آرٹی فیشل انٹیلی جینس مصنوعی ذہانت
اگر آپ کو اپنا مستقبل محفوظ بنانا ہے تو مصنوعی ذہانت کو پڑھے بغیر کوئی چارہ نہیں
آرٹی فیشل انٹیلی جینس (مصنوعی ذہانت) یا عرفِ عام میں اے آئی (A.I) کمپیوٹر سائنس کی سب سے دلچسپ شاخ ہے۔ اے آئی میں آپ کمپیوٹرسائنس کے علاوہ نیورولوجی، انسانی طرزِ عمل (Human behavior)، سماعت، بصارت، حرکت، سائیکالوجی اور ایسی ہی دیگر شاخوں کے متعلق بھی پڑھتے ہیں۔
کیا کمپیوٹر خود سے سوچنے سمجھنے کے قابل ہوجائیں گے؟
کیا انہیں معلوم ہوگا کہ وہ کیا کررہے ہیں؟
کیا وہ خود اپنے وجود سے آگاہ (Self-Aware) ہوسکیں گے؟
کیا وہ نئے اور پیچیدہ حالات میں خود سے فیصلہ کرسکیں گے؟
کیا کمپیوٹر اپنے آپ کو خود ٹھیک کرسکیں گے؟
ایسے میں کیا وہ احکامات کی پابندی کریں گے، اخلاقیات اور معاشرتی ضابطوں کی پاسداری کریں گے؟
یہ ہیں وہ سوالات جن کے جوابات جاننے کےلیے اے آئی اب تک سرگرداں ہے۔
کمپیوٹر کا آواز کو سن کر لکھنا (Speech Recognition)، تصویروں کی شناخت کرنا، شطرنج میں عالمی چیمپئن کو شکست دینا، خودکار گاڑیاں چلانا، لوگوں کی آواز اور ویڈیو کی نقل بنانا، آئندہ ہونے والی خریداری اور گاہک کے بارے میں پیش گوئی کرنا اور سیارہ مریخ پر زندگی کی تلاش جیسے کام کرنے کے بارے میں آپ رپورٹس پڑھ ہی چکے ہوں گے۔
امریکی فضائیہ میں شامل ''ایلٹس'' (ALTUS) نامی طیارہ، ایک بار کمانڈ ملنے کے بعد ہینگر سے نکل کر خودبخود ٹیک آف کرتا ہے، مطلوبہ جگہ تک پہنچتا ہے، اس کی ویڈیو بناتا ہے اور پھر واپس اتر کر اپنے ہینگر میں چلا جاتا ہے... اور یہ سارا کام وہ بغیر کسی انسانی مدد کے کرتا ہے۔
نیوکلیئر پلانٹس، کیمیکل فیکٹریز اور ان جیسے بہت سے مقامات جہاں انسانی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، وہاں آج جدید ملکوں میں کمپیوٹر نے اہم کام اپنے سر لیے ہوئے ہیں۔
مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) کا نام امریکی کمپیوٹر سائنسدان جان مکارتھی نے 1956 میں متعارف کروایا۔ ان کے مطابق انسانی دماغ ایک پیچیدہ کمپیوٹر ہے جو اپنی ''اِن پٹ ڈیوائسز'' یعنی حواس خمسہ سے ڈیٹا لے کر انہیں ''پروسیس'' کرتا ہے اور جواب دیتا ہے۔ اگر ہم انسان کے ہر ہر طرزِ عمل/ برتاؤ کو اتنی باریکی سے سمجھ لیں کہ اسے کوڈ کیا جاسکے تو ہم مشینی دماغ بناسکتے ہیں۔
یہاں ایمرسن پیوگ کا 1977 کا مشہور زمانہ قول لکھنا چاہتا ہوں: ''اگر انسانی دماغ اتنا سادہ ہوتا کہ اسے آسانی سے سمجھا جاسکتا، تو ہم خود اتنے سادہ ہوتے کہ اسے نہ سمجھ سکتے۔''
یوں تو ذہانت کی کوئی باضابطہ تعریف نہیں مگر کچھ برتاؤ (behaviors) ہیں جن کےلیے ذہانت درکار ہوتی ہے۔ مثلاً منطق، دلیل، پیش گوئی، ہمدردی اور نئے حالات میں فیصلہ کرنا وغیرہ۔
