بابل و نینوا عالمی ورثہ میں شامل

نسل انسانی نے جہاں جہاں تہذیب کے آثار چھوڑے ہیں، آج کی نسل کو ان سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔


Editorial July 07, 2019
نسل انسانی نے جہاں جہاں تہذیب کے آثار چھوڑے ہیں، آج کی نسل کو ان سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

یونیسکو کے ورلڈ ہیری ٹیج کمیشن نے میسوپوٹامیہ (عراق) کی قدیم تہذیب کے علاقے بابل کو عالمی ورثہ کے دائرے میں شامل کر لیا ہے۔ واضح رہے عراق گذشتہ تین دہائیوں سے اس کی لابنگ کی جا رہی تھی۔ بالآخر عراق کا موقف تسلیم کر لیا گیا۔

عراق 1983 سے کوشش کر رہا تھا کہ دس کلو میٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے کمپلیکس کو جس کی صرف 18 فیصد کھدائی ہوئی تھی، اسے عالمی ورثہ میں شامل کیا جائے ، یونیسکو نے آخر کار اس سائٹ کے بارے میں دعویٰ قبول کر لیا۔ یہ مقام عراق کے دریائے فرات کے مغربی کنارے پر واقع ہے جو دارالحکومت بغداد سے ایک سو کلو میٹر دور جنوب میں ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ علاقہ چار ہزار سال قدیم بابل و نینوا کی سلطنت کا مرکزی حصہ تھا۔

یونیسکو کی عالمی ورثہ کی کمیٹی میں شامل عراقی نمائندے کا موقف تھا کہ اس علاقے کو عالمی تاریخی ورثہ میں شامل کیے بغیر بنی نوع انسان کی تاریخ ہی مکمل نہیں ہو سکتی۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ بابل و نینوا اساطیری دور کی یادگاریں ہیں۔ یونیسکو کمیٹی کا اجلاس آذربیجان کے دارالحکومت باکو میں منعقد ہوا جس میں بابل کے علاوہ دیگر 34 سائٹس پر غور و خوض کیا گیا جن میں بعض برازیل اور بعض افریقی ملک برکینا فاسو میں ہیں ۔

بابل کے آثار کو شامل کرنے سے اس فہرست میں جو وقفہ رہ گیا تھا وہ دور ہو گیا ہے۔ بابل کو عالمی ورثہ میں شامل کرنے کی تحقیق کے دوران تیونس کے آثار قدیمہ کا وفد بھی وہاں موجود تھا۔ بابل کو عالمی ورثہ میں شامل کرنے کے اعلان پر عراقی وفد نے خوشی سے تالیاں بجائیں اور ساتھ ہی دیگر وفود کو بابل کی سیر کی دعوت بھی دی۔ واضح رہے بابل و نینوا کو باقاعدہ فصیل کے اندر بنائے جانے والے شہر کا درجہ حاصل تھا۔

اس فصیل کو پکی ہوئی اینٹوں سے تیار کیا گیا اور اس فصیل میں مینار اور مندر بھی بنائے گئے جو دنیا میں اپنے معلق باغات کی وجہ سے خصوصی شہرت کا حامل تھا۔ اس علاقے کی کھدائی کا آغاز سن 1800 کے آغاز میں ہوا تھا اور کئی قدیمی آرٹ کے نمونوں کو جائزے کے لیے بیرون ملک بھیج دیا گیا۔ خصوصاً یورپ کے ماہرین آثار قدیمہ کے پاس بھجوایا گیا۔ صدام حسین کے دور حکومت میں ان قدیمی آثار کی خصوصی حفاظت کرائی گئی لیکن 2003 میں جب امریکا نے عراق حملہ کیا تو امریکی بمباری کی وجہ سے عراق کے قدیمی ورثے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

قدیم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بابل اور نینوا کی تہذیب انسانی تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے جب کہ اس زمانے میں بابل کی آبادی بے حد کثیر تھی۔عراق میں 7000 مقامات پر کھدائی کر کے آثار قدیم برآمد کیے گئے۔ کئی آثار قدیم داعش کے ہاتھوں تباہ ہوئے ۔ تاریخ اور تہذیب کسی ایک قوم کی نہیں ہوتی بلکہ یہ پوری عالم انسانیت کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہے۔

نسل انسانی نے جہاں جہاں تہذیب کے آثار چھوڑے ہیں، آج کی نسل کو ان سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور ان آثار کو بچانے کے لیے ہرممکن کوشش کرنی چاہیے تاکہ آنے والی نسل کو بھی پتہ چل سکے کہ ماضی کے انسان کا آج کی دنیا سے کیا تعلق تھا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں