دنیا کا سب سے بڑا بوجھ
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ موت ایک ایسی چیز کا نام بھی ہے جس کی آرزوکرنا گناہ ہے لیکن اسے یاد رکھنا درویشی ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا بوجھ باپ کے کاندھے پر رکھے ہوئے جوان بیٹے کی لاش کا ہوتا ہے۔ یہی وہ بوجھ ہے جو باپ کی کمر توڑنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس بوجھ کو ایسی قیامت کا نام بھی دیا جاسکتا ہے جو عمر بھر گزرتی ہی نہیں۔ جوان جہان بیٹے کی موت کی یاد کی کپکپاتی تو والدین کے دل و دماغ سے بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی۔
بلاشبہ موت برحق ہے ہر ذی ہوش کو ایک روز اس کا سامنا کرنا ہے لیکن جوانی کی اور بالخصوص ان کی حادثاتی موت بڑی ہی تکلیف اور اذیت کا باعث والدین کے لیے ثابت ہوتی ہے اور بالآخر وہ اسی تکلیف کا سامنا نہ کرپاتے ہوئے جلد ہی وہ خود بھی مٹی کا رزق بن جاتے ہیں۔
موت کو زندگی کی سفاک حقیقت کا نام بھی دیا گیا ہے۔ حضرت علیؓ کے مطابق زندگی کی سب سے بڑی محافظ خود موت ہوتی ہے۔ سقراط سے پوچھا گیا کہ موت سے بھی کوئی سخت ترین چیز ہے؟ سقراط نے جواب دیا زندگی، کیونکہ ہر قسم کے رنج و الم اور آزار و مشکلات زندگی ہی میں برداشت کرنا پڑتی ہے اور موت ان سے نجات دلاتی ہے۔ موت کوکسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی ،کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ، اسی لیے وہ یہ نہیں دیکھتی کہ کون کس کی اکلوتی اولاد ہے یا کون کس کا واحد کفیل یا سہارا ہے اور کون کس کا باپ ہے؟ وہ بس بے تابی سے زندگی کے تعاقب میں دیوانہ وار دوڑتی رہتی ہے اور بالآخر اسے ایک دن جا لیتی ہے۔
ہماری دانست میں اردو کے عظیم ترین اور لازوال شاعر مرزا غالب کو برصغیر پاک و ہند کا سب سے بڑا اور بدقسمت باپ کہا جاسکتا ہے۔ گو ان کی زندگی کا آغاز ہی دکھوں، غموں اور محرومیوں سے ہوا تھا لیکن یہ حقیقت شاید کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کی اہلیہ امراؤ بیگم نے سات بچوں کو جنم دیا تھا مگر ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچا۔ کون نہیں جانتا کہ اولاد کو بڑھاپے کا سہارا سمجھا جاتا ہے اور اس زمانے میں تو لوگ اولاد پر ہی تکیہ کرتے تھے۔ مگر غالب کی قسمت میں یہ راحت، یہ نعمت اور یہ خوشی بھی نہ تھی۔ جس شخص کے سات بیٹے جنم لینے کے بعد یکے بعد دیگرے فوت ہوتے چلے جائیں اس کی حالت کا اندازہ ہرکوئی لگا سکتا ہے۔ سات بیٹوں کے صدمات نے غالب کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ زمانے کی ناقدری اور مالی مشکلات نے غالب کو پہلے ہی سے مسلسل پریشانیوں میں مبتلا رکھا۔ یہی صدمات کیا کم تھے کہ غالب کو ایک اور قیامت خیز صدمے سے دوچار ہونا پڑا جب ان کا منہ بولا اور لاڈلا بیٹا بھی نوعمری میں وفات پاگیا۔ اس کا نوحہ غالب نے خون دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھا تھا۔
مرزا غالب کے بعد پاکستان میں ظریف فیملی کے والد سب سے زیادہ بد قسمت باپ ثابت ہوئے جن کے بوڑھے کاندھوں نے اپنے تین جوان بیٹوں کے لاشے یکے بعد دیگرے اٹھائے۔ ظریف، منور ظریف اور رشید ظریف پاکستانی سینما کے مشہور ترین کامیڈین تھے۔
