مالیاتی ڈسپلن اور ترقی
آج ایک دم سے ایک لاکھ مزید فائلر بن گئے اور اس طرح ہر سال ایک لاکھ اور بھی بنیں گے۔
خیر سے بجٹ پارلیمنت سے پاس ہو گیا اور پھر یوں جو لائی کے مہینے میں آئی ایم ایف کے بورڈ نے بھی پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر کی امداد منظور کر لی۔ انھی دنوں میں یہاں ایمنسٹی اسکیم متعارف ہوئی، اپنے تمام بے نامی اثاثہ جات کو ظاہر کرنے کے لیے وہ بھی اپنے اختتام کو پہنچی، جس کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد لوگ مزید فائلر بنے۔
یوں لگتا ہے کہ اب ڈالر 160-165 کے ارد گرد بہت مہینوں تک اپنا سفر جاری رکھے گا۔ ہماری معاشی مشکلات کسی طرح بھی کم نہیں ہو رہیں مگر جو معاشی بے راہ روی تھی اس کی بہت حد تک حوصلہ شکنی ضرور ہوئی ہے۔
ہمیں ٹیکس کی مد میں بہت سی آمدنی درکار ہے اور بہت سارا ڈالر بھی، امپورٹ بل کم کر کے ہمیں ایکسپورٹ بڑھانا ہے ۔ جو تارکین وطن بیرون ملک مقیم ہیں اور ہر سال لگ بھگ بیس ارب ڈالر کی ترسیلات ہمیں بھیجتے ہیں اس کا حجم بڑھا کر یہ ہدف حاصل کرنا ہوں گے۔ یونہی یہ ملک دو چار سال تک بحرانی صورتحال سے گزرے گا۔ اگر اس کریک ڈائون کی وجہ سے جو ہم نے کرپشن کے حوالے سے اٹھایا ہے یا اور بہت سے عوامل اگر ان کی وجہ سے معیشت مزید سکڑ تی ہے تو خدشہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا بھیانک economic depression ہو گا ۔ اس لیے بہت محتاط انداز میں آگے بڑھنا ہے کہ معیشت بھی پھلے پھولے اور ڈاکیومینٹڈ بھی ہو۔
آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالر کی اتنی بڑی حیثیت نہیں جو بذات خود آئی ایم ایف کا ہمارے ساتھ ہماری معیشت کے لیے کھڑا ہونا اہم ہے، اس سے ہماری معیشت پر دنیا کا بھروسہ بڑھے گا جو ہمارے لیے بیرونی کاروبار میں مددگار ثابت ہو گا۔ جس کی بنیاد پر نہ صرف ہمیں بین الاقوامی سطح پر مزید قرضہ ملے گا بلکہ ہمارے defaulters ہونے کے امکانات بھی کم ہوںگے۔
عین اس وقت جب آئی ایم ایف کا بورڈ ہماری امداد منظور کر رہا تھا۔ امریکا کی حکومتی ترجمان نے بلوچ لبریشن آرمی کو دہشت گرد قرار دے دیا ۔ اس سے یہ تاثر جڑ رہا ہے کہ جس طرح امریکا اور پاکستان کے تعلقات تاریخی اعتبار سے اب کی بار بہت ہی نچلی سطح پر آ گئے تھے اس میں آہستہ آہستہ بہتری آتی جا رہی ہے۔ ایک طرف پاکستان چین کا اعتماد بھی بحال رکھنا چاہتا ہے تو دوسری طرف مغرب کو بھی یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ وہ ان سے دور نہیں گیا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم اپنے خطے میں بہت سی بڑی مشکلات سے دو چار ہیں ۔ ہمارے ہندوستان کے ساتھ تعلقات جس سطح پر بگڑے ہیں ان سے بہت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے وہ اپنے بھی ہیں اور غیر بھی۔ پاکستان اس خطے کا بہت ہی اہم ملک ہے اور ایٹمی طاقت بھی ۔ اس ریاست کا ماڈریٹ ہو کہ ابھرنا خود اس ریاست کی ضمانت ہے اور یہ بات اب ہم اچھی طرح محسوس بھی کر رہے ہیں۔ خود ماڈریٹ ریاست کا nexus ہماری معیشت کی بہتری سے جڑا ہوا ہے اور ساتھ ساتھ اس کو نیشنل سیکیورٹی کے تناظر میں بھی دیکھنا ضروری ہے۔
ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہماری اندرونی سطح پر جو اقتدار کی رسہ کشی ہے وہ ابھی تک سمت نہیں لے سکی ۔ ملک کے فطری اقتدار اور طرز عمل میں خود یہاں کا کلاس اسٹرکچر ذمے دار ہے ۔ نہ بھرپور مڈل کلاس ہے جو یکساں دیہی اور شہری علاقوں میں موجود ہو اور اس کا سیاسی کردار بھی بنتا ہو۔ آج شریف اور زرداری خاندان کے ساتھ جو سلوک روا ہے اس میں یہاں کی کلاس اسٹرکچڑ کی بناوٹ اور کچھ خود ان کی کارکردگیوں کا عمل دخل ہے۔ اور دوسری طرف ہماری اسٹیبلشمنٹ جو افغان جہاد کے بعد ایک طاقتور حیثیت میں ملک کی سیاست میں ابھری تو سہی مگر اس کے اتحادی اور ان کا بیانیہ ملک کی پیداواری عمل میں رکاوٹ بن گئے۔
اس کی مثال کچھ اس طرح بھی دی جا سکتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جب ہٹلر کی فوجیں سویت یونین میں داخل ہوئیں تو اسٹالن نے ملک کی وہ فیکٹریاں جو غیر جنگی سامان پیدا کرتی تھیں ان کو بھی اسلحہ بنانے کے کام سے لگا دیا۔ خیر ایسا تو یہاں نہیں ہوا مگر ہم نے بھی جہادی پیدا کرنے کے لیے ان کو انفراسٹکچر بنایا۔ عین اس وقت جب بنگلا دیش اپنی گارمینٹس فیکٹری کو پروان چڑھا رہا تھا ۔ آج بنگلا دیش کے چالیس ارب ڈالر کی ایکسپورٹ سے بتیس ارب ڈالر گارمینٹس انڈسٹری دیتا ہے ۔ جہاں نوے فیصد کام کرنے والے ورکرز خواتین ہیں۔ ایک ایسا ملک جو نہ کپاس اگاتا ہے نہ کپڑا بناتا ہے بس صرف گارمنٹس بناتا ہے جس کا اسی فیصد خام مال باہر سے آتا ہے۔
آج ہم اس بات کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ ہمارے ہاں صحیح انداز کی پلاننگ نہیں ہے ۔ نہ پلاننگ کرنے والے دماغ ہیں اور اگر کوئی مثبت سوچ رکھتا بھی ہے اور کو ئی اچھا مشورہ دیتا بھی تو اس کی بات نگار خانہ میں طوطی کے مانند رہ جاتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نے اپنے دیہی پاکستان کو بہت متحرک بنانا ہے اور اس کے لیے لینڈ ریفارمز کے علاوہ وہاں کی صحت و تعلیم و شفاف پانی اور نکاسی آب کا موئثر نظام دینا ہو گا۔ یہ بات بہت ہی فراخدلی سے ہمیں ماننی ہو گی کہ ملک کے اس ڈگر تک آ جانے میں ہماری اشرافیہ ہی ذ مہ دار ہے، اور یہی اشرافیہ ہے جس کے مفادات کی ترجمانی ملک کے دونوں ادوار یعنیٰ آمریت اور جمہوری زمانوں میں ہوئی ہے۔
اس وقت جو سب سے اہم مسئلہ اس ملک کو درکار ہے وہ balance of payment کے حوالے سے ہے اور دوسرا اہم مسئلہ budget deficit کے حوالے سے ہے۔ ہمیں اس کے لیے اپنی import item میں سے غیر ضروری یا لگژری کے حوالے سے اشیاء پر ڈیوٹی بڑھانی ہے تو دوسری طرف لانگ ٹرم پلاننگ کی تحت ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیے ایک جامع منصوبہ اور ان کو اتھارٹی کے تحت قانون سازی کر کے چلانا ہے۔ یقینأ روپے کی قدر گرنے سے آیندہ دنوں میں ایکسپورٹ کے حوالے سے بہتر نتائج نکلیں گے ۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی صورت میں یہ انداز ہ لگایا جا رہا ہے کہ ہمیں اٹھتیس ارب ڈالر اور بھی قرضہ دنیا کی فانائنشل اداروں سے مل سکتے ہیں جس سے ہم لگ بھگ ستائیس ارب ڈالر آیندہ دو سال میں واجب الادا قرضے ادا کر سکتے ہیں۔
