشت نے عوام میں سراسیمگی، خوف و ہراس اور مایوسی کی کیفیت پیدا کر دی ہے جس سے معاشی جمود کی کیفیت طاری ہوچکی ہے معاشی سرگرمیاں محدود ہوچکی ہیں۔ معیشت کے پہیے کو رواں دواں رکھنے اور غیر یقینی، مایوسی اور خوف و ہراس کی فضا کو ختم کرکے حکومتی اداروں پر شہریوں کے اعتماد کو بحال کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جو حکومت کے لیے ایک مشکل ہدف ہے اور حکومت کی سیاسی بقا کا تقاضا بھی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے۔