الٹا گھومتا معیشت کا پہیہ
اپوزیشن نے جو دنگل سجایا تھا وہ نورا کشتی کا ایک مظاہرہ تھا لہٰذا کسی تحریک کا کوئی امکان نہیں۔
جس طرح اب قرطاس کی جگہ لفظ کاغذ کا استعمال عام ہوگیا ہے اسی طرح میثاق کی جگہ دستاویزی معاہدے یا ایگریمنٹ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ مگر گزشتہ ماہ کے آخری دنوں میں آصف علی زرداری نے جس خوبصورتی سے اپنا مدعا حکومت کو بیان کیا اس کا اعتراف تو کرنا ہی ہوگا۔ بقول ان کے حکومت ان کے خلاف معاملات و مقدمات کو چھوڑ کر سیدھی سادی بات میثاق معیشت کرکے معاملات کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے بات چیت کا دروازہ کھول دے۔ کیونکہ طویل المیعاد مقدمات وقت کا زیاں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس بیان نے حکومت کی صفوں میں گفتگو کے دروازے کھول دیے ہیں اور ساتھ ہی فی الحال کوئی رابطے کا بیان سامنے نہیں آیا لیکن حکومتی حلقوں کی طرف سے سخت رویے میں کمی دیکھی جا سکتی ہے۔ جب کہ دوسری جانب مخالف پارٹیاں اپنی زورآوری کی نمائش میں پیش پیش ہیں۔ وہ اپنے اتحاد اور قوت کا نمائشی شور و غوغا مچائے ہوئے ہیں۔ تا کہ حکومت ان سے بات چیت کے دروازے جلد کھولے کیونکہ انھیں بھی معلوم ہے کہ معیشت کا بیڑا جو غرق ہوا ہے۔ اس میں ان کا کس قدر ہاتھ ہے۔ مخالف پارٹیاں اور حکومتی رہنما دونوں اپنی پوزیشن سے پوری طرح آگاہ ہیں۔
کیونکہ تحریک چلانے کے لیے اس کے مقاصد عوام کے سامنے پیش کرنا ضروری ہیں۔ کیونکہ اپوزیشن اور حکمرانوں کو اپنے اپنے موقف سے آگاہ کرنے کے لیے عوام کے پاس جانا ضروری ہے۔ مگر دونوں عوام کے قریب جانے سے گریزاں ہیں لہٰذا نہ تحریک چلے گی اور نہ ہی حکومت اتنی مضبوط ہے کہ ہلکی پھلکی تحریکوں کو بھی برداشت کرسکے گی۔ صورتحال یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے یہ اعلانات ہوتے ہیں کہ بہترین کاروباری مواقع پاکستان میں موجود ہیں۔ حالانکہ ہر روز ڈالر روپے کو چاروں خانے چت کرکے فتح مند ہو رہا ہے۔
ایسی صورت میں ایسے ملک میں کون سرمایہ کاری کرے گا بلکہ خطرات یہ ہیں کہ صنعتیں کس طرح اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گی کیونکہ گیس اور فیول کے چارجز ہر روز بڑھ رہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو رفتہ رفتہ موجودہ صنعتیں بھی تباہی کے دہانے تک پہنچ جائیں گی۔ اور پاکستان امپورٹڈ اشیا کی ایک بہت بڑی مارکیٹ بن جائے گا۔ ملک میں موجود سپر اسٹور اس کام میں امپورٹڈ کاروباری افراد کے ساتھی بنے ہوئے ہیں۔ سوئیٹنر سے لے کر شیمپو تک سپر اسٹور میں امپورٹڈ مل رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ وقت قریب آ پہنچا ہے جب ہوم میڈ پروڈکٹس کا دیس نکالا ہوجائے گا جس کے عوض بیروزگاری کی ایک بڑی فوج تیار ہو جائے گی۔ دوسری جانب اسٹاک مارکیٹ بھی ایسے جھٹکے کھاتی رہے گی جیسے کہ معاشی زلزلہ آن پہنچا ہے۔
اگر صورتحال میں محض ٹیکس وصولیابی کو ہی بنیادی مقصد کے طور پر اہم پوزیشن دی جاتی رہی اور انڈسٹری کے استحکام کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا تو پھر قرضوں کی واپسی کا عفریت اس موقعے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں نہ حزب موافق کچھ کرسکے گی اور نہ ہی حزب مخالف۔ مسٹر زرداری نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ حساب کتاب کا قلم دان بند کیا جائے اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کیا جائے۔ جس کو انھوں نے میثاق معیشت کا نام دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسٹر زرداری کی اس تجویز کا حکومت کس انداز میں جواب دیتی ہے۔
کیونکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی سیاسی اور معاشی قوت سے محروم ہیں اور دونوں کو ہی عوام کی حقیقی حمایت حاصل نہیں ہے۔ البتہ مولانا فضل الرحمٰن چونکہ ایک مذہبی لیڈر بھی ہیں وہ بڑھ بڑھ کر حکومت کو ڈپٹ رہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ پشتون قوم کے بڑے رہنما ہیں۔ ان کی مذہبی حیثیت تو مسلم ہے مگر سیاسی اور اقتصادی معاملات پر ان کی گرفت مضبوط نہیں۔ کیونکہ ان کی پارٹی نے سیاسی اور اقتصادی معاملات پر کوئی تحریک نہیں چلائی ہے بلکہ ملک کے غریب طبقات کے لیے ان کی جدوجہد ناکافی رہی ہے۔ اس موقعے سے جہاں اور لوگوں نے اپنی اپنی آرا پیش کیں تو یہاں سوشل میڈیا نامی جو مبصرین ہیں وہ بھلا کیوں دور رہتے۔ انھوں نے قیاس آرائیوں کا مینار کھڑا کردیا ہے۔
بقول ان کے مولانا فضل الرحمٰن دینی مدارس کے طلبا کو احتجاج کے لیے منظم کر رہے ہیں جب کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ احتجاج کے لیے عوامی معاملات کو سرفہرست رکھنا ضروری ہے۔ بجلی اور گیس کئی کئی بار قیمتوں کے حصار سے باہر نکل چکے ہیں۔ لوگوں کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے خصوصاً غریب اور متوسط طبقات کسی بہتر وقت کی تلاش میں ہیں لیکن ان کا اعتماد ان پارٹیوں پر بالکل نہیں جن کو پی ٹی آئی نے مہنگائی کا اصل محرک قرار دیا ہے۔
سیاسی حلقوں میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ میثاق معیشت کا مطلب کچھ لے دے کر سیاسی لیڈروں کو آزاد کردیا جائے جس کو نئے قسم کا این آر او کہا جا رہا ہے بلکہ سوشل میڈیا نے تو مبالغہ آرائی کی حد کرتے ہوئے یہ عندیہ دیا ہے کہ ہر لیڈر پچاس سے سو ارب ڈالر لوٹانے پر تیار ہے مگر مشکل یہ ہے کہ وہ کس طریقے سے لوٹائے کسی ملک کے حاکم کو واسطہ بناکر ایسا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن حقیقتاً یہ باتیں محض باتوں کی شکل میں ہیں مگر یہ بات تو سامنے آچکی ہے کہ آل پارٹیز کمیٹی کوئی ایسی قوت نہیں ہے جو عوام کو حکومت کے خلاف کھڑا کرسکے۔ بجٹ کے مسئلے کو ہی لے لیں۔
اپوزیشن نے جو دنگل سجایا تھا وہ نورا کشتی کا ایک مظاہرہ تھا لہٰذا کسی تحریک کا کوئی امکان نہیں۔ البتہ خفیہ گفت و شنید، لین دین کے امکانات ہمہ وقت موجود ہیں۔ اس لیے عوام بھی اس تحریک سے لاتعلق ہیں۔ مگر روزافزوں گیس اور بجلی کے ریٹ میں اضافہ پاکستان کو ایسے ملک کی شکل کی طرف لے جا رہا ہے جہاں صنعتیں ترقی نہ کرسکیں گی بلکہ بند ہوتی چلی جائیں گی کیونکہ مصنوعات کی قیمت امپورٹڈ آئٹم سے کہیں زیادہ ہوگی۔
لہٰذا ملک امپورٹڈ مصنوعات کی زد میں آجائے گا۔ اور بے روزگاری کا طوفان خود حکومت کے گرد گھیرا ڈال کر اس کے زوال کا باعث بن جائے گا۔ پاکستان جس منزل سے گزر رہا ہے اس میں کنفیوژن کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ روپیہ نحیف تر اور ڈالر عظیم تر ہوتا چلا جائے گا۔ اپوزیشن رہنماؤں اور کسی حد تک موجودہ حکومت کی دین ہے لہٰذا جو تحریک چلا رہے ہیں ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ عمران خان کی حکومت عوام کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ موجودہ کساد بازاری اپوزیشن رہنماؤں کی دین ہے لہٰذا تحریک کچھ عرصے تک تو ممکن نہیں مگر یہ شاید کوئی اور چلائے۔
جہاں تک زرداری صاحب کی تجویز میثاق معیشت جو حکومت کو دی گئی تھی اس کا جواب چند جملوں میں عمران خان نے یہی دیا ہے کہ پیسے لوٹا دو اور ملک سے باہر چلے جاؤ۔ این آر او نام کی کوئی چیز اب ممکن نہیں ہے۔ بس اب صورتحال یہی ہے کہ معیشت کا پہیہ جس تیزی سے الٹا گھوم رہا ہے اس کو قابو کرنا نہ حکومت کے اختیار میں ہے اور نہ اپوزیشن کے۔
ایک یہی راستہ رہ گیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ سوشلسٹ نظام کے کچھ حصے ملاکر ہی ملک خودکفالت کی راہ پر چل سکتا ہے۔ جس میں اولین حل زرعی اصلاحات کا ہے جس کا آزمانا باقی رہ گیا ہے۔