آج ایک دم سے ایک لاکھ مزید فائلر بن گئے اور اس طرح ہر سال ایک لاکھ اور بھی بنیں گے۔ ہمارا tax to GDP ریٹ کا تعلق ہمارے Budget Deficit سے ہے۔ اس کے بہتر ہونے سے ہمارے قرضے لینے کا عمل سست رفتاری پکڑے گا اور اس طرح مجموعی قرضوں کا حجم کم ہو گا۔
جہاں تک کرپشن کا پیسہ واپس لینے کا عمل ہے وہ سیاسی ہے اس سے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلیں گے۔ اس سے یہ ہو سکتا ہے کہ کرپشن کم ہو مگر پیسا واپس لانا آسان نہیں۔ مگر اس حوالے سے کم از کم یہ ضرور ہو گا کہ شفافیت بڑھے گی۔ جو پروجیکٹس ہیں ان میں بڑی بڑی کمیشن نہ ہو۔
لب لباب یہ ہے کہ fiscal Dsicpline کو ہماری قومی سلامتی کا اہم ستون سمجھنا ہو گا۔ اداروں کو اپنے مینڈیٹ سے کام کرنا اور ان کا آپس میں ٹکرائو میں نہیں آنا تو خود نیشنل لیڈر شپ پیدا کرنے کے لیے زمین کا ہموار کرنا پاکستان کی بقاء کا ذمے دار ہے۔
ان تمام باتوں میں سب سے اہم بات جس کا اثر آہستہ آہستہ نظر آئے گا وہ ہے ترقی کی معنیٰ کو وسیع اور جامع انداز میں دیکھنا ۔ ایک ترقی انسانی وسیلوں کی ہوتی ہے اور دوسری انفرا سٹرکچر کے حوالے سے ۔ ہم نے انسانی وسیلوں کی ترقی کے حوالے سے ان بیس تیس سالوں میں وہ انڈیکٹر جو نوے کی دہائی میں قدرأً بہتر تھے وہ آج اس سے بھی بدتر ہو چکے ہیں۔ یقیقنا پاکستان کا تابناک مستقبل دہلیز پر آن کھڑا ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ مستقبل مزاجی سے آگے بڑھنا ہے۔ یہاں فرد نہیں بلکہ اداروں کے مفادات ملک کے مجموعی طور پر بہتر پاکستان کے ضامن ہوںگے۔
یوں لگتا ہے کہ اب ڈالر 160-165 کے ارد گرد بہت مہینوں تک اپنا سفر جاری رکھے گا۔ ہماری معاشی مشکلات کسی طرح بھی کم نہیں ہو رہیں مگر جو معاشی بے راہ روی تھی اس کی بہت حد تک حوصلہ شکنی ضرور ہوئی ہے۔
ہمیں ٹیکس کی مد میں بہت سی آمدنی درکار ہے اور بہت سارا ڈالر بھی، امپورٹ بل کم کر کے ہمیں ایکسپورٹ بڑھانا ہے ۔ جو تارکین وطن بیرون ملک مقیم ہیں اور ہر سال لگ بھگ بیس ارب ڈالر کی ترسیلات ہمیں بھیجتے ہیں اس کا حجم بڑھا کر یہ ہدف حاصل کرنا ہوں گے۔ یونہی یہ ملک دو چار سال تک بحرانی صورتحال سے گزرے گا۔ اگر اس کریک ڈائون کی وجہ سے جو ہم نے کرپشن کے حوالے سے اٹھایا ہے یا اور بہت سے عوامل اگر ان کی وجہ سے معیشت مزید سکڑ تی ہے تو خدشہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا بھیانک economic depression ہو گا ۔ اس لیے بہت محتاط انداز میں آگے بڑھنا ہے کہ معیشت بھی پھلے پھولے اور ڈاکیومینٹڈ بھی ہو۔
آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالر کی اتنی بڑی حیثیت نہیں جو بذات خود آئی ایم ایف کا ہمارے ساتھ ہماری معیشت کے لیے کھڑا ہونا اہم ہے، اس سے ہماری معیشت پر دنیا کا بھروسہ بڑھے گا جو ہمارے لیے بیرونی کاروبار میں مددگار ثابت ہو گا۔ جس کی بنیاد پر نہ صرف ہمیں بین الاقوامی سطح پر مزید قرضہ ملے گا بلکہ ہمارے defaulters ہونے کے امکانات بھی کم ہوںگے۔
