مزید بدہضمی خیرسگالی کی
واہ مکتی باہنی نے ہزاروں غیر بنگالیوں کا جو قتل عام کیا اس پہ پرویز مشرف کو کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
NEW YORK:
گوروں یعنی فرنگیوں سے تو ہم پاکستان بننے سے پہلے ہی سے مرعوب تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارے دیسی حکمران طبقے نے جیسے امریکا کی نوکری اور امریکا کا اردلی بننا قبول کیا ویسے ہی ہم امریکیوں سے بھی مرعوب ہوگئے۔ 1970 کی دہائی سے ہمارے حکمران طبقے کے مجموعی کردارکے معیار کی پستی میں تیز تر اضافہ شروع ہوا۔
1990 کی دہائی میں تو آپ سمجھیں کہ پستی کا یہ سفر آواز کی رفتار سے بھی تیز ہوگیا اور جناب 1999 سے تو ہمارے حکمران طبقے کے کردار کی پستی میں مزید گہرائی کا یہ سفر تو روشنی کی رفتار سے بھی آگے نکل گیا۔ جیسے جیسے ہمارے حکمران طبقے کا کردار پست سے پست تر ہوتا گیا ویسے ویسے ہم مزید ملکوں سے مرعوب ہوتے گئے اور ہماری خیرسگالی دوسرے لفظوں میں ہمارا فدویانہ خوشامدانہ رویہ ان ملکوں کے لیے بھی ابلنا شروع ہوگیا۔ نوبت حتیٰ کہ یہ آگئی کہ بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ملکوں کے لیے بھی ہماری عزت نفس سے گری ہوئی خوشامدانہ خیرسگالی تمام حدیں پار کرگئی۔
آپ مثلاً بھارت کا ہی معاملہ لے لیجیے۔ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں اور دنیا کا کوئی ایسا فورم نہیں کہ جہاں بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کرتا ہو۔ مگر ہم ہیں کہ ہمہ وقت بھارت کے پاؤں چھو چھو کر ہم سے کرکٹ کھیلنے اور ہم سے مذاکرات کرنے کی حقیقتاً بھیک مانگتے رہتے ہیں اور بھارتی جواب میں حقارت سے کہتے ہیں کہ پہلے دہشتگردی بند کرو پھر مذاکرات ہوں گے، پھر ہم تم پہ ترس کھا کے کرکٹ کھیلنے کا سوچیں گے۔
چہ خوب یعنی یہ بھارت ہے کہ جو اپنے برادر ملکوں افغانستان اور ایران سے مل کر کئی سالوں سے پاکستان میں دہشتگردی کروا رہا ہے اور الٹا ہمیں آنکھیں دکھاتا ہے کہ دہشتگردی بند کرو۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کا ویڈیو سامنے آیا جس میں وہ کھلم کھلا نہ صرف پاکستان میں دہشتگردی کروانے کا اعتراف کرتا ہے بلکہ پاکستان کے خلاف مزید دہشتگردی کروانے اور پاکستان کے شہریوں اور دفاعی اداروں کو نشانہ بنانے کے مزید بھارتی منصوبوں کے بارے میں بھی کھل کر بات کر رہا ہے۔
اب ذرا سوچیے کہ پاکستان کے کسی اعلیٰ عہدیدار کا ایسا ویڈیو سامنے آیا ہوتا کہ جس میں وہ کھلم کھلا بھارت میں دہشت گردی کروانے کے منصوبوں پہ بات کر رہا ہوتا تو بھارت دنیا بھر میں کیا کہرام برپا کردیتا۔ پوری دنیا کے فورمز پہ وہ ویڈیو چلا چلا کر پاکستان کو مسلمہ دہشت گرد قرار دلوا کر ہی بھارت دم لیتا۔ اور یہی نہیں بلکہ بھارت ایسے ویڈیو کی مدد سے پاکستان اور پاکستان کے اداروں پہ ان گنت پابندیاں بھی لگوا چکا ہوتا مگر جناب ہماری تو بھارت کے لیے بھی خیرسگالی ایسی بے حساب ہے کہ الٹا ہمارے ایک سابق وزیر اعظم نے نہ صرف بھارتی ہندو انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی بلکہ پاکستان میں دہشتگردی کے بھارتی منصوبوں کا کھلم کھلا فخریہ اعتراف کرنیوالے بھاری قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کو بھی نہ صرف پاکستان بلایا بلکہ اس کی اپنے خاندان کے ساتھ مل کر ذاتی مہمان نوازی بھی کی۔ یہ لیجیے ایسی فدویانہ بلکہ غلامانہ خیرسگالی کے باوجود بھارتی پوری دنیا میں اٹھتے بیٹھتے پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں۔
یہاں سے بھارتی ماہی گیروں کی خاطر مدارات کرکے انھیں ہار پھول پہنا کر بھارت روانہ کرتے ہیں، بھارتی جواب میں پاکستانی ماہی گیروں کی لاشیں ہمیں بھیجتے ہیں مگر مجال ہے جو ہم اف بھی کر جائیں بھئی! خیر سگالی بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ 18 فروری 2007 کو سمجھوتہ ایکسپریس پہ ہندو انتہا پسند دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس اور بھارتی فوج کے حاضر سروس افسران کے دہشتگرد حملے میں 60 سے زیادہ پاکستانی شہری شہید ہوگئے۔ خود بھارتی تحقیقاتی اداروں اور ہندو انتہا پسند دہشتگردوں کے اعترافات سے یہ ثابت ہوگیا کہ ہندو انتہا پسند دہشتگرد تنظیم آر ایس ایس اور بھارتی فوج کے دہشت گرد اس دہشتگردی میں ملوث ہیں جنھیں متعصب بھارتی عدالتوں نے تمام تر ثبوتوں کے باوجود رہا کردیا۔ یہ موقعہ تھا کہ پاکستان دنیا بھر میں آر ایس ایس، ہندوستانی فوج اور ہندوستان کو اتنے ثبوتوں کی موجودگی میں دہشتگرد ثابت کردیتا مگر توبہ کیجیے۔ اس وقت کے حکمران پاکستان اور پاکستان کے قانون سے زیادہ مقدس اور بالاتر صاحب بہادر پرویز مشرف نے بھارت کا پاکستانی شہریوں پہ دہشت گرد حملہ دنیا میں اٹھایا نہ ہی ان کے بعد آنیوالی حکومتوں نے۔
خیر بات ہو رہی تھی ہماری دنیا سے نرالی خیر سگالی کی، تو جناب ہماری اس خود فراموش خیر سگالی کے نمونے آپ کو افغانوں کی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں پاکستان بھر میں آزادی سے دندناتے نظر آجائیں گے۔ بادشاہ سلامت جنرل ضیا کے دور سے پاکستان نے 40 لاکھ سے زائد افغانیوں کو نہ صرف اپنے ہاں پناہ دی بلکہ انھیں ملک بھر میں منشیات، اسلحہ، اسمگلنگ، پاکستانی بچوں کے اغوا، چوری، ڈاکوں سمیت ہر ناجائزوجائز ''کاروبار'' بھی پورے دھڑلے سے کرنے کی دائمی اجازت بھی دی۔ ساتھ ہی انھیں پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی تھما دیے۔
ہماری خیر سگالی کی انتہا دیکھیں کہ جہاں 1980 کی دہائی میں بنگلہ دیش میں پھنسے ڈھائی لاکھ محصور پاکستانیوں کو واپس لانے کے صرف اعلان پہ ہی ''نہ کھپے'' ، ''نہ کھپے'' کے نعرے لگتے تھے وہاں نہ صرف دس بیس لاکھ افغانی آکر بیٹھ گئے بلکہ اپنے ایسے نوگو ایریا بھی بنا لیے کہ جن میں پاکستان کے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو بھی داخلے کی اجازت نہیں مگر پھر افغانیوں کے اس سیلاب کے مخالف ''نہ کھپے'' کے نعرے نہیں سنائی دیے۔
