Fibrodysplasia Ossificans Progressiva FOP آخر یہ کیا بیماری ہے
میڈیسن کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جب نارمل آرگن سسٹم بدل کر دوسرے سسٹم میں چلا گیا ہو۔
یہ ایک ایسی نادر اور عجیب قسم کی بیماری ہے جو جینیاتی کیفیات کو بالکل ہی کام کرنے کے قابل نہیں رہنے دیتی اور سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ میڈیسن کا شعبہ ان کیفیات کو سمجھنے سے ہی قاصر ہے۔اس کی وجہ سے جسم کے تمام عضلات، نسیں، رباط اور دوسرے connective tissues اکڑ کر اور سخت ہوکر ہڈی بن جاتے ہیں اور انسان خود کو پتھر بنا ہوا محسوس کرتا ہے اس فاضل ہڈی کے ساتھ پشت پر یا ریڑھ کی ہڈی پر ایکسٹرا ہڈی آہستہ آہستہ پیدا ہوتی چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے متاثرہ شخص کو نقل و حرکت میں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک نیا استخوانی ڈھانچا وجود میں آجاتا ہے جس کے بعد پورا جسم ہی ہڈی کا قیدی بن جاتا ہے۔
میڈیسن کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جب نارمل آرگن سسٹم بدل کر دوسرے سسٹم میں چلا گیا ہو۔ اس FOP کے نتیجے میں آخر کار متاثرہ فرد اس وقت موت کا شکار ہوجاتا ہے جب اس کا cartilage یعنی کرکرا حصہ جس کی وجہ سے پسلیاں جڑی ہوتی ہیں اور ان کی وجہ سے وہ مضبوط بھی ہوتی ہیں، انہی کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔اس عارضے میں مبتلا مریض بعد میں سانس گھٹنے کی وجہ سے دل کے دورے کا شکار بھی ہوسکتے ہیں، کیوں کہ ان کے جسم کو مطلوبہ آکسیجن نہیں مل پاتی۔
وہ جب نو سال کی تھی تو ایک حادثے کے دوران وہ زخمی ہوگئی تھی۔ اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ ٹھیک ہے اور جلد ہی مزید سیر و تفریح کے لیے باہر جانا چاہتی تھی۔ مگر کچھ روز بعد اس کی کمر میں درد ہونے لگا تو اس کے والدین نے اس کی کمر کا جائزہ لیا تو انہیں اس کی کمر سوجی ہوئی محسوس ہوئی۔ اسے فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا تو بتایا گیا کہ وہFOP کا شکار ہوگئی ہے۔
اس کیفیت کی رفتار ہر مریض میں مختلف ہوتی ہے، اس کا کوئی علاج موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد اسے اسکول میں کھیلوں میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ جب اس کی عمر 13سال ہوئی تو وہ اپنی اس عجیب بیماری کے بارے میں سمجھنے بھی لگی اور جان بھی گئی اور وہ کس کیفیت میں مبتلا ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود نہ وہ اپنی اس کیفیت سے پریشان ہے اور نہ مایوس، وہ سمجھتی ہے کہ جلد ہی اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔
میڈیسن کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جب نارمل آرگن سسٹم بدل کر دوسرے سسٹم میں چلا گیا ہو۔ اس FOP کے نتیجے میں آخر کار متاثرہ فرد اس وقت موت کا شکار ہوجاتا ہے جب اس کا cartilage یعنی کرکرا حصہ جس کی وجہ سے پسلیاں جڑی ہوتی ہیں اور ان کی وجہ سے وہ مضبوط بھی ہوتی ہیں، انہی کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔اس عارضے میں مبتلا مریض بعد میں سانس گھٹنے کی وجہ سے دل کے دورے کا شکار بھی ہوسکتے ہیں، کیوں کہ ان کے جسم کو مطلوبہ آکسیجن نہیں مل پاتی۔
وہ جب نو سال کی تھی تو ایک حادثے کے دوران وہ زخمی ہوگئی تھی۔ اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ ٹھیک ہے اور جلد ہی مزید سیر و تفریح کے لیے باہر جانا چاہتی تھی۔ مگر کچھ روز بعد اس کی کمر میں درد ہونے لگا تو اس کے والدین نے اس کی کمر کا جائزہ لیا تو انہیں اس کی کمر سوجی ہوئی محسوس ہوئی۔ اسے فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا تو بتایا گیا کہ وہFOP کا شکار ہوگئی ہے۔
اس کیفیت کی رفتار ہر مریض میں مختلف ہوتی ہے، اس کا کوئی علاج موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد اسے اسکول میں کھیلوں میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ جب اس کی عمر 13سال ہوئی تو وہ اپنی اس عجیب بیماری کے بارے میں سمجھنے بھی لگی اور جان بھی گئی اور وہ کس کیفیت میں مبتلا ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود نہ وہ اپنی اس کیفیت سے پریشان ہے اور نہ مایوس، وہ سمجھتی ہے کہ جلد ہی اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