عین اس وقت جب آئی ایم ایف کا بورڈ ہماری امداد منظور کر رہا تھا۔ امریکا کی حکومتی ترجمان نے بلوچ لبریشن آرمی کو دہشت گرد قرار دے دیا ۔ اس سے یہ تاثر جڑ رہا ہے کہ جس طرح امریکا اور پاکستان کے تعلقات تاریخی اعتبار سے اب کی بار بہت ہی نچلی سطح پر آ گئے تھے اس میں آہستہ آہستہ بہتری آتی جا رہی ہے۔ ایک طرف پاکستان چین کا اعتماد بھی بحال رکھنا چاہتا ہے تو دوسری طرف مغرب کو بھی یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ وہ ان سے دور نہیں گیا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم اپنے خطے میں بہت سی بڑی مشکلات سے دو چار ہیں ۔ ہمارے ہندوستان کے ساتھ تعلقات جس سطح پر بگڑے ہیں ان سے بہت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے وہ اپنے بھی ہیں اور غیر بھی۔ پاکستان اس خطے کا بہت ہی اہم ملک ہے اور ایٹمی طاقت بھی ۔ اس ریاست کا ماڈریٹ ہو کہ ابھرنا خود اس ریاست کی ضمانت ہے اور یہ بات اب ہم اچھی طرح محسوس بھی کر رہے ہیں۔ خود ماڈریٹ ریاست کا nexus ہماری معیشت کی بہتری سے جڑا ہوا ہے اور ساتھ ساتھ اس کو نیشنل سیکیورٹی کے تناظر میں بھی دیکھنا ضروری ہے۔
ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہماری اندرونی سطح پر جو اقتدار کی رسہ کشی ہے وہ ابھی تک سمت نہیں لے سکی ۔ ملک کے فطری اقتدار اور طرز عمل میں خود یہاں کا کلاس اسٹرکچر ذمے دار ہے ۔ نہ بھرپور مڈل کلاس ہے جو یکساں دیہی اور شہری علاقوں میں موجود ہو اور اس کا سیاسی کردار بھی بنتا ہو۔ آج شریف اور زرداری خاندان کے ساتھ جو سلوک روا ہے اس میں یہاں کی کلاس اسٹرکچڑ کی بناوٹ اور کچھ خود ان کی کارکردگیوں کا عمل دخل ہے۔ اور دوسری طرف ہماری اسٹیبلشمنٹ جو افغان جہاد کے بعد ایک طاقتور حیثیت میں ملک کی سیاست میں ابھری تو سہی مگر اس کے اتحادی اور ان کا بیانیہ ملک کی پیداواری عمل میں رکاوٹ بن گئے۔
اس کی مثال کچھ اس طرح بھی دی جا سکتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جب ہٹلر کی فوجیں سویت یونین میں داخل ہوئیں تو اسٹالن نے ملک کی وہ فیکٹریاں جو غیر جنگی سامان پیدا کرتی تھیں ان کو بھی اسلحہ بنانے کے کام سے لگا دیا۔ خیر ایسا تو یہاں نہیں ہوا مگر ہم نے بھی جہادی پیدا کرنے کے لیے ان کو انفراسٹکچر بنایا۔ عین اس وقت جب بنگلا دیش اپنی گارمینٹس فیکٹری کو پروان چڑھا رہا تھا ۔ آج بنگلا دیش کے چالیس ارب ڈالر کی ایکسپورٹ سے بتیس ارب ڈالر گارمینٹس انڈسٹری دیتا ہے ۔ جہاں نوے فیصد کام کرنے والے ورکرز خواتین ہیں۔ ایک ایسا ملک جو نہ کپاس اگاتا ہے نہ کپڑا بناتا ہے بس صرف گارمنٹس بناتا ہے جس کا اسی فیصد خام مال باہر سے آتا ہے۔