اب اگر کوئی پروگرامر دعوی کرے کہ اس نے ''ذہین کمپیوٹر'' بنا لیا ہے، تو اس کے دعوے کو کیسے پرکھا جائے گا؟ اس سوال کا جواب مشہور ریاضی داں ایلن ٹیورنگ نے اپنے مشہورِ زمانہ ''ٹیورنگ ٹیسٹ'' کے عنوان سے 1950 میں دیا تھا: ''ایک آدمی سوالات پوچھے اور دیوار کے دوسری طرف سے ایک اور آدمی یا کمپیوٹر اسے جواب دے۔ اگر آدمی نہ بتاسکے کہ جواب دینے والا انسان ہے یا کمپیوٹر، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جواب دینے والا کمپیوٹر 'ذہین' ہے۔''
ٹیورنگ نے پیش گوئی کی تھی کہ 2000 تک کمپیوٹر یہ ٹیسٹ پاس کر جائے گا، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اس ٹیسٹ کو پاس کرنے کی غرض سے ہر سال ''لوئبنر پرائز'' (Loebner Prize) کےلیے مقابلہ ہوتا ہے۔ یہ 1991 سے شروع ہوا ہے اور اس کا انعام ایک لاکھ ڈالر ہے۔ مصنوعی ذہانت کا ایک اور مشہور سالانہ مقابلہ ''روبو کپ'' ہے جس میں کمپیوٹرائزڈ روبوٹس ایک دوسرے کے خلاف فٹ بال کھیلتے ہیں، بغیر انسانی مداخلت کے! روبو کپ مقابلے کا مقصد 2050 تک ایسے روبوٹس تیار کرنا ہے جو روبو کپ 2050 میں انسانوں پر مشتمل امریکی ٹیم کو ہرا سکیں۔ یہ دونوں چیلنج خاصے مشکل ہیں مگر بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے بعد بھی اس بات کا فیصلہ نہیں ہوسکے گا کہ کیا واقعی کمپیوٹر ''سوچنے'' کے قابل ہوگیا ہے۔
1970 میں مصنوعی ذہانت کی شاخ ''نیچرل لینگویج پروسیسنگ'' کو استعمال کرتے ہوئے پروگرامز بنائے گئے جو زبان کے اصول، گرامر اور معنی کو مدِنظر رکھتے ہوئے عام فہم سوالوں کے جوابات دے سکتے تھے۔ مثلا کمپیوٹر کو یہ کہانی دی جائے:
''اسلم ہوٹل میں گیا اور بریانی اور زردہ آرڈر کیا۔ بیرے نے بتایا کہ زردہ نہیں، تو اس نے ربڑی منگوالی۔ کھانے کے بعد اس کا موڈ بہت خراب تھا۔''
اس اسٹوری کے بعد کمپیوٹر ان سوالات کے جوابات دے سکتا ہے:
اسلم نے کیا کھایا؟ اسلم نے زردہ کھایا یا نہیں؟ اسلم نے ربڑی کیوں منگوائی؟ اسلم کو کھانا پسند آیا یا نہیں؟ وغیرہ۔
جہاں بہت سے سائنس دان ان پروگرامز کو ''ذہین کمپیوٹر'' کی طرف ایک بڑی پیش رفت خیال کرتے ہیں وہیں امریکی فلسفی جان سرل (John Searle) اس سے انکاری ہیں۔ 1980 میں اپنے ایک آرٹیکل ''Mind, Brains and Programs'' میں جان کا کہنا ہے کہ انسان زبان کو سنٹیکس (Syntax) اور سمینٹکس (Semantics) دو طرح سے پروسیس کرنا ہے۔ جب ہم کوئی کہانی سنتے ہیں تو ہم زبان کی گرامر کے علاوہ ہر ہر واقعہ کو مختلف احساسات سے جوڑتے بھی چلے جاتے ہیں؛ جبکہ کمپیوٹر صرف سنٹیکس سمجھتا ہے، وہ بھی دیئے گئے کوڈ کے مطابق۔ اپنے اسی نظرئیے کو ثابت کرنے کےلیے انہوں نے ''چائنیز روم'' کی تھیوری پیش کی۔