نامور اداکارہ روحی بانو کے جواں سال بیٹے کو جس بے دردی سے ان کے فلیٹ کے سامنے قتل کیا گیا، اس صدمے نے روحی بانو کو اجاڑ کر رکھ دیا، پہلے اسے پاگل بنایا پھر آہستہ آہستہ وہ موت کی آغوش میں چلی گئی۔
روحی بانو کی تباہی و بربادی کا سبب بلاشبہ ان کے جوان بیٹے کا قتل ہی تھا پہلے وہ عقل و خرد سے بیگانہ ہوئی، نفسیاتی اسپتالوں سے ہوتی ہوئی بالآخر پاگل خانے تک پہنچی اور بالآخر اولاد کے غم میں خود بھی خاک میں مل گئی۔
ماضی کے مشہور اداکار علاؤالدین بھی اپنے جوان بیٹے کی لاش کا بوجھ اپنے کاندھوں پر سنبھال نہ سکے اور وہ بھی نیم پاگل سے ہوگئے۔ ستم بالائے ستم فلموں میں کام بھی ملنا ختم ہوا تو غم روزگار نے انھیں توڑ پھوڑ دیا، آخر کار وہ جلد ہی اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
ٹیلی ویژن اور فلم کے مشہور اداکار جمیل فخری کے جوان بیٹے کو امریکا میں کسی نے جلا کر مار دیا۔ یہ صدمہ ان کے لیے قیامت ثابت ہوا اور وہ بھی آناً فاناً اپنے بیٹے کے تعاقب میں اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ اولاد کو ویسے بھی والدین کا سب سے بڑا امتحان کہا جاتا ہے لیکن ان کی اچانک اور بالخصوص حادثاتی موت والدین کو پاش پاش کر دیتی ہے اور پھر وہ ایسے بکھرتے ہیں کہ کسی صورت اٹھائے نہیں اٹھتے اور بالآخر قبرکی آغوش ہی ان کا مستقبل پڑاؤ بن جاتی ہے۔
حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کے جوان سال بیٹے کو کار ایکسی ڈینٹ کی وجہ سے لاش کی صورت اپنے باپ کے کاندھے پر سوار ہوکر لحد میں اترنا پڑا۔ سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیر افگن نیازی کا بیٹا بھی اپنے باپ کے کاندھوں پر اپنا بھاری بوجھ لے کر دنیا سے چلا گیا تھا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی شہلا رضا بھی بڑے ہی دکھ سے گزری ہیں انھیں بھی اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے اور بیٹی کو سپرد خاک کرنا پڑا۔ یہ دونوں بھی ٹریفک حادثے میں اس فانی دنیا سے چلے گئے تھے۔ ان کے علاوہ بلیغ الرحمن (سابق وفاقی وزیر) کی اہلیہ اور ان کا جوان بیٹا بھی ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ صدیق الفاروق اور محمود الرشید جیسے وزرا کے جواں سال بیٹے بھی اپنے والدین کی کمریں دہری کرکے سپردخاک ہوئے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیزکا جواں سال بیٹا لندن میں جاں بحق ہوا۔
الغرض یہ کہ انسان خواہ خاص ہو یا عام حکومتی ایوانوں میں بیٹھتا ہو یا جھونپڑی کے نیچے رہتا ہو جوان العمری کی اموات ان کے والدین کے لیے دنیا کی بہت بڑی تکلیف اور آزمائش کہلاتی ہے۔ یہ صدمہ، یہ غم، یہ رنج، یہ ملال، یہ دکھ یا یہ افسوس والدین کے لیے ناقابل فراموش ہوتا ہے جو اپنے وقت سے بہت پہلے انھیں مٹی میں ملانے کا سبب بن جاتا ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ موت ایک ایسی چیز کا نام بھی ہے جس کی آرزوکرنا گناہ ہے لیکن اسے یاد رکھنا درویشی ہے اور یہ کہ قبر اپنے مکینوں کو ہر روز دن میں کم سے کم دو بار یاد کرتی ہے۔ اور انھی وجوہات کی بنا پر یہ عالمگیر سچائی سامنے آتی ہے کہ جو بالائے زمین آیا ہے اسے ایک روز زیر زمین جانا ہے کہ یہ ہمارے رب کا امر ہے۔ تاہم اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کسی کی موت فطری یا طبعی ہو تو انسان صبر کرلیتا ہے یا اسے صبر آجاتا ہے لیکن غیر فطری (حادثاتی) موت کا غم دیرپا ہوتا ہے اور یہ انسان کو گھن کی طرح چاٹتا رہتا ہے۔
