ٹارگٹ کلنگ کے خلاف آپریشن کے بارے میں شہریوں کی توقعات
کمیٹی میں پراسیکیوٹر جنرل سندھ اور ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فروغ نسیم ایڈوکیٹ بھی شامل ہیں۔
وفاقی کابینہ کے کراچی میں ہونے والے خصوصی اجلاس کے فیصلوں کے مطابق کراچی میں پاکستان رینجرز سندھ کی قیادت میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن جاری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹارگٹ کلنگ اور خونریزی کا سلسلہ بھی نہیں رکا ۔ اگرچہ آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی ٹارگٹ کلنگ میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ کمی آپریشن کی وجہ سے ہوئی ہے یا اس کے کوئی دیگر اسباب ہیں ۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ ہفتے کراچی میں دو روزہ قیام کیا اور شہر میں امن قائم کرنے کے لیے مختلف حلقوں کے ساتھ طویل مشاورتی نشستیں منعقد کیں ۔ ان دو دنوں کے دوران کراچی میں 30 بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ پہلے دن 14 افراد اور دوسرے دن 16افراد دہشت گردی کا شکار ہوئے ۔ وزیراعظم بد امنی کے خاتمے کے لیے اجلاس منعقد کرتے رہے اور شہر میں لاشیں گرتی رہیں ۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ یہ دہشت گردوں کی طرف سے وزیراعظم کو ایک پیغام تھا ۔ وزیراعظم کے اسلام آباد روانہ ہوتے ہی شہر میں روزانہ قتل ہونے والوں کی تعداد 10سے کم ہوگئی ہے ۔ تاہم ٹارگٹ کلنگ اور خونریزی رک نہیں سکی ہے ۔کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ صورت حال کب تک برقرار رہے گی ۔
اس وقت کراچی سمیت پورے سندھ کے عوام کی نظریں ٹارگیٹڈ آپریشن پر لگی ہوئی ہیں لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں کراچی کے لوگ کچھ زیادہ پر امید نہیں ہیں ۔ بیوروکریسی اور انٹیلی جنس ایجنسیز صورت حال کا چاہے کچھ بھی تجزیہ کریں ، وہ کراچی کے لوگوں سے زیادہ زمینی حقائق کو نہیں جانتے ہیں ۔ اگر کراچی کے لوگ مایوس ہیں تو اس کے بعض ٹھوس اسباب ہیں ۔ ایک اہم سبب تو یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیز نے کراچی کے حالات کے بارے میں جو رپورٹس دی ہیں ، ان میں دہشت گردی اور دیگر جرائم کو گڈ مڈ کردیا گیا ہے اور سب کے خلاف ایک ساتھ کارروائی کی جا رہی ہے۔
یہ اپروچ صرف کراچی میں اختیار کی گئی ہے۔ بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی یہ اپروچ نہیں ہے ۔ کراچی میں یہ اپروچ کیوں اختیار کی گئی ؟ یہ ایک سوال ہے ۔ اس شہر میں دہشت گردی گزشتہ 30 سال سے ہو رہی ہے ۔ اس سے نمٹنے کے لیے اصولاً الگ حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے تھی جبکہ گزشتہ چند سالوں کے اندر پیدا ہونے والے یا پیدا کیے جانے والے جرائم پیشہ گروہوں کے خاتمے کے لیے الگ لائحہ عمل کی ضرورت تھی ۔ لیکن کراچی میں ہمیشہ معاملات کو الجھا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے ۔ یہ لوگوں کی مایوسی کا بنیادی سبب ہے ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ٹارگیٹڈ آپریشن شروع کرنے سے پہلے بہت واویلا کیا گیا اور شور مچایا گیا ۔ اس طرح دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو پہلے سے خبر دار کردیا گیا ۔ اس سے جن لوگوں کو فرار ہونا تھا ،وہ فرار ہوگئے۔ بہت سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد ملک کے دیگر شہروں میں جاکر روپوش ہوگئے یا بیرون ملک چلے گئے ۔ اس حوالے سے قومی ذرائع ابلاغ نے خبریں نشر اور شائع بھی کیں ۔ یہ بھی رپورٹس شائع ہوئی ہیں کہ غیر قانونی اسلحہ اور ہتھیار بھی محفوظ ٹھکانوں پر منتقل کردیئے گئے ہیں ۔
آپریشن سے پہلے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کو بچ نکلنے یا روپوش ہونے کے لیے بہت زیادہ وقت دیا گیا ۔ یہ بات بھی آپریشن کی کامیابی کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پہلے آپریشن کی حکمت عملی طے کرتی ۔ انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس کے مطابق ان علاقوں کی سخت نگرانی شروع کردیتی ، جہاں دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد موجود تھے اور ایئرپورٹ اور شہر کے داخلی راستوں پر ناکہ بندی کی جاتی تاکہ ملزمان فرار نہ ہوسکتے اور اسلحہ کی نقل و حمل روکی جاسکتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔
ٹارگیٹڈ آپریشن کے حوالے سے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کراچی کے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ جو مشاورت کی، اس میں بھی کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی ۔ صرف ایک نئی بات یہ تھی کہ کراچی کے لوگ بدامنی ، خونریزی اور بھتہ خوری کے خلاف پہلے سے زیادہ چیخ پڑے اور انہوں نے ہر صورت امن قائم کرنے کی اپیل کی ۔ مشاورتی اجلاس میں تو بعض لوگوں نے حالات کو دوسرا رخ دینے کی بھی کوشش کی ۔ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف جیسے سیاسی قائدین اگر 30 سال بعد بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حکومت ایکشن کرے ۔ امن قائم ہوتا ہے تو لوگوں کو حکومت کے کسی بھی ایکشن پر اعتراض نہیں ہوگا ۔ اگر یہ آپریشن کامیاب نہیں ہوتا تو نہ صرف لوگوں کی مایوسی میں اضافہ ہوگا بلکہ کراچی مزید تباہی و بربادی کا شکار ہوگا ۔ کراچی سمیت پورے سندھ کے لوگ اس آپریشن کی کامیابی کے لیے دعائیں کر رہے ہیں ۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اگرچہ بار بار یہ بات کہی ہے کہ کراچی کو وفاق کے حوالے نہیں کیا گیا بلکہ وفاقی اداروں کو حکومت سندھ کی کمان میں دے دیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سارے اختیارات رینجرز کے پاس ہیں ۔آپریشن کے لیے چار کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں ۔ سب سے اہم آپریشنل کمیٹی ہے ، جس کے سربراہ ڈی جی رینجرز سندھ ہیں ۔ یہ کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر آپریشن کی حکمت عملی طے کرتی ہے اور اس کے مطابق رینجرز شہر میں کارروائیاں کرتے ہیں ۔
اس کمیٹی میں اگرچہ آئی جی سندھ پولیس بھی شامل ہیں لیکن کمیٹی کے باقی تمام ارکان کا تعلق وفاقی اداروں سے ہے ۔ ایک کمیٹی وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں بھی تشکیل دی گئی ہے ، جو آپریشن کو کنٹرول کرے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر آپریشنل کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتی ہے
۔ ایک مانیٹرنگ کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، جو سول سوسائٹی کے سینئر اور اچھی ساکھ کے حامل لوگوں پر مشتمل ہوگی ۔ اس کمیٹی کے ارکان اس بات کا جائزہ لیں گے کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ، وہ بادی النظر میں مجرم ہیں یا نہیں اور ان کی گرفتاری درست ہے یا نہیں ۔ اس کمیٹی کا کام نگرانی تک محدود ہوگا ۔ یہ بھی آپریشنل کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتی ۔ چوتھی کمیٹی وفاقی وزیر زاہد حامد کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے ،جو پراسیکیوشن کے قوانین اور تفتیش کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز مرتب کرے گی تاکہ گرفتار ہونے والے افراد قانونی سقم کی وجہ سے جلد ضمانتیں حاصل نہ کرسکیں ۔
اس کمیٹی میں پراسیکیوٹر جنرل سندھ اور ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فروغ نسیم ایڈوکیٹ بھی شامل ہیں۔ یہ کمیٹی آپریشنل کمیٹی کو قانونی معاونت فراہم کرے گی لیکن آپریشنل کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتی ۔ اس طرح آپریشنل کمیٹی عملاً اپنے کام میں مکمل آزاد ہے اور وہ کسی کو جواب دہ بھی نہیں ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ کی سربراہی میں قائم کردہ کمیٹی شاید اس لیے بھی آپریشنل کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرے گی کہ ملک کے طاقتور حلقوں میں کہیں یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ حکومت سندھ آپریشن کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے ۔ اس صورت حال سے بھی کئی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے دورہ کراچی کے دوران کئی مرتبہ یہ بات زور دے کر کہی کہ انہوں نے کراچی میں امن کے لیے 1998ء میں سندھ میں لیاقت علی جتوئی کی حکومت اپنے ہاتھوں سے ختم کردی تھی ۔ انہوں نے نہ پہلے سمجھوتہ کیا تھا اور نہ اب سمجھوتہ کریں گے ۔ بعض حلقے اس کا مطلب یہ بھی لے رہے ہیں کہ کراچی کے ٹارگیٹڈ آپریشن کی ذمہ داری حکومت سندھ پر ڈالی جاسکتی ہے اور وہ یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ کیا ٹارگیٹڈ آپریشن کہیں سندھ حکومت کے خاتمے پر تو ختم نہیں ہوگا ؟
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ ہفتے کراچی میں دو روزہ قیام کیا اور شہر میں امن قائم کرنے کے لیے مختلف حلقوں کے ساتھ طویل مشاورتی نشستیں منعقد کیں ۔ ان دو دنوں کے دوران کراچی میں 30 بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ پہلے دن 14 افراد اور دوسرے دن 16افراد دہشت گردی کا شکار ہوئے ۔ وزیراعظم بد امنی کے خاتمے کے لیے اجلاس منعقد کرتے رہے اور شہر میں لاشیں گرتی رہیں ۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ یہ دہشت گردوں کی طرف سے وزیراعظم کو ایک پیغام تھا ۔ وزیراعظم کے اسلام آباد روانہ ہوتے ہی شہر میں روزانہ قتل ہونے والوں کی تعداد 10سے کم ہوگئی ہے ۔ تاہم ٹارگٹ کلنگ اور خونریزی رک نہیں سکی ہے ۔کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ صورت حال کب تک برقرار رہے گی ۔
اس وقت کراچی سمیت پورے سندھ کے عوام کی نظریں ٹارگیٹڈ آپریشن پر لگی ہوئی ہیں لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں کراچی کے لوگ کچھ زیادہ پر امید نہیں ہیں ۔ بیوروکریسی اور انٹیلی جنس ایجنسیز صورت حال کا چاہے کچھ بھی تجزیہ کریں ، وہ کراچی کے لوگوں سے زیادہ زمینی حقائق کو نہیں جانتے ہیں ۔ اگر کراچی کے لوگ مایوس ہیں تو اس کے بعض ٹھوس اسباب ہیں ۔ ایک اہم سبب تو یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیز نے کراچی کے حالات کے بارے میں جو رپورٹس دی ہیں ، ان میں دہشت گردی اور دیگر جرائم کو گڈ مڈ کردیا گیا ہے اور سب کے خلاف ایک ساتھ کارروائی کی جا رہی ہے۔
یہ اپروچ صرف کراچی میں اختیار کی گئی ہے۔ بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی یہ اپروچ نہیں ہے ۔ کراچی میں یہ اپروچ کیوں اختیار کی گئی ؟ یہ ایک سوال ہے ۔ اس شہر میں دہشت گردی گزشتہ 30 سال سے ہو رہی ہے ۔ اس سے نمٹنے کے لیے اصولاً الگ حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے تھی جبکہ گزشتہ چند سالوں کے اندر پیدا ہونے والے یا پیدا کیے جانے والے جرائم پیشہ گروہوں کے خاتمے کے لیے الگ لائحہ عمل کی ضرورت تھی ۔ لیکن کراچی میں ہمیشہ معاملات کو الجھا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے ۔ یہ لوگوں کی مایوسی کا بنیادی سبب ہے ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ٹارگیٹڈ آپریشن شروع کرنے سے پہلے بہت واویلا کیا گیا اور شور مچایا گیا ۔ اس طرح دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو پہلے سے خبر دار کردیا گیا ۔ اس سے جن لوگوں کو فرار ہونا تھا ،وہ فرار ہوگئے۔ بہت سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد ملک کے دیگر شہروں میں جاکر روپوش ہوگئے یا بیرون ملک چلے گئے ۔ اس حوالے سے قومی ذرائع ابلاغ نے خبریں نشر اور شائع بھی کیں ۔ یہ بھی رپورٹس شائع ہوئی ہیں کہ غیر قانونی اسلحہ اور ہتھیار بھی محفوظ ٹھکانوں پر منتقل کردیئے گئے ہیں ۔
آپریشن سے پہلے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کو بچ نکلنے یا روپوش ہونے کے لیے بہت زیادہ وقت دیا گیا ۔ یہ بات بھی آپریشن کی کامیابی کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پہلے آپریشن کی حکمت عملی طے کرتی ۔ انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس کے مطابق ان علاقوں کی سخت نگرانی شروع کردیتی ، جہاں دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد موجود تھے اور ایئرپورٹ اور شہر کے داخلی راستوں پر ناکہ بندی کی جاتی تاکہ ملزمان فرار نہ ہوسکتے اور اسلحہ کی نقل و حمل روکی جاسکتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔
ٹارگیٹڈ آپریشن کے حوالے سے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کراچی کے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ جو مشاورت کی، اس میں بھی کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی ۔ صرف ایک نئی بات یہ تھی کہ کراچی کے لوگ بدامنی ، خونریزی اور بھتہ خوری کے خلاف پہلے سے زیادہ چیخ پڑے اور انہوں نے ہر صورت امن قائم کرنے کی اپیل کی ۔ مشاورتی اجلاس میں تو بعض لوگوں نے حالات کو دوسرا رخ دینے کی بھی کوشش کی ۔ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف جیسے سیاسی قائدین اگر 30 سال بعد بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حکومت ایکشن کرے ۔ امن قائم ہوتا ہے تو لوگوں کو حکومت کے کسی بھی ایکشن پر اعتراض نہیں ہوگا ۔ اگر یہ آپریشن کامیاب نہیں ہوتا تو نہ صرف لوگوں کی مایوسی میں اضافہ ہوگا بلکہ کراچی مزید تباہی و بربادی کا شکار ہوگا ۔ کراچی سمیت پورے سندھ کے لوگ اس آپریشن کی کامیابی کے لیے دعائیں کر رہے ہیں ۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اگرچہ بار بار یہ بات کہی ہے کہ کراچی کو وفاق کے حوالے نہیں کیا گیا بلکہ وفاقی اداروں کو حکومت سندھ کی کمان میں دے دیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سارے اختیارات رینجرز کے پاس ہیں ۔آپریشن کے لیے چار کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں ۔ سب سے اہم آپریشنل کمیٹی ہے ، جس کے سربراہ ڈی جی رینجرز سندھ ہیں ۔ یہ کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر آپریشن کی حکمت عملی طے کرتی ہے اور اس کے مطابق رینجرز شہر میں کارروائیاں کرتے ہیں ۔
اس کمیٹی میں اگرچہ آئی جی سندھ پولیس بھی شامل ہیں لیکن کمیٹی کے باقی تمام ارکان کا تعلق وفاقی اداروں سے ہے ۔ ایک کمیٹی وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں بھی تشکیل دی گئی ہے ، جو آپریشن کو کنٹرول کرے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر آپریشنل کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتی ہے
۔ ایک مانیٹرنگ کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، جو سول سوسائٹی کے سینئر اور اچھی ساکھ کے حامل لوگوں پر مشتمل ہوگی ۔ اس کمیٹی کے ارکان اس بات کا جائزہ لیں گے کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ، وہ بادی النظر میں مجرم ہیں یا نہیں اور ان کی گرفتاری درست ہے یا نہیں ۔ اس کمیٹی کا کام نگرانی تک محدود ہوگا ۔ یہ بھی آپریشنل کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتی ۔ چوتھی کمیٹی وفاقی وزیر زاہد حامد کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے ،جو پراسیکیوشن کے قوانین اور تفتیش کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز مرتب کرے گی تاکہ گرفتار ہونے والے افراد قانونی سقم کی وجہ سے جلد ضمانتیں حاصل نہ کرسکیں ۔
اس کمیٹی میں پراسیکیوٹر جنرل سندھ اور ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فروغ نسیم ایڈوکیٹ بھی شامل ہیں۔ یہ کمیٹی آپریشنل کمیٹی کو قانونی معاونت فراہم کرے گی لیکن آپریشنل کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتی ۔ اس طرح آپریشنل کمیٹی عملاً اپنے کام میں مکمل آزاد ہے اور وہ کسی کو جواب دہ بھی نہیں ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ کی سربراہی میں قائم کردہ کمیٹی شاید اس لیے بھی آپریشنل کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرے گی کہ ملک کے طاقتور حلقوں میں کہیں یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ حکومت سندھ آپریشن کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے ۔ اس صورت حال سے بھی کئی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے دورہ کراچی کے دوران کئی مرتبہ یہ بات زور دے کر کہی کہ انہوں نے کراچی میں امن کے لیے 1998ء میں سندھ میں لیاقت علی جتوئی کی حکومت اپنے ہاتھوں سے ختم کردی تھی ۔ انہوں نے نہ پہلے سمجھوتہ کیا تھا اور نہ اب سمجھوتہ کریں گے ۔ بعض حلقے اس کا مطلب یہ بھی لے رہے ہیں کہ کراچی کے ٹارگیٹڈ آپریشن کی ذمہ داری حکومت سندھ پر ڈالی جاسکتی ہے اور وہ یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ کیا ٹارگیٹڈ آپریشن کہیں سندھ حکومت کے خاتمے پر تو ختم نہیں ہوگا ؟