''فرض کیجیے کہ آپ ایک کمرے میں بند ہیں جس میں ہر طرف الماریوں میں مختلف کارڈز پڑے ہوئے ہیں جو سب کے سب چائنیز زبان میں لکھے ہوئے ہیں، یہ سب سوال و جواب ہیں۔ کمرے میں صرف ایک کھڑکی ہے، جس سے باہر موجود لوگ (جو چائنیز زبان جانتے ہیں) اپنے سوالات ایک کارڈ پر لکھ کر کھڑکی سے اندر ڈالتے ہیں۔ آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ ملنے والے سوال کی علامات (Symbols) کو دیکھ کر ویسی ہی علامات والا کارڈ انہیں واپس کردیں۔ یہ ان کے سوال کا جواب ہوگا۔ اب باہر موجود لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ آپ کو چینی زبان آتی ہے جبکہ آپ کو چائنیز نہیں آتی۔'' اسی طرح کمپیوٹر کے جوابات دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ کی بات سمجھ رہا ہے، اور ٹیورنگ ٹیسٹ سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ کمپیوٹر ذہین ہے۔
چائنیز روم کی مخالفت میں بہت سی دلیلیں اور تصویریں دی گئیں۔ مثلاً ایک تھیوری میں، جو ''سسٹمز ریپلائی'' (Systems Reply) کہلائی، کہا گیا کہ روم، کارڈ، اور کارڈز کو پڑھنے اور جواب دینے کا طریقہ کار اجتماعی طور پر ''ذہانت'' کہلائے گا۔
دوسری مشہور تھیوری ''کنیکشنسٹ ریپلائی'' (Connectionist Reply) کہلائی، جس میں کہا گیا کہ فرض کیجیے کمرے میں بہت سے آدمی ہیں اور ہر کوئی چائنیز کے کچھ الفاظ یا جملے جانتا ہے، اب ہر ہر شخص تو ذہین نہ ہوا مگر اجتماعی طور پر ''روم'' کو چائنیز آتی ہے۔
یہ بحث آج تک جاری ہے اور دونوں اطراف سے دلیلیں آتی رہتی ہیں۔ بہرحال، اس تھیوری نے 1980 کی دہائی میں اے آئی اور اس سے متعلق پروجیکٹس کو ملنے والی فنڈنگ تقریباً ختم کرکے رکھ دی تھی۔
مارون منسکی کے بقول، ''ڈیجیٹل کمپیوٹر ہر چیز کی نقل کر سکتا ہے، اور سوچنے کی نقل 'سوچنا' ہوا۔''
کیا انسانی رویّے کی نقل ہی ذہانت ہے جیسا کہ ٹیورنگ نے کہا؛ یا اس کےلیے احساسات و جذبات کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ جان سرل کا کہنا ہے۔ آرٹی فیشل انٹلی جینس کو سمجھنے کےلیے لفظ ''آرٹی فیشل'' (مصنوعی) پر غور کیجیے۔ مثلاً مصنوعی ذائقہ (Artificial Flavor)۔ اب اگر ہم ایسی ہی ذہانت (Intelligence) بنا کر کمپیوٹر کو دے سکیں اور کمپیوٹر انسانوں کی طرح کام کرنے لگے تو یہ ذہین کمپیوٹر کہلائے گا۔
جان سرل کے مطابق یہ ''مضبوط اے آئی'' (Strong A.I) ہے اور اس کا حصول ناممکن ہے۔ یہ آپ کو صرف سائنس فکشن فلموں میں ہی ملے گی۔ ہاں! اگر کمپیوٹر انسانوں کے کچھ رویّے، کچھ طرزِ عمل، کچھ برتاؤ کی نقل کرسکیں تو یہ ممکن ہے؛ اور جان سرل اسے ''کمزور اے آئی'' (Weak A.I) کہتے ہیں۔
کمزور اے آئی کا مقصد کارآمد کمپیوٹر پروگرامز ہیں اور مضبوط اے آئی کا مقصد 'خودکار دماغ' ہے۔ پوری اے آئی کمیونٹی ان دو گروپس میں بٹی ہوئی ہے۔
انسان بہت سی خصوصیات کا حامل ہے اور اس کے ذہین ہونے میں یہ چند خصوصیات اہم ہیں: سیکھنا، پرکھنا، یادداشت، جذبات و احساسات، اپنے بارے میں اور اردگرد موجود چیزوں کا شعور (consciousness)، ارادہ اور سمجھنا۔
ایم آئی ٹی کے سائنسدانوں نے ایک انتہائی مہنگا کمپیوٹرائزڈ روبوٹ ''قسمت'' (KISMET) بنایا ہے جو مسکرانے، ناراض ہونے، خوشی اور غمی عکاسی کرسکتا ہے۔ یہ ایک آنکھوں اور ہونٹ والا روبوٹک چہرہ ہے۔