آج ہم اس بات کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ ہمارے ہاں صحیح انداز کی پلاننگ نہیں ہے ۔ نہ پلاننگ کرنے والے دماغ ہیں اور اگر کوئی مثبت سوچ رکھتا بھی ہے اور کو ئی اچھا مشورہ دیتا بھی تو اس کی بات نگار خانہ میں طوطی کے مانند رہ جاتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نے اپنے دیہی پاکستان کو بہت متحرک بنانا ہے اور اس کے لیے لینڈ ریفارمز کے علاوہ وہاں کی صحت و تعلیم و شفاف پانی اور نکاسی آب کا موئثر نظام دینا ہو گا۔ یہ بات بہت ہی فراخدلی سے ہمیں ماننی ہو گی کہ ملک کے اس ڈگر تک آ جانے میں ہماری اشرافیہ ہی ذ مہ دار ہے، اور یہی اشرافیہ ہے جس کے مفادات کی ترجمانی ملک کے دونوں ادوار یعنیٰ آمریت اور جمہوری زمانوں میں ہوئی ہے۔
اس وقت جو سب سے اہم مسئلہ اس ملک کو درکار ہے وہ balance of payment کے حوالے سے ہے اور دوسرا اہم مسئلہ budget deficit کے حوالے سے ہے۔ ہمیں اس کے لیے اپنی import item میں سے غیر ضروری یا لگژری کے حوالے سے اشیاء پر ڈیوٹی بڑھانی ہے تو دوسری طرف لانگ ٹرم پلاننگ کی تحت ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیے ایک جامع منصوبہ اور ان کو اتھارٹی کے تحت قانون سازی کر کے چلانا ہے۔ یقینأ روپے کی قدر گرنے سے آیندہ دنوں میں ایکسپورٹ کے حوالے سے بہتر نتائج نکلیں گے ۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی صورت میں یہ انداز ہ لگایا جا رہا ہے کہ ہمیں اٹھتیس ارب ڈالر اور بھی قرضہ دنیا کی فانائنشل اداروں سے مل سکتے ہیں جس سے ہم لگ بھگ ستائیس ارب ڈالر آیندہ دو سال میں واجب الادا قرضے ادا کر سکتے ہیں۔
آج ایک دم سے ایک لاکھ مزید فائلر بن گئے اور اس طرح ہر سال ایک لاکھ اور بھی بنیں گے۔ ہمارا tax to GDP ریٹ کا تعلق ہمارے Budget Deficit سے ہے۔ اس کے بہتر ہونے سے ہمارے قرضے لینے کا عمل سست رفتاری پکڑے گا اور اس طرح مجموعی قرضوں کا حجم کم ہو گا۔
جہاں تک کرپشن کا پیسہ واپس لینے کا عمل ہے وہ سیاسی ہے اس سے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلیں گے۔ اس سے یہ ہو سکتا ہے کہ کرپشن کم ہو مگر پیسا واپس لانا آسان نہیں۔ مگر اس حوالے سے کم از کم یہ ضرور ہو گا کہ شفافیت بڑھے گی۔ جو پروجیکٹس ہیں ان میں بڑی بڑی کمیشن نہ ہو۔
لب لباب یہ ہے کہ fiscal Dsicpline کو ہماری قومی سلامتی کا اہم ستون سمجھنا ہو گا۔ اداروں کو اپنے مینڈیٹ سے کام کرنا اور ان کا آپس میں ٹکرائو میں نہیں آنا تو خود نیشنل لیڈر شپ پیدا کرنے کے لیے زمین کا ہموار کرنا پاکستان کی بقاء کا ذمے دار ہے۔
ان تمام باتوں میں سب سے اہم بات جس کا اثر آہستہ آہستہ نظر آئے گا وہ ہے ترقی کی معنیٰ کو وسیع اور جامع انداز میں دیکھنا ۔ ایک ترقی انسانی وسیلوں کی ہوتی ہے اور دوسری انفرا سٹرکچر کے حوالے سے ۔ ہم نے انسانی وسیلوں کی ترقی کے حوالے سے ان بیس تیس سالوں میں وہ انڈیکٹر جو نوے کی دہائی میں قدرأً بہتر تھے وہ آج اس سے بھی بدتر ہو چکے ہیں۔ یقیقنا پاکستان کا تابناک مستقبل دہلیز پر آن کھڑا ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ مستقبل مزاجی سے آگے بڑھنا ہے۔ یہاں فرد نہیں بلکہ اداروں کے مفادات ملک کے مجموعی طور پر بہتر پاکستان کے ضامن ہوںگے۔