کیا لوچ ہے ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ میں۔۔۔
کوہ ہمالیہ ہے کہ اپنے فراخ دامن میں پوری دنیا کو لیے ہوئے ہے۔
مولوی محمد عزیز مرزا اپنی کتاب ''خیالات عزیز'' کے ایک باب میں رقم طراز ہیں کہ ''خدا عربی زبان کا بھلا کرے جس کے طفیل ہم کو ایک ایسا عجیب اور جامع لفظ ''وغیرہ'' مل گیا ہے کہ جہاں کسی معاملے میں تفصیل کی پیچیدگیوں سے الجھن ہوئی یا حافظے نے بے وفائی کی وہیں اس ایک لفظ نے تمام مشکلیں حل کر دیں۔''
میں مولوی عزیز کی اس رائے سے صد فی صد اتفاق کرتا ہوں۔ اگرچہ فصیح البیان اور وسیع الدامن زبان ''عربی'' کی شفقت مادرانہ نے ایک اور لفظ ''وقیاس علیٰ ھذا'' بھی ہم کو دیا ہے۔ لیکن نسبتاً یہ ایک ثقیل لفظ ہے۔ اور تلفظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ سوائے بڑے عمامے والے علما کے ایک عام زبان اسے ادا کرنے سے قاصر رہے گی۔ دوسرے اس میں وہ وسعت اور لوچ بھی نہیں ہے جو ''وغیرہ'' میں ہے۔ کیونکہ ''وقیاس علیٰ ھذا'' کے لیے نوع اور جنس کا ایک ہونا ضروری ہے۔ انسان و حیوان، ذی روح وغیر ذی روح، مادی وغیر مادی کسی قسم کے امتیاز کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک لفظ زبان پر آیا اور دنیا بھر کے جھگڑے ختم۔ لفظ کیا ہے کوہ ہمالیہ ہے کہ اپنے فراخ دامن میں پوری دنیا کو لیے ہوئے ہے۔
اگرچہ اہل عرب کی طرح اس لفظ پر بھی ہند کی آب و ہوا نے اتنا اثر ضرور ڈالا کہ اس کا وہ اصلی رنگ و روپ باقی نہیں رہا۔ لیکن اس کے ساتھ ہند کی فضا اسے کچھ ایسی موافق بھی آئی کہ اردو سمیت جتنی زبانیں ہند میں مروج رہیں مثلاً ہندی، پنجابی، گجراتی، بنگالی، مرہٹی، ان سبھی میں ایک ذرا سی تبدیلی و تغیر کے ساتھ اس کا جلوہ نظر آتا ہے۔ قارئین کرام! آپ ذرا اس غریب پرور لفظ ''وغیرہ'' کی عیب پوشی ملاحظہ فرمائیے کہ ایک شخص ایک محفل میں کوئی واقعہ سنا رہا ہے کہ دفعتاً اس کے ذہن سے واقعے کی تفصیل کہیں سے محو ہو جاتی ہے۔ اب ہر چند کہ وہ اپنی یادداشت پر زور ڈالتا ہے، ذہن کی جملہ پرتیں الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے۔ لیکن بیان کی پیدل قدمی بھول اور نسیان کی دلدلی زمین میں کچھ ایسی بس جاتی ہے کہ نکلنے کا نام نہیں لیتی۔ ایسی حالت میں اچانک اس کے ذہن میں ''وغیرہ'' کا لفظ آتا ہے۔
وہ استعمال کرتا ہے اور بیان کے تمام مرحلے وہیں سے جڑ جاتے ہیں جہاں سے منقطع ہوئے تھے۔ ایک مزید مثال کے طور پر ہم کسی شخص کی یا شے کی خوبیاں یا خامیاں بیان کرتے ہوئے مکمل معلومات نہ ہونے کے باعث اپنی گفتگو میں رک جاتے ہیں۔ اکثر ذہن بھی رسائی کرنے سے معذوری ظاہر کر دیتا ہے۔ لیکن آپ دیکھیے کہ اس ایک لفظ کی بدولت تعریف میں یا تنقید میں کیسی جامعیت آ جاتی ہے اور محسوس ہوتا ہے جیسے لاعلمی جلدی سے علم کی چادر میں روپوش ہو گئی ہو۔ اور حافظے کی خرابی کے لیے تو یہ لفظ اکیسر کا کام کرتا ہے۔ بعض اوقات ہمیں ایک ذرا سی بات مکمل کرنی ہوتی ہے کہ ہمارا حافظہ کسی ضدی بچے کی طرح اکڑ کر اور بگڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔
اس موقعے پر آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہم لاکھ منت خوشامد بھی کرتے ہیں، بلکہ تیور بدل کر ڈراتے دھمکاتے بھی ہیں، لیکن حافظہ کسی طرح راہ پر نہیں آتا۔ دفعتاً ہمیں یہی عیب پوش یا پردہ پوش لفظ یاد آ جاتا ہے اور مشکل ختم۔ تو پھر کیا یہ حقیقت ثابت نہیں ہو گئی کہ یہ ایک لفظ ''وغیرہ'' جو دراصل چند حروف کا مجموعہ ہے، ان گنت اشیا پر، لفظوں پر، اپنا اطلاق رکھتا ہے۔ خواہ دیگر اعداد میں کتنے ہی زیادہ ہوں، بڑے ہوں پھر بھی ان کی حد ہوتی ہے۔ لیکن اس کے معنی کی وسعت لامتناہی ہے۔ قارئین کرام! آپ میرے مضمون کے اس موڑ پر یہ سوچ کر مسکرا رہے ہوں گے کہ آج میں نے اپنی تحریر کے لیے کس لذیذ یا عجیب موضوع کا انتخاب کر لیا ہے اور لفظوں کی کیسی داستان الف لیلوی لے بیٹھا ہوں۔
ایک ایسے موقعے پر جب پاکستان کسی بحری جہاز کی مانند دنیا کے سمندر میں مسائل کے بپھرے ہوئے طوفان کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک طرف سے گرتی ہوئی معیشت اور معاشرت کی ایک بلند لہر اٹھتی ہے اور جہاز ڈول جاتا ہے۔ کہیں سے سرحدی خطرات کا ریلہ نمودار ہوتا ہے اور جہاز کے عرشے پر کھڑی ہوئی قوم کے چہرے خوف سے سفید پڑنے لگتے ہیں۔ بدامنی، بم بلاسٹ، ڈرون اٹیکس، ٹارگٹ کلنگ، دھویں بارود کی زیر آب چٹانیں جہاز کے اندرونی حصے سے ٹکراتی ہیں اور اسے توڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ ایک سمت کراچی جل رہا ہے تو ایک طرف بلوچستان میں آگ لگ گئی ہے۔ خیبرپختونخوا میں بدترین انارکی، اغوا اور خودکش دھماکے ہیں۔ نسبتاً بہتر پنجاب کے لیے بھی سنتے ہیں کہ درون خانہ طالبنائزیشن پرورش پا رہی ہے اور المعروف پنجابی طالبان کے نام سے اپنی شناخت رکھتی ہے۔
تب ایسے میں ایک لفظ ''وغیرہ'' کے استعمال کا ذکر کہاں سے آ گیا تو میں آپ کی خدمت میں بصد احترام عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ایک ذرا دھیان سے جائزہ لیں تو آپ پر یہ حقیقت بہت حقیقی انداز میں آشکار ہونے لگے گی کہ ہمارے تمام ادارے خواہ وہ سرکاری ہوں یا نجی، عسکری ہوں یا جمہوری، ان کے طرز حکومت، طرز ریاست کی بنیاد اسی ایک لفظ پر ٹکی ہے، ان کے منصوبے اور ارادے اسی ایک لفظ سے جڑے ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں کراچی کے حالات اور آمدہ صورت حال پر تحریر کیا تھا کہ ممکنہ حل کے طور پر سپریم کورٹ کے ججز از سر نو آسکتے ہیں اور کراچی کے ناقابل حل، خراب حالات پر ایکشن لیتے ہوئے ایک فیصلہ دے سکتے ہیں۔ مرکزی حکومت بھی متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر صوبائی سیاسی جماعتوں کو لے کر بعد از مشاورت حالات کی بہتری کے لیے کوئی منصوبہ وضع کر سکتی ہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ لیکن مجھے اور ساری قوم کو ایسا ہونے پر نہ تو کوئی اعتراض ہے نہ تحفظ۔ اگر اداروں، مرکزی و صوبائی حکومتوں کے منصوبوں اور گفتگو درج ذیل گفتگو سے مختلف ہو تو۔
1۔ہم کراچی اور بلوچستان میں بدامنی ''وغیرہ'' کا خاتمہ کر دیں گے۔
2۔بم بلاسٹ اور ٹارگٹ کلنگ ''وغیرہ'' ہمیں پہلے سے تحفے میں ملے ہیں۔
3۔طالبان ''وغیرہ'' کی اب خیر نہیں حکومت آہنی ہاتھوں سے نمٹ لے گی۔
4۔یہ پولیس ''وغیرہ'' اب کسی کام کی نہیں رہیں۔
5۔مہنگائی ''وغیرہ'' کوئی مسئلہ ہی نہیں۔
6۔بجلی ''وغیرہ'' تو پانچ سال میں ہی پوری طرح بحال ہو سکتی ہیں۔
7۔ ایک تو عدلیہ نے نیب کے چیئرمین سمیت دیگر اداروں کے سربراہان ''وغیرہ'' کی تقرری کے لیے بڑی عجلت سے کام لینے کے لیے حکم دے دیا ہے۔
8۔ یہ بلدیاتی الیکشن ''وغیرہ'' فی الحال ممکن نہیں۔
لہٰذا لفظ کی خوبصورتی، معنویت اور وسعت اپنی جگہ۔ لیکن اگر ہم اس سے مثبت کام لیں تو اگر ہم اس کا استعمال داستان کے اختصار لیکن حقیقت کو قریب تر لانے کے لیے کریں۔ تب ہی اس کی ایجاد معرکۃ الآرا ثابت ہو سکے گی۔ ورنہ یہ ایک فرار ہی رہے گی۔