بہت سے یونانی فلاسفرز کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ ذہن (Mind) کی وجہ سے ہوتاہے اور ''ذہن'' انسانی دل میں ہوتا ہے۔ مگر کچھ نے اسے دماغ (Brain) میں بتایا۔ افلاطون انہی میں سے ایک تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ذہن کا طبیعی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ سولہویں صدی کا عظیم فرانسیسی فلسفی اور ریاضی دان رینے دیکارتے (René Descartes) بھی اسی نظرئیے کا قائل تھا اور یہ نظریہ ''ڈیوئل اِزم'' (Dualism) یعنی دوہرے پن کا تصور کہلایا۔
دیکارتے نے ایک بھیڑ کی مدد سے ثابت کیا کہ جو کچھ بھی بھیڑ کی آنکھ دیکھتی ہے، اس کا عکس، اس بھیڑ کے ذہن کو جاتا ہے اور وہ اس عکس کو دیکھنے کے بعد اس کی تشریح کرتا ہے۔
انیسویں صدی کے اوائل میں آسٹریا کے نفسیات داں سگمنڈ فرائیڈ فریڈ نے ''ذہن'' کے مطالعے پر جدید نفسیات کی بنیاد رکھی اور ''انٹیلی جنٹ کوشنٹ'' (IQ)، غیر شعوری خیالات اور خوابوں کا نظریہ دیا۔ فریڈ کی 'Unconcious Drives' (لاشعوری محرکات) پر تحقیق ایک قابلِ قدر کام ہے۔
1930 میں نیورونز (اعصابی خلیات) پر کام کی داغ بیل پڑی اور سائنسدانوں نے کھوج لگانی شروع کی کہ دماغ میں موجود کروڑوں اربوں اعصابی خلیات کس طرح یادداشت، اکتساب (سیکھنے کے عمل) اور ادراک (Perception) جیسے امور سر انجام دیتے ہیں۔
آج کل مصنوعی ذہانت نے روزمرہ نوکریوں کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اے آئی سن 2030 تک آٹھ کروڑ نوکریاں انسانوں سے چھین کر کمپیوٹروں کے حوالے کردے گی۔ اگر آپ کو اپنا مستقبل محفوظ بنانا ہے تو مصنوعی ذہانت کو پڑھے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا کمپیوٹر خود سے سوچنے سمجھنے کے قابل ہوجائیں گے؟
کیا انہیں معلوم ہوگا کہ وہ کیا کررہے ہیں؟
کیا وہ خود اپنے وجود سے آگاہ (Self-Aware) ہوسکیں گے؟
کیا وہ نئے اور پیچیدہ حالات میں خود سے فیصلہ کرسکیں گے؟
کیا کمپیوٹر اپنے آپ کو خود ٹھیک کرسکیں گے؟
ایسے میں کیا وہ احکامات کی پابندی کریں گے، اخلاقیات اور معاشرتی ضابطوں کی پاسداری کریں گے؟
یہ ہیں وہ سوالات جن کے جوابات جاننے کےلیے اے آئی اب تک سرگرداں ہے۔
کمپیوٹر کا آواز کو سن کر لکھنا (Speech Recognition)، تصویروں کی شناخت کرنا، شطرنج میں عالمی چیمپئن کو شکست دینا، خودکار گاڑیاں چلانا، لوگوں کی آواز اور ویڈیو کی نقل بنانا، آئندہ ہونے والی خریداری اور گاہک کے بارے میں پیش گوئی کرنا اور سیارہ مریخ پر زندگی کی تلاش جیسے کام کرنے کے بارے میں آپ رپورٹس پڑھ ہی چکے ہوں گے۔
امریکی فضائیہ میں شامل ''ایلٹس'' (ALTUS) نامی طیارہ، ایک بار کمانڈ ملنے کے بعد ہینگر سے نکل کر خودبخود ٹیک آف کرتا ہے، مطلوبہ جگہ تک پہنچتا ہے، اس کی ویڈیو بناتا ہے اور پھر واپس اتر کر اپنے ہینگر میں چلا جاتا ہے... اور یہ سارا کام وہ بغیر کسی انسانی مدد کے کرتا ہے۔
نیوکلیئر پلانٹس، کیمیکل فیکٹریز اور ان جیسے بہت سے مقامات جہاں انسانی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، وہاں آج جدید ملکوں میں کمپیوٹر نے اہم کام اپنے سر لیے ہوئے ہیں۔
مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) کا نام امریکی کمپیوٹر سائنسدان جان مکارتھی نے 1956 میں متعارف کروایا۔ ان کے مطابق انسانی دماغ ایک پیچیدہ کمپیوٹر ہے جو اپنی ''اِن پٹ ڈیوائسز'' یعنی حواس خمسہ سے ڈیٹا لے کر انہیں ''پروسیس'' کرتا ہے اور جواب دیتا ہے۔ اگر ہم انسان کے ہر ہر طرزِ عمل/ برتاؤ کو اتنی باریکی سے سمجھ لیں کہ اسے کوڈ کیا جاسکے تو ہم مشینی دماغ بناسکتے ہیں۔
یہاں ایمرسن پیوگ کا 1977 کا مشہور زمانہ قول لکھنا چاہتا ہوں: ''اگر انسانی دماغ اتنا سادہ ہوتا کہ اسے آسانی سے سمجھا جاسکتا، تو ہم خود اتنے سادہ ہوتے کہ اسے نہ سمجھ سکتے۔''
یوں تو ذہانت کی کوئی باضابطہ تعریف نہیں مگر کچھ برتاؤ (behaviors) ہیں جن کےلیے ذہانت درکار ہوتی ہے۔ مثلاً منطق، دلیل، پیش گوئی، ہمدردی اور نئے حالات میں فیصلہ کرنا وغیرہ۔
اب اگر کوئی پروگرامر دعوی کرے کہ اس نے ''ذہین کمپیوٹر'' بنا لیا ہے، تو اس کے دعوے کو کیسے پرکھا جائے گا؟ اس سوال کا جواب مشہور ریاضی داں ایلن ٹیورنگ نے اپنے مشہورِ زمانہ ''ٹیورنگ ٹیسٹ'' کے عنوان سے 1950 میں دیا تھا: ''ایک آدمی سوالات پوچھے اور دیوار کے دوسری طرف سے ایک اور آدمی یا کمپیوٹر اسے جواب دے۔ اگر آدمی نہ بتاسکے کہ جواب دینے والا انسان ہے یا کمپیوٹر، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جواب دینے والا کمپیوٹر 'ذہین' ہے۔''
ٹیورنگ نے پیش گوئی کی تھی کہ 2000 تک کمپیوٹر یہ ٹیسٹ پاس کر جائے گا، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اس ٹیسٹ کو پاس کرنے کی غرض سے ہر سال ''لوئبنر پرائز'' (Loebner Prize) کےلیے مقابلہ ہوتا ہے۔ یہ 1991 سے شروع ہوا ہے اور اس کا انعام ایک لاکھ ڈالر ہے۔ مصنوعی ذہانت کا ایک اور مشہور سالانہ مقابلہ ''روبو کپ'' ہے جس میں کمپیوٹرائزڈ روبوٹس ایک دوسرے کے خلاف فٹ بال کھیلتے ہیں، بغیر انسانی مداخلت کے! روبو کپ مقابلے کا مقصد 2050 تک ایسے روبوٹس تیار کرنا ہے جو روبو کپ 2050 میں انسانوں پر مشتمل امریکی ٹیم کو ہرا سکیں۔ یہ دونوں چیلنج خاصے مشکل ہیں مگر بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے بعد بھی اس بات کا فیصلہ نہیں ہوسکے گا کہ کیا واقعی کمپیوٹر ''سوچنے'' کے قابل ہوگیا ہے۔
1970 میں مصنوعی ذہانت کی شاخ ''نیچرل لینگویج پروسیسنگ'' کو استعمال کرتے ہوئے پروگرامز بنائے گئے جو زبان کے اصول، گرامر اور معنی کو مدِنظر رکھتے ہوئے عام فہم سوالوں کے جوابات دے سکتے تھے۔ مثلا کمپیوٹر کو یہ کہانی دی جائے:
''اسلم ہوٹل میں گیا اور بریانی اور زردہ آرڈر کیا۔ بیرے نے بتایا کہ زردہ نہیں، تو اس نے ربڑی منگوالی۔ کھانے کے بعد اس کا موڈ بہت خراب تھا۔''
اس اسٹوری کے بعد کمپیوٹر ان سوالات کے جوابات دے سکتا ہے:
