بھیڑیے سے دوستی

چند سال کے وقفے سے دہرائی جانے والی کہانی پھر سے نئے کرداروں کے ساتھ دہرانے کے لیے تیار کی جا رہی ہے۔


احمد خان September 10, 2013

چند سال کے وقفے سے دہرائی جانے والی کہانی پھر سے نئے کرداروں کے ساتھ دہرانے کے لیے تیار کی جا رہی ہے۔ شام کو تباہی کی وادیوں میں دھکیلنے کے لیے طاقت کے نشے میں چور امر یکا چل پڑا ہے۔ عراق، افغانستان اور لیبیا کا تیا پانچہ کرنے کے بعد اب شام کی باری لگانے کا اسٹیج تیار کیا جا رہا ہے۔ عراق کے ساتھ عملی طور پر ''تو تو میں میں'' کرنے کے لیے ایسے ہی جواز اور حکایات گڑھی گئیں تھیں، کچھ ایسے ہی خطرناک کہانیوں اور قصوں کو الف لیلوی بنا کر دنیا کو ساتھ ملا کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ بعد میں امریکی جھوٹ کا پلندہ ''نصف النہار'' پر آیا لیکن کیا ہوا؟ عراق تباہ ہو چکا تھا بلکہ ہنوز عراق کی تباہی کی قسط اب بھی مسلم امہ ملاحظہ کر رہی ہے۔

کچھ ایسی ہی بھونڈی قسم کی کہانیاں گھڑ کر افغانستان پر چڑھائی کے لیے زمین ہموار کی گئی تھی۔ اب شام پر دانت تیز کیے جا رہے ہیں۔ شام میں کب امریکا بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتا ہے؟ بات دنوں کی رہ گئی ہے۔ مسلم امہ کا درد رکھنے والے عراق پر امر یکی چڑھائی سے برابر چیخ رہے ہیں کہ امریکا کا منصوبہ صرف کسی ایک مسلمان ملک کو سیخ پر چڑھانے کا نہیں بلکہ امریکا درجہ بدرجہ، قسط بہ قسط ہر اس ملک کو 'کباب' بنانے کی نیت کر چکا ہے، جہاں اسلام کا چلن عام ہے۔ لیکن ذاتی عیاشیوں میں محو مسلمان حکمران کانوں میں روئی ٹھونسے اپنی رنگینوں میں مست ہیں۔ عراق خاک ہوا، افغا نستا ن راکھ ہوا، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ امریکا کے کاسہ لیس مسلمان حکمران کیا شام کو بچا پائیں گے؟ کاش اتنی دینی حمیت اور رتی بھر غیرت سے مسلمان حکمراں لیس ہوتے۔

امریکا کی طرف سے شام پر ننگی جارحیت کے فیصلے سامنے آ رہے ہیں اور جواب میں مسلم امہ کے حکمراں دکھ بھرے لطیفے مسلمانوں کے کانوں میں گھول رہے ہیں، ''پاکستان نے شام پر امریکی حملے کی مخالفت کر دی۔''کیا امریکا کی نظر میں پاکستان کی اتنی حیثیت ہے کہ پاکستان کے محض ایک بیان سے امریکا اپنے ارادے سے پیچھے ہٹ جائے گا؟ کیا ڈرون حملوں کی مستقل مذمت امریکا کو اپنے ارادوں سے باز رکھ پائی؟ کچھ ایسی ہی لفظی ذمے داریاں دوسرے اسلامی ممالک بھی ادا کر کے اپنے تئیں شام کو بچانے کا اپنے اوپر عائد فرض اولیٰ ادا کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں کیا ہو گا؟ مسلم ممالک کا میڈیا آسمان سر پر اٹھا دے گا، دل جلے قسم کے قلم کار شام کی بربادی پر نوحے لکھیں گے، دنیا بھر کے مسلمان مغموم دلوں کے ساتھ شام کی امریکی ہاتھوں تباہ کاری پر بحث کر یں گے اور مسلمان رعایا کے حکمران خاموشی سے شام کی خون آلود شامیں دیکھیں گے۔

کیا مسلم امہ کے یہی نصیب ہیں؟ کیا مسلم امہ صرف مشق ستم بننے کے لیے ہی رہ گئی ہے؟ کیا خون مسلم اتنا ارزاں ہو گیا ہے کہ جو چاہے اور جب چاہے مسلم امہ کے کسی فرد یا ملک پر چھری پھیر دے۔ کمزوری کا منبع اسی جگہ سے پھوٹتا ہے جس جگہ ہمیں باہمی اتفاق اور اتحاد کا اولیں درس دیا گیا تھا۔ اتفاق کو بھول کر نااتفاقی کو ہم نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔ جب اپنے رب کی حکم عدولی کریں گے تو سزا تو مقدر بنے گی۔ ایک جسم کی مانند رہنے کا حکم ملا تھا لیکن آج مسلمان ریشہ ریشہ ہیں۔ صرف ذاتی مفادات اور جہاں ذاتی مفادات کا جال نہیں وہاں ذاتی ''ترنوٹی'' کے وبال کی بنا پر ہم الگ الگ حصوں اور جثوں میں منقسم ہیں۔ ذاتی مفادات اور ''صرف میں'' کی گردان نے آج مسلم امہ کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ جہان بھر میں مسلمانوں کے سر گنے جائیں تو تعداد کے لحاظ سے مسلم امہ ایک بڑی قوم کے طور پر نظر آئے گی، لیکن اپنی بداعمالیوں، ذاتی رنجشوں اور دین مبین سے دوری کی بنا پر ہم برائے نام مسلمان رہ گئے۔ وہ مسلمانی ہم میں نہیں رہی، وہ جوش ایمانی ہم میں نہیں رہا جو مسلمان قوم کا وصف گردانا جاتا تھا۔

ایک وقت وہ تھا کہ مسلمانوں کی جانب کوئی نگاہ غلط اٹھانے کی جرات تک نہیں کر سکتا تھا اور اب غیروں کے رحم و کرم اور لطف و کرم پر مسلم امہ کی زندگی ٹھہر گئی ہے۔ اغیار چاہیں تو آپ سانس لیں گے اور اغیار چاہیں تو اگلے لمحے آپ کی سانس چھین لیں گے۔ مسلم امہ کب غفلت کی نیند سے جاگے گی؟ مان لیا آپ کمزور ہیں، آپ معذور ہیں، لیکن اپنے، اپنی مذہبی، نسلی اور قومی بقا کے لیے بھیڑیے کے راستے میں زیادہ نہیں تو کم از کم کانٹے ہی بچھا دیں۔ ورنہ بیلوں کی وہ کہانی جو بچوں کو سنائی جاتی تھی وہ ہم پر اسی طرح آزمائی جاتی رہے گی۔ آج شام، کل ہماری باری ہے۔ جو اختلاف کرتے ہیں، کم از کم اب تو وہ مغالطوں کے راستے سے صراط مستقیم پر واپس آ جائیں۔ عراق سے شروع ہونے والی دردناک کہانی کے سروں کو جوڑتے چلیں جائیں، بہت کچھ خود سمجھ آتا چلا جائے گا۔ ہاں! جو بھیڑیے سے اب بھی عافیت اور دوستی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کے حال پر رحم کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ اگر شان سے جینا اور شان سے مرنا ہے تو پھر دنیا کی قوموں میں سر اٹھا کر چلنا ہو گا۔ صرف اسی میں مسلمان قوم کی ''بچت'' ہے۔ معاہدوں، معذرتوں، بے جا وفاداریوں سے کچھ حاصل ہو نے والا نہیں، کہ بھیڑیا صرف اسی سے ڈرتا ہے جو اس کی آنکھوں میں آ نکھیں ڈالنے کے وصف سے لیس ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