موت بہرطور برحق ہے اور ہم سبھی اپنی اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہیں لیکن مبارک ہے وہ موت جو اپنے پیچھے خلا چھوڑ جائے، لیکن تمناؤں اور دعاؤں کے چراغ روشن کر جائے کہ انھی دعاؤں سے آخرت کی راہوں میں اجالا ہوتا ہے۔
بلاشبہ موت برحق ہے ہر ذی ہوش کو ایک روز اس کا سامنا کرنا ہے لیکن جوانی کی اور بالخصوص ان کی حادثاتی موت بڑی ہی تکلیف اور اذیت کا باعث والدین کے لیے ثابت ہوتی ہے اور بالآخر وہ اسی تکلیف کا سامنا نہ کرپاتے ہوئے جلد ہی وہ خود بھی مٹی کا رزق بن جاتے ہیں۔
موت کو زندگی کی سفاک حقیقت کا نام بھی دیا گیا ہے۔ حضرت علیؓ کے مطابق زندگی کی سب سے بڑی محافظ خود موت ہوتی ہے۔ سقراط سے پوچھا گیا کہ موت سے بھی کوئی سخت ترین چیز ہے؟ سقراط نے جواب دیا زندگی، کیونکہ ہر قسم کے رنج و الم اور آزار و مشکلات زندگی ہی میں برداشت کرنا پڑتی ہے اور موت ان سے نجات دلاتی ہے۔ موت کوکسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی ،کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ، اسی لیے وہ یہ نہیں دیکھتی کہ کون کس کی اکلوتی اولاد ہے یا کون کس کا واحد کفیل یا سہارا ہے اور کون کس کا باپ ہے؟ وہ بس بے تابی سے زندگی کے تعاقب میں دیوانہ وار دوڑتی رہتی ہے اور بالآخر اسے ایک دن جا لیتی ہے۔
ہماری دانست میں اردو کے عظیم ترین اور لازوال شاعر مرزا غالب کو برصغیر پاک و ہند کا سب سے بڑا اور بدقسمت باپ کہا جاسکتا ہے۔ گو ان کی زندگی کا آغاز ہی دکھوں، غموں اور محرومیوں سے ہوا تھا لیکن یہ حقیقت شاید کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کی اہلیہ امراؤ بیگم نے سات بچوں کو جنم دیا تھا مگر ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچا۔ کون نہیں جانتا کہ اولاد کو بڑھاپے کا سہارا سمجھا جاتا ہے اور اس زمانے میں تو لوگ اولاد پر ہی تکیہ کرتے تھے۔ مگر غالب کی قسمت میں یہ راحت، یہ نعمت اور یہ خوشی بھی نہ تھی۔ جس شخص کے سات بیٹے جنم لینے کے بعد یکے بعد دیگرے فوت ہوتے چلے جائیں اس کی حالت کا اندازہ ہرکوئی لگا سکتا ہے۔ سات بیٹوں کے صدمات نے غالب کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ زمانے کی ناقدری اور مالی مشکلات نے غالب کو پہلے ہی سے مسلسل پریشانیوں میں مبتلا رکھا۔ یہی صدمات کیا کم تھے کہ غالب کو ایک اور قیامت خیز صدمے سے دوچار ہونا پڑا جب ان کا منہ بولا اور لاڈلا بیٹا بھی نوعمری میں وفات پاگیا۔ اس کا نوحہ غالب نے خون دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھا تھا۔
مرزا غالب کے بعد پاکستان میں ظریف فیملی کے والد سب سے زیادہ بد قسمت باپ ثابت ہوئے جن کے بوڑھے کاندھوں نے اپنے تین جوان بیٹوں کے لاشے یکے بعد دیگرے اٹھائے۔ ظریف، منور ظریف اور رشید ظریف پاکستانی سینما کے مشہور ترین کامیڈین تھے۔
نامور اداکارہ روحی بانو کے جواں سال بیٹے کو جس بے دردی سے ان کے فلیٹ کے سامنے قتل کیا گیا، اس صدمے نے روحی بانو کو اجاڑ کر رکھ دیا، پہلے اسے پاگل بنایا پھر آہستہ آہستہ وہ موت کی آغوش میں چلی گئی۔
روحی بانو کی تباہی و بربادی کا سبب بلاشبہ ان کے جوان بیٹے کا قتل ہی تھا پہلے وہ عقل و خرد سے بیگانہ ہوئی، نفسیاتی اسپتالوں سے ہوتی ہوئی بالآخر پاگل خانے تک پہنچی اور بالآخر اولاد کے غم میں خود بھی خاک میں مل گئی۔