اسلم نے کیا کھایا؟ اسلم نے زردہ کھایا یا نہیں؟ اسلم نے ربڑی کیوں منگوائی؟ اسلم کو کھانا پسند آیا یا نہیں؟ وغیرہ۔
جہاں بہت سے سائنس دان ان پروگرامز کو ''ذہین کمپیوٹر'' کی طرف ایک بڑی پیش رفت خیال کرتے ہیں وہیں امریکی فلسفی جان سرل (John Searle) اس سے انکاری ہیں۔ 1980 میں اپنے ایک آرٹیکل ''Mind, Brains and Programs'' میں جان کا کہنا ہے کہ انسان زبان کو سنٹیکس (Syntax) اور سمینٹکس (Semantics) دو طرح سے پروسیس کرنا ہے۔ جب ہم کوئی کہانی سنتے ہیں تو ہم زبان کی گرامر کے علاوہ ہر ہر واقعہ کو مختلف احساسات سے جوڑتے بھی چلے جاتے ہیں؛ جبکہ کمپیوٹر صرف سنٹیکس سمجھتا ہے، وہ بھی دیئے گئے کوڈ کے مطابق۔ اپنے اسی نظرئیے کو ثابت کرنے کےلیے انہوں نے ''چائنیز روم'' کی تھیوری پیش کی۔
''فرض کیجیے کہ آپ ایک کمرے میں بند ہیں جس میں ہر طرف الماریوں میں مختلف کارڈز پڑے ہوئے ہیں جو سب کے سب چائنیز زبان میں لکھے ہوئے ہیں، یہ سب سوال و جواب ہیں۔ کمرے میں صرف ایک کھڑکی ہے، جس سے باہر موجود لوگ (جو چائنیز زبان جانتے ہیں) اپنے سوالات ایک کارڈ پر لکھ کر کھڑکی سے اندر ڈالتے ہیں۔ آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ ملنے والے سوال کی علامات (Symbols) کو دیکھ کر ویسی ہی علامات والا کارڈ انہیں واپس کردیں۔ یہ ان کے سوال کا جواب ہوگا۔ اب باہر موجود لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ آپ کو چینی زبان آتی ہے جبکہ آپ کو چائنیز نہیں آتی۔'' اسی طرح کمپیوٹر کے جوابات دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ کی بات سمجھ رہا ہے، اور ٹیورنگ ٹیسٹ سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ کمپیوٹر ذہین ہے۔
چائنیز روم کی مخالفت میں بہت سی دلیلیں اور تصویریں دی گئیں۔ مثلاً ایک تھیوری میں، جو ''سسٹمز ریپلائی'' (Systems Reply) کہلائی، کہا گیا کہ روم، کارڈ، اور کارڈز کو پڑھنے اور جواب دینے کا طریقہ کار اجتماعی طور پر ''ذہانت'' کہلائے گا۔
دوسری مشہور تھیوری ''کنیکشنسٹ ریپلائی'' (Connectionist Reply) کہلائی، جس میں کہا گیا کہ فرض کیجیے کمرے میں بہت سے آدمی ہیں اور ہر کوئی چائنیز کے کچھ الفاظ یا جملے جانتا ہے، اب ہر ہر شخص تو ذہین نہ ہوا مگر اجتماعی طور پر ''روم'' کو چائنیز آتی ہے۔
یہ بحث آج تک جاری ہے اور دونوں اطراف سے دلیلیں آتی رہتی ہیں۔ بہرحال، اس تھیوری نے 1980 کی دہائی میں اے آئی اور اس سے متعلق پروجیکٹس کو ملنے والی فنڈنگ تقریباً ختم کرکے رکھ دی تھی۔
مارون منسکی کے بقول، ''ڈیجیٹل کمپیوٹر ہر چیز کی نقل کر سکتا ہے، اور سوچنے کی نقل 'سوچنا' ہوا۔''
کیا انسانی رویّے کی نقل ہی ذہانت ہے جیسا کہ ٹیورنگ نے کہا؛ یا اس کےلیے احساسات و جذبات کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ جان سرل کا کہنا ہے۔ آرٹی فیشل انٹلی جینس کو سمجھنے کےلیے لفظ ''آرٹی فیشل'' (مصنوعی) پر غور کیجیے۔ مثلاً مصنوعی ذائقہ (Artificial Flavor)۔ اب اگر ہم ایسی ہی ذہانت (Intelligence) بنا کر کمپیوٹر کو دے سکیں اور کمپیوٹر انسانوں کی طرح کام کرنے لگے تو یہ ذہین کمپیوٹر کہلائے گا۔