بھارت نے سوویت یونین اور امریکا دونوں کے افغانستان پہ قبضے کی حمایت کی اور بھارت ہی ان افغانیوں کا برادر ٹھہرا جس کے ساتھ مل کر یہ پاکستان میں دہشتگردی کرواتے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں اور پاکستانیوں پہ حملے کرتے ہیں اور ہم ہیں کہ پھر بھی انھیں اپنے سروں پہ بٹھائے بیٹھے ہیں نہ صرف انھیں بلکہ ایسی سیاسی مافیا والوں کو بھی جن کے پورے کے پورے خاندان پاکستان میں حکومتوں میں شامل ہوکر اربوں کا مال بناتے ہیں ساتھ ہی خود کو افغانی کہتے ہیں اور آدھے پاکستان کو افغانستان کا حصہ کہتے ہیں۔ اب چلتے چلتے ہماری پاکستان کو نیچا دکھانیوالی خیر سگالی کا ایک اور نمونہ دیکھ لیجیے کہ پرویز مشرف 2002 میں بنگلہ دیش کے غیر ضروری دورے میں نہ صرف بنگلہ دیش کی 1971 جنگ کی یادگار پہ حاضری دیتے ہیں بلکہ پاکستان کی زیادتیوں کی معافی بھی مانگتے ہیں۔
واہ مکتی باہنی نے ہزاروں غیر بنگالیوں کا جو قتل عام کیا اس پہ پرویز مشرف کو کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی، کیا کریں کہ سطحی حکمران اپنے ہی ملک کو نیچا دکھا کر اپنے تئیں ''مدبر'' بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ بنگالی ہم سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ ہم نے جان بوجھ کر 1999 کے ورلڈ کپ کرکٹ میں بنگلہ دیش سے میچ ہارا اور کہا کہ ہم نے اپنے ''بھائیوں'' کو آئی سی سی میں فل ممبر شپ دلانے کے لیے یہ میچ ہارا۔ جواب میں ''بھائیوں'' نے یہ کہہ کر ہمارے بے حس منہ پہ طمانچہ مارا کہ ہم نے 1971 کا بدلہ لے لیا۔ مگر بھئی طمانچوں کا کیا ہے یہ تو ہمیں پڑتے ہی رہتے ہیں مگر ہماری خیرسگالی پہ بھلا ان طمانچوں کا کیا اثر۔
گوروں یعنی فرنگیوں سے تو ہم پاکستان بننے سے پہلے ہی سے مرعوب تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارے دیسی حکمران طبقے نے جیسے امریکا کی نوکری اور امریکا کا اردلی بننا قبول کیا ویسے ہی ہم امریکیوں سے بھی مرعوب ہوگئے۔ 1970 کی دہائی سے ہمارے حکمران طبقے کے مجموعی کردارکے معیار کی پستی میں تیز تر اضافہ شروع ہوا۔
1990 کی دہائی میں تو آپ سمجھیں کہ پستی کا یہ سفر آواز کی رفتار سے بھی تیز ہوگیا اور جناب 1999 سے تو ہمارے حکمران طبقے کے کردار کی پستی میں مزید گہرائی کا یہ سفر تو روشنی کی رفتار سے بھی آگے نکل گیا۔ جیسے جیسے ہمارے حکمران طبقے کا کردار پست سے پست تر ہوتا گیا ویسے ویسے ہم مزید ملکوں سے مرعوب ہوتے گئے اور ہماری خیرسگالی دوسرے لفظوں میں ہمارا فدویانہ خوشامدانہ رویہ ان ملکوں کے لیے بھی ابلنا شروع ہوگیا۔ نوبت حتیٰ کہ یہ آگئی کہ بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ملکوں کے لیے بھی ہماری عزت نفس سے گری ہوئی خوشامدانہ خیرسگالی تمام حدیں پار کرگئی۔
آپ مثلاً بھارت کا ہی معاملہ لے لیجیے۔ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں اور دنیا کا کوئی ایسا فورم نہیں کہ جہاں بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کرتا ہو۔ مگر ہم ہیں کہ ہمہ وقت بھارت کے پاؤں چھو چھو کر ہم سے کرکٹ کھیلنے اور ہم سے مذاکرات کرنے کی حقیقتاً بھیک مانگتے رہتے ہیں اور بھارتی جواب میں حقارت سے کہتے ہیں کہ پہلے دہشتگردی بند کرو پھر مذاکرات ہوں گے، پھر ہم تم پہ ترس کھا کے کرکٹ کھیلنے کا سوچیں گے۔
