شطرنج کا 7 ڈالر میں خریدا گیا مہرہ 9 لاکھ ڈالر میں فروخت
1964ء میں کباڑ سے خریدا گیا مہرہ اب 14 کروڑ روپے سے زائد قیمت پر نیلام ہوا ہے
قرونِ وسطیٰ کے عہد میں تیار کردہ شطرنج کے ایک مہرے کو ایک شخص نے کباڑ سے صرف 7 ڈالر کا خریدا تھا اور اب وہ 9 لاکھ 20 ہزار ڈالر میں فروخت ہوا ہے۔
تفصیلات کے مطابق 1831ء میں اس شطرنج کے 93 مہرے لیوس جزیرے پر دریافت ہوئے تھے جو شاید کسی بحری جہاز کے ٹکرانے کے بعد یہاں پہنچے ہوں گے۔ ماہرین کو اس کے بقیہ 5 مہروں کی تلاش تھی۔
گیارہویں تا چودھویں صدی عیسوی کا دور میڈیول یا قرونِ وسطیٰ کا عہد کہلاتا ہے۔ اس زمانے میں دانت سے بنائی شطرنج کی بساط کا ایک مہرہ بقیہ بساط سے غائب تھا۔ یہ مہرہ سمندری مخلوق والرس کے دانتوں سے تراشا گیا تھا۔ 1964ء میں پرانی اشیا فروخت کونے والے کی دکان سے یہ مہرہ خریدا گیا تھا۔ خیال ہے کہ اسے بارہویں یا تیرہویں صدی عیسوی میں تراشا گیا تھا۔
اس کے بعد شطرنج کا یہ نایاب مہرہ خاندان در خاندان منتقل ہوتا رہا اور آخر کار آج مشہور نیلام گھر 'سودبے' کے حوالے کیا گیا اور خود اہلِ خانہ کو بھی علم نہ تھا کہ ایک مہرہ ان کے لیے کسی خزانے سے کم نہ ہوگا۔ اب شطرنج کا یہ نایاب مہرہ 14 کروڑ روپے میں فروخت ہوا ہے۔
اس مہرے کا تعلق اپنے دور کی مشہور ترین شطرنج کی بساط سے اس کا تعلق ہے اور خیال ہے کہ یہ کم سے کم 500 سال تک کہیں پوشیدہ یا چھپا رہا ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق 1831ء میں اس شطرنج کے 93 مہرے لیوس جزیرے پر دریافت ہوئے تھے جو شاید کسی بحری جہاز کے ٹکرانے کے بعد یہاں پہنچے ہوں گے۔ ماہرین کو اس کے بقیہ 5 مہروں کی تلاش تھی۔
گیارہویں تا چودھویں صدی عیسوی کا دور میڈیول یا قرونِ وسطیٰ کا عہد کہلاتا ہے۔ اس زمانے میں دانت سے بنائی شطرنج کی بساط کا ایک مہرہ بقیہ بساط سے غائب تھا۔ یہ مہرہ سمندری مخلوق والرس کے دانتوں سے تراشا گیا تھا۔ 1964ء میں پرانی اشیا فروخت کونے والے کی دکان سے یہ مہرہ خریدا گیا تھا۔ خیال ہے کہ اسے بارہویں یا تیرہویں صدی عیسوی میں تراشا گیا تھا۔
اس کے بعد شطرنج کا یہ نایاب مہرہ خاندان در خاندان منتقل ہوتا رہا اور آخر کار آج مشہور نیلام گھر 'سودبے' کے حوالے کیا گیا اور خود اہلِ خانہ کو بھی علم نہ تھا کہ ایک مہرہ ان کے لیے کسی خزانے سے کم نہ ہوگا۔ اب شطرنج کا یہ نایاب مہرہ 14 کروڑ روپے میں فروخت ہوا ہے۔
اس مہرے کا تعلق اپنے دور کی مشہور ترین شطرنج کی بساط سے اس کا تعلق ہے اور خیال ہے کہ یہ کم سے کم 500 سال تک کہیں پوشیدہ یا چھپا رہا ہوگا۔