جان سرل کے مطابق یہ ''مضبوط اے آئی'' (Strong A.I) ہے اور اس کا حصول ناممکن ہے۔ یہ آپ کو صرف سائنس فکشن فلموں میں ہی ملے گی۔ ہاں! اگر کمپیوٹر انسانوں کے کچھ رویّے، کچھ طرزِ عمل، کچھ برتاؤ کی نقل کرسکیں تو یہ ممکن ہے؛ اور جان سرل اسے ''کمزور اے آئی'' (Weak A.I) کہتے ہیں۔
کمزور اے آئی کا مقصد کارآمد کمپیوٹر پروگرامز ہیں اور مضبوط اے آئی کا مقصد 'خودکار دماغ' ہے۔ پوری اے آئی کمیونٹی ان دو گروپس میں بٹی ہوئی ہے۔
انسان بہت سی خصوصیات کا حامل ہے اور اس کے ذہین ہونے میں یہ چند خصوصیات اہم ہیں: سیکھنا، پرکھنا، یادداشت، جذبات و احساسات، اپنے بارے میں اور اردگرد موجود چیزوں کا شعور (consciousness)، ارادہ اور سمجھنا۔
ایم آئی ٹی کے سائنسدانوں نے ایک انتہائی مہنگا کمپیوٹرائزڈ روبوٹ ''قسمت'' (KISMET) بنایا ہے جو مسکرانے، ناراض ہونے، خوشی اور غمی عکاسی کرسکتا ہے۔ یہ ایک آنکھوں اور ہونٹ والا روبوٹک چہرہ ہے۔
بہت سے یونانی فلاسفرز کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ ذہن (Mind) کی وجہ سے ہوتاہے اور ''ذہن'' انسانی دل میں ہوتا ہے۔ مگر کچھ نے اسے دماغ (Brain) میں بتایا۔ افلاطون انہی میں سے ایک تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ذہن کا طبیعی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ سولہویں صدی کا عظیم فرانسیسی فلسفی اور ریاضی دان رینے دیکارتے (René Descartes) بھی اسی نظرئیے کا قائل تھا اور یہ نظریہ ''ڈیوئل اِزم'' (Dualism) یعنی دوہرے پن کا تصور کہلایا۔
دیکارتے نے ایک بھیڑ کی مدد سے ثابت کیا کہ جو کچھ بھی بھیڑ کی آنکھ دیکھتی ہے، اس کا عکس، اس بھیڑ کے ذہن کو جاتا ہے اور وہ اس عکس کو دیکھنے کے بعد اس کی تشریح کرتا ہے۔
انیسویں صدی کے اوائل میں آسٹریا کے نفسیات داں سگمنڈ فرائیڈ فریڈ نے ''ذہن'' کے مطالعے پر جدید نفسیات کی بنیاد رکھی اور ''انٹیلی جنٹ کوشنٹ'' (IQ)، غیر شعوری خیالات اور خوابوں کا نظریہ دیا۔ فریڈ کی 'Unconcious Drives' (لاشعوری محرکات) پر تحقیق ایک قابلِ قدر کام ہے۔
1930 میں نیورونز (اعصابی خلیات) پر کام کی داغ بیل پڑی اور سائنسدانوں نے کھوج لگانی شروع کی کہ دماغ میں موجود کروڑوں اربوں اعصابی خلیات کس طرح یادداشت، اکتساب (سیکھنے کے عمل) اور ادراک (Perception) جیسے امور سر انجام دیتے ہیں۔
آج کل مصنوعی ذہانت نے روزمرہ نوکریوں کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اے آئی سن 2030 تک آٹھ کروڑ نوکریاں انسانوں سے چھین کر کمپیوٹروں کے حوالے کردے گی۔ اگر آپ کو اپنا مستقبل محفوظ بنانا ہے تو مصنوعی ذہانت کو پڑھے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