انصاف کے کٹہرے میں
اشرافیہ کے لیے اقتدار اپنی دولت میں اضافے کا ذریعہ ہے اور انھیں صرف اپنے تعیشات اور اثرو رسوخ کے پھیلاؤ سے غرض ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کو قبول نہیں کیا۔ انتخابات میں ''دھاندلی''کا واویلا اور وزیر اعظم کے لیے ''سلیکٹڈ'' کی پھبتیاں دراصل اس حکومت کو بے اعتبار کرنے کے سیاسی حربے ہیں۔
یہ سب کچھ اس وقت کیا جارہا ہے جب انتخابات میں دھاندلی ثابت نہیں کی جاسکی۔ لیکن پاکستان میں منصفانہ رویوں کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ ہمارے ہاں رائج طرز جمہوریت کو اقتدار تک پہنچنے کے لیے محض ایک رسم سے زیادہ حیثیت حاصل نہیں ، جمہوریت کو سیاسی نظام کی بنیاد کے طور پر کبھی قبول ہی نہیں کیا گیا جب اسی طرز کا نظام کسی بھی ملک میں استحکام اور عوام کی زندگی میں بہتری لاسکتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت حکمران اشرافیہ کے انتہائی محدود طبقے کے جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی ہے، جمہور کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔
اسی لیے عوام کی اکثریت کو تعلیم سے دور رکھا گیا تاکہ ان میں نہ تو اپنے حقوق کا شعور پیدا ہواور نہ ہی وہ ان کا مطالبہ کرنے کے لیے مزاحمت کے قابل ہوسکیں۔ تعلیمی نظام کو سرکاری اور نجی شعبوں میں بانٹ دیا گیا جس میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے برائے نام سرکاری ادارے عوام کے لیے ہیں اور نجی شعبہ اشرافیہ کا خدمت گزار ہے۔ اسی تقسیم نے آج تک اختیار و اقتدار کو دہائیوں سے روایتی جاگیرداروں اور قبائلی اشرافیہ تک محدود کیے رکھا ہے۔
اشرافیہ کے لیے اقتدار اپنی دولت میں اضافے کا ذریعہ ہے اور انھیں صرف اپنے تعیشات اور اثرو رسوخ کے پھیلاؤ سے غرض ہے، ملکی ترقی یا قومی تعمیر ان کے لیے کبھی اہم نہیں رہے۔ انڈسٹرلائزیشن کے لیے تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت درکار ہوتی ہے جب کہ ہم صارفین کی معیشت میں تبدیل ہوچکے ہیں جس کی بنیادیں ہی قرض پر کھڑی ہیں۔ قرضوں کے لیے آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے بین الاقوامی اداروں کی حوصلہ افزائی نے ہمارے حکمران طبقے کو مزید راہیں دکھائیں۔ اسی لیے جو پاکستانی معاشرہ حقیقی معنوں میں صنعتی پیداوار سیکھنے کے مرحلے میں تھا اسے محض خریداروں کی منڈی میں تبدیل کردیا گیا۔
ملک کے لیے حاصل کی گئی بھاری بھرکم قرض کی رقم حکمرانوں کی جیب میں جاتی رہیں۔ بیرونی قرضوں کے ہولناک حجم کے باعث یہ نوبت آچکی ہے کہ ملکی دفاع، صحت عامہ، تعلیم اور غربت میں کمی جیسے سماجی شعبوں ،انفرااسٹرکچر، زراعت، صنعت میں سرمایہ کاری ہمارے لیے ممکن نہیں رہی اور ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بھی مزید قرضے درکار ہیں۔
حکمران لوٹ کا مال پُرتعیش طرز زندگی پر صرف کرتے ہیں جس کے لیے مہنگی درآمداتی اشیا خریدتے ہیں لیکن ان کی دولت کا بڑا حصہ آف شور اکاؤنٹس اور بیرون ملک جائیدادوں میں منتقل ہوجاتا ہے۔ ملک قرضوں پر چل رہا ہے اور اس کے زیادہ تر شہری غربت کی لکیر پر یا اس سے بھی نیچے زندگی بسر کررہے ہیں تاہم مٹھی بھر اشرافیہ کرپشن کے مال سے مزے اُڑا رہی ہے۔ دہائیوں تک اس لوٹ مار کا حساب نہیں لیا گیا اور اب حکومت قرضوں اور کرپشن کے اس گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لیے دیانت دارانہ کوششیں کررہی ہے۔ احتساب کی جاری مہم نہ صرف معیشت کو درست راہ پر ڈالنے اور لوٹی گئی قومی دولت ملک میں واپس لانے کے لیے ناگزیر ہوچکی تھی بلکہ سماجی انصاف کے نفاذ کے لیے کرپٹ عناصر کو سزائیں بھی دینا ہوں گی۔
گزشتہ کچھ عرصے سے جعلی بینک کھاتوں کے ذریعے دھوکا دہی اور ٹیکس چوری سے بنائی گئی دولت بیرون ملک منتقل کرنے کے ایک انتہائی اہم مقدمے میں تحقیقات جاری ہیں۔ جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق معلومات اس وقت سامنے آئیں جب ایک خفیہ ادارے نے ایک ممتاز منی چینجر سے تحقیقات کا آغاز کیا حالانکہ اس کارروائی کا مذکورہ معاملے سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔ دسمبر 2015میں ایف آئی اے نے مخصوص بینک اکاؤنٹس سے متعلق تحقیقات کا آغاز کیا جن کے ذریعے کروڑوں روپے منتقل کیے گئے تھے۔ تفتیش کاروں نے ایسے 29اکاؤنٹس کی نشان دہی کی جن میں مجموعی طور پر 35ارب روپے جمع کروائے گئے۔ لیکن یہ محض دیگ کے چند دانے ثابت ہوئے۔ 2018میں تحقیقات کو تیز کرنے کے لیے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔ اس جے آئی ٹی نے ابتدائی مرحلے ہی میں 11500بینک اکاؤنٹس اور 924کھاتے داروں کی نشاندہی کی۔
تحقیقات کے اہم موڑ پر سابق صدر پاکستان آصف زرداری اور ان کے اہل خانہ کا نام اس معاملے میں سامنے آیا۔ میسز لینڈ مارک اور نیشنل گیس پرائیویٹ لمیٹڈ(این جی ایس)سے متعلق انکشافات سامنے آئے جو کہ پہلے ہی اربوں روپوں کی منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہونی والی کمپنیوں میں اضافہ ثابت ہوا۔ میسز لینڈ مارک آصف زرداری کی ملکیت ہے اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اور عذرا پیچوہو اس میں شراکت دار ہیں۔ ان کمپنیوں کی تفصیلات ایک کمپیوٹر ہار ڈسک سے حاصل ہوئیں۔ یہ ڈسک کھوسکی میں اومنی گروپ کی شوگر میل پر ایف آئی اے کے چھاپے کے دوران حاصل کی گئی تھی۔
زرداری خاندان ضلع نوابشاہ میں بسنے والے سندھی بلوچ زرداری قبیلے کا سربراہ ہے۔ یہاں اس قبیلے کے پاس ہزاروں ایکڑ زمین ہے جس میں کاشت بھی کی جاتی ہے۔ 1985تک اس قبیلے کے افراد کی تعداد 70ہزار بتائی جاتی تھی جو آج کئی گنا بڑھ چکی ہوگی۔ یہی وہ قوت ہے جو زرداری خاندان کے اثر و رسوخ کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے استعمال ہوئی۔ بھٹو خاندان اور دوسرے بڑے جاگیردار خاندان کے مابین رشتے داری نے مال بنانے اور اسے ملک سے باہر لے جانے کے نئے مواقعے پیدا کیے۔ ایسے بارسوخ خاندان کے لوگوں کو عدالت کے کٹہرے تک لانا چھوٹی موٹی کام یابی نہیں۔
منشیات کے کاروبار کے الزامات میں مسلم لیگ ن کے رانا ثناء اﷲ کی گرفتاری بھی انتہائی اہم ہے۔ حال ہی میں اینٹی نارکوٹیکس فورس(اے این ایف)نے چند منشیات فروشوں کو گرفتار کیا جن سے بہت کچھ معلوم ہوا ۔ شریفوں کے لیے یہ گرفتاری بہت بڑا دھچکا ہے۔ رانا ثناء اﷲ ان کی سیاسی بادشاہت کا اہم ترین مہرہ ہے۔
آج نیب اور عدالتیں زرداری کے خلاف جو کارروائی کررہی ہیں وہ کوئی ذاتی انتقام نہیں، یہ اقدامات ملکی معیشت کی بنیادیں ہلا دینے والی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہوچکے تھے۔ کئی چور ابھی تک کھُلے گھوم رہے ہیں جنھیں انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔ لیکن یہ آسان کام نہیں۔ کرپشن کے انتہائی مضبوط ڈھانچے کو توڑنے کے لیے فیصلہ کُن اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے لیے جعلی کھاتوں کے ذریعے رقوم کی منتقلی جیسے راستے بند کرنے سمیت کئی دیگر اقدامات کرنا ہوں گے۔
ریاست دیانت داری سے کمائی گئی دولت اور ٹیکس منی کی حفاظت کی ذمے دار ہے، لوٹ مار سے بنائے گئے اثاثوں کا تحفظ اس کا کام نہیں۔ حکمران طبقے کے ہزاروں افراد کو غلط بیانی اور جھوٹ بولنے پر سزائیں دی جاسکتی ہیں اور اسی صورت میں ان سے لوٹی ہوئی دولت نکلوائی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں عدل و انصاف بحال کرنے کے لیے ایسے بے باکانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
یہ سب کچھ اس وقت کیا جارہا ہے جب انتخابات میں دھاندلی ثابت نہیں کی جاسکی۔ لیکن پاکستان میں منصفانہ رویوں کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ ہمارے ہاں رائج طرز جمہوریت کو اقتدار تک پہنچنے کے لیے محض ایک رسم سے زیادہ حیثیت حاصل نہیں ، جمہوریت کو سیاسی نظام کی بنیاد کے طور پر کبھی قبول ہی نہیں کیا گیا جب اسی طرز کا نظام کسی بھی ملک میں استحکام اور عوام کی زندگی میں بہتری لاسکتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت حکمران اشرافیہ کے انتہائی محدود طبقے کے جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی ہے، جمہور کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔
اسی لیے عوام کی اکثریت کو تعلیم سے دور رکھا گیا تاکہ ان میں نہ تو اپنے حقوق کا شعور پیدا ہواور نہ ہی وہ ان کا مطالبہ کرنے کے لیے مزاحمت کے قابل ہوسکیں۔ تعلیمی نظام کو سرکاری اور نجی شعبوں میں بانٹ دیا گیا جس میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے برائے نام سرکاری ادارے عوام کے لیے ہیں اور نجی شعبہ اشرافیہ کا خدمت گزار ہے۔ اسی تقسیم نے آج تک اختیار و اقتدار کو دہائیوں سے روایتی جاگیرداروں اور قبائلی اشرافیہ تک محدود کیے رکھا ہے۔
اشرافیہ کے لیے اقتدار اپنی دولت میں اضافے کا ذریعہ ہے اور انھیں صرف اپنے تعیشات اور اثرو رسوخ کے پھیلاؤ سے غرض ہے، ملکی ترقی یا قومی تعمیر ان کے لیے کبھی اہم نہیں رہے۔ انڈسٹرلائزیشن کے لیے تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت درکار ہوتی ہے جب کہ ہم صارفین کی معیشت میں تبدیل ہوچکے ہیں جس کی بنیادیں ہی قرض پر کھڑی ہیں۔ قرضوں کے لیے آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے بین الاقوامی اداروں کی حوصلہ افزائی نے ہمارے حکمران طبقے کو مزید راہیں دکھائیں۔ اسی لیے جو پاکستانی معاشرہ حقیقی معنوں میں صنعتی پیداوار سیکھنے کے مرحلے میں تھا اسے محض خریداروں کی منڈی میں تبدیل کردیا گیا۔
ملک کے لیے حاصل کی گئی بھاری بھرکم قرض کی رقم حکمرانوں کی جیب میں جاتی رہیں۔ بیرونی قرضوں کے ہولناک حجم کے باعث یہ نوبت آچکی ہے کہ ملکی دفاع، صحت عامہ، تعلیم اور غربت میں کمی جیسے سماجی شعبوں ،انفرااسٹرکچر، زراعت، صنعت میں سرمایہ کاری ہمارے لیے ممکن نہیں رہی اور ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بھی مزید قرضے درکار ہیں۔
حکمران لوٹ کا مال پُرتعیش طرز زندگی پر صرف کرتے ہیں جس کے لیے مہنگی درآمداتی اشیا خریدتے ہیں لیکن ان کی دولت کا بڑا حصہ آف شور اکاؤنٹس اور بیرون ملک جائیدادوں میں منتقل ہوجاتا ہے۔ ملک قرضوں پر چل رہا ہے اور اس کے زیادہ تر شہری غربت کی لکیر پر یا اس سے بھی نیچے زندگی بسر کررہے ہیں تاہم مٹھی بھر اشرافیہ کرپشن کے مال سے مزے اُڑا رہی ہے۔ دہائیوں تک اس لوٹ مار کا حساب نہیں لیا گیا اور اب حکومت قرضوں اور کرپشن کے اس گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لیے دیانت دارانہ کوششیں کررہی ہے۔ احتساب کی جاری مہم نہ صرف معیشت کو درست راہ پر ڈالنے اور لوٹی گئی قومی دولت ملک میں واپس لانے کے لیے ناگزیر ہوچکی تھی بلکہ سماجی انصاف کے نفاذ کے لیے کرپٹ عناصر کو سزائیں بھی دینا ہوں گی۔
گزشتہ کچھ عرصے سے جعلی بینک کھاتوں کے ذریعے دھوکا دہی اور ٹیکس چوری سے بنائی گئی دولت بیرون ملک منتقل کرنے کے ایک انتہائی اہم مقدمے میں تحقیقات جاری ہیں۔ جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق معلومات اس وقت سامنے آئیں جب ایک خفیہ ادارے نے ایک ممتاز منی چینجر سے تحقیقات کا آغاز کیا حالانکہ اس کارروائی کا مذکورہ معاملے سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔ دسمبر 2015میں ایف آئی اے نے مخصوص بینک اکاؤنٹس سے متعلق تحقیقات کا آغاز کیا جن کے ذریعے کروڑوں روپے منتقل کیے گئے تھے۔ تفتیش کاروں نے ایسے 29اکاؤنٹس کی نشان دہی کی جن میں مجموعی طور پر 35ارب روپے جمع کروائے گئے۔ لیکن یہ محض دیگ کے چند دانے ثابت ہوئے۔ 2018میں تحقیقات کو تیز کرنے کے لیے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔ اس جے آئی ٹی نے ابتدائی مرحلے ہی میں 11500بینک اکاؤنٹس اور 924کھاتے داروں کی نشاندہی کی۔
تحقیقات کے اہم موڑ پر سابق صدر پاکستان آصف زرداری اور ان کے اہل خانہ کا نام اس معاملے میں سامنے آیا۔ میسز لینڈ مارک اور نیشنل گیس پرائیویٹ لمیٹڈ(این جی ایس)سے متعلق انکشافات سامنے آئے جو کہ پہلے ہی اربوں روپوں کی منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہونی والی کمپنیوں میں اضافہ ثابت ہوا۔ میسز لینڈ مارک آصف زرداری کی ملکیت ہے اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اور عذرا پیچوہو اس میں شراکت دار ہیں۔ ان کمپنیوں کی تفصیلات ایک کمپیوٹر ہار ڈسک سے حاصل ہوئیں۔ یہ ڈسک کھوسکی میں اومنی گروپ کی شوگر میل پر ایف آئی اے کے چھاپے کے دوران حاصل کی گئی تھی۔
زرداری خاندان ضلع نوابشاہ میں بسنے والے سندھی بلوچ زرداری قبیلے کا سربراہ ہے۔ یہاں اس قبیلے کے پاس ہزاروں ایکڑ زمین ہے جس میں کاشت بھی کی جاتی ہے۔ 1985تک اس قبیلے کے افراد کی تعداد 70ہزار بتائی جاتی تھی جو آج کئی گنا بڑھ چکی ہوگی۔ یہی وہ قوت ہے جو زرداری خاندان کے اثر و رسوخ کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے استعمال ہوئی۔ بھٹو خاندان اور دوسرے بڑے جاگیردار خاندان کے مابین رشتے داری نے مال بنانے اور اسے ملک سے باہر لے جانے کے نئے مواقعے پیدا کیے۔ ایسے بارسوخ خاندان کے لوگوں کو عدالت کے کٹہرے تک لانا چھوٹی موٹی کام یابی نہیں۔
منشیات کے کاروبار کے الزامات میں مسلم لیگ ن کے رانا ثناء اﷲ کی گرفتاری بھی انتہائی اہم ہے۔ حال ہی میں اینٹی نارکوٹیکس فورس(اے این ایف)نے چند منشیات فروشوں کو گرفتار کیا جن سے بہت کچھ معلوم ہوا ۔ شریفوں کے لیے یہ گرفتاری بہت بڑا دھچکا ہے۔ رانا ثناء اﷲ ان کی سیاسی بادشاہت کا اہم ترین مہرہ ہے۔
آج نیب اور عدالتیں زرداری کے خلاف جو کارروائی کررہی ہیں وہ کوئی ذاتی انتقام نہیں، یہ اقدامات ملکی معیشت کی بنیادیں ہلا دینے والی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہوچکے تھے۔ کئی چور ابھی تک کھُلے گھوم رہے ہیں جنھیں انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔ لیکن یہ آسان کام نہیں۔ کرپشن کے انتہائی مضبوط ڈھانچے کو توڑنے کے لیے فیصلہ کُن اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے لیے جعلی کھاتوں کے ذریعے رقوم کی منتقلی جیسے راستے بند کرنے سمیت کئی دیگر اقدامات کرنا ہوں گے۔
ریاست دیانت داری سے کمائی گئی دولت اور ٹیکس منی کی حفاظت کی ذمے دار ہے، لوٹ مار سے بنائے گئے اثاثوں کا تحفظ اس کا کام نہیں۔ حکمران طبقے کے ہزاروں افراد کو غلط بیانی اور جھوٹ بولنے پر سزائیں دی جاسکتی ہیں اور اسی صورت میں ان سے لوٹی ہوئی دولت نکلوائی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں عدل و انصاف بحال کرنے کے لیے ایسے بے باکانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)