چہ خوب یعنی یہ بھارت ہے کہ جو اپنے برادر ملکوں افغانستان اور ایران سے مل کر کئی سالوں سے پاکستان میں دہشتگردی کروا رہا ہے اور الٹا ہمیں آنکھیں دکھاتا ہے کہ دہشتگردی بند کرو۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کا ویڈیو سامنے آیا جس میں وہ کھلم کھلا نہ صرف پاکستان میں دہشتگردی کروانے کا اعتراف کرتا ہے بلکہ پاکستان کے خلاف مزید دہشتگردی کروانے اور پاکستان کے شہریوں اور دفاعی اداروں کو نشانہ بنانے کے مزید بھارتی منصوبوں کے بارے میں بھی کھل کر بات کر رہا ہے۔
اب ذرا سوچیے کہ پاکستان کے کسی اعلیٰ عہدیدار کا ایسا ویڈیو سامنے آیا ہوتا کہ جس میں وہ کھلم کھلا بھارت میں دہشت گردی کروانے کے منصوبوں پہ بات کر رہا ہوتا تو بھارت دنیا بھر میں کیا کہرام برپا کردیتا۔ پوری دنیا کے فورمز پہ وہ ویڈیو چلا چلا کر پاکستان کو مسلمہ دہشت گرد قرار دلوا کر ہی بھارت دم لیتا۔ اور یہی نہیں بلکہ بھارت ایسے ویڈیو کی مدد سے پاکستان اور پاکستان کے اداروں پہ ان گنت پابندیاں بھی لگوا چکا ہوتا مگر جناب ہماری تو بھارت کے لیے بھی خیرسگالی ایسی بے حساب ہے کہ الٹا ہمارے ایک سابق وزیر اعظم نے نہ صرف بھارتی ہندو انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی بلکہ پاکستان میں دہشتگردی کے بھارتی منصوبوں کا کھلم کھلا فخریہ اعتراف کرنیوالے بھاری قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کو بھی نہ صرف پاکستان بلایا بلکہ اس کی اپنے خاندان کے ساتھ مل کر ذاتی مہمان نوازی بھی کی۔ یہ لیجیے ایسی فدویانہ بلکہ غلامانہ خیرسگالی کے باوجود بھارتی پوری دنیا میں اٹھتے بیٹھتے پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں۔
یہاں سے بھارتی ماہی گیروں کی خاطر مدارات کرکے انھیں ہار پھول پہنا کر بھارت روانہ کرتے ہیں، بھارتی جواب میں پاکستانی ماہی گیروں کی لاشیں ہمیں بھیجتے ہیں مگر مجال ہے جو ہم اف بھی کر جائیں بھئی! خیر سگالی بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ 18 فروری 2007 کو سمجھوتہ ایکسپریس پہ ہندو انتہا پسند دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس اور بھارتی فوج کے حاضر سروس افسران کے دہشتگرد حملے میں 60 سے زیادہ پاکستانی شہری شہید ہوگئے۔ خود بھارتی تحقیقاتی اداروں اور ہندو انتہا پسند دہشتگردوں کے اعترافات سے یہ ثابت ہوگیا کہ ہندو انتہا پسند دہشتگرد تنظیم آر ایس ایس اور بھارتی فوج کے دہشت گرد اس دہشتگردی میں ملوث ہیں جنھیں متعصب بھارتی عدالتوں نے تمام تر ثبوتوں کے باوجود رہا کردیا۔ یہ موقعہ تھا کہ پاکستان دنیا بھر میں آر ایس ایس، ہندوستانی فوج اور ہندوستان کو اتنے ثبوتوں کی موجودگی میں دہشتگرد ثابت کردیتا مگر توبہ کیجیے۔ اس وقت کے حکمران پاکستان اور پاکستان کے قانون سے زیادہ مقدس اور بالاتر صاحب بہادر پرویز مشرف نے بھارت کا پاکستانی شہریوں پہ دہشت گرد حملہ دنیا میں اٹھایا نہ ہی ان کے بعد آنیوالی حکومتوں نے۔
خیر بات ہو رہی تھی ہماری دنیا سے نرالی خیر سگالی کی، تو جناب ہماری اس خود فراموش خیر سگالی کے نمونے آپ کو افغانوں کی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں پاکستان بھر میں آزادی سے دندناتے نظر آجائیں گے۔ بادشاہ سلامت جنرل ضیا کے دور سے پاکستان نے 40 لاکھ سے زائد افغانیوں کو نہ صرف اپنے ہاں پناہ دی بلکہ انھیں ملک بھر میں منشیات، اسلحہ، اسمگلنگ، پاکستانی بچوں کے اغوا، چوری، ڈاکوں سمیت ہر ناجائزوجائز ''کاروبار'' بھی پورے دھڑلے سے کرنے کی دائمی اجازت بھی دی۔ ساتھ ہی انھیں پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی تھما دیے۔
ہماری خیر سگالی کی انتہا دیکھیں کہ جہاں 1980 کی دہائی میں بنگلہ دیش میں پھنسے ڈھائی لاکھ محصور پاکستانیوں کو واپس لانے کے صرف اعلان پہ ہی ''نہ کھپے'' ، ''نہ کھپے'' کے نعرے لگتے تھے وہاں نہ صرف دس بیس لاکھ افغانی آکر بیٹھ گئے بلکہ اپنے ایسے نوگو ایریا بھی بنا لیے کہ جن میں پاکستان کے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو بھی داخلے کی اجازت نہیں مگر پھر افغانیوں کے اس سیلاب کے مخالف ''نہ کھپے'' کے نعرے نہیں سنائی دیے۔
بھارت نے سوویت یونین اور امریکا دونوں کے افغانستان پہ قبضے کی حمایت کی اور بھارت ہی ان افغانیوں کا برادر ٹھہرا جس کے ساتھ مل کر یہ پاکستان میں دہشتگردی کرواتے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں اور پاکستانیوں پہ حملے کرتے ہیں اور ہم ہیں کہ پھر بھی انھیں اپنے سروں پہ بٹھائے بیٹھے ہیں نہ صرف انھیں بلکہ ایسی سیاسی مافیا والوں کو بھی جن کے پورے کے پورے خاندان پاکستان میں حکومتوں میں شامل ہوکر اربوں کا مال بناتے ہیں ساتھ ہی خود کو افغانی کہتے ہیں اور آدھے پاکستان کو افغانستان کا حصہ کہتے ہیں۔ اب چلتے چلتے ہماری پاکستان کو نیچا دکھانیوالی خیر سگالی کا ایک اور نمونہ دیکھ لیجیے کہ پرویز مشرف 2002 میں بنگلہ دیش کے غیر ضروری دورے میں نہ صرف بنگلہ دیش کی 1971 جنگ کی یادگار پہ حاضری دیتے ہیں بلکہ پاکستان کی زیادتیوں کی معافی بھی مانگتے ہیں۔
واہ مکتی باہنی نے ہزاروں غیر بنگالیوں کا جو قتل عام کیا اس پہ پرویز مشرف کو کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی، کیا کریں کہ سطحی حکمران اپنے ہی ملک کو نیچا دکھا کر اپنے تئیں ''مدبر'' بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ بنگالی ہم سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ ہم نے جان بوجھ کر 1999 کے ورلڈ کپ کرکٹ میں بنگلہ دیش سے میچ ہارا اور کہا کہ ہم نے اپنے ''بھائیوں'' کو آئی سی سی میں فل ممبر شپ دلانے کے لیے یہ میچ ہارا۔ جواب میں ''بھائیوں'' نے یہ کہہ کر ہمارے بے حس منہ پہ طمانچہ مارا کہ ہم نے 1971 کا بدلہ لے لیا۔ مگر بھئی طمانچوں کا کیا ہے یہ تو ہمیں پڑتے ہی رہتے ہیں مگر ہماری خیرسگالی پہ بھلا ان طمانچوں کا کیا اثر۔