ماضی کے مشہور اداکار علاؤالدین بھی اپنے جوان بیٹے کی لاش کا بوجھ اپنے کاندھوں پر سنبھال نہ سکے اور وہ بھی نیم پاگل سے ہوگئے۔ ستم بالائے ستم فلموں میں کام بھی ملنا ختم ہوا تو غم روزگار نے انھیں توڑ پھوڑ دیا، آخر کار وہ جلد ہی اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
ٹیلی ویژن اور فلم کے مشہور اداکار جمیل فخری کے جوان بیٹے کو امریکا میں کسی نے جلا کر مار دیا۔ یہ صدمہ ان کے لیے قیامت ثابت ہوا اور وہ بھی آناً فاناً اپنے بیٹے کے تعاقب میں اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ اولاد کو ویسے بھی والدین کا سب سے بڑا امتحان کہا جاتا ہے لیکن ان کی اچانک اور بالخصوص حادثاتی موت والدین کو پاش پاش کر دیتی ہے اور پھر وہ ایسے بکھرتے ہیں کہ کسی صورت اٹھائے نہیں اٹھتے اور بالآخر قبرکی آغوش ہی ان کا مستقبل پڑاؤ بن جاتی ہے۔
حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کے جوان سال بیٹے کو کار ایکسی ڈینٹ کی وجہ سے لاش کی صورت اپنے باپ کے کاندھے پر سوار ہوکر لحد میں اترنا پڑا۔ سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیر افگن نیازی کا بیٹا بھی اپنے باپ کے کاندھوں پر اپنا بھاری بوجھ لے کر دنیا سے چلا گیا تھا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی شہلا رضا بھی بڑے ہی دکھ سے گزری ہیں انھیں بھی اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے اور بیٹی کو سپرد خاک کرنا پڑا۔ یہ دونوں بھی ٹریفک حادثے میں اس فانی دنیا سے چلے گئے تھے۔ ان کے علاوہ بلیغ الرحمن (سابق وفاقی وزیر) کی اہلیہ اور ان کا جوان بیٹا بھی ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ صدیق الفاروق اور محمود الرشید جیسے وزرا کے جواں سال بیٹے بھی اپنے والدین کی کمریں دہری کرکے سپردخاک ہوئے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیزکا جواں سال بیٹا لندن میں جاں بحق ہوا۔
الغرض یہ کہ انسان خواہ خاص ہو یا عام حکومتی ایوانوں میں بیٹھتا ہو یا جھونپڑی کے نیچے رہتا ہو جوان العمری کی اموات ان کے والدین کے لیے دنیا کی بہت بڑی تکلیف اور آزمائش کہلاتی ہے۔ یہ صدمہ، یہ غم، یہ رنج، یہ ملال، یہ دکھ یا یہ افسوس والدین کے لیے ناقابل فراموش ہوتا ہے جو اپنے وقت سے بہت پہلے انھیں مٹی میں ملانے کا سبب بن جاتا ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ موت ایک ایسی چیز کا نام بھی ہے جس کی آرزوکرنا گناہ ہے لیکن اسے یاد رکھنا درویشی ہے اور یہ کہ قبر اپنے مکینوں کو ہر روز دن میں کم سے کم دو بار یاد کرتی ہے۔ اور انھی وجوہات کی بنا پر یہ عالمگیر سچائی سامنے آتی ہے کہ جو بالائے زمین آیا ہے اسے ایک روز زیر زمین جانا ہے کہ یہ ہمارے رب کا امر ہے۔ تاہم اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کسی کی موت فطری یا طبعی ہو تو انسان صبر کرلیتا ہے یا اسے صبر آجاتا ہے لیکن غیر فطری (حادثاتی) موت کا غم دیرپا ہوتا ہے اور یہ انسان کو گھن کی طرح چاٹتا رہتا ہے۔
موت بہرطور برحق ہے اور ہم سبھی اپنی اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہیں لیکن مبارک ہے وہ موت جو اپنے پیچھے خلا چھوڑ جائے، لیکن تمناؤں اور دعاؤں کے چراغ روشن کر جائے کہ انھی دعاؤں سے آخرت کی راہوں میں اجالا ہوتا ہے۔