پھر ہارس ٹریڈنگ
ہارس ٹریڈنگ ہمیشہ سے حکومت وقت کی ضرورت رہی ہے جو اگر پی ٹی آئی کر رہی ہے۔
اگر آئینی پابندیاں عائد نہ ہوتیں تو کے پی کے میں پرویزخٹک کی حکومت کب کی ختم ہوچکی ہوتی،کیونکہ کے پی کے اسمبلی میں خود پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی بھی ان کے خلاف تھے مگر شکایات ،کرپشن ، وزیر اعلیٰ کی من مانی ، ارکان اسمبلی کی ناراضگی کے باوجود پرویزخٹک نے مدت پوری کی اور عمران خان نے ان کی حمایت جاری رکھی تھی۔
کے پی کے میں اپنی حکومت کی مدت پوری کرانے کے لیے عمران خان کو جو کچھ کرنا پڑا تھا وہ عمران خان خود سب سے بہتر جانتے ہیں۔ جنھوں نے کرپشن کے الزامات میں پہلے آفتاب شیرپاؤکے صاحبزادے سمیت متعدد وزرا کو فارغ کیا۔ جماعت اسلامی کے نخرے بڑھنے پر وہاں کے ایک چھوٹے گروپ کو ساتھ ملایا۔ اپنے ناراض ارکان کے چھوڑ جانے کے خوف اور اکثریت بر قرار رکھنے کے لیے کرپشن کے الزامات سے دستبردار ہوکر شیرپاؤکی پارٹی کو دوبارہ اپنے ساتھ ملانے پر مجبور ہوئے تھے۔
گیلانی حکومت میں (ن) لیگ کے چھوڑ جانے کے بعد صدر آصف زرداری ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے پر مجبور ہوئے تھے اور اکثریت برقرار رکھنے کے لیے انھوں نے بھی وفاق اور سندھ میں ایم کیو ایم کو من مانی کرنے دی تھی مگر ایم کیو ایم تو اس بااختیار صدر پرویز مشرف کی بھی نہیں ہوئی تھی ، جنھوں نے کراچی کا فرزند ہونے کا حق نبھایا تھا اور متحدہ کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کوکراچی کی ترقی کے لیے منہ مانگے فنڈ دیے تھے۔
ایم کیو ایم نے اپنا گورنر اور حکومتوں میں ہوتے ہوئے اپنے گورنر سندھ کو صدر پرویز مشرف سے ملاقات سے روک دیا تھا اور گورنر کو اسلام آباد سے ہی واپس بلا لیا تھا ۔ 2013 کے انتخابات سے قبل جب آصف زرداری صدر مملکت تھے اقتدار سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔2008 میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت مسلم لیگ (ق) کے ارکان کو ساتھ ملا کر بنائی گئی تھی جسے ختم کرانے کے لیے صدر زرداری نے گورنر چوہدری الطاف اور سلمان تاثیر کے ذریعے بڑی کوشش کی تھی اور پنجاب میں گورنر راج تک لگایا تھا مگر شہباز شریف حکومت (ق) لیگ کے فارورڈ بلاک کے تعاون سے اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں قائم غلام حیدر وائیں کی مضبوط حکومت کو وزیر اعظم نواز شریف کی موجودگی میں صدر غلام اسحاق کی آشیرباد سے اسپیکر منظور وٹو نے راتوں رات لوٹے ارکان کی مدد سے ختم کرادیا تھا اور خود وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے تھے جس میں انھیں حامد ناصر چٹھہ اور پیپلز پارٹی کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت عظمیٰ میں ہارس ٹریڈنگ سے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں بنوائی گئی تھیں۔ بے نظیر حکومت میں صوبہ سرحد میں ہارس ٹریڈنگ سے تحریک عدم اعتماد لا کر مسلم لیگ (ن) کے صابر شاہ کی حکومت ختم کرا کر آفتاب شیرپاؤ کو وزیر اعلیٰ بنوایا گیا تھا۔ بلوچستان میں اختر مینگل کی حکومت ختم کرا کر وہاں اکبر بگٹی کو وزیر اعلیٰ بنوایا گیا تھا اور یہ سب کچھ ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے ممکن ہوا تھا۔
بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں کبھی کسی قومی اور بڑی پارٹی کی تنہا حکومت نہیں رہی اور وہاں ہمیشہ مخلوط حکومتیں ہی بنیں۔ وہ وقت بھی آیا تھا کہ بلوچستان میں صرف ایک سردار اپوزیشن میں تھا اور باقی 70 سے زائد ارکان اسمبلی وزیر، مشیر، معاونین خصوصی حکومت میں تھے کیونکہ وہاں حکومتیں بنانے کے لیے تمام حلقوں کے ارکان کو اپنے ساتھ ملانا پڑتا ہے وگرنہ حکومت سے باہر رہ جانے والے اقتدار میں آنے کے لیے لوٹے بننے کو تیار رہتے ہیں اور وہاں اچانک ہی اوپر کی منصوبہ بندی کے تحت وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد آجاتی ہے اور اوپری آشیرباد سے نیا چہرہ وزیر اعلیٰ بن جاتا ہے اور اس کی پارٹی،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی ملی بھگت سے چیئرمین سینیٹ بن جاتا ہے۔
آصف علی زرداری کو بڑا ہوشیار سیاستدان کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اندرونی طور پر جوڑ توڑ کے ماہر مانے جاتے ہیں اور فخریہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ میں نے کہا تھا کہ جب چاہوں ان کی (مسلم لیگ ن) کی حکومت ختم کراسکتا ہوں وہ انھوں نے اس طرح کامیاب دکھایا کہ وزیر اعظم نواز شریف سے سندھ حکومت کے پانچ سال پورے کرالیے۔ سندھ سے مسلم لیگ (ن) کا صفایا کرادیا اور انتخابات سے چند ماہ قبل 2018 میں بلوچستان سے مسلم لیگی وزیر اعلیٰ کو ہٹوا دیا تھا۔آصف زرداری نے 2013 سے 2018 تک نواز حکومت سے سندھ حکومت کو مفادات لے کر دیے جب کہ سندھ کی موجودہ حکومت عمران خان کی حکومت پر سندھ کے اربوں روپے روکنے کا الزام لگا رہی ہے جب کہ پی پی کی سابق سندھ حکومت نے نواز شریف کی حکومت پر کبھی فنڈ روکنے کا الزام نہیں لگایا تھا۔
صدر آصف زرداری نے بے نظیر کے قتل پر (ق) لیگ کو قاتل لیگ قرار دیا تھا مگر بعد میں ایم کیو ایم سے تنگ آکر حکومتی اکثریت برقرار رکھنے کے لیے انھوں نے (ق) لیگ میں شامل کرکے پرویز الٰہی کو نائب وزیر اعظم بنایا تھا۔ عمران خان بھی ق لیگ پر الزام لگاتے رہے مگر اب اس کے رہنمااسپیکر پنجاب اسمبلی ہیں۔ عمران خان نے اپنے ناقد شیخ رشید کو وزیر ریلوے بنا دیا۔ مسلم لیگ (ق) ایک مزید وفاقی وزارت کے لیے دباؤ بڑھا رہی ہے جس کی وجہ سے وزیر اعظم اب (ق) لیگ کے دباؤ سے نکلنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے ارکان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔وفاقی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی سندھ میں فارورڈ بلاک بنوانے کی کوشش کی تھی اور وفاقی وزیروں نے سندھ کے دورے بھی کیے تھے اور ناکام رہنے پر خاموشی اختیار کرلی تھی۔نواز شریف اور آصف زرداری قید میں ہیں اور پی ٹی آئی کے اقتدار کا سورج کسی کی حمایت سے چمک رہا ہے اور وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پہلی بار حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔
حکومتی مخالفین کو وفاق، پنجاب اور کے پی میں فنڈ مل رہے ہیں نہ ان کے مسائل حل ہو رہے ہیں اس لیے ماضی کی طرح مسلم لیگ (ن) کے ارکان کا وزیر اعظم سے رابطہ کوئی نئی بات نہیں۔فواد چوہدری کہہ چکے ہیں کہ وزیر اعظم کا اشارہ ملتے ہی سندھ میں گورنر سندھ عمران اسمعٰیل فارورڈ بلاک بنوا کر تبدیلی لاسکتے ہیں۔ہارس ٹریڈنگ ہمیشہ سے حکومت وقت کی ضرورت رہی ہے جو اگر پی ٹی آئی کر رہی ہے تو اس پر حیرت صرف اس بات پر ہے کہ جو ہارس ٹریڈنگ ماضی میں شرمناک تھی وہ اب بری کیوں نہیں سمجھی جا رہی؟
کے پی کے میں اپنی حکومت کی مدت پوری کرانے کے لیے عمران خان کو جو کچھ کرنا پڑا تھا وہ عمران خان خود سب سے بہتر جانتے ہیں۔ جنھوں نے کرپشن کے الزامات میں پہلے آفتاب شیرپاؤکے صاحبزادے سمیت متعدد وزرا کو فارغ کیا۔ جماعت اسلامی کے نخرے بڑھنے پر وہاں کے ایک چھوٹے گروپ کو ساتھ ملایا۔ اپنے ناراض ارکان کے چھوڑ جانے کے خوف اور اکثریت بر قرار رکھنے کے لیے کرپشن کے الزامات سے دستبردار ہوکر شیرپاؤکی پارٹی کو دوبارہ اپنے ساتھ ملانے پر مجبور ہوئے تھے۔
گیلانی حکومت میں (ن) لیگ کے چھوڑ جانے کے بعد صدر آصف زرداری ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے پر مجبور ہوئے تھے اور اکثریت برقرار رکھنے کے لیے انھوں نے بھی وفاق اور سندھ میں ایم کیو ایم کو من مانی کرنے دی تھی مگر ایم کیو ایم تو اس بااختیار صدر پرویز مشرف کی بھی نہیں ہوئی تھی ، جنھوں نے کراچی کا فرزند ہونے کا حق نبھایا تھا اور متحدہ کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کوکراچی کی ترقی کے لیے منہ مانگے فنڈ دیے تھے۔
ایم کیو ایم نے اپنا گورنر اور حکومتوں میں ہوتے ہوئے اپنے گورنر سندھ کو صدر پرویز مشرف سے ملاقات سے روک دیا تھا اور گورنر کو اسلام آباد سے ہی واپس بلا لیا تھا ۔ 2013 کے انتخابات سے قبل جب آصف زرداری صدر مملکت تھے اقتدار سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔2008 میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت مسلم لیگ (ق) کے ارکان کو ساتھ ملا کر بنائی گئی تھی جسے ختم کرانے کے لیے صدر زرداری نے گورنر چوہدری الطاف اور سلمان تاثیر کے ذریعے بڑی کوشش کی تھی اور پنجاب میں گورنر راج تک لگایا تھا مگر شہباز شریف حکومت (ق) لیگ کے فارورڈ بلاک کے تعاون سے اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں قائم غلام حیدر وائیں کی مضبوط حکومت کو وزیر اعظم نواز شریف کی موجودگی میں صدر غلام اسحاق کی آشیرباد سے اسپیکر منظور وٹو نے راتوں رات لوٹے ارکان کی مدد سے ختم کرادیا تھا اور خود وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے تھے جس میں انھیں حامد ناصر چٹھہ اور پیپلز پارٹی کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت عظمیٰ میں ہارس ٹریڈنگ سے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں بنوائی گئی تھیں۔ بے نظیر حکومت میں صوبہ سرحد میں ہارس ٹریڈنگ سے تحریک عدم اعتماد لا کر مسلم لیگ (ن) کے صابر شاہ کی حکومت ختم کرا کر آفتاب شیرپاؤ کو وزیر اعلیٰ بنوایا گیا تھا۔ بلوچستان میں اختر مینگل کی حکومت ختم کرا کر وہاں اکبر بگٹی کو وزیر اعلیٰ بنوایا گیا تھا اور یہ سب کچھ ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے ممکن ہوا تھا۔
بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں کبھی کسی قومی اور بڑی پارٹی کی تنہا حکومت نہیں رہی اور وہاں ہمیشہ مخلوط حکومتیں ہی بنیں۔ وہ وقت بھی آیا تھا کہ بلوچستان میں صرف ایک سردار اپوزیشن میں تھا اور باقی 70 سے زائد ارکان اسمبلی وزیر، مشیر، معاونین خصوصی حکومت میں تھے کیونکہ وہاں حکومتیں بنانے کے لیے تمام حلقوں کے ارکان کو اپنے ساتھ ملانا پڑتا ہے وگرنہ حکومت سے باہر رہ جانے والے اقتدار میں آنے کے لیے لوٹے بننے کو تیار رہتے ہیں اور وہاں اچانک ہی اوپر کی منصوبہ بندی کے تحت وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد آجاتی ہے اور اوپری آشیرباد سے نیا چہرہ وزیر اعلیٰ بن جاتا ہے اور اس کی پارٹی،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی ملی بھگت سے چیئرمین سینیٹ بن جاتا ہے۔
آصف علی زرداری کو بڑا ہوشیار سیاستدان کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اندرونی طور پر جوڑ توڑ کے ماہر مانے جاتے ہیں اور فخریہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ میں نے کہا تھا کہ جب چاہوں ان کی (مسلم لیگ ن) کی حکومت ختم کراسکتا ہوں وہ انھوں نے اس طرح کامیاب دکھایا کہ وزیر اعظم نواز شریف سے سندھ حکومت کے پانچ سال پورے کرالیے۔ سندھ سے مسلم لیگ (ن) کا صفایا کرادیا اور انتخابات سے چند ماہ قبل 2018 میں بلوچستان سے مسلم لیگی وزیر اعلیٰ کو ہٹوا دیا تھا۔آصف زرداری نے 2013 سے 2018 تک نواز حکومت سے سندھ حکومت کو مفادات لے کر دیے جب کہ سندھ کی موجودہ حکومت عمران خان کی حکومت پر سندھ کے اربوں روپے روکنے کا الزام لگا رہی ہے جب کہ پی پی کی سابق سندھ حکومت نے نواز شریف کی حکومت پر کبھی فنڈ روکنے کا الزام نہیں لگایا تھا۔
صدر آصف زرداری نے بے نظیر کے قتل پر (ق) لیگ کو قاتل لیگ قرار دیا تھا مگر بعد میں ایم کیو ایم سے تنگ آکر حکومتی اکثریت برقرار رکھنے کے لیے انھوں نے (ق) لیگ میں شامل کرکے پرویز الٰہی کو نائب وزیر اعظم بنایا تھا۔ عمران خان بھی ق لیگ پر الزام لگاتے رہے مگر اب اس کے رہنمااسپیکر پنجاب اسمبلی ہیں۔ عمران خان نے اپنے ناقد شیخ رشید کو وزیر ریلوے بنا دیا۔ مسلم لیگ (ق) ایک مزید وفاقی وزارت کے لیے دباؤ بڑھا رہی ہے جس کی وجہ سے وزیر اعظم اب (ق) لیگ کے دباؤ سے نکلنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے ارکان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔وفاقی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی سندھ میں فارورڈ بلاک بنوانے کی کوشش کی تھی اور وفاقی وزیروں نے سندھ کے دورے بھی کیے تھے اور ناکام رہنے پر خاموشی اختیار کرلی تھی۔نواز شریف اور آصف زرداری قید میں ہیں اور پی ٹی آئی کے اقتدار کا سورج کسی کی حمایت سے چمک رہا ہے اور وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پہلی بار حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔
حکومتی مخالفین کو وفاق، پنجاب اور کے پی میں فنڈ مل رہے ہیں نہ ان کے مسائل حل ہو رہے ہیں اس لیے ماضی کی طرح مسلم لیگ (ن) کے ارکان کا وزیر اعظم سے رابطہ کوئی نئی بات نہیں۔فواد چوہدری کہہ چکے ہیں کہ وزیر اعظم کا اشارہ ملتے ہی سندھ میں گورنر سندھ عمران اسمعٰیل فارورڈ بلاک بنوا کر تبدیلی لاسکتے ہیں۔ہارس ٹریڈنگ ہمیشہ سے حکومت وقت کی ضرورت رہی ہے جو اگر پی ٹی آئی کر رہی ہے تو اس پر حیرت صرف اس بات پر ہے کہ جو ہارس ٹریڈنگ ماضی میں شرمناک تھی وہ اب بری کیوں نہیں سمجھی جا